فیس بک کےمحققین کی تیارکردہ ایک رپورٹ کے مطابق، دہلی فسادات کے دوران فیس بک اور وہاٹس ایپ پرتشدد کے لیےاکسانے اور افواہوں پرمبنی پیغامات کی باڑھ آئی گئی تھی اور فیس بک کو اس بات کی جانکاری تھی۔ فیس بک کے ترجمان نے بتایا کہ یہ رپورٹ حتمی نہیں ہے۔ اس میں پالیسی کی سفارشات نہیں ہیں۔
نئی دہلی: فیس بک کےمحققین کی جانب سے تیار کردہ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیاہے کہ فروری 2020 کے دہلی دنگوں کے دوران وہاٹس ایپ پر ‘تشدد کے لیے اکسانے اور افواہوں’پر مبنی پیغامات کی باڑھ آئی گئی تھی اور فیس بک کو واضح طو رپراس بات کا علم تھا کہ اس کا استعمال تشددکو بھڑ کانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق، سوشل میڈیا کمپنی کےداخلی دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح ہندوستان میں ہندوتوا گروپ مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں، لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو رہی ہے۔
فیس بک وہسل بلوئر فرانسس ہیگن نے بھی کچھ دنوں پہلے یہ انکشاف کیا تھا کہ کس طرح فیس بک ہندوستان میں سنگھ حمایتی فیک نیوز کو روکنے میں ناکام رہا ہے۔
امریکی اخبار نے کہا کہ کمپنی کے داخلی دستاویز دکھاتے ہیں کہ فیس بک کے قوانین بااثر افراد کےلیے نرمی برتتے ہیں اور اس کا استعمال تشدد بھڑ کانے اور انتہائی حساس لوگوں کو نشانہ بنانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
‘ہندوستان میں فرقہ وارانہ تنازعہ حصہ1’کے عنوان سے تیار کردہ جولائی،2020 کےدستاویز میں محققین نے پایا کیا سال 2019 سے 2020 کے بیچ ہندوستان میں تین ایسے بڑےواقعات رونماہوئے، جس نے فیس بک کے پلیٹ فارم پر فیک نیوز کاسیلاب لا دیا۔
اس میں پہلاواقعہ متنازعہ شہریت قانون (سی اےاے)کے خلاف احتجاج تھا۔ اس دوران فرضی خبریں یا افواہوں، ہیٹ اسپیچ وغیرہ کی تعداد‘پہلے کے مقابلے 300 فیصدی’ بڑھ گئی تھی۔
اس کے بعد دہلی دنگوں کے دوران بھی یہی صورتحال رہی۔ اس دوران خاص طور پر وہاٹس ایپ کے ذریعے افواہ پھیلانے اور تشددکوبھڑ کانے کی پہچان کی گئی۔
تیسرے واقعے کی بات کریں تو کووڈ 19کی وبا کےابتدائی دنوں میں فیس بک پر اس طرح کے موادکی تعداد کافی بڑھ گئی، جہاں ہندوستان میں کورونا پھیلنے کے لیے مسلمانوں بالخصوص تبلیغی جماعت کو ذمہ دار ٹھہرا کر خوف کا ماحول بنایا گیا تھا۔
محققین نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ایک ہندوشخص نے بتایا ہے کہ انہیں فیس بک اور وہاٹس ایپ پر ‘ہندو خطرے میں ہیں’ اور ‘مسلم ہمیں ختم کرنے والے ہیں’ جیسےپیغامات مسلسل موصول ہوتے رہتے ہیں۔
وہیں ممبئی میں مقیم ایک مسلمان نے کہا کہ فیس بک پر چاروں طرف ‘نفرت کا ماحول’ہے اور انہیں ڈر لگنے لگا کہ اس کی وجہ سے‘ان کی جان بھی جا سکتی ہے۔’انہوں نے کہا کہ اگر10 سال تک اسی طرح سے سوشل میڈیا چلتا رہا تو صرف نفرت کا ہی ماحول رہےگا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زیادہ تر صارف اس کے لیے فیس بک کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
