مشاورت پالیسی کے اصولوں کی خلاف ورزی کے بعد پاس ہوا تھا اشرافیہ ریزرویشن، پی ایم او کا تھا بڑا کردار

02:27 PM Jan 20, 2020 | دھیرج مشرا

دی وائرکی خصوصی رپورٹ : آر ٹی آئی کے تحت حاصل کئے گئےدستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ اشرافیہ کے اقتصادی طور پر کمزور طبقے کو ریزرویشن دینے والے 124ویں آئینی ترمیم بل پر وزارت قانون کے علاوہ کسی دیگر محکمہ کے ساتھ صلاح و مشورہ نہیں کیا گیا تھا۔ حکومت نے 20 دن کے اندر ہی اس بل کوپارلیامنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور کراکے قانون بنا دیا تھا۔

وزیر اعظم نریندر مودی(فوٹو : پی ٹی آئی)

نئی دہلی: مرکزی حکومت نے 124ویں آئینی ترمیم بل پروزارت قانون کے علاوہ کسی دیگر وزارت یا محکمہ کے ساتھ بات نہیں کی تھی۔ یہ بل اشرافیہ کے اقتصادی طور پر کمزور طبقہ (ای ڈبلیو ایس) کے لئے نوکریوں اور تعلیم میں 10 فیصد ریزرویشن دیتا ہے۔

حکومت نے صرف 20 دن کے اندر ہی اس بل کا تصور کیا اورپارلیامنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور کراکے قانون بھی بنا دیا۔ اتناہی نہیں،اس قانون کے ریلیز میں ایک تبدیلی کے لئے کابینہ  کی منظوری کے بجائے وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کیا اور مرکزی وزیر نے فون پرہی کابینہ  نوٹ کو منظوری دی تھی۔

اس کے علاوہ وزارت کی گزارش پر لوک سبھا اسپیکر نے اس بل کو خصوصی ترجیح دیتے ہوئے کسی بل کو ایوان میں پیش کرنے کی سات دنوں کی مشروط ضرورت کی بھی چھوٹ دی تھی۔ دی وائر کے ذریعے آر ٹی آئی قانون کے تحت حاصل کئے گئے بےحد اہم دستاویزوں سے یہ انکشاف ہوا ہے۔

وزیر اعظم دفتر نے نبھایا اہم ترین کردار

حاصل کی گئیں فائلوں سے پتہ چلتا ہے کہ وزیر اعظم دفتر(پی ایم او) کا اس میں کافی اہم ترین کردار تھا اور پی ایم اوکے ساتھ میٹنگ کےبعد اس بل کو لانے پر غورکیا گیا۔

20 دسمبر2018 کو پی ایم او کے جوائنٹ سکریٹری اور منسٹری آف سوشل جسٹس اینڈ امپاورمنٹ کےسکریٹری نیلم ساہنی اور جوائنٹ سکریٹری بی ایل مینا اور بعد میں پچھڑے طبقے کےنائب-درجہ بندی کے لئے کمیشن (سی ای ایس او بی) کے ممبر ڈاکٹر بجاج کے ساتھ میٹنگ کے بعد اس بل کو لانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

جب لوک سبھا انتخاب سے کچھ مہینے پہلے ہی یہ بل ایوان میں پیش کیا گیا تھا تو اپوزیشن  رکن پارلیامان نے سوال اٹھایا کہ حکومت نے کس بنیاد پر 10 فیصدی ریزرویشن دینے کا فیصلہ لیا ہے؟ کیا اس کے لئے کوئی سروے رپورٹ تیار کی گئی ہے؟

کس بنیاد پر آٹھ لاکھ روپے کا معیار طے کیا گیا ہے اورکس نے صلاح دی کہ اقتصادی بنیاد پر ریزرویشن دینا آئینی جواز کے معیار پر کھرا اترپائے‌گا؟

حاصل شدہ دستاویزوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس بل کو منظورکرانے میں حکومت نے کافی جلدبازی کی اور آناً فاناً میں 20 دن کے اندر ہی پورا کام کر لیا گیا۔

