سابق نوکر شاہوں کی جانب سے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ہم حیران ہیں کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے کو اتنا ضروری کیوں سمجھا کہ دو ماہ کے اندر فیصلہ لینا پڑا۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ کیس کی تحقیقات گجرات کی 1992 کی معافی کی پالیسی کے مطابق کی جانی چاہیے نہ کہ اس کی موجودہ پالیسی کے مطابق۔
نئی دہلی: بلقیس بانو گینگ ریپ کیس اور ان کے خاندان کے سات افراد کے قتل کے معاملے میں 11 مجرموں کی قبل از وقت رہائی کے خلاف 130 سے زیادہ سابق نوکر شاہوں نے سنیچر (27 اگست) کو چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) کو کے ایک کھلا خط لکھا ہےاور ان سے اس ‘انتہائی غلط فیصلے’ کو درست کرنے کی اپیل کی ہے۔
انہوں نے چیف جسٹس سے اپیل کی ہے کہ وہ گجرات کی بی جے پی حکومت کے فیصلےکو رد کریں اور گینگ ریپ اور قتل کے ان 11 مجرموں کو عمر قید کی سزا کاٹنے کے لیے واپس جیل بھیجیں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ، ہندوستان کی آزادی کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر کچھ دن پہلے گجرات میں جو کچھ ہوا ، اس سے ہمارے ملک کے اکثر لوگوں کی طرح ہم بھی حیران ہیں۔
کانسٹی ٹیوشنل کنڈکٹ گروپ کے زیر اہتمام لکھے گئے اس خط میں 134 لوگوں کے دستخط ہیں۔ ان میں دہلی کے سابق لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ، سابق کابینہ سکریٹری کے ایم چندر شیکھر، سابق خارجہ سکریٹری شیو شنکر مینن اور سجاتا سنگھ اور سابق ہوم سکریٹری جی کے پلئی کے نام شامل ہیں۔
جسٹس یو یو للت نے سنیچر کو ہندوستان کے 49ویں چیف جسٹس کے طور پر حلف لیا تھا۔
دریں اثنا، 25 اگست کو سپریم کورٹ نے بلقیس بانو کے ساتھ ہوئے گینگ ریپ اور اس کے خاندان کے افراد کے قتل کے معاملے میں 11 مجرموں کی رہائی کو چیلنج کرنے والی ایک عرضی پر مرکز اور گجرات حکومت کو
نوٹس جاری کیاہے۔
سابق نوکر شاہوں کا کہنا ہے کہ مجرموں کی رہائی سے ملک میں ناراضگی ہے۔ خط میں چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ہم نے آپ کو اس لیے خط لکھا ہے کہ ہم گجرات حکومت کے اس فیصلے سے بہت مایوس ہیں اور ہمارا ماننا ہے کہ صرف سپریم کورٹ کے پاس ہی یہ دائرہ اختیار ہے جس کے ذریعے وہ اس بے حد فیصلے کو درست کرسکتا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ گودھرا میں 2002 میں ٹرین میں آتشزدگی کے بعد گجرات میں بھڑکے تشدد کے دوران بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا تھا۔ وہ اس وقت پانچ ماہ کی حاملہ تھیں۔ اس دوران ہلاک ہونے والوں میں ان کی تین سالہ بیٹی بھی شامل تھیں۔
ممبئی کی ایک خصوصی سی بی آئی عدالت نے جنوری 2008 میں تمام 11 ملزمین کو مجرم قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ بعد میں اس فیصلے کو بمبئی ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا تھا۔