وال اسٹریٹ جرنل نے اپنی رپورٹ میں‘ایڈورسیل ہارم فل نیٹ ورکس – انڈیا کیس اسٹڈی’ نام کے ایک اور دستاویز کا ذکر کیا ہے، جس کی بنیاد پر ہیگن نے یو ایس سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن(ایس ای سی)میں شکایت دائر کی تھی۔
ڈبلیوایس جے کی رپورٹ نے ‘ایڈورسیریل ہارم فل نیٹ ورکس انڈیا کیس سٹڈی’کےعنوان والے داخلی دستاویز کا بھی تجزیہ کیا، جس کا حوالہ ہیگن نے یو ایس سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن(ایس ای سی)کو دی گئی اپنی شکایت میں کیاتھا۔
دی وائر نے رپورٹ میں بتایا تھا کہ ہیگن نے کمپنی کے اندرونی دستاویزوں کے حوالے سے دکھایا ہے کہ فیس بک کس طرح ‘عالمی تقسیم اور نسلی تشدد’کو بڑھاوا دے رہا ہے اور‘سیاسی حساسیت’کے نام پرایسے گروپوں(ممکنہ طور پرآر ایس ایس سے وابستہ گروپس)کے خلاف خاطرخواہ قدم نہیں اٹھائے گئے یا نگرانی نہیں کی گئی۔
دستاویز سے پتہ چلا کہ فیس بک کواس بات کا علم تھا کہ مسلم مخالف پیغامات تشدد بھڑ کانے کے ارادے سے ہندو حمایتی آبادی کونشانہ بناتی ہیں۔ اس نے خصوصی طور پر آر ایس ایس گروپس، صارفین اور پیجوں پر خوف و ہراس پھیلانے کا الزام لگایا۔
ایک دستاویز میں کہا گیا ہے، ‘کئی ایسے غیرانسانی پوسٹ لکھے جا رہے ہیں جہاں مسلمانوں کاموازنہ ‘خنزیر’ اور ‘کتوں’سے کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی قرآن کو لےکر افواہ پھیلائی جا رہی تھی کہ یہ مردوں کو ان کے گھر کی عورتوں کے ساتھ ریپ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔’
اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کمپنی کے پاس وہ تکنیکی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ اس طرح کے پوسٹ کا پتہ لگاکر ان پر کارروائی کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کے پیچھے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کمپنی کا سسٹم ہندی یا بنگلہ زبان کے ایسےمواد کو نہیں پکڑ پا رہا ہے۔
بہرحال محققین نے فیس بک سے سفارش کی ہے کہ وہ ہندوستان میں‘اشتعال انگیز مواد کو پکڑنے’کے لیے تکنیکی سسٹم بنانے میں زیادہ سرمایہ صرف کریں۔ انہوں نے وہاٹس ایپ کے لیے بھی اس طرح کی سہولت تیار کرنے کی مانگ کی ہے۔
وال اسٹریٹ جرنل اخبار نے کہا کہ اس سال تیارکردہ ایک دوسرےداخلی دستاویز میں پایا گیا کہ بجرنگ دل نے ‘وہاٹس ایپ کا استعمال تشدد کو بھڑ کانے کے لیے کیا تھا۔’اسے خطرناک گروپ کے زمرے میں ڈالا گیا ہے اور اس کے پیج کو ہٹانے کی مانگ کی گئی تھی۔ حالانکہ بجرنگ دل ابھی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایکٹو ہے۔
فیس بک کے ترجمان این ڈی اسٹون نے اخبار سے کہا کہ اس میں سے کچھ دستاویزغوروخوض کے لیے تیار کیے گئے تھے اور یہ حتمی نہیں ہے اور اس میں پالیسی کی سفارشات نہیں ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہیٹ اسپیچ پکڑنے کے لیے کمپنی نے تکنیک میں اچھی خاصی سرمایہ کاری کی ہے۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں)