بریلی کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج روی کمار دیواکر نے ایک فیصلے میں سی ایم یوگی آدتیہ ناتھ کی تعریف کرتے ہوئےلکھا ہے کہ حکومت کا سربراہ مذہبی شخص کو ہونا چاہیے، کیونکہ ان کی زندگی عیش و عشرت سے نہیں بلکہ قربانی اور وقف سے عبارت ہوتی ہے۔ دیواکر نے 2022 میں وارانسی کی گیان واپی مسجد سے متعلق معاملے میں وہاں کے ایک حصے کو سیل کرنے کا حکم دیا تھا۔
جج روی کمار دیواکر۔ (تصویر بہ شکریہ: X/@DiwakarJudge)
نئی دہلی: اترپردیش میں ایک نچلی عدالت کے جج نے 2010 میں بریلی میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے ایک واقعے میں مسلمان عالم اور سیاستدان کے خلاف قتل کی کوشش سمیت سنگین مجرمانہ الزامات لگاتے ہوئے حکومت کے سربراہ کے عہدے پر فائز وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی ایک ‘مذہبی شخص’ کے طور پر تعریف کی۔
اپنے اسی فیصلے میں جج نے کئی متنازعہ تبصرے کیے ہیں اور یہ بھی ذکر کیا ہے کہ وارانسی میں واقع گیان واپی مسجد کے معاملے کو حل کرتے ہوئے انہیں مسلم تنظیموں کی طرف سے دھمکی ملی تھی۔
جج نے یہاں تک کہا کہ ان کے فیصلے کی ایک کاپی آدتیہ ناتھ کو بھیجی جانی چاہیے تاکہ وزیر اعلیٰ ان سینئر پولیس افسران اور عملے کے خلاف کارروائی کر سکیں جنہوں نے مبینہ طور پر ملزم مولانا توقیر رضا خان کی مدد کی اور اس وقت کے فیصلے پر قانون کے مطابق عمل نہیں کیا (اس وقت یوپی میں بہوجن سماج پارٹی کی حکومت تھی)۔
یہ فیصلہ صادرکرنے والے بریلی کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج- فاسٹ ٹریک کورٹ روی کمار دیواکر نے 2022 میں وارانسی میں جج کے طور پر خدمات انجام دیتے ہوئے گیان واپی مسجد سے متعلق متنازعہ ہدایات بھی دی تھیں۔
سول جج (سینئر ڈویژن) کی حیثیت سے دیواکرنے مغلیہ دور کی مسجد کے ایک حصے کو سیل کرنے کا حکم دیا تھا، جو ایک ہندو درخواست گزار کے اس دعوے کے بعد دیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ وضو خانے میں ‘شیولنگ’ پایا گیا تھا۔
اب بریلی میں تعینات جج دیواکر نے 5 مارچ کو 2010 کے بریلی فسادات کیس کی سماعت کرتے ہوئے خان کا نام چارج شیٹ میں شامل کیا ہے اور انہیں 11 مارچ کو حاضر ہونے کو کہا۔ بریلوی فرقے کے ایک ممتاز عالم اور سیاسی جماعت اتحاد ملت کونسل کے صدر خان کو 2 مارچ 2010 کو ایک تنازعہ کے بعد بریلی میں بھڑکے فسادات کا ‘ماسٹر مائنڈ’ قرار دیا گیا تھا۔ مذکورہ تنازعہ مسلمانوں کے ایک مذہبی جلوس کے روٹ کو لے کر ہوا تھا۔ اس واقعے میں متعدد افراد زخمی ہوگئے تھے اور املاک کو نقصان پہنچا تھا۔ شہر میں کئی روز تک کرفیو نافذ رہا۔
گواہوں کے بیانات درج کرنے کے بعد جسٹس دیواکر نے نتیجہ اخذ کیا کہ مسلمانوں کے ایک اجتماع میں خان کی تقریر کی وجہ سے تشدد بھڑکا تھا۔
مذہب کو حکومت میں شامل کرنے کی حمایت کرتے ہوئے انہوں نے فلسفی افلاطون کا حوالہ ہوئے کہا ‘اگر کوئی مذہبی شخص اقتدار کی کرسی پر بیٹھتا ہے تو اس کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوتے ہیں، جیسا کہ فلسفی افلاطون نے اپنے مقالے ‘ریپبلک’ میں ‘فلسفی بادشاہ’ کا تصور دیا ہے۔ افلاطون نے کہا ہے کہ ہماری شہری ریاستوں میں اس وقت تک مصائب کا خاتمہ نہیں ہوگا، جب تک کہ فلسفی بادشاہ نہ ہو۔’
انہوں نے فیصلے میں مزید لکھا کہ ‘انصاف راجا کے لیے آکسیجن کی طرح ہے۔ اس حوالے سے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ موجودہ دور میں ہم انصاف کا لفظ قانونی مفہوم میں استعمال کرتے ہیں، جبکہ افلاطون کے وقت انصاف کا لفظ مذہب کے معنی میں استعمال ہوتا تھا۔ اس لیے اقتدار کا سربراہ مذہبی شخص کو ہونا چاہیے، کیونکہ مذہبی شخص کی زندگی عیش و عشرت سےنہیں، قربانی اور وقف سے عبارت ہوتی ہے۔
اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘مثال کے طور پر مہان سدھی پیٹھ گورکھ ناتھ مندر کے موجودہ سربراہ مہنت بابا یوگی آدتیہ ناتھ جی، جو اس وقت ہمارے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ ہیں، نے مذکورہ تصور کو صحیح ثابت کیا ہے۔’
وہ فیصلے میں مزید لکھتے ہیں، ‘لیکن اگر کوئی مذہبی شخص مذکورہ حقائق کے خلاف کام کرے، جیسے کہ اپنی برادری کے لوگوں کو اکسانا وغیرہ تو امن و امان میں خلل پڑتا ہے اور فسادات ہوتے ہیں جس کی ایک مثال مولانا توقیر رضاخان ہیں۔’
انہوں نے فیصلے میں ذکر کیا ہے کہ مولانا توقیر رضا خان بریلی کی درگاہ اعلیٰ حضرت کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ درگاہ اعلیٰ حضرت کی مسلم معاشرے میں بڑی مقبولیت ہے۔ خان چونکہ ایک مذہبی گھرانے کے مذہبی رہنما کی بھی حیثیت بھی رکھتے ہیں اور آئی ایم سی کے صدر بھی ہیں، اس لیے ان کا مسلم معاشرے پر کافی اثر ہے۔
جج دیواکر نے مزید کہا ہے کہ ‘ہندوستان میں فسادات کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں کی سیاسی جماعتیں ‘ایک خاص مذہب کے اپیزمنٹ’ میں لگی رہتی ہیں، جس کی وجہ سے بھی فسادیوں کو ایک طرف حوصلہ ملتا ہے کہ اگر ان کی طرف سے فسادات کر دیے گئے یا کروا دیے گئے تو عدلیہ سے سزا ملنا تقریباً ناممکن ہے۔’
آگے وہ وارانسی کی عدالت میں اپنی مدت کار اور گیانواپی مسجد کیس میں انہیں ملی مبینہ دھمکیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں، ‘میرے ذریعے 2022 میں گیانواپی کیس کا حل وارانسی میں کیا جا رہا تھا۔ تب مجھے مسلم تنظیم کی طرف سے تقریباً 32 صفحات کا ایک دھمکی آمیز خط موصول ہوا، جس کے بارے میں وارانسی میں ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی۔ چونکہ ابھی تک کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے، لکھنؤ میں میری والدہ اور شاہجہاں پور میں سول جج میرے چھوٹے بھائی میرےلیےفکر مند ہیں اور میں ان کے بارے میں فکر مند ہوں۔’
وہ اپنے فیصلے میں لکھتے ہیں کہ اگر یوپی میں یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت نہ ہوتی تو ملزم خان نے بریلی میں چند دن پہلے فساد کرا دیا ہوتا۔ وہ وزیر اعظم مودی کے خلاف خان کے مبینہ قابل اعتراض ریمارکس کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں،’حال ہی میں مولانا توقیر رضا خان کی طرف سے بریلی شہر میں دوبارہ فسادات بھڑکانے کی کوشش کی گئی اور وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف توہین آمیز باتیں کی گئیں، جسے میری اہلیہ نے بھی سنا اور کہا کہ جب یہ شخص ملک کے وزیراعظم کے بارے میں توہین آمیز باتیں کر سکتا ہے تو وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ بریلی میں کچھ دن پہلے خان نے فساد کروا دیا ہوتا، اگر اس وقت اتر پردیش میں عزت مآب شری یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت نہ ہوتی۔’
دیواکر پچھلے مہینے بریلی میں ہوئے پتھراؤ کے واقعے کا ذکر کر رہے تھے، جب گیان واپی مسجد کے تہہ خانے کو ہندوؤں کو پوجا کے لیے حوالے کرنے کے وارانسی کی ایک عدالت کے فیصلے کے خلاف خان کی طرف سے کیے گئے جیل بھرو احتجاج میں حصہ لینے کے بعد لوگ گھر واپس لوٹ رہے تھے۔
گیان واپی کیس پر اپنے فیصلے کے بارے میں وہ لکھتے ہیں، ‘جب سے میرے ذریعے گیان واپی کیس کا فیصلہ دیا گیا ہے، ایک خاص مذہب کے لوگوں اور اہلکاروں کا رویہ میرے تئیں عجیب سا ہو گیا ہے، گویا ایسا لگتا ہے کہ فیصلہ دے کر میں نے کوئی گناہ کیا ہو، جبکہ گیان واپی کیس میں میں نے قانونی دفعات کے تحت فیصلہ دیا تھا۔’
گیان واپی مسجد-کاشی وشواناتھ کیس میں تنازعہ کھڑا کرنے والے دیواکر واحد جج نہیں ہیں۔
دی وائر نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ وارانسی کے ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ جج اجئے کمار وشویش، جنہوں نے 31 جنوری کو اپنے آخری ورکنگ ڈےپر گیان واپی مسجد کے تہہ خانے کو ہندوؤں کو پوجا کے لیے حوالے کیا تھا، کو حال ہی میں ایک سرکاری یونیورسٹی کا لوک پال مقرر کیا گیا ہے۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)