رپورٹ کے مطابق، خط کا آغاز 28 فروری 2002 کو پیش آنے والے واقعات کو بیان کرتے ہوئے کیا گیا ہے، جب ریاست میں جاری فرقہ وارانہ فسادات کے دوران مسلمانوں کے گھروں کو تباہ کرنے والے ہجوم سے بچنے کے لیے پانچ ماہ کی حاملہ 19 سالہ بلقیس بانو اپنے خاندان کے افراد اور دیگر مقامی مسلمان لوگوں کے ساتھ بھاگنے کی کوشش کر رہی تھی۔
خط میں لکھا گیا،بلقیس، ان کی ماں اور تین دیگر خواتین کے ساتھ ریپ کیا گیا اور ان کی تین سالہ بیٹی کا سر پھوڑ دیا گیا۔بعد میں آٹھ افراد مردہ حالت میں پائے گئے اور چھ لاپتہ تھے۔ برہنہ اور بے ہوش بلقیس، ایک بوڑھا آدمی اور ایک تین سالہ بچہ ہی زندہ بچ سکے۔ ان کی اپنی بیٹی بھی نہ بچ سکی۔ یہ بہادری اور جرأت کی لازوال داستان ہے کہ یہ دکھی اور زخمی لڑکی اپنے دکھ چھپا کر عدالتوں سے انصاف حاصل کرنے میں کامیاب ہو ئی۔
خط میں ان انصاف کے حصول کی لڑائی کی تفصیلات بھی ہیں۔ خط میں کہا گیا ہے کہ بلقیس بانو کو ملنے والی جان سے مارنے کی دھمکیوں کے پیش نظر اور منصفانہ ٹرائل کو یقینی بنانے کے لیے کیس کی تفتیش پہلے گجرات پولیس سے سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) اور پھر گجرات سے ممبئی میں خصوصی سی بی آئی عدالت کو منتقل کیا گیا تھا۔
سابق نوکر شاہوں اور خواتین نے خط میں لکھا ہےکہ ،یہ کیس ریئرریسٹ آف ریئرتھا کیونکہ نہ صرف ریپ کرنے والوں اور قاتلوں کو سزائیں دی گئی تھیں، بلکہ پولیس اہلکاروں اور ڈاکٹروں نے بھی ملزمین کو بچانے اور جرم کو چھپانے کے لیے شواہد سے چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش کی تھی۔
خط میں کہا گیا ہے کہ 15 سال کی جیل کی سزا کاٹنے کے بعد ایک ملزم رادھے شیام شاہ نے قبل از وقت رہائی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
تاہم، 13 مئی کو، جیسا کہ خط میں ذکر کیا گیا ہے،
عدالت عظمیٰ نے مانا کہ چونکہ یہ جرم گجرات میں ہوا تھا، اس لیے گجرات حکومت سزا میں معافی کی درخواستوں کی سماعت کے لیے ‘مناسب حکومت’ تھی۔
آئینی کنڈکٹ گروپ نے خط میں اس فیصلے پر سوال اٹھایا ہے۔ اس میں واضح کیا گیا ہے کہ اس معاملے میں پہلے سرکاری افسران کی ملی بھگت تھی۔ مزید، یہ خط
یونین آف انڈیا بمقابلہ وی سری ہرن عرف موروگن معاملے میں قائم کی گئی نظیر کو نشان زد کرتا ہے کہ ‘مناسب حکومت’ اس ریاست میں سے ایک ہوگی جس میں سزا سنائی گئی تھی۔ موجودہ کیس میں اس نظیر کی عدم تعمیل کو ‘بدقسمتی’ قرار دیا گیا ہے۔
خط میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر اعتراض کیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے کی سماعت ریاست گجرات کو دو ماہ کے اندر کرنی چاہیے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ،ہم حیران ہیں کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے کو اتنا ضروری کیوں سمجھا کہ دو ماہ کے اندر فیصلہ لینا پڑا۔ساتھ ہی سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ معاملے کی تحقیقات گجرات کی 1992 کی معافی پالیسی کے مطابق کی جائے نہ کہ اس کی موجودہ پالیسی کے مطابق۔
اس میں کہا گیا،ہم آپ سے گزارش کرتے ہیں کہ گجرات حکومت کے فیصلے کورد کریں اور گینگ ریپ اور قتل کے ان 11 مجرموں کو عمر قید کی سزا کاٹنے کے لیے واپس جیل بھیجیں۔
غور طلب ہے کہ ان 11 مجرموں کی رہائی اس سال کی گئی ہے جب ریاست نئے اسمبلی انتخابات کی تیاری کر رہی ہے۔
بتادیں کہ گجرات کی بی جے پی حکومت کی طرف سے اپنی معافی کی پالیسی کے تحت مجرموں کو معافی دینے کے بعد بلقیس بانو گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کے قتل کے معاملے میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے11 مجرموں کو گودھرا کی جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔
ایسا کہا گیا تھاکہ ان مجرموں کو سپریم کورٹ کی ہدایت پر غور کرنے کے بعد رہا کیا گیا تھا۔
ان مجرموں نے 15 سال سے زیادہ کی قید کاٹ لی تھی، جس کے بعد ایک مجرم نے اپنی قبل از وقت رہائی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ اس پر سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو اس معاملے پر غور کرنے کی ہدایت دی تھی۔
تاہم،
دی ہندو کے مطابق، جمعرات کو سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کہا کہ عدالت نے انہیں رہا کرنے کے لیے نہیں کہا تھا، صرف پالیسی کے مطابق ان کی سزا معافی پر غور کرنے کوکہا تھا۔
لائیو لاء کے مطابق، جسٹس رمنا نے واضح کیا کہ ،میں نے کہیں پڑھا تھا کہ عدالت نے سزامعافی کی اجازت دی ہے۔ نہیں، عدالت نے صرف غور کرنے کو کہاتھا۔
قابل ذکر ہے کہ
دی وائر نے ایک مضمون میں اطلاع دی ہے کہ اس سال جون میں مرکزی وزارت داخلہ نے سزا یافتہ قیدیوں کی رہائی کے سلسلے میں ریاستوں کو ہدایات جاری کی تھیں۔ یہ رہنما خطوط ہندوستان کی آزادی کے 75ویں سال کے لیے تیار کی گئی ایک خصوصی پالیسی کے تحت جاری کیے گئے تھے۔
رہنما خطوط کے مطابق، قیدیوں کو 15 اگست 2022، 26 جنوری 2023 (یوم جمہوریہ) اور 15 اگست 2023 کو خصوصی چھوٹ دی جانی تھی۔ تاہم رہنما خطوط میں واضح کیا تھاگیا کہ عمر قید کی سزا پانے والے اورریپ کے مجرموں کو قبل از وقت رہائی کا حق نہیں ملے گا۔
ایسے میں اس فیصلے کے بعد کئی ماہرین نے سوال اٹھائے ہیں کہ کیا گجرات حکومت نے بلقیس بانو کیس کے قصورواروں کو رہا کرنے میں مرکزی رہنما خطوط کی خلاف ورزی کی ہے؟
واضح ہو کہ رہائی کی سفارش کرنے والے پینل کے ایک رکن بی جے پی ایم ایل اے سی کے راؤل جی نےریپسٹ کو ‘
اچھے سنسکاروں’ والا ‘برہمن’ بتایا تھا۔
گجرات حکومت کے اس فیصلے پر
وائبس آف انڈیا سے بات کرتے ہوئے بلقیس نے کہا تھا، یہ سال 2022 ہے لیکن میں وہی خوف، عدم تحفظ اور ناامیدی محسوس کر رہی ہوں جیسا 2002 میں محسوس کر رہی تھی۔ اچانک ایسا لگ رہا ہے کہ کچھ بدلا ہی نہیں ہے۔ یہ 2002 جیسا ہی لگ رہا ہے۔
سال 2002 میں پیش آئے اس واقعے کے لیے طویل قانونی جنگ لڑنے والی بلقیس نے کہا تھا کہ اب ان میں صبر ہے نہ ہمت۔ انہوں نے کہا، میں بہت مایوس ہوں۔ ہم ہار گئے۔
انہوں نے مزید کہا، آزادی کا دن ہمارے لیے بری خبر لے کر آیا۔ میری آزادی، حقوق، تحفظ سب چھین لیے گئے۔ میرا ہر چیز سے بھروسہ اٹھ گیا ہے۔ اب آپ کو لگتا ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی میری مدد کر سکتا ہے؟ ہاں، میں اپنی لڑائی ہار چکی ہوں۔
قصورواروں کو رہا کرنے کے گجرات حکومت کے فیصلے کی
