دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنے دعوے کو پختہ کرنے کے لئے امر اجالا نے جس تصویر کا استعمال کیا تھا وہ تصویر پاکستان کی نہیں تھی اور تصویر میں جس منہدم عمارت کو دکھایا گیا تھا وہ ہندوستانی ایئر فورس کا کارنامہ نہیں تھا۔
بالاکوٹ میں ہندوستانی ایئر فورس کے ہوائی حملے پر تجسس ابھی بھی قائم ہے۔ رائٹرز نیوز ایجنسی کے مطابق حکومت ہند جس جگہ ایئر اسٹرائیک کا دعوی کر رہی ہے وہاں اس وقت ایک مدرسے کی عمارت موجود ہے اور کسی طرح کی منہدم عمارت کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ان حالات میں دھول میں لٹھ چلاتے ہوئے امر اجالا اخبار نے ایک خبر شائع کی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ ہندوستانی ایئر فورس کی ایئرا سٹرائیک کی شہادت مدرسے کے بچوں نے دی ہے۔ خبر کی سرخی تھی؛
بالاکوٹ: مدرسہ طالب علم نے بتایا- رات کو ہوا تھا زبردست دھماکہ، پاکستانی فوج نے ہمیں بچایا۔
امر اجالا کا یہ دعویٰ کتنا صحیح اس بات کا اندازہ اس بات سے ہو جاتا ہے کہ اخبار نے بعد میں اس خبر کی سرخی کو بدل دیا اور لکھا ؛بالاکوٹ ایئر اسٹرائیک: مدرسہ طالب علم نے بتائی اس رات کی کہانی۔
سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنے دعوے کو پختہ کرنے کے لئے امر اجالا نے جس تصویر کا استعمال کیا تھا وہ تصویر پاکستان کی نہیں تھی اور تصویر میں جس منہدم عمارت کو دکھایا گیا تھا وہ ہندوستانی ایئر فورس کا کارنامہ نہیں تھا۔ دراصل، خبر میں موجود تصویر سیریا کی تھی۔2014 میں ڈیلی میل (لندن) اخبار میں شائع ایک خبر کے مطابق یہ تصویرسیریا کی ہے جہاں امریکا اور دیگر ممالک کی مشترکہ فوجوں نے دہشت گرد کے ٹھکانوں پر حملے کئے تھے۔جب امر اجالا کی اس فیک نیوز کو آلٹ نیوز نے فاش کیا تو امر اجالا نے خبر کی سرخی اور تصویر میں تبدیلی کر دی اور نئی تصویر لگا دی!
پلواما معاملے کے بعد جو فیک نیوز سوشل میڈیا میں گردش میں آئیں ان میں تصویروں کے علاوہ ویڈیو بھی شامل تھے لیکن گزشتہ ہفتے معروف گلوکار محمد رفیع کے ایک بالی ووڈ نغمے کے تعلق سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ جس وقت یہ نغمہ منظر عام پر آیا تھا اس وقت حکومت ہند نے اس نغمے پر پابندی عائد کر دی تھی؟ مزید یہ کہا گیا کہ اس نغمے کے بول تھے “کشمیر ہے بھارت کا” جس کی وجہ سے کانگریس حکومت نے اس پر پابندی عائد کی تھی۔ نغمے کے ویڈیو کے ساتھ سوشل میڈیا پر لکھا گیا؛50 برس پہلے اس نغمے کو سینسر بورڈ نے کٹوا دیا تھا! لیکن کیوں؟ محمد رفیع کی آواز میں سنیے یہ گیت جو کبھی ریلیز نہیں ہو پایا اور سن کر بتائیے کہ کیا وجوہات رہی ہوں گی !
الٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ یہ نغمہ ‘جنت کی ہے تصویر ‘ بالی ووڈ فلم ‘Johar in Kashmir’ کا ہے۔ تقسیم ہند کے وقت اس فلم کو کشمیر میں شوٹ کیا گیا تھا اوریہ فلم 1966 میں ریلیز ہوئی تھی۔ الٹ نیوز نےسرکاری گزٹ (1966) کی ایک کاپی حاصل کی اور اس میں پایا کہ نغمے کو مکمل طور پر رد نہیں کیا گیا تھا بلکہ لیرکس کو تبدیل کیا گیا تھا۔ الٹ نیوز نے محمد رفیع کے فرزند شاہدرفیع سے بھی رابطہ قائم کیا تو انہوں نے بھی اسی بات کی تصدیق کی کہ اس نغمے پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی تھی۔ لہٰذا، سوشل میڈیا میں جو کچھ اس نغمے کے تعلق سے عام کیا گیا وہ محض پروپیگنڈہ ہے !
“اندور میں مہا شوراتری کے موقع پر مسلم ماتاؤں بہنوں نے برقع پہن کر اٹھائی کانوڑ!’اوم نماہ شوائے’ لکھ کرشوبھکتوں مسلم بہنوں کا خیر مقدم نہیں کروگے؟”یہ الفاظ اس فیس بک پوسٹ کے ہیں جو ایک تصویر کے ساتھ سوشل میڈیا میں گزشتہ ہفتے سے بہت مقبولیت حاصل کر چکی ہے۔ تصویر میں کچھ برقع پوش خواتین ہیں جو اپنے کاندھوں پر کانوڑ کی شکل میں کوئی چیز لے جا رہی ہیں جن میں چھوٹے مٹکے لٹک رہے ہیں۔ اس تصویر کو کنک مشرا نامی پروفائل سے تقریباً 9000 مرتبہ شئیر کیا گیا۔ کنک مشرا کے علاوہ بھی اس تصویر کو ہزاروں کی تعداد میں عام کیا گیا۔
الٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ برقع پوش مسلم خواتین کی یہ تصویر دراصل پرانی ہے اور مہا شوراتری کے تہوار سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ تصویر 2015 کی ہے جس کو News 18 نے رپورٹ کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق یہ تصویریں اس سال اگست ماہ کی ہیں جب اندور میں ساون کے آخری ہفتے میں مختلف مذاہب کی عورتوں نے یہ کانوڑ اٹھائی تھی اور سماجی یکجہتی کی مثال قائم کی تھی۔