ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا کا یہ بیان اترپردیش اور کرناٹک میں شہریت ترمیم قانون کے خلاف مظاہروں کی رپورٹنگ کر رہے کئی صحافیوں کو حراست میں لینے کے بعد آیا ہے۔
نئی دہلی: ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا نے کرناٹک اور اترپردیش میں جاری مظاہروں میں صحافیوں کے خلاف کیے گئے’تشدد اور بربریت’کی سوموار کو مذمت کی اور کہا کہ اس طرح کے قدم جمہوریت کی آواز کا ‘گلا گھونٹتے’ ہیں۔اترپردیش اور کرناٹک میں شہریت ترمیم قانون کے خلاف مظاہروں کی رپورٹنگ کر رہے کئی صحافیوں کو حراست میں لیا گیا۔ ان صحافیوں میں ‘ دی ہندو’ اخبار کے صحافی عمر راشدبھی شامل ہیں،جن کو لکھنؤ میں حراست میں لیا گیا تھا۔
انگریزی اخبار ‘دی ہندو’کےصحافی عمر راشدکو 20 دسمبر کو لکھنؤ میں بی جے پی دفتر کے پاس ایک ریستوراں سے پولیس نے حراست میں لیا تھا۔ پولیس نے ان کوشہریت ترمیم قانون کے خلاف لکھنؤ میں ہوئے تشددکی سازش کرنے کا ملزم بتایا۔راشد نے بتایا تھا کہ اپنی پہچان بتانے کے بعد بھی سادے کپڑوں میں آئے 3 سے 5 لوگ میرے دوست کے ساتھ مجھے لے گئے۔
راشد نے کہا تھا، ‘وہ(پولیس) مجھ سے سوال پوچھ رہے تھے کہ کچھ کشمیری یہاں آتے ہیں اور تشدد میں شامل ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے مجھ سے غیر مہذب زبان میں بات کی اور کہا کہ تم اپنی صحافت کہیں اور دکھانا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کے پاس میرے خلاف ثبوت ہیں۔ انہوں نے دوبارہ ہمیں جیپ میں بٹھایا اور پولیس چوکی لے گئے۔ وہاں ایک اور پولیس حکام نے ہم پر فرقہ وارانہ تبصرے کرتے ہوئے کہا کہ وہ میری داڑھی نوچ لیں گے۔’
اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ دفتر اور ریاست کے ڈی جی پی او پی سنگھ کو فون کئے جانے کے بعد راشد کو چھوڑا گیاتھا۔
گلڈ نے ایک بیان میں کہا کہ سکیورٹی فورسز کو یہ یاد رکھناچاہیے کہ صحافی خبر جمع کرنے کا اپنا فرض پورا کرنے کے لیے مظاہرے کی جگہوں پر موجود ہوتے ہیں،جس کا حق ان کو آئین نے دیا ہے۔انھوں نے کہا’ ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا ملک کے مختلف حصوں میں خاص کر کرناٹک اور اترپردیش میں میڈیا اہلکار کے خلاف پچھلے ایک ہفتے میں پولیس کے ذریعے کیے گئے تشدد اور بربریت کی مذمت کرتا ہے۔’
ادارےنے کہا،’گلڈ ملک بھر کے پولیس فورسز کو یہ یاد دلاتا ہے کہ مظاہرے کی جگہوں پر مختلف کیمپس میں موجود صحافی اطلاع جمع کرنے اور اپنے میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے لوگوں تک ان کو پہنچانے کا اپنا فرص پورا کر رہے ہیں،جس کا ان کو آئین نے حق دیا ہے۔ وہ اپنا کام کر رہے صحافیوں کے خلاف فورس کا استعمال یا تشدد جمہوریت کی آواز اور میڈیا کی آزادی کا گلا گھونٹتی ہے۔’
گلڈ نے وزارت داخلہ سے کہا کہ پولیس کو صحافیوں کو سکیورٹی مہیا کرانے کی ہدایت دیں اور اس وقت صحافیوں کو نشانہ بنانے کی جگہ’مناسب’ اور ‘ذمہ دار’کوریج یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ صحافیوں کے خلاف تشدد جیسے کاموں سے یہ ممکن نہیں ہے۔
واضح ہو کہ شہریت ترمیم قانون، 2019 کے پاس ہونے کے بعد سے ہی لکھنؤ سمیت ملک کے مختلف حصوں میں لگاتاراحتجاج اور مظاہرے ہو رہے ہیں۔ گزشتہ 19 دسمبر کو بھی اسی طرح کاملک گیر احتجاج اور مظاہرہ ہوا تھا۔
گزشتہ 20 دسمبر کو شہریت قانون کے خلاف دہلی سمیت اتر پردیش کے گورکھپور، بہرائچ، فیروزآباد، کانپور، بھدوہی، بہرائچ، بلندشہر، میرٹھ، فرخ آباد، سنبھل وغیرہ شہروں میں بڑے پیمانے پر تشدد کے معاملے درج کیے گئے تھے۔ ان مظاہروں میں25 لوگوں کی موت ہونے کی خبر ہے۔
اس قانون میں افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے مذہبی استحصال کی وجہ سےہندوستان آئے ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائی کمیونٹی کے لوگوں کو ہندوستانی شہریت دینے کااہتمام کیا گیا ہے۔اس ایکٹ میں ان مسلمانوں کوشہریت دینے کے دائرے سے باہر رکھا گیا ہے جو ہندوستان میں پناہ لینا چاہتے ہیں۔اس طرح کے امتیازکی وجہ سے اس کی تنقید کی جا رہی ہے اور اس کو ہندوستان کی سیکولرفطرت کو بدلنے کی سمت میں ایک قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ابھی تک کسی کو اس کے مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے سے منع نہیں کیا گیا تھا۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)