اپوزیشن جماعتوں سمیت سماجی اور شہری حقوق کے کارکنوں نے مذمت کی ہے۔
اس کے علاوہ سینکڑوں خواتین کارکنوں سمیت
6000 سے زائد افراد نے سپریم کورٹ سے مجرموں کی سزا کی معافی کے فیصلے کو رد کرنے کی اپیل کی ہے۔
وہیں،
یونائیٹڈ اسٹیٹس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلیجیئس فریڈم (یو ایس سی آئی آر ایف) نے 2002 کے گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو کے ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کرنے کےلیے قصوروار ٹھہرائے گئے 11 افراد کی ‘غیر منصفانہ’ رہائی کی سخت مذمت کی ہے۔
غورطلب ہے کہ 27 فروری 2002 کو سابرمتی ایکسپریس کے کوچ میں تشدد کے بعد 59 کار سیوکوں کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد ہونے والے تشدد کے دوران بلقیس بانو، جو اس وقت پانچ ماہ کی حاملہ تھیں، اپنی بچی اور دیگر 15 افراد کے ساتھ اپنے گاؤں سے بھاگ گئی تھیں۔
تین مارچ 2002 کو داہود ضلع کے لمکھیڑا تعلقہ کے رندھیک پور گاؤں میں بلقیس کے خاندان پر درانتی، تلوار اور لاٹھیوں سے لیس 20-30 لوگوں کے ہجوم نے حملہ کیا تھا۔ یہاں بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا، جبکہ ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کر دیا گیا۔ دیگر چھ لوگ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
بلقیس کے اس معاملے کو لے کر قومی انسانی حقوق کمیشن پہنچنے کے بعد سپریم کورٹ نے سی بی آئی انکوائری کا حکم دیا۔ کیس کے ملزمان کو 2004 میں گرفتار کیا گیا تھا۔
مقدمے کی سماعت احمد آباد میں شروع ہوئی تھی، لیکن بلقیس بانو نے خدشہ ظاہر کیا تھاکہ گواہوں کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے، ساتھ ہی سی بی آئی کے جمع کردہ شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جا سکتی ہے، جس کے بعد سپریم کورٹ نے اگست 2004 میں کیس کو ممبئی منتقل کر دیا۔
بتادیں کہ 21 جنوری 2008 کو سی بی آئی کی ایک خصوصی عدالت نے بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کرنے کا مجرم قرار دیتے ہوئے 11 ملزمین کوعمر قید کی سزا سنائی تھی۔ انہیں تعزیرات ہند کے تحت ایک حاملہ خاتون کی عصمت دری، قتل کی سازش کرنے ، قتل اور غیر قانونی طور پر اکٹھا ہونے کا قصوروار ٹھہرایا تھا۔
خصوصی عدالت نے دیگر سات ملزمین کو ثبوت کے فقدان میں بری کر دیا۔ وہیں مقدمے کی سماعت کے دوران ایک ملزم کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد 2018 میں، بمبئی ہائی کورٹ نےملزمین کی سزا کو برقرار رکھتے ہوئے سات لوگوں کو بری کرنے کے فیصلے کو پلٹ دیا تھا۔
بلقیس نے اس وقت کہا تھا،سپریم کورٹ نے میرے درد، میری تکلیف اور 2002 کے تشدد میں کھوئے ہوئے میرے آئینی حقوق کو واپس حاصل کرنے کی میری جدوجہد کو سمجھا۔ حکومت کے ہاتھوں کسی بھی شہری کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے، جس کا فرض ہماری حفاظت کرناہے۔
اپریل 2019 میں سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو بلقیس بانو کو 50 لاکھ روپے معاوضہ، سرکاری نوکری اور رہائش فراہم کرنے کا
حکم دیا تھا۔