کانگریس کئی سروے کرا چکی ہےجس سے یہ نتیجہ سامنے آیا ہے کہ اکیلی پرینکا ہی کانگریس کی انتخابی مہم میں جان پھونکنے کے لیے کافی ہیں۔ان کی حاضر جوابی اور طنزیہ جملے کانگریس کو وہ جوش و جذبہ دیں گے، جس کی آج سخت ضرورت ہے۔ اندرا گاندھی سے ملتی جلتی ان کی شباہت، پارٹی کیڈر؛ خصوصاً نوجوانوں کو متاثر و متحرک کرنے کی صلاحیت ان کو ایک جداگانہ پہچان دیتی ہیں۔
کانگریس نے آئندہ لوک سبھا انتخابات کے لیے اپنی حکمت عملی تیار کر ہی لی… اس کے تحت پرینکا گاندھی عوام سے جڑے روزمرہ کے مسائل اٹھاتے ہوئے سرکار کو تنقید کا نشانہ بنائیں گی، جبکہ راہل گاندھی وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والے این ڈی اے کو رفیل ڈیل، قندھار جا کر دہشت گردوں کو چھوڑنا اور قومی تحفظ کے دوسرے معاملات کے ذریعے گھیریں گے۔
کانگریس امید کر رہی ہے کہ پرینکا گاندھی کا لب و لہجہ، اندرا گاندھی سے ان کی مماثلت اور روانی سے ہندی میں تقریر کرنا پارٹی کو شاید وہ مقام دلا سکتا ہے جس کا وہ پچھلے پانچ سالوں سے انتظار کر رہی ہے۔ معاشی ترقی، روزگار کی فراہمی، آپسی اتحاد اور استحکام کسی بھی ملک کی ترقی کا اشاریہ ہوتے ہیں، لیکن فی الوقت ملک انہیں مسائل سے نبرد آزما ہے۔
سیاست میں باضابطہ قدم رکھنے کے بعد پہلی بار احمدآباد میں پرینکا نے ملک میں بڑھتی بے روزگاری، خواتین کا تحفظ اور کسانوں کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے مودی سرکار کی کارکردگی پر سوال اٹھائے۔ انہوں نے مودی کی قیادت والی این ڈی اے سرکار پر ملک میں نفرت پھیلانے کا الزام بھی لگایا۔ کانگریس کا خیال ہے کہ اس طرح کے موضوعات اٹھا کر پرینکا یو پی کے ووٹرس کو متاثر کرنے میں کامیاب رہیں گی۔ ایسے میں بڑا سوال یہی ہے کہ کیا پرینکا اپنے زور خطابت سے سامعین کو کانگریس کے حق میں ووٹ دینے کے لیے راغب کر پائیں گی؟
دوسری جانب پرینکا میدان سیاست کے کچھ چھوٹے لیکن اہم کھلاڑیوں کو سادھنے میں بھی لگی ہیں۔ اترپردیش میں ابھر رہے بھیم آرمی کے صدر نوجوان دلت لیڈر چندرشیکھر سے ملاقات کرنے کے لیے انہوں نے پچھلے دنوں میرٹھ کا سفر کیا۔ اسی طرح وہ یو پی کے سابق وزیر اعلیٰ اور سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو کے چچا شیوپال یادو کے رابطے میں بھی ہیں۔ ایس پی سے بری طرح ناراض اور پرگتی شیل سماج وادی پارٹی بنائے بیٹھے شیو پال کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ یو پی کی کوئی 20 لوک سبھا سیٹوں کے ووٹرس کو متاثر کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
جنوری 2004 میں جب سونیا گاندھی اٹل بہاری واجپائی کی قیادت والے این ڈی اے سے محاذ آرائی میں مصروف تھیں، کانگریس نے اپنی حکمت عملی طے کرنے کے لیے ایک سروے کرایا تھا۔ اس سروے نے بتایا کہ اگر سونیا، پرینکا اور راہل گاندھی پوری تندہی سے انتخابی مہم چلاتے ہیں تو، 14ویں لوک سبھا کے نتائج اس سے الٹ آ سکتے ہیں، جیسے کہ اس وقت آثار نظر آ رہے تھے۔ اصل میں یہ وہ وقت تھا جب واجپائی کی شخصیت کے سائے تلے این ڈی اے کا ستارہ عروج پر تھا۔ شائننگ انڈیا مہم کا ہر سو چرچہ تھا؛ ہند و پاک تعلقات بہتر ہوئے تھے، معاشی ترقی کا دور دورہ تھا اور کئی میگا پروجیکٹس جیسے سنہری چہار رخی شاہراہ (golden quadrilateral highway) بہت تیزی سے چل رہے تھے۔
اس سروے کے نتائج پر سونیا گاندھی کی رہائش گاہ 10 جن پتھ میں سونیا، راہل اور پرینکا نے بہت گہرائی سے غوروخوض کیا۔ طول و طویل گفت و شنید کے بعد فیصلہ لیا گیا کہ راہل کو میدان سیاست میں قدم رکھنا چاہیے۔ پرینکا نے اس وقت سیاست میں آنے سے پرہیز کیا۔ جس کی ان کے پاس بہت مناسب وجہ، ان کے دو بچوں ‘ریحان’اور’میریا’ کی پرورش تھی۔ اسی میں وہ اپنا پورا وقت و دھیان لگا رہی تھیں۔ البتہ ڈنر سے پہلے جب یہ مذاکرات ختم ہوئے تو پرینکا نے یہ وعدہ کیا کہ وہ “ہمیشہ ساتھ”رہیں گی اور جب بھی حالات کا تقاضہ ہوا، سیاست میں “کود” پڑیں گی۔
اب پندرہ سال بعد پرینکا اس سے متفق ہیں کہ آج کی صورتحال ان کے سیاست میں آنے کی متقاضی ہے۔ وہ سیاست میں کود پڑیں اور اپنے بھائی کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہو کر مخالفین کو شکست دینے میں جٹ جائیں۔ اکتوبر 2018 سے جنوری 2019 کے بیچ (پلواما حملے اور ایئر اسٹرئیک سے پہلے) کانگریس یو پی اور ملک کے مختلف حصوں میں کئی سروے کرا چکی ہے۔ ان سے یہ نتیجہ سامنے آیا ہے کہ اکیلی پرینکا ہی کانگریس کی انتخابی مہم میں جان پھونکنے کے لیے کافی ہیں۔ انہیں ایک فطری لیڈر مانا جاتا ہے۔ ان کی حاضر جوابی اور طنزیہ جملے کانگریس کو وہ جوش و جذبہ دیں گے، جس کی آج اسے سخت ضرورت ہے۔ اندرا گاندھی سے ملتی جلتی ان کی شباہت، پارٹی کیڈر؛ خصوصاً نوجوانوں کو متاثر و متحرک کرنے کی صلاحیت، اس کےعلاوہ ایک مشفق ماں، ذمہ دار اور حوصلہ مند شریک حیات ہونے کے ساتھ ایسی شخصیت جو سدا اپنے خاندان کے ساتھ کھڑی ہے۔ پرینکا گاندھی کی یہ خوبیاں انہیں ایک جداگانہ پہچان دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان سے سبھی کی امیدیں وابستہ ہونے کی اپنے آپ میں بڑی اہمیت ہے۔
انہیں باتوں کے مدنظر یہ طے کیا گیا کہ انہیں 21ویں صدی کی لیڈر کے طور پر پیش کیا جائے۔ ایسی لیڈر جو اسمارٹ، پر کشش، اپنی تمام ذمہ داریاں بخوبی نبھانے والی اور مخالفین کو بے باکی سے بھرپورجواب دینے والی ہے۔ کانگریس کا منصوبہ ہے کہ آئندہ لوک سبھا الیکشن میں پارٹی کسی طرح 125 سیٹوں سے زائد جیت لائے، جس سے دہلی میں سرکار بناتے وقت اسے مناسب جگہ ملے اور نئی سرکار میں کم از کم وزارت داخلہ، دفاع اور فائنانس اسی کے پاس رہیں۔
ہندوستانی سیاست میں قابلیت و مہارت کو لے کر کوئی خاص معیار طے نہیں ہیں۔ اندرا گاندھی 20ویں صدی کی عظیم رہنما تصور کی جاتی ہیں، لیکن انہیں کسی شعبے میں تخصیص کے ساتھ کام کرنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ نہ ہی ان کے پاس اعلیٰ تعلیمی اسناد تھیں۔ سونیا نے کانگریس کو یکے بعد دیگرے 2004 او ر 2009 میں فتح دلائیں۔ ان کے پاس بھی کوئی پروفیشنل یا تعلیمی ڈگری نہیں ہے۔ یہ ضرور ہے کہ انہوں نے خود کو زندگی کی یونیورسٹی سے اعلیٰ درجے کی تعلیم حاصل کرنے والی بہترین طالبہ ثابت کر کے دکھایا۔ اسی طرح واجپائی سے لے کر مودی تک دیکھیں تو کسی کے پاس کوئی اختصاصی ڈگری یا اعلیٰ تعلیم کی سند نہیں ہیں، مگر وہ عوام کے محبوب لیڈران میں شامل ہیں۔ خصوصاً ہندوستان کی مڈل کلاس ان پر فدا ہے، جس کے پاس تخصیصی یا پروفیشنل طور پر اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔
باہمی تعلقات نبھانا اور فوری ردعمل ظاہر کرنا یا فوراً فیصلہ لینا پرینکا کی بڑی خوبیاں ہیں۔ چند سال پہلے مودی نے طنز کیا تھا کہ کانگریس اب بوڑھی ہوتی جا رہی ہے۔ تب پرینکا نے کہا تھا؛کیا میں بوڑھی دکھتی ہوں؟
اپنے چچا سنجے گاندھی کی طرح پرینکا اپنے کارکنان کا جوش بنائے رکھتی ہیں، اتنا کہ وہ ان کی ہدایت ملنے پر کبھی بھی اور کچھ بھی کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ ان کی موجودگی سے صرف کانگریس کی چمک دمک میں اضافہ ہوگا ایسا نہیں ہے، بلکہ کارکنان میں باہمی تعاون پیدا ہوگا اور انہیں ایک مقصد نظر آنے لگے گا۔ حوصلہ اور ہمت حاصل کرنے منا لیا گیا ہے۔ یہ ایسا کارنامہ ہے جو یا تو جواہر لعل نہرو کر پائے تھے یا اندرا گاندھی نے کر دکھایا تھا۔
اب پرینکا کے سامنے اہم کام یہی ہے کہ وہ انہیں ملنے والی اہمیت و ان سے وابستہ جذبات کو ووٹ میں بدل سکیں نیز مڈل کلاس، اونچی ذات والوں، خواتین اور نوجوانوں کو کانگریس کی طرف راغب کر سکیں۔ یہ کہنا آسان ہے لیکن ایک مشکل کام ہے، کیونکہ ہندوستان کی مڈل کلاس اونچے طبقے کے ذریعے کیے جانے والے غلط کاموں کو آسانی سے نہیں بھولتی ہے۔
راہ بہت کٹھن ہے لیکن پرینکا گاندھی وزیر اعظم نریندر مودی کی باتوں کا معقول جواب دینے اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی کا مشرقی اتر پردیش میں اثر کم کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو یہ ان کا بڑا کارنامہ ہوگا۔
(صحافی اور قلمکار رشید قدوائی اوآرایف کے وزیٹنگ فیلو ہیں۔ان کا کالم پیر کے روز شائع ہوتا ہے، پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔ )