ایلگار پریشد معاملے میں ملزم بنائے گئے سماجی کارکن اور ماہر تعلیم ڈاکٹر آنند تیلتمبڑے نے اپریل 2020 میں عدالت کے فیصلے کے بعد این آئی اے کے سامنے خودسپردگی کی تھی۔ دو سال گزرنے کے باوجود ان کے خلاف الزامات ثابت نہیں ہو سکے ہیں۔ ان کی اہلیہ رما تیلتمبڑے نے ان دو سالوں کا تکلیف دہ تجربہ تحریر کیا ہے۔
ڈاکٹر آنند تیلتمبڑے اپنی اہلیہ رما کے ساتھ۔ (فوٹوبہ شکریہ: تیلتمبڑے فیملی)
آنند اور میری شادی 19 نومبر 1983 کو ہوئی تھی۔ یہ ایک سادہ سی ارینج میرج تھی، جس میں ہمارے ایک کامن فرینڈ کا رول تھا۔
سینتیس (37 ) سالوں تک میں نے ایک گھریلو خاتون کا رول ادا کیا۔ اپنی دو بیٹیوں کی پرورش کی، ان کی ضروریات کا خیال رکھا اور اپنے گھر کی دیکھ بھال کی۔ آنند کو سپورٹ کرنے کا یہ میرا انداز تھا کہ وہ کلی طور پر بے فکر ہو کر اپنی پیشہ ورانہ زندگی اور سماجی کاموں پر توجہ مرکوز کر سکیں، جس کے لیے وہ وقف تھے۔ ایک پیشہ ورانہ کیریئر اور سماجی کارکن کے طور پر اپنے فرض کو ادا کرتے ہوئے وہ ہمیشہ میری بیٹیوں کے لیے بے مثال باپ رہے ہیں، جو ان کی ہر ضرورت میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔
اگر میں کچھ سال پیچھے مڑ کر دیکھوں، تو میرے دن عام دنیاوی پریشانیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ میں اپنی چھوٹی بیٹی کے ساتھ سفر کرتی تھی، جو ٹینس کھیلتی تھی۔ اس کی جیت کا جشن مناتی تھی اور اس کی ہار پر تسلی دیتی تھی۔ اپنی دوسری بیٹی کا ساتھ دیتی، جو اپنے امتحانات کے دوران رات گئے تک جاگتی رہتی تھی۔ ان کے لیے ان کا پسندیدہ کھانا پکاتی تھی۔ انہیں راہ دکھاتی تھی اور جب وہ ایک بالغ شہری کے طور پر اپنی زندگی کا فیصلہ کر رہی تھیں ، توان کے ساتھ کھڑی تھی۔
لیکن اب یہ یادیں کسی اور زندگی کی باتیں لگتی ہیں۔ آج 66 سال کی عمر میں، جب زیادہ تر خواتین یا تو ریٹائرمنٹ کا لطف اٹھا رہی ہیں یا اپنے ریٹائرڈ شریک حیات کے ساتھ ایک پرسکون زندگی بسر کر رہی ہیں، میری زندگی نے بالکل مختلف راستہ اختیار کیا ہے۔ اس نےمیرا تعارف اپنی ذات کے ایک دوسرے پہلو سے کرایا ہے، جس کے وجود کا بھی مجھے کوئی علم نہیں تھا۔
آغاز
قسمت نے کروٹ بدلنا اس دن شروع کیا، جب ہماری غیرحاضری میں پولیس نے گوا میں ہمارے گھر پر
چھاپہ مارا۔ حالاں کہ میں نے باہر سے پرسکون رہنے کی کوشش کی تاکہ میں اپنے خاندان کو دلاسہ دے سکوں، لیکن اندر سے میں بہت بے چین تھی۔
میرے شوہر اور ہمارے گھر کی تصویروں کے ساتھ جیسے ہی ٹی وی پر خبریں نشر ہوئیں، میں نے اپنے شوہر اور بیٹیوں کو پیچھے چھوڑ کر ممبئی سے گوا کے لیے فلائٹ بک کر لی۔ میں یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ ہماری نجی زندگی میں کیا بچا ہے جہاں اجنبی لوگوں کا ایک گروپ بغیر کسی اطلاع کے داخل ہوا تھا۔ اس کے بعد میں اپنے وکیل کے ساتھ شکایت درج کرانے قریبی پولیس اسٹیشن گئی۔
اپنی کار میں سفر کے دوران میں خاموش رہی اور اپنے آپ سے کہتی رہی کہ مجھے اور میرے شوہر کے لیے ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔ ہم قانون کی پاسداری کرنے والے شہری ہیں، جنہوں نے ایماندارانہ زندگی بسر کی ہے۔ اس لیے میرے پاس یہ یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی کہ میرے شوہر کو کوئی نقصان ہو گا، جنہوں نے اپنی زندگی ہمارے معاشرے کے مظلوم لوگوں کی بہتری کے لیے وقف کر رکھی ہے۔
مجھے اس بات کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ پولیس تھانے کا یہ پہلا دورہ ایک طویل اور مشکل قانونی جنگ کا محض آغاز ہے جس کا بظاہر کوئی خاتمہ نظر نہیں آ رہا ہے۔
اس واقعے کے بعد ہماری زندگی اس طرح بدل گئی جس کا ہم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا، لیکن آنند کو اپنی زندگی میں ایک لمحہ بھی بیٹھنا پسند نہیں تھا اور وہ اپنے گھر والوں سے بھی یہی توقع رکھتے تھے۔ ہمیشہ کی طرح انہوں نے اپنے طلباء کی ضروریات کے مدنظر اپنے لیکچرز جاری رکھے۔ مجھے یہ بات قابل ستائش لگی کہ کچھ دن پہلے کا واقعہ ، جو انہیں خوف و ہراساں کرنے کی واضح چال لگ رہی تھی، اس سے وہ مضطرب نہیں تھے۔ آنند نے سرینڈر کرنے سے پہلے کی آخری رات تک کام کرناجاری رکھا،اور اس بات کو یقینی بنایا کہ ان کے طلباء اور ساتھی ان کی غیر موجودگی سے ، جس کی ممکنہ مدت کا کوئی اندازہ نہیں تھا، بری طرح متاثر نہ ہوں۔
حالاں کہ، ہم نے اپنی زندگی پہلے کی طرح گزارنے کی کوشش کی، لیکن واضح طور پر ہمارے اپنے کیلنڈر میں نئی نئی چیزیں شامل ہو گئی تھیں۔ اب ہمارے پاس دھیان رکھنے کے لیے عدالت کی تاریخیں تھیں۔ آنند نے اپنے اوپر لگائے گئے بےہودہ اور جھوٹے الزامات کو خارج کرنے کی درخواست دائر کی تھی۔
اس بات کو تسلیم کرنا شرمناک تھا کہ آنند پر یو اے پی اے کے تحت الزام عائد کیا گیا تھا – جو اب تک کا سب سے سخت اور غیر جمہوری قانون ہے۔ آنند- ایک 70 سالہ شخص، ایک شوہر، ایک باپ، ایک بیٹا، ایک کارپوریٹ پیشہ ور، ایک پروفیسر، ایک کارکن اور ایک رائٹر پر خوفناک دہشت گردوں کے لیے بنائے گئے یو اے پی کی دفعات لگائی گئی تھی۔
چودہ اپریل 2020 کا وہ دن
میرے ذہن میں 14 اپریل 2020 کا دن کس طرح آتا ہے، اس کو بیان کرنے کے لیے میرے پاس لفظ نہیں ہیں۔ ایک دن کی طرح وہ ایک حیران کن صدمےمیں گزرا، لیکن اس کی یاد کو ہم ہر دن جیتے ہیں۔
سال 2020 سے پہلے میری زندگی کا ہر 14 اپریل میرے دادا بی آر امبیڈکر کی جینتی، ایک خوشی کا موقع تھا۔ جتنے سال میں بمبئی میں رہی، میں نے چیتہ بھومی کی یاترا اور اس عظیم انسان کے مجسمے کے سامنے شمع روشن کرنے کا موقع نہیں گنوایا جس کی زندگی اور کارنامے نے ہندوستان اور دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کومتاثر کیا ہے۔
اس رات 12 بجے آنند اپنے سفید کرتا پاجامے میں تیار تھے اور میرے ساتھ راج گرہ کے اندر ایک میموریل چلنے کا انتظار کر رہے تھے۔ جب انہوں نے موم بتی روشن کی اور امبیڈکر کے استھی کلش کے آگے سجدہ ریز ہوئے تو اس وقت ان کے چہرے پر ان کی جانی پہچانی مسکراہٹ تھی۔ میں نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا، لیکن میرا ذہن اس سوچ سے باہر نہیں نکل پا رہا تھا کہ اگلے چند گھنٹوں میں کیا ہونے والا ہے۔
چودہ اپریل 2020 کے واقعات نے پچھلے سالوں کی تمام اچھی یادوں کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ اور اس کے بعد سے ہر 14 اپریل ہمیں اس بے پناہ درد کی یاد دلاتا ہے جو ہم اپنی زندگی کے ہر لمحے برداشت کرتے رہتے ہیں۔
میں اس دن ان کے ساتھ این آئی اے کے دفتر گئی، جہاں انہوں نے عدالت کے حکم کے مطابق
خودسپردگی کی۔ اندر جاتے ہوئے بھی انہوں نے خود کو سنبھالے رکھا۔ ان کو اپنی فکر نہیں تھی، وہ اپنی ماں کے لیےفکرمند تھے۔ جب تک وہ اپنا فون استعمال کر سکتے تھے، وہ اپنی بیٹیوں سے بات کرتے رہے۔ انہوں نے ان سے ہمت بنائے رکھنے، ایک اچھی، ایماندارانہ زندگی جینے کو کہا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سب کچھ ٹھیک ہونے والا ہے۔ان کے رونے پر انہوں نے انہیں تسلی دی۔
اس دن جو کچھ ہوا وہ میرے شوہر کے ساتھ طویل اور اب تک جاری ظالمانہ ناانصافی اور میرے اور میری بیٹیوں کے لیے تکلیفوں کی شروعات تھی، جس کو برداشت کرنے کی صلاحیت ہر گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتی جا رہی ہے۔
مہاماری نے کیامشکلات میں اضافہ
کووڈ 19 کی وبا کے دور نے عالمی سطح پر ایک غیرمعمولی انسانی بحران کو جنم دیا۔ میرے لیے یہ کئی محاذ پر ناقابل تصور جدوجہد لے کر آیا۔ میں نے خود کو بالکل تنہا پایا۔ میرے شوہر جیل میں بند تھے اور میری بیٹیاں سفری پابندیوں کی وجہ سے میرے پاس نہیں آسکتی تھیں۔
آنند کی خودسپردگی کے بعد سے میں اکیلی جی رہی ہوں اور ان کے ناجائز مصائب کو جتنا جلدی ہو سکےختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہوں۔ مجھے اکثر خوفناک اور خطرناک خیالات گھیر لیتے ہیں۔ سماجی دوری اور لاک ڈاؤن کے باوجود جب ملک میں کورونا کی نئی نئی قسمیں تباہی مچا رہی تھیں، اس وقت ٹی وی پر آنے والی خبروں کو برداشت کرنا مشکل ہو تا جا رہا تھا۔
ان سب کے درمیان آنند جیل میں تھے – بھیڑ بھاڑ والی جگہ جو اپنی گنجائش سے تین گنا زیادہ بھری ہوئی تھی! جبکہ پوری دنیا میں لوگ دوری بناکر رہنے کی بات کرتے تھے، علیحدگی کے وقت ذہنی صحت کو درست رکھنے کی بات کرتے تھے، میں آنند کی صحت کی تشویش اور ہمارے ساتھ جو ہوا اس کو سوچتے ہوئے اکیلی بیٹھی تھی۔
انہیں دمہ کی وجہ سے سانس لینے میں دقت ہوتی ہے اور ایسی حالت میں انہیں کووڈ ہونے کے خیال سے کانپ جاتی تھی۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کوئی بھی جیل کے اندر بند لوگوں کی ذہنی صحت پر بات نہیں کرتا، جو کووڈ – 19 مہاماری جیسے ڈراونے دور میں اپنے پیاروں سے دور ہیں۔
لاک ڈاؤن نے ہم خاندانوں کو اپنے پیاروں سے ‘ملاقات’ کی چھوٹی سی راحت سے بھی محروم کر دیا۔ اس کے بجائے ہر ہفتے 10 منٹ کی وہاٹس ایپ ویڈیو کال کی اجازت تھی۔ میں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ میرا فون ہمیشہ بلند ترین رنگر والیوم پر ہو اور میں نے خود کو یہ دیکھنے کے لیے اکثر چیک کرتے ہوئے پایا کہ کیا وائی فائی موڈیم اچھی کنکٹویٹی کے اشارےدے رہا ہے یا نہیں! میں آنند کے ساتھ بات کرنے کا موقع ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی۔
صاف صاف کہوں تو میرے دن ان غیر طے شدہ ہفتہ وار کالوں کے اردگرد گھومتے تھے۔ اس کے بعد باقاعدگی سے میں اپنی بیٹیوں کو ان کی خیریت سے آگاہ کرنے کے لیے فون کرتی تھی، کیونکہ ان کے فون پر کال نہیں کی جا سکتی تھی۔ ایک سادہ سے ویڈیو کال کی یہ عیش و عشرت، اگر کوئی ایسا کہنا چاہے، کا فائدہ صرف میں ہی اٹھا سکتی تھی، جبکہ خاندان کو دوسرے قریبی افراد کو خطوط سے ہونے والے مکالمے سےہی کام چلانا پڑتا تھا۔
آگے بھیجنے سے پہلے آنند کی ذاتی خط و کتابت کو پڑھنے کے حکام کے اصرار کی وجہ سے ان خطوط کی آمد میں اکثر کئی دنوں کی تاخیر ہوتی تھی۔ حالات ایسے تھے کہ ہم اپنے اوپر کی گئی اس چھوٹی سی مہربانی سے بھی مطمئن ہو گئے!
آنند اپنے کام کے سلسلے میں بہت سفر کرتے تھے – لیکن وہ جہاں بھی گئے، ہمیں فون کرنا نہیں بھولتے تھے۔ دن میں کم از کم ایک بار فون کرکے ہماری خیریت دریافت کرتے تھے اور خصوصاً بیٹیوں کے امتحان والے دن ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار ضرورکرتے تھے۔
ایسے تھےآنند، لیکن تقریباً دو سال ہو گئے، وہ اپنی بیٹیوں سے بات نہیں کر پا رہے ہیں۔ وہ ایک زیر سماعت قیدی ہیں، جنہیں جابرانہ یو اے پی اے کے تحت جھوٹے الزامات میں پھنسایا گیا ہے۔
بہتر (72) سال کی عمر میں جب لوگوں کو اپنے بچوں کے ذریعے دیکھ بھال کیے جانے اور اپنے خاندانوں کے درمیان رہنے کی ضرورت ہوتی ہے، آنند اور میری جدوجہد بالکل مختلف ہے۔ اور یہ سب کچھ صرف این آئی اے کی طرف سے عدالت میں پیش کی گئی ایک کہانی کی بنیاد پر ہو رہا ہے، جس کی تصدیق ہونا ابھی باقی ہے۔
دوبارہ ملنا
وبائی صورتحال میں قدرے بہتری کے بعد ہفتہ وار ‘ملاقات’ شروع ہوئی۔ یہ ہفتے میں ایک بار 10 منٹ کا ہوتا ہے۔ میں اپنے گھر سے ایک گھنٹے کا سفر کرتی ہوں، رجسٹریشن کے لیے قطار میں کھڑی ہوتی ہوں، اور پھر ان سے ملنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کرتی ہوں۔
یہ انتظار 2-4 گھنٹے تک کاہوسکتا ہے۔ میں اسے برداشت کرتی ہوں، بس ایک دھول بھری اسکرین کے اس پار سے آنند کی ایک جھلک دیکھ پانے اور انٹرکام پر ان کی آواز سننے کے لیے۔
ہماری عمر میں ہم اپنی کمزور آوازوں کا جتنا ممکن ہے، استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسرے قیدیوں کی اپنے پیاروں اور جیل کے عملے کے ساتھ اونچی آواز میں گفتگو کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
وہ بھی ہفتے کے اس دن کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں، جس دن میں ان سے ملنے جاتی ہوں۔ ایک شناسا چہرہ انہیں بیرونی دنیا سے آگاہ کرتا ہے، جس سے انہیں پچھلے دو سالوں سے زبردستی دور کر دیا گیا ہے۔
زیادہ تر لوگوں کی طرح، جیل کی ‘ملاقات’ کا میرا تصور عام طور پر فلموں پر مبنی تھا۔ اس میں جو بات میں یقینی طور پر جوڑسکتی ہوں وہ یہ ہے کہ فلمیں آسانی سے دونوں فریقوں کے ذریعے برداشت کی جانے والی توہین اور پریشانی کو نظر انداز کر دیتی ہیں۔
آنند اور میں نے مارچ 2020 تک ایک باوقار اور آرام دہ زندگی بسر کی اور خواب میں بھی کبھی اس طرح سے مستقل طور پر ملنے کا تصورنہیں کیا تھا۔ ان ملاقاتوں کے دوران ہم ایک دوسرے کا ہاتھ نہیں پکڑ سکتے اور نہ ہی گلے مل کر ایک دوسرے کو تسلی دے سکتے ہیں۔ تاہم، ہم نے اپنے درد کو ایک دوسرے سے چھپانا سیکھ لیا ہے، کم از کم ان دس منٹوں کے دوران۔
جہاں تک میری بیٹیوں کا تعلق ہے وہ انہیں ہر ہفتے خط لکھتی ہیں اور وہ بڑے جتن سےان خطوط کا جواب دیتے ہیں۔ اپنے تمام خطوط میں وہ انہیں طاقت اور تسلی دینے کی کوشش کرتے ہیں جو انہوں نے 14 اپریل 2020 کو ان کے ساتھ اس آخری کال میں کی تھی۔
ایسا لگتا ہے کہ آنند اور میرے لیے زندگی ٹھہرگئی ہے۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ میں اس برے سپنے سے بیدار ہو جاؤں گی اور اخبار کے ساتھ صبح کی چائے اور ہنسی مذاق کے لیے بالکونی میں آنند کےآنے کا انتظار کروں گی!
لیکن ہر گزرتے دن اور ہر عدالتی سماعت کے ساتھ جو اگلی تاریخ پر منتج ہوتی ہے، ایسا لگتا ہے کہ کوئی بھی اس ناانصافی کو نہیں سمجھتا، جو ہمارے موجودہ حالات کے لیے ذمہ دار ہے۔ شاید انہیں بھی اس بات اندازہ نہیں ہےکہ ان میں سے کسی کے ساتھ بھی ایسا کچھ ہو سکتا ہے۔
رما امبیڈکر تیلتمبڑے ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی پوتی اور ڈاکٹر آنند تیلتمبڑے کی اہلیہ ہیں۔
یہ مضمون دی لیفلیٹ انگریزی میں شائع ہوا ہے۔