فیک نیوز راؤنڈ اپ: کیا مودی کے بھائی آٹو رکشہ ڈرائیور ہیں؟ کیا مالیاتی وزیر نرملا سیتارمن نے اروند کیجریوال کی پالیسی کو احمقانہ قدم قرار دیا؟ کیا ہندوستان میں عید کی نماز میں سڑکوں کو بند کر دیا گیا؟
گزشتہ2 جون کو اتر پردیش کے علی گڑھ میں ایک ڈھائی سالہ بچی کی لاش ملی جس کا قتل کر دیا گیا تھا ۔قتل کا الزام محمد زاہد اور محمد اسلم نامی دو افراد پر ہے جن کو علی گڑھ پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔جس وقت قتل کی خبر پر عام ہوئی اسی وقت سےسوشل میڈیا پر فیک نیوز کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ ان افواہوں کا سب سے خوفناک چہرہ اس وقت سامنے آیا جب سوشل میڈیا کے شدت پسند صارفین نے اس کو مذہبی تشدد اور فرقہ وارانہ نظر سے دیکھا اور دعویٰ کیا کہ دو مسلمانوں نے ایک ہندو بچی کا قتل کیا ہے، اور قتل سے قبل اس کے ساتھ ریپ بھی کیا گیا اور اس کے جسم پر تیزاب ڈالا گیا جس کی وجہ سے اس کے چہرہ جھلس گیا اور آنکھیں باہر نکل آئیں !
سب سے پہلے ٹوئٹر پر
Madhur نامی ہینڈل سے اسکو ٹوئٹ کیا گیا جس کو تقریباً 11 ہزار ری ٹوئٹ حاصل ہوئے۔ مدھر کے علاوہ
پرشانت امراؤ،
کوئنا مترا اور
شیفالی ویدیا نے بھی اس پر اپنے شدت پسند انداز میں اظہار خیال کیا۔
جب ان افواہوں کا سہارا لےکر قومی سطح پر فرقہ وارانہ ماحول تیار کیا جانے لگا تو علی گڑھ پولیس کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس آکاش کلہاری نے عوام کو حقائق سے روبرو کرایا اور بتایا کہ بچی کا قتل گلا دباکر کیا گیا تھا اور پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں ریپ کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ قتل بچی کے والد اور محمد زاہد کے درمیان آپسی رنجش کی وجہ سے ہوا ہے، جس کو قاتل نے گرفتاری کے بعد قبول بھی کیا ہے۔ ایس ایس پی اشوک کلہاری نے بتایا کہ قاتل محمد زاہد اور اس کے معاون محمد اسلم کو جیل بھیج دیا گیا ہے اور معاملے پر مزید تفتیش جاری ہے :
لہٰذا، ایس ایس پی علی گڑھ کے بیان سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ بچی کا قتل فرقہ وارانہ تشدد کی وجہ سے نہیں ہوا تھا، بلکہ بچی کے والد اور قاتل کے درمیان کسی رنجش کی وجہ سے یہ ظلم بچی کے ساتھ کیا گیا۔
دہلی میں خواتین کی حفاظت اور پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال میں اضافے کے لئے چیف منسٹر اروند کیجریوال نے گزشتہ ہفتے
اعلان کیا کہ اسی سال اگست ماہ سے خواتین کے لئے دہلی میٹرو کی سروس مفت کی جا رہی ہے۔اس اعلان کے بعد مالیاتی وزیر محترمہ نرملا سیتارمن کو منسوب کرتے ہوئے ایک فیس بک
پوسٹ وائرل ہو گیا۔ اس پوسٹ میں کیجریوال کی تنقید کرتے ہوئے لکھا گیا کہ روزانہ اجرت کمانے والا ایک مزدور مرد دہلی میٹرو میں سفر کرنے کے لئے کرایہ ادا کرےگا جب کہ دہلی کی ایک امیر لڑکی میٹرو کا سفر مفت ہی کرےگی !یہ کس طرح کی پالیسی ہے؟ اروند کیجریوال آپکی حماقت کی کوئی حد نہیں اور اپنے یہ پالیسی محض ووٹ حاصل کرنے کی غرض سے شروع کی ہے۔ فیس بک کے جس پیج سے یہ پوسٹ کی گئی تھی اس پر اس کی ڈسپلے پکچرپر نرملا سیتارمن کی تصویر تھی اور اس پوسٹ کو تقریباً 35 ہزار مرتبہ شئیر کیا گیا تھا۔
بوم لائیو نے انکشاف کیا کہ جس پیج سے یہ پوسٹ عام ہوئی وہ مالیاتی وزیر نرملا سیتارمن کا آفیشل پیج نہیں ہے کیوں کہ اس پر صداقت کی سند یعنی بلو ٹک کا نشان نہیں ہے۔ مزید یہ کہ نرملا سیتا رمن کے آفیشل پیج کا یوزر نیم
nirmala۔sitharaman ہے جو پیج ھٰذا کے یوزر نیم
nirmalasitharaman سے مختلف ہے۔ بوم نے جب مالیاتی وزارت سے رابطہ قائم کیا تو معلوم ہوا کہ نرملا سیتارمن نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا ہے، اور جو کچھ بھی سوشل میڈیا میں گردش و گفتگو کا مرکز بنا ہوا ہے اس کا وزارت یا وزیر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
فیس بک پر جن جھوٹی اور فرضی خبروں کو فروغ دیا جاتا ہے ان میں سے اکثر کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ سماج میں مذہبی اور فرقہ وارانہ امتیازی فکر کو عام کیا جائے تاکہ سماج میں تشدد اور انتشار کا سامراج قائم ہو جائے۔ اسی غرض سے
پایل روہتگی نامی ٹوئٹر ہینڈل سے ایک تصویر شئیر کی گئی جس میں دکھایا گیا تھا کہ کسی شاہراہ پر مسلمانوں کا ہجوم نماز ادا کر رہا ہے جس کی وجہ سے ٹریفک کو روک دیا گیا ہے۔ پایل روہتگی کے ٹوئٹر ہینڈل سے شکوہ کیا گیا کہ جب کسی اسلامی ملک میں اس طرح سڑکوں پر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے تو سیکولر ہندوستان میں اسکی اجازت کیوں ہے؟ اگر کوئی ہندو اس طرح اپنے مذہبی امور کا مظاہرہ کرتا ہے تو اسکو ایڈمنسٹریشن سے اجازت لینی پڑتی ہے تو پھر ان لوگوں (مسلمانوں) کو اجازت کیوں؟ پایل کے علاوہ بھی بھگوا فکر کے متعدد صفحات پر اس کو عام کیا گیا جس میں
WE SUPPORT NARENDRA MODI پیج بھی شامل ہے۔
الٹ نیوز نے انکشاف کیا کہ فیس بک پرعام کی جا رہی یہ تصویر دراصل ہندوستان کی ہے ہی نہیں ! گوگل میں ریورس امیج سرچ میں معلوم ہوتا ہے کہ یہ تصویر بنگلہ دیش کی ہے جہاں ایک اجتماع کے دوران مسلم عقیدت مند نماز ادا کر رہے تھے۔ اجتماع کی جگہ عقیدتمندوں کی تعداد بہت زیادہ تھی جس کی وجہ سے لوگوں کو سڑکوں پر ہی نماز ادا کرنی پڑی۔ اس تصویر کو
رابرٹ ہارڈنگ نامی ویب سائٹ کے لئے فوٹوگرافر ایم یوسف تشار نے اپنے کیمرے میں قید کیا تھا جو ویب سائٹ پر ابھی بھی دستیاب ہے۔
سوشل میڈیا پر فیک نیوز کی اشاعت کے کئی مقاصد میں ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ کس شخص یا ادارے کے پرچار کے لئے پروپیگنڈا کیا جائے۔جب پرائم منسٹر نریندر مودی کی شکل و صورت کے ایک آٹو رکشہ چلانے والے شخص کی تصویر سوشل میڈیا پر عام ہوئی تو مودی کے حمایتیوں نے اس تصویر کو پروپیگنڈا کی طرح استعمال کرنا شروع کر دیا اور لکھا:
جس کا بڑا بھائی ملک کا پرائم منسٹر ہواور اس کا چھوٹا بھائی آٹو رکشہ چلانے والا ہو، لاجواب ہے ہمارے ایسے پرائم منسٹر !
سب سے پہلے یہ دعویٰ
BJP دہلی کے فیس بک پیج پر کیا گیا اور اس کے علاوہ
نریندر مودی گرپ میں بھی اس کو شئیر کیا گیا۔
دی للن ٹاپ نے اپنے ویڈیو میں انکشاف کیا کہ نریندر مودی کا ہمشکل نظر آنے والا شخص مودی کا بھائی نہیں ہے، بلکہ وہ شیخ ایوب ہیں جو تلنگانہ کے ضلع عادل آباد کے باشندے ہیں۔ مودی کے تین بھائی ہیں اور تینوں میں کوئی بھی آٹو ڈرائیور نہیں ہیں۔ غور طلب ہے کہ یہ تصویر وقتاً فوقتاً وائرل ہوتی رہتی ہے اور دی للن ٹاپ نے یہ ویڈیو 2018 میں شائع کیا تھا۔
(محمد نوید اشرفی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں اور ہر اتوار فیک نیوز پر دی وائر اردو کے لئے کالم لکھتے ہیں. ان کے پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔)