نیشنل ہیرالڈ کیس میں ای ڈی کی چارج شیٹ کے چھ ماہ بعد گاندھی فیملی کے خلاف نئی ایف آئی آر کیوں درج کی گئی؟ کیا ای ڈی کو منی لانڈرنگ کے ثبوت ملے ہیں؟ اس معاملے کو سیاسی طور پر اتنا حساس کیوں مانا جا رہا ہے؟ دی وائر کی یہ رپورٹ اس پورے معاملے کی پرتیں کھولتی ہے۔
کانگریس لیڈر سونیا گاندھی کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل ابھیشیک منو سنگھوی 4 جولائی 2025 کو نئی دہلی کی راؤز ایونیو کورٹ میں نیشنل ہیرالڈ کیس کی سماعت کے لیے پہنچے۔ (تصویر: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کی جانب سے نیشنل ہیرالڈ معاملے میں دہلی پولیس کے اقتصادی جرائم ونگ (ای او ڈبلیو) میں درج کی گئی تازہ ترین ایف آئی آر کے بارے میں کانگریس لیڈر اور سینئر وکیل ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا ہے کہ یہ ‘تاخیر سے اٹھایا گیاقدم’ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ٹرائل جج کے سامنے دلیل دی تھی کہ اس معاملے میں کوئی ‘پریڈیکٹ آفنس’ یعنی بنیادی جرم موجودنہیں ہے۔
ای ڈی افسر شیو کمار گپتا کی جانب سے 3 اکتوبر کو درج کی گئی ایف آئی آر میں سونیا گاندھی، راہل گاندھی، سمن دوبے، سیم پترودا، ینگ انڈین، ڈوٹیکس مرچنڈائز پرائیویٹ لمیٹڈ، سنیل بھنڈاری، ایسوسی ایٹڈ جرنلز لمیٹڈ (اے جے ایل) اور کچھ نامعلوم افراد کو تعزیرات ہند کی دفعات 420 (دھوکہ دہی)، 406 (خیانت مجرمانہ)، 403 (جائیداد کا بے ایمانی سےغلط استعمال) اور 120بی –(مجرمانہ سازش) کے تحت ملزم بنایا گیا ہے۔
ایف آئی آر میں الزام لگایا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے نیشنل ہیرالڈ کو عوامی مقاصد کے لیے رعایتی نرخوں پر الاٹ کی گئی جائیدادوں کو گاندھی خاندان اور کانگریس کے دیگر رہنماؤں نے ذاتی فائدے کے لیے ‘ہڑپ لیا’، جو سنگین مجرمانہ سازش اور مالی دھوکہ دہی کا معاملہ ہے۔
ایف آئی آر پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا، ‘نیشنل ہیرالڈ کیس میں درج کی گئی یہ نئی ایف آئی آر ٹرائل جج کے سامنے دیے گئے میرے دلائل کو غیر ارادی خراج تحسین ہے، جب میں نے کہا تھا کہ اس کیس میں کوئی
پریڈیکٹ آفنس موجود نہیں ہے ۔’
انہوں نے مزید کہا،’میں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر کوئی پریڈیکٹ آفنس نہیں ہے، تو منی لانڈرنگ کا جرم (پی ایم ایل اے) نہیں بن سکتا۔ شاید اسی بڑی قانونی کمی کو دور کرنے کے لیے یہ نئی ایف آئی آر معمولی تبدیلیوں کے ساتھ درج کی گئی ہے۔ یہ زیادہ فعال اور حد سے زیادہ ہوشیار پراسیکیوشن کی ایک مثال ہے۔ ذہن میں رکھیں، یہ فوجداری قانون ہے، جو بدنیتی پر مبنی یا انتقامی نہیں ہونا چاہیے۔’
کیا یہ سب سمجھنے میں بہت پیچیدہ لگ رہا ہے… آئیے اسے آسان لفظوں میں سمجھتے ہیں۔
ابھیشیک منو سنگھوی کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ گاندھی خاندان کے خلاف درج کی گئی نئی ایف آئی آر دراصل ای ڈی کی طرف سے ایک ‘شیڈولڈ جرم’ کو شامل کرنے کی ‘اصلاحی کوشش’ ہے جو پہلے موجود نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ای ڈی کا معاملہ عدالتوں میں کمزور پڑ رہا تھا۔ نئی ایف آئی آر کو اس خلا کو پُر کرنے اور عدالت میں ای ڈی کے کیس کو مضبوط کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
سونیا اور راہل گاندھی دونوں کو انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) اور محکمہ انکم ٹیکس نے پہلے بھی کئی بار پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا ہے۔ ہر بار، یہ معاملہ ایک سیاسی طوفان کی شکل اختیار کرجاتا ہے اور بی جے پی اور کانگریس کے درمیان بڑے تصادم کی وجہ بنتا ہے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ یہ معاملہ ہے کیا ؟ بی جے پی اسے گاندھی خاندان کی مبینہ بداعمالیوں کی مثال کے طور پر پیش کرتی ہے، جبکہ کانگریس اسے جھوٹااور سیاسی انتقام کی کارروائی قرار دیتی ہے۔
کیا یہ واقعی سیاسی انتقام ہے، یا گاندھی خاندان نے کوئی ایسا کام کیا ہے جو انہیں مستقبل میں مشکل میں ڈال سکتا ہے؟
یہاں نیشنل ہیرالڈ کیس کے تمام اہم پہلوؤں کی مفصل جانکاری پیش کی جا رہی ہے، جو گزشتہ دہائی کے سب سے زیادہ متنازعہ اور سیاسی طور پر حساس معاملات میں سے ایک رہا ہے۔
تاریخ
نیشنل ہیرالڈ اخبار کا اجرا لکھنؤ میں 1938 میں کیا گیاتھا۔ اس وقت کے متحدہ صوبہ (اب اتر پردیش) کے ممتاز مجاہد آزادی— آچاریہ نریندر دیو، رفیع احمد قدوائی، پرشوتم داس ٹنڈن، کیلاش ناتھ کاٹجو، اور جواہر لال نہرو نے مل کر اس کی شروعات کی تھی۔ ایسوسی ایٹڈ جرنلز لمیٹڈ (اے جے ایل) نیشنل ہیرالڈ کی پیرنٹ کمپنی تھی۔
اے جے ایل کی پالیسی انڈین نیشنل کانگریس کے اصولوں کے مطابق اپنی اشاعتوں کی سمت اور پالیسیوں کو برقرار رکھنا تھی، جو اس وقت برطانوی راج کے خلاف سب سے بڑا سیاسی پلیٹ فارم تھا۔ نیشنل ہیرالڈ کو شروع کرنے کا مقصد تحریک آزادی کی آواز کو ایک ایسے وقت میں عوام تک پہنچانا تھا جب زیادہ تر اخبارات نے یا تو برطانوی حکومت کا ساتھ دے رہے تھے یا پھر سنسر شپ کا سامنا کر رہے تھے۔
یہی وجہ تھی کہ نیشنل ہیرالڈ اور اے جے ایل کی دیگر اشاعتیں – ‘قومی آواز’ (اُردو) اور ‘نوجیون’ (ہندی) کانگریس کے نظریے سے گہرائی سے وابستہ رہیں۔
آزادی کے بعد، اے جے ایل نے ایک کاروباری ادارے کے طور پر اپنی اشاعتیں نہیں چلائیں۔ نتیجے کے طور پر، 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں مسلسل نقصان اٹھانے کے بعد، نیشنل ہیرالڈ 1990 کی دہائی کے آخر تک مالی طور پر غیر مستحکم ہو گیا، یہاں تک کہ اپنے ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے سے بھی قاصر رہا۔
دریں اثنا، جب کسی بھی بینکنے منفی مالیت والی کمپنی کو قرض دینے سے انکار کر دیا ،تب اے جے ایل نے کانگریس پارٹی سے مالی مدد طلب کی۔ 2002 اور 2010 کے درمیان آل انڈیا کانگریس کمیٹی(اے آئی سی سی) نے اے جے ایل کو چیک کے ذریعے کئی چھوٹے قرضے فراہم کیے، جن کی کل رقم تقریباً 90.21 کروڑ روپےتھی۔ اے جے ایل کا کہنا ہے کہ یہ رقم ملازمین کی تنخواہوں، گریجویٹی، پراویڈنٹ فنڈز، ٹیکس اور دیگر سرکاری واجبات کی ادائیگی کے لیے استعمال کی گئی۔
نیشنل ہیرالڈ کی اشاعت کو 2008 میں عارضی طور پر
روک دیا گیا تھا ۔ اے جے ایل کی مسلسل بگڑتی ہوئی مالی صورتحال کے پیش نظراس وقت کے کانگریس کے خزانچی موتی لال وورا نے قانونی اور مالیاتی ماہرین کے مشورے سے کمپنی کی تنظیم نو کا منصوبہ بنایا۔
اس اسکیم کے تحت، ‘ینگ انڈین’ کے نام سے ایک غیر منافع بخش کمپنی نومبر 2010 میں قائم کی گئی، جو کمپنی ایکٹ، 1956 کی دفعہ 25 (اب 2013 ایکٹ کی دفعہ 8) کے تحت رجسٹرڈ کیا گیا۔ سونیا گاندھی، راہل گاندھی، موتی لال وورا، آسکر فرنانڈس، سمن دوبے، اور سیم پترودا اس کمپنی کے شیئر ہولڈر بن گئے۔
کانگریس نے ینگ انڈین سے 50 لاکھ روپے کا قرض لیا اور اے جے ایل کے قرض کے حقوق اس نئی کمپنی کو منتقل کر دیے۔ اے جے ایل نے بعد میں تجویز پیش کی کہ اس کے قرض کو ینگ انڈین کے پاس رکھے ہوئے شیئر میں تبدیل کر دیا جائے تاکہ اس کی بیلنس شیٹ کو صاف کیا جا سکے اور ایک نئی شروعات کی جا سکے۔ یہ عمل کارپوریٹ ورلڈ میں عام ہے، جیسا کہ دیوالیہ پن کے معاملات میں
قرض کو ایکویٹی میں بدلنا ۔
ینگ انڈین،اے جے ایل میں اکثریتی شیئر ہولڈر بن گیا، جس نے کمپنی کو اپنے آپ کو بحال کرنے کا موقع فراہم کیا۔ نومبر 2016 میں اے جے ایل کی تینوں اشاعتیں—نیشنل ہیرالڈ، قومی آواز، اور نوجیون — کو ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے طور پر دوبارہ شروع کیا گیا۔
نیشنل ہیرالڈ معاملے میں احتجاج کرنے والے یوتھ کانگریس کے ارکان کو اپریل 2025 میں دہرادون میں حراست میں لیا گیا ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)
پھر معاملے کی بنیاد کیا ہے؟
تنازعہ فروری 2013 میں اس وقت شروع ہوا جب ہندوتوا کے حامی رہنما ڈاکٹر سبرامنیم سوامی نے دہلی کی ایک عدالت میں ایک نجی فوجداری شکایت دائر کی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ینگ انڈین شیئر ہولڈرز – سونیا اور راہل گاندھی، موتی لال وورا، سیم پترودا، آسکر فرنینڈس، اور سمن دوبے نے گاندھی خاندان کے ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے کانگریس پارٹی کے فنڈز ایک نجی کمپنی کو منتقل کیے۔
سوامی نے اسی سال اگست میں بی جے پی میں شمولیت اختیار کی ۔
اگرچہ سوامی نے اپنے الزامات کی تائید کے لیے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا، لیکن انھوں نے دعویٰ کیا کہ گاندھی خاندان نے اے جے ایل کی غیر منقولہ جائیدادوں پر قبضہ کر لیا ہے اور کانگریس پارٹی کو ‘دھوکہ’ دیا ہے۔
عدالت نے شکایت قبول کرتے ہوئے گاندھی خاندان کو سمن جاری کیا۔ اس کیس کی سماعت 2016 سے 2021 تک ہوئی، اس دوران سوامی سے بار بار پوچھ گچھ کی گئی، لیکن وہ کوئی ٹھوس ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ وہ کئی مواقع پر سماعتوں سے بھی غیر حاضر رہے۔ آخر کار انہوں نے خود دہلی ہائی کورٹ سے اپنے ہی کیس کو ملتوی کرنے کا مطالبہ کر دیا۔
یہ نجی شکایت ابھی تک زیر سماعت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی ای ڈی نئے سمن جاری کرتا ہے، بی جے پی اور کچھ میڈیا آؤٹ لیٹس نیشنل ہیرالڈ کیس کو کانگریس پر حملہ کرنے کے موقع کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
جب معاملہ ٹھنڈا ہونے لگا تو ای ڈی نے سوامی کی شکایت کی بنیاد پر پریوینشن آف منی لانڈرنگ ایکٹ (پی ایم ایل اے) کے تحت تحقیقات شروع کی، جسے اپوزیشن لیڈروں کے خلاف کارروائی کرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ای ڈی کے اس وقت کے ڈائریکٹر راجن کٹوچ نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھاکہ نجی شکایت ای ڈی کی تحقیقات کی بنیاد نہیں ہو سکتی۔ سپریم کورٹ نے کئی معاملات میں یہ بھی کہا ہے کہ ای سی آئی آر(جو کہ ایف آئی آر کی طرح ہے) قانونی طور پر رجسٹرڈ جرم پر مبنی ہونا چاہیے۔ یہ شاید پہلا موقع تھا جب ای ڈی نے کسی نجی شکایت کی بنیاد پر تحقیقات شروع کی تھی۔
راجن کٹوچ کا فوراً تبادلہ کر دیا گیا، اور جون 2021 میں نئی قیادت کے تحت باضابطہ تحقیقات شروع ہوئیں۔ اس کے بعد سونیا گاندھی، راہل گاندھی، کانگریس صدر ملیکارجن کھڑگے،اور دیگر سے کئی بار طویل پوچھ گچھ کی گئی۔
کانگریس قائدین نے مسلسل کہا ہے کہ اے جے ایل اور ینگ انڈین دو الگ الگ ادارے ہیں، اور ان کے درمیان کبھی کوئی مالی لین دین نہیں ہوا ہے۔ اے جے ایل کی بحالی اس کی جائیدادوں سے کرایہ کی آمدنی سے منسوب ہے، کوئی مالی ہیرا پھیری نہیں۔ اور ینگ انڈین کا قیام صرف اور صرف اے جے ایل کو زندہ کرنے کے مقصد سے کیا گیا تھا۔
اس کے باوجود، ای ڈی نے منی لانڈرنگ کیس کو جاری رکھا ہے، حالانکہ وہ اپنے منی لانڈرنگ کے الزامات کی حمایت کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کر پایا ہے۔
درحقیقت، ایجنسی نے ابھی تک یہ نہیں بتایا ہے کہ ینگ انڈین کے شیئر ہولڈرز کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات کس بنیاد پر لگائے گئے ہیں۔
ای ڈی کے الزامات اور کانگریس کا جواب
تقریباً چھ ماہ قبل ای ڈی نے اس معاملے میں چارج شیٹ داخل کی، جس میں گاندھی خاندان اور دیگر پر مالی دھوکہ دہی اور منی لانڈرنگ کا الزام لگایا گیا۔
ای ڈی کا دعویٰ ہے کہ ینگ انڈین کو صرف اور صرف اے جے ایل کی جائیدادوں پر قبضہ کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، جسے حکومت نے مفاد عامہ میں رعایتی شرحوں پر دیا تھا۔ ایجنسی نے کہا کہ یہ جائیدادیں 2,000 کروڑ کی ہیں، اور ینگ انڈین نے محض 50 لاکھ روپے دے کر ان کا حقوق حاصل کر لیا۔
تاہم، کانگریس کا کہنا ہے کہ اے جے ایل اب بھی اے جے ایل کی
جائیدادوں کا مالک ہے ، اوراس کی کرایہ کی آمدنی میں سے ایک روپیہ بھی ینگ انڈین کو نہیں ملا ہے۔
سپریم کورٹ نے 2012 کے ووڈافون کیس میں واضح طور پر کہا تھا کہ کسی کمپنی کے شیئر ہولڈرز کا کمپنی کے اثاثوں پر کوئی حق نہیں ہے… اثاثے کمپنی کے ہوتے ہیں۔
کانگریس پارٹی نے بھی مسلسل کہا ہے کہ ای ڈی نے جان بوجھ کر اے جے ایل کی جائیدادوں کی قیمت (2,000 کروڑ روپے) بڑھا چڑھا کر بتائی ہے۔ محکمہ انکم ٹیکس کے مطابق، 2010-11 میں ان جائیدادوں کی کل مالیت 392 کروڑ روپے تھی۔ اگرچہ اس کے بعد سے جائیداد کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہو، پھر بھی وہ ای ڈی کے اندازے سے کہیں میل نہیں کھاتی ہیں۔
ای ڈی کے نیشنل ہیرالڈ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے بی جے پی کارکن اپریل 2025 میں کانگریس پارٹی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے۔ (تصویر: پی ٹی آئی)
الزام تراشی
ای ڈی نے ینگ انڈین پر شیل کمپنی سے ایک کروڑ روپے کا غیر قانونی قرض لینے کا بھی الزام لگایا۔
کانگریس نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ینگ انڈین نے ڈوٹیکس مرچنٹائز پرائیویٹ لمیٹڈ سے چیک کے ذریعے دسمبر 2010 میں 14فیصدسود پر 1 کروڑ کا قرض لیا تھا۔ ڈوٹیکس ،آر پی جی گروپ کی کمپنی ہے اور ریزرو بینک آف انڈیا کے ساتھ رجسٹرڈ این بی ایف سی ہے، اس لیے کسی غیر قانونی مالی لین دین کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
کانگریس نے یہ بھی الزام لگایا کہ ای ڈی نے اپنی چارج شیٹ میں جھوٹا دعویٰ کیا کہ یہ قرض ینگ انڈین کے قیام سے پہلے لیا گیا تھا۔ کانگریس کے مطابق، ڈوٹیکس چیک کی تاریخ 24 دسمبر 2010 ہے، یعنی کمپنی کے قیام کے بعد، جب کہ ای ڈی نے اس کی تاریخ 24 اکتوبر 2010 بتائی ہے۔
ای ڈی نے ابھی تک اس سنگین الزام کا جواب نہیں دیا ہے۔
نئی ایف آئی آر کاکیا مطلب ہے؟
جب ای ڈی نے منی لانڈرنگ کی روک تھام کے ایکٹ کے تحت اس معاملے میں چارج شیٹ داخل کی تو کئی قانونی ماہرین نے نشاندہی کی کہ ای ڈی صرف ‘شیڈولڈ جرم’یعنی پہلے سے درج ایف آئی آر یا قانونی شکایت کی بنیاد پر تحقیقات شروع کر سکتی ہے۔ یہ بات اس وقت کے ای ڈی کے ڈائریکٹر راجن کٹوچ نے بھی کہی تھی، جن کا بعد میں تبادلہ کر دیا گیا تھا۔
اب تک ای ڈی نیشنل ہیرالڈ کیس میں پریڈیکٹ آفنس (جسے ایف آئی آر کے طور پر درج کیا جانا چاہیے تھا) کی عدم موجودگی کو اہمیت نہیں دی تھی۔ ایجنسی نے استدلال کیا تھاکہ جب ٹرائل کورٹ نے سبرامنیم سوامی کی نجی شکایت کو قبول کرلی تھی، اس کے بعد اس نے اپنی تحقیقات شروع کی، جس میں ایک شیڈولڈجرم کے ہونے کا ذکر کیاگیا تھا۔
لیکن اب ای ڈی نے محسوس کیا ہے کہ رجسٹرڈایف آئی آر کے بغیر اس کی کارروائی عدالت میں نہیں ٹھہرے گی۔
بتادیں کہ شیڈولڈ آفنس ان جرائم کی فہرست کو کہا جاتاہے جو مختلف فوجداری اور خصوصی قوانین جیسے نارکوٹک ڈرگس اینڈ سائیکو ٹراپک سبسٹینس ایکٹ، 1985 اور غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ، 1967 کے تحت آتے ہیں، اور جنہیں منی لانڈرنگ کی روک تھام کے ایکٹ (پی ایم ایل اے) میں مطلع اور درج کیا گیا ہے۔
دی وائر سے بات کرنے والے سینئر وکلاء نے واضح کیا کہ ای ڈی کی کسی بھی کارروائی کے لیے ایک شیڈولڈ جرم کا ہونا لازمی شرط ہے۔
پی ایم ایل اے کا سیکشن 5 واضح طور پر کہتا ہے کہ ای ڈی کی کارروائی کسی پولیس ایف آئی آر یا قانونی شکایت پر مبنی ہونی چاہیے… صرف عدالت کی طرف سے معاملے کا نوٹس لینا کافی نہیں ہے۔
سینئر وکیل صارم نوید نے دی وائر کو بتایا،’پی ایم ایل اےصرف اس وقت لاگو ہوتا ہے جب کوئی جرم پہلے ہو چکا ہو اور اس جرم سے متعلق رقم کوآگے منتقل یا لانڈر کیا گیا ہو۔ رجسٹرڈ جرم کے بغیر، کوئی تحقیقات شروع نہیں کی جا سکتی ۔’
نوید نے کہا کہ چارج شیٹ داخل ہونے کے بعد کسی بھی تفتیشی ایجنسی کو ‘پریڈیکٹ آفنس’ سے نہیں جوڑا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا،’سب سے پہلے ایک ایف آئی آر درج کی جانی چاہیے۔ اگر چارج شیٹ داخل ہونے کے بعد کوئی ایف آئی آر ‘ریٹروفٹ’ کی جاتی ہے، تو اسے عدالت میں رد کیا جا سکتا ہے، اور اس بنیاد پر پوراپی ایم ایل اےکیس خارج کیا جا سکتا ہے۔’
عدالت میں ابھیشیک منو سنگھوی نے بھی یہی دلیل دی تھی۔
اسی وجہ سے ای ڈی (جو ابھی تک گاندھی خاندان کے خلاف منی لانڈرنگ کے ٹھوس ثبوت پیش نہیں کر پائی ہے) نے اپنی پرانی غلطی پر پردہ ڈالنے کے لیے دہلی پولیس کے پاس نئی ایف آئی آر درج کرائی ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے
یہاں کلک کریں ۔