عجلت  کا عالم یہ تھا کہ کابینہ نے سات جنوری 2019 کوبل اور بل کے منظور ہونے بعد جاری ہونے والا سرکاری  ریلیز  بھی منظور کیا تھا۔ اس جلدبازی کی وجہ سے ریلیز میں کئی غلطیاں تھیں۔

وزیر اعظم دفتر کے ساتھ میٹنگ  کے بعد بل لانے کا فیصلہ لیا گیا۔

جیسے کہ  ریلیز میں اہلیت کچھ اور تھی اور بل میں کچھ اور۔ریلیز میں زمین کی اکائی یارڈ لکھی گئی تھی، لیکن بل میں اسکوائر یارڈ۔

دی وائر کے ذریعے حاصل کئے گئے فائل نوٹنگس، خط وکتابت اور خفیہ کابینہ  نوٹ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ 124ویں آئینی ترمیم بل پر وزارت قانون کے علاوہ کسی دیگر متعلقہ وزارت یا محکمے سے صلاح و مشورہ نہیں کیا گیا تھا۔

کابینہ نوٹ کے مطابق، ‘ نوٹ کی ایک کاپی قانون اور منسٹری آف سوشل جسٹس اینڈ امپاورمنٹ کو تبصرہ کے لئے بھیجی گئی تھی اور انہوں نے اس پر اتفاق کیا ہے۔ دیگرتمام محکمے کابینہ کے اجلاس کے دوران اپنا تبصرہ لےکر آئیں‌گے۔ ‘

حالانکہ وزارت قانون کے علاوہ دیگر کسی محکمہ یا وزارت کے تبصرہ والی فائل منسٹری آف سوشل جسٹس اینڈ امپاورمنٹ کے ریکارڈ میں موجود نہیں ہے، جوکہ 124ویں آئینی ترمیم بل کا نوڈل وزارت ہے۔

دی وائر نے ایک دیگر آر ٹی آئی درخواست دائر کر یہ جانناچاہا کہ کیا کابینہ سکریٹریٹ میں اس تعلق سے کوئی فائل موجود ہے، لیکن سیکریٹریٹ نے جواب دینے کے بجائے کچھ دن بعد اس درخواست کو منسٹری آف سوشل جسٹس اینڈ امپاورمنٹ کوٹرانسفر کر دیا۔

اس پر وزارت کے پبلک انفارمیشن  افسر نے جواب دیا، ‘اس محکمے میں وزارت قانون اور منسٹری آف سوشل جسٹس اینڈ امپاورمنٹ کو چھوڑ‌کر دیگر وزارت کے ذریعے دی گئی، اگرکوئی ہے، تبصروں کی تفصیل نہیں ہے۔ اطلاع دینے کے لئے آر ٹی آئی کوکابینہ سکریٹریٹ میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ ‘ حالانکہ کابینہ سکریٹریٹ بھی اس تعلق سےکوئی اطلاع نہیں دے پایا۔

وزارت کے ایک ڈرافٹ کابینہ نوٹ سے پتہ چلتا ہے کہ اس تجویزکو تبصرہ کے لئے وزارت قانون  کے علاوہ ایم ایچ آر ڈی،مزدور اور تربیت محکمہ (ڈی او پی ٹی)، وزارت داخلہ اور خزانہ محکمے کے پاس بھیجاگیا تھا۔ لیکن ان محکمہ جات سے کہا گیا کہ وہ اپنا تبصرہ کابینہ کے اجلاس میں لےکرآئیں۔

حالانکہ ان محکمہ جات کے ذریعے تبصرہ دینے کا کوئی ثبوت وزارت کے ریکارڈ میں موجود نہیں ہے۔ بتا دیں کہ سول پوسٹ اور خدمات کے تعلق سےریزرویشن دینے کے لئے ڈی او پی ٹی اور مرکزی تعلیمی اداروں میں ریزرویشن کے لئےایم ایچ آر ڈی نوڈل ڈپارٹمنٹ ہوتا ہے۔

کابینہ  نوٹ کا وہ حصہ، جو بتاتا ہے کہ وزارت قانون کےعلاوہ دیگر محکمہ جات کو کابینہ  اجلاس کے دوران ہی اپنا تبصرہ دینے کو کہا گیاتھا۔

حکومت کا یہ قدم وزارت قانون  کے ذریعے سال 2014 میں جاری کئے گئے سابق قانونی مشاورت  پالیسی کے الٹ ہے، جس میں یہ کہا گیا ہے کہ کسی بھی بل کو پہلے متعلقہ وزارت یا محکمے کے پاس بھیجا جانا چاہیے اور ان کے تبصرہ کوکابینہ نوٹ میں شامل کیا جانا چاہیے۔وزارت کی ایک فائل نوٹنگ کے مطابق وزارت قانون کے ایڈیشنل سکریٹری ایس آر مشرا نے اس تجویز پر اتفاق کرتے ہوئے چھ جنوری 2019 کو فائل بھیجی تھی۔ اس پر لاء  سکریٹری اور وزیرقانون روی شنکر پرساد کے بھی دستخط ہیں۔

اس کے بعد اگلے ہی دن سات جنوری کو مرکزی کابینہ نے اپنےاجلاس میں اس بل کو منظوری دے دی۔ آٹھ جنوری کو لوک سبھا میں اس کو پیش کیا گیااور بل کو منظور بھی کر لیا گیا۔

اس کے بعد ٹھیک اگلے دن نو جنوری کو راجیہ سبھا سے بھی یہ بل منظور کر لیا گیا اور اس کو صدر نے منظوری بھی دے دی۔ 14 جنوری کو اس کونافذ کر دیا گیا۔ اس پورے عمل کو پورا ہونے میں زیادہ سے زیادہ صرف 20 دن کا وقت لگا۔

مودی کے وزیر تھاورچند گہلوت نے فون پر دی کابینہ  نوٹ کومنظوری

منسٹری آف سوشل جسٹس اینڈ امپاورمنٹ کے وزیر تھاورچند گہلوت نے پارلیامنٹ میں حزب مخالف کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کسی خاص اعداد و شماریا سروے کا ذکر کرنے کے بجائے کئی بار وزیر اعظم نریندر مودی کا شکریہ ادا کیا اورکہا کہ یہ بل ان کی وجہ سے ہی لایا جا سکا ہے۔

وزیر کے بیانات کا کافی حد تک سرکاری دستاویزوں سے تال میل ہے۔ اس بل کو لےکر کابینہ نے سات جنوری کو ایک آفس میمورینڈم یااو ایم منظور کیا تھا، جس کو بل منظور ہونے کے بعد جاری کیا جانا تھا۔ حالانکہ منظور کئے گئے بل اور جاری کئے گئے میمورنڈم میں  کچھ خامیاں تھیں۔

بل میں یہ اہتمام ہے کہ اشرافیہ کے اقتصادی طور پرکمزور طبقے کے طالب علموں کو اقلیتی تعلیمی اداروں کو چھوڑ‌کر پرائیویٹ اداروں سمیت تعلیمی اداروں میں ریزرویشن دیاجائے‌گا۔ حالانکہ کابینہ  کے ذریعے منظور شدہ آفس میمورینڈم میں مرکزی تعلیمی اداروں میں ریزرویشن دینے کا اہتمام تھا۔

چونکہ مرکزی تعلیمی اداروں (داخلہ میں ریزرویشن) ایکٹ،2006 کے تحت مرکزی تعلیمی اداروں میں پرائیویٹ غیرامدادی تعلیمی ادارے شامل نہیں ہیں، اس لئے اس تبدیلی کے لئے کابینہ  کی منظوری لینی تھی۔

اس کے علاوہ کابینہ  کے ذریعے منظور شدہ آفس میمورنڈم میں آمدنی کا معیار رکھا گیا تھا اور بعد میں منظور بل میں یہ تجویز  کی گئی  کہ یہ آمدنی معیاری اصول درخواست کے سال سے پہلے مالی سال کے لئے ہوگا۔ اس کے علاوہ او ایم میں زمین کی اکائی کو یارڈ لکھا گیا تھا جبکہ بل میں اسکوائر یارڈ تھا۔

ان تمام تبدیلیوں کو لےکر وزیر اعظم کے چیف سکریٹری کےساتھ ایک میٹنگ ہوئی تھی جس میں منسٹری آف سوشل جسٹس اینڈ امپاورمنٹ کے سکریٹری اورایم ایچ آر ڈی کے سکریٹری بھی شامل تھے۔ عام طور پر یہ تبدیلی کابینہ کی منظوری کے بعد ہونی چاہیے۔

حالانکہ وزیر اعظم نریندر مودی نے ٹرانجیکشن آف بزنس رولس کے اصول 12 کے تحت اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ان تبدیلیوں کومنظوری دی۔

وزیر اعظم سے اس طرح کی منظوری ملنے کے بعد ایک مہینے کےاندر رسمی طریقے سے کابینہ کے لئے منظوری لینی ہوتی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس کےلئے بنائے گئے ڈرافٹ کابینہ  نوٹ کو مرکزی وزیر تھاورچند گہلوت نے فون پر منظوری دی تھی۔

وہ فائل نوٹنگ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرکزی وزیرتھاورچند گہلوت نے ٹیلی فون پر ہی کابینہ  نوٹ کو منظوری دی تھی۔

آٹھ لاکھ روپے کی آمدنی کی حداور 10 فیصدی ریزرویشن کاواضح بنیاد نہیں

دی وائر کے ذریعے حاصل کئے گئے خفیہ کابینہ  نوٹ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ای ڈبلیو ایس ریزرویشن حاصل کرنے کے لئے طے کی گئی آٹھ لاکھ کی حداور 10 فیصدی  ریزرویشن طے کرنے کی کوئی خاص بنیاد نہیں ہے۔

حکومت نے اس بل کو لانے کے لئے سال 2005 میں بنی سنہا کمیشن کی سفارشات کا سہارا لیا ہے لیکن اس کمیشن کے ذریعےاقتصادی طورپر پچھڑے طبقے کی تعریف کو ہی بے حد غیر واضح  وجہ دےکر  نامنظور کر دیا گیا۔

حکومت نے اس کے لئے ایک آسان راستہ نکال لیا۔ اس کمیشن کو ایک اہم کام اقتصادی طور پر پچھڑے طبقے کی تعریف دینی تھی۔

سنہا کمیشن نے سفارش کی تھی کہ اشرافیہ کے تمام بی پی ایل اور ایسی فیملی جن کے تمام ذرائع سے ٹیکس مطلوبہ آمدنی سے نیچے ہے، ان کواقتصادی طور پر کمزور طبقے کے زمرہ میں مانا جانا چاہیے۔

حالانکہ حکومت نے کہا کہ چونکہ بی پی ایل کی پہچان بحث کا موضوع ہے اس لئے او بی سی ریزرویشن کے لئے طے کی گئی آمدنی کی حد کی بنیاد پر ای ڈبلیو ایس ریزرویشن کی آمدنی حد طے کی جائے۔

نوٹ کے مطابق مرکز نے 1993 میں ماہرین کی ایک کمیٹی کے ذریعےسماجی اور اقتصادی پچھڑے طبقہ (ایس سی بی سی) کے ترقی یافتہ یا اعلیٰ زمرہ کےلوگوں کو ریزرویشن نہ دینے کے لئے طے کئے گئے معیاری اصول کی بنیاد پر آٹھ لاکھ روپے کی آمدنی حد طے کی ہے۔ یہی آمدنی متعینہ حد اس وقت او بی سی کو ریزرویشن دینے کے لئے بھی نافذ ہے۔ حالانکہ یہ متعینہ حد سماجی پچھڑےپن کو دھیان میں رکھتےہوئے طے کی گئی تھی۔

کابینہ نوٹ میں بھی یہ منظور کیا گیا ہے، ‘ ایس ای بی س یکی پہچان میں زیادہ زور سماجی پچھڑےپن پر دیا جاتا ہے لیکن اقتصادی طور پر کمزورطبقے کی پہچان کے لئے صرف آمدنی کےمعیاری اصول اپنائے جا سکتے ہیں۔ اس لئے جس فیملی کی آمدنی آٹھ لاکھ روپے سے کم ہے ان کو ای ڈبلیو ایس زمرہ میں مانا جا سکتا ہے۔ ‘

اس کے علاوہ پانچ ایکڑ اور اس سے زیادہ کی زراعتی زمین،1000 اسکوائر فٹ اور اس سے زیادہ کا رہائشی فلیٹ، نوٹیفائڈ میونسپل کارپوریشن میں100 اسکوائر یارڈیا اس سے زیادہ کا رہائشی پلاٹ اور غیر-نوٹیفائڈ میونسپل کارپوریشن میں 200 اسکوائر یارڈ یا اس سے زیادہ کا پلاٹ رکھنے والوں کو اس ریزرویشن سے محروم رکھا گیا ہے۔

حالانکہ کابینہ  کے لئے نوٹ میں ایسے کسی سروے یا ریسرچ کا ذکر نہیں ہے جو یہ بتا سکے کہ کس بنیاد پر یہ معیاری اصول طے کئے گئے ہیں۔

اسی طرح ریزرویشن کا حصہ 10 فیصدی طے کرنے کے لیے بھی کوئی واضح اعداد و شمار نہیں ہے۔ سرکاری دستاویزوں کے مطابق حکومت نے 2011-12 کے این ایس ایس او سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے اوسطاً فی شخص ماہانہ خرچ کے مقابلے کم ماہانہ خرچ کرنے والوں کا اندازہ کیا ہے اور یہ پایا ہے کہ اوسطاً فی شخص ماہانہ خرچ سے کم خرچ کرنے والوں کی تعداد صرف ایس ٹی، ایس سی اور او بی سی میں ہی نہیں بلکہ اشرافیہ  میں بھی زیادہ ہے۔

Cabinet Note EWS Reservation by The Wire on Scribd

حالانکہ اس سے متعلق کوئی واضح اعداد و شمار نہیں دیاگیا ہے۔ کابینہ نوٹ کے مطابق، ‘ 2011-12 کے این ایس ایس او سروے کی بنیاد پر اوسطاًفی شخص ماہانہ خرچ سے کم ہر مہینے خرچ کرنے والوں کا اندازہ کیا گیا ہے اور اس سےپتہ چلتا ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد صرف ایس ٹی، ایس سی اور او بی سی میں ہی نہیں بلکہ اشرافیہ  میں بھی زیادہ ہے۔’

نوٹ میں آگے لکھا گیا،’اس لئے یہ مناسب ہوگا کہ ای ڈبلیو ایس کو تقرری اور تعلیمی اداروں میں نامزدگی میں کم سے کم 10 فیصدی ریزرویشن دیا جائے۔ ‘

نوٹ کے مطابق حکومت کی یہ بھی دلیل تھی کہ اس آئینی ترمیم کی وجہ سے سماج کے اقتصادی طور پر پچھڑے طبقے کو نوکریوں کے مواقع کھل جائیں‌گے،حالانکہ اس تعلق سے بھی کوئی اعداد و شمار نہیں دیا گیا کہ آخر کتنے لوگوں کو اس سے فائدہ ملنے کی امید ہے۔

دی وائر کی طرف سے منسٹری آف سوشل جسٹس کےسکریٹری اور مرکزی وزیر تھاورچند گہلوت کے دفتر اور کابینہ سکریٹریٹ میں سوالوں کی فہرست بھیجی گئی ہے۔ ان کا جواب ملنے پر اس کو رپورٹ میں جوڑا جائے‌گا۔