گزشتہ صدی میں شاید ہی کسی دوسرے مفکر کے خیالات نے دنیا کو اس قدر متاثر کیا ہو، جتنا کہ کارل مارکس کے نظریات نے۔
کارل مارکس کے خیالات کی بظاہر گرمجوشی سے پذیرائی کی گئی اور بعد میں ان نظریات کی بنیاد پر چند ممالک میں حکومتوں کا قیام بھی عمل میں آیا۔ یہی سوشلسٹ نظریات کی حامل حکومتیں بعد ازاں مطلق العنانیت کے راستے پر چل پڑیں اور مارکس کے تصورات کا مفہوم ہی تبدیل کر دیا۔
جرمن فلسفی ہنس یوآخم کے مطابق مارکس اور اینگلز کے تیار کردہ ’کمیونسٹ منشور‘ کا شمار دنیا کے اہم ترین اور انتہائی بااثر سیاسی مسودات میں ہوتا ہے۔ بیسویں صدی کے دوسرے حصے میں دنیا کی تقریباً نصف آبادی اُن حکومتوں کے زیر اثر تھی، جن کی اساس ظاہری طور پر مارکس کے بنیادی نظریات پر استوار کی گئی تھیں۔ان حکومتوں کے قیام کے تناظر میں مارکس کے اپنے ہی ایک قول کو حقیقت کی تعبیر حاصل ہوئی۔
مارکس نے اپنی جوانی ہی میں لکھا تھا، ’’فلسفیوں نے صرف اور صرف دنیا کی مختلف تشریحات کی ہیں۔ لیکن اصل بات اس کو تبدیل کرنے کی ہے۔‘‘
مارکس شروع ہی سے خود کو ایک فلسفی کی بجائے ایک سائنسدان کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کے خیالات کا مرکز کام کا تجزیہ تھا اور اس کے لیے مناسب اقتصادی علم کا ہونا ضروری تھا۔ اس حوالے سے مارکس کو زیادہ تر اقتصادی معلومات ان کے دوست فریڈرک اینگلز نے فراہم کیں۔ان معلومات کے مدنظر رکھتے ہوئے مارکس نے ’سرپلس ویلیو‘ تھیوری پیش کی۔
مارکس کا یہ نظریہ بالآخر اس تصور پر مبنی ہے کہ جدلیاتی مادیت سماجی زندگی کی بنیاد ہے اور یہی آدمی کے شعور کا تعین کرتی ہے۔ مارکس کا کہنا تھا کہ مادہ ذہن سے افضل ہے۔ ذہن از خود مادے کی ایک ترقی یافتہ شکل ہے، زمان و مکان مادے کی صورتیں ہیں، ’’ہمارا رہن سہن اور کام کرنا ہمارے احساسات اور انداز فکر پر اثرانداز ہوتے ہیں۔‘‘
گزشتہ ایک سو برسوں میں مارکس کے نظریات کو عروج و زوال کا سامنا رہا ہے۔ مارکس کے نظریات ہی کی بنیاد پر سرد جنگ کا تنازعہ کھڑا ہوا تھا۔ مارکس کے جامع نظریات ہی بحیثیت مجموعی جدلیاتی مادیت اور سائنسی سوشلزم کی تشکیل کرتے ہیں اور دنیا بھر کے ممالک میں محنت کشوں کی تحریکوں کے نظریات اور پروگراموں میں شامل ہیں۔
یہی نظریات سوشلسٹ انقلابات اور کمیونسٹ معاشروں کی بنیادوں کی حیثیت رکھتے ہیں اور انہی نظریات کی بنیاد پر سابق سوویت یونین میں لینن اور ان کے جانشین سٹالن نے تاریخی مادہ پرستی کی شکل میں سوویت عوام کو کمیونسٹ طرز زندگی دیا تھا۔
ماؤ نے چین میں، ہو چی منہہ نے ویتنام میں، کم ال سنگ نے شمالی کوریا میں اور فیڈل کاسترو نے کیوبا میں انہی نظریات کو اپنے انداز میں ڈھال کر اپنایا۔ ان سب کو یقین تھا کہ مارکس نے ایک عالمگیر حقیقت کو تلاش کر نے میں کامیابی حاصل کی تھی۔
بعد ازاں انہی رہنماؤں نے مارکس کے نظریات کو اپنے ضروریات کے مطابق استعمال کرنا شروع کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ادب کے نوبل انعام یافتہ فرانسیسی ادیب البرٹ کامیو نے سن 1956ء میں کہا تھا، ’’وہ ظلم جو ہم نے مارکس کے ساتھ کیا ہے، اس کا مداوا ہم کبھی بھی نہیں کر سکتے۔‘‘
کمیونسٹ ممالک چند برسوں ہی میں آمریت میں تبدیل ہو گئے تھے۔ مارکس نے انقلاب کی بات کی تھی لیکن اس کے برعکس سوویت کمیونسٹ نظام کو مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح مارکس کے کئی دیگر مفروضات بھی یکطرفہ ثابت ہوئے۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد مغرب کے لیے مارکس کے نظریات کو مسترد کرنا اور اپنی جیت کا دعوی ٰ کرنا آسان ہو گیا تھا۔
سرمایہ دارانہ نظام کی حقیقت سن 2007ء میں اس وقت کھل کر سامنے آئی، جب پوری دنیا کو مالیاتی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ مغرب میں ایک مرتبہ پھر مارکس کے نظریات زندہ ہونا شروع ہو گئے۔ مارکس نے نہ صرف گلوبلائزیشن کے امکانات کو سرمایہ دارانہ نظام کا نتیجہ قرار دیا تھا بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کے ان اندرونی تضادات کا ذکر بھی کیا تھا، جو تواتر سے آنے والے بحرانوں کا سبب بن سکتے تھے۔
کارل مارکس نے یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ صرف چند ہاتھوں میں محدود ہو جائے گا اور ابھی تک جاری عالمی اقتصادی بحران کے دوران بھی ایسا ہی ہوا۔
چین کی حیران کن ترقی نے کئی مبصرین کو ابھی تک حیرت میں ڈال رکھا ہے۔ کمیونسٹ نظام ابھی تک کام کر رہا ہے؟ آج کمیونزم کے نام پر، جو کچھ بھی چین، کیوبا، ویتنام یا پھر وینزویلا میں کہا اور کیا جا رہا ہے، وہ سب کچھ مارکس کے اصل نظریات سے کم ہی مطابقت رکھتا ہے۔
چین کی موجودہ پالیسیاں مارکس کے نظریات سے کوسوں دور ہیں۔ چینی معاشرے میں بھی سماجی ناانصافیاں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ غریب اور امیر کے درمیان فرق بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ چینی مارکسزم اور اس ملک کے موجودہ اقتصادی نظام میں بہت بڑا تضاد پایا جاتا ہے۔
یہ مضمون 5 مئی 2018 کو شائع کیا گیا تھا۔