دہلی پولیس نے ماحولیاتی کارکن دشا روی کو کسانوں کے مظاہرہ کی حمایت کرنے والے ٹول کٹ کو شیئر کرنے میں مبینہ رول کی وجہ سے 14 فروری کو بنگلورو سے گرفتارکیا تھا۔ ان پر 26 جنوری کو کسانوں کی ٹریکٹر ریلی کے دوران ہوئےتشدد کے سلسلے میں سیڈیشن اور مجرمانہ سازش کی دفعات لگائی گئی تھیں۔
نئی دہلی: کسانوں کے مظاہرہ سے متعلق مبینہ ٹول کٹ شیئر کرنے کے معاملے میں گرفتار ماحولیاتی کارکن دشا روی کےکیس میں دہلی پولیس پچھلے نو مہینے میں کچھ بھی ٹھوس نتیجہ نہیں نکال پائی ہے، جس کی وجہ سے اس کیس میں کلوزر رپورٹ فائل کیے جانے کاامکان ہے۔
انڈین ایکسپریس نے ذرائع کے حوالے سے یہ جانکاری دی ہے۔
دہلی پولیس نے دشا روی کو ماحولیاتی کارکن گریتا تُنبیرکے ذریعے شیئر کیے گئے کسانوں کے مظاہرہ کی حمایت کرنے والے ٹول کٹ کو شیئر کرنے میں مبینہ رول کی وجہ سے14فروری کو بنگلورو سے گرفتار کیا تھا۔
ان پر 26 جنوری کو کسانوں کی ٹریکٹر ریلی کے دوران ہوئےتشددکے سلسلے میں سیڈیشن اور مجرمانہ سازش کی دفعات لگائی گئی تھیں۔
پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ 26 جنوری کو ٹریکٹر پریڈ کے دوران راجدھانی دہلی میں ہوئےتشدد سمیت کسانوں کی تحریک کا واقعاتی سلسلہ ٹوئٹر پر شیئر کیے گئے ٹول کٹ میں بتائے گئےمبینہ اسکیم سے ملتا جلتا ہے۔
اتنا ہی نہیں، انہوں نے یہ بھی الزام لگایا تھا کہ اس ‘ٹول کٹ’میں ہندوستان میں عدم استحکام پھیلانے کو لےکر سازش کامنصوبہ تھا۔پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کا سلسلہ‘پوئیٹک جسٹس فاؤنڈیشن’(پی جے ایف)کے خالصتان حمایتی کارکنوں سے ہے۔
ممبئی واقع وکیل نکیتا جیکب اور انجینئر شانتنو ملک پر بھی اس ٹول کٹ میں ترمیم کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔
ایک نامعلوم سینئر افسر نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ پولیس کو پتہ چلا تھا کہ دشا روی اور جیکب نے 26 جنوری سے پہلے مبینہ طور پر پی جے ایف کے ایم او دھالیوال، جو کہ کنیڈا میں ہیں، کے ساتھ زوم کال پر بات چیت کی تھی۔
اس کو لےکر سائبر سیل نے فروری مہینے میں یو ایس ویڈیو کمیونی کیشن پلیٹ فارم زوم کو لکھا تھا، لیکن ابھی تک وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا ہے۔
تفتیش کاروں کو ‘ٹول کٹ’کو لےکر جانکاری حاصل کرنے کے لیے گوگل سے بھی رابطہ کرنے پر اسی مسئلے کا سامنا کرنا پڑا۔
اس کے علاوہ یو کے گروپ ایکس ٹنکشن ربیلین، جس کے لیے جیکب اور شانتنو کام کرتے ہیں، نے بھی کوئی جواب نہیں دیا۔
رپورٹ کے مطابق، ضمانت پر رہا ہونے کے بعد جانچ افسروں نے روی سے بھی پوچھ تاچھ کی تھی، لیکن 26 جنوری کے تشدد کو لےکر‘مجرمانہ سازش’کے تناظر میں انہیں کچھ نہیں ملا۔
انڈین ایکسپریس نے جانچ سے وابستہ نامعلوم ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ موجودہ حالات کو دھیان میں رکھتے ہوئے پولیس چارج شیٹ فائل کرنے کی پوزیشن میں نہیں، اس لیے وہ کلوزر رپورٹ فائل کر سکتے ہیں۔
بتا دیں کہ گرفتاری کے دس دن بعد دشا روی کو ضمانت ملی تھی اور اس بیچ مین اسٹریم میڈیا نے انہیں اور کسانوں کی تحریک کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
ماحولیاتی کارکن کو ضمانت دیتے ہوئے دہلی کی عدالت نے کہا تھا کہ پولیس کے ذریعے پیش کیے گئے شواہد ‘تھوڑے اور ادھورے’ ہیں۔
ایڈیشنل سیشن جج دھرمیندر رانا نے کہا تھا کہ کسی بھی جمہوری ملک میں شہری سرکار کی ضمیر کے محافظ ہوتے ہیں۔ انہیں صرف اس لیے جیل نہیں بھیجا جا سکتا، کیونکہ وہ سرکار کی پالیسیوں سے متفق نہیں ہیں۔
عدالت نے کہا کہ ذرا بھی ثبوت نہیں ہے، جس سے 26 جنوری کو ہوئےتشدد میں شامل مجرمین سے پی ایف جے یا روی کے کسی تعلق کا پتہ چلتا ہو۔
اس کے علاوہ عدالت نے کہا کہ ظاہری طور پر ایسا کچھ بھی نظر نہیں آتا، جو اس بارے میں اشارہ دے کہ دشا روی نے کسی علیحدگی پسند نظریہ کی حمایت کی ہے۔
جیل سے رہا ہونے کے بعد اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر جاری ایک بیان میں دشا نے سوال کیا تھا کہ اس کرۂ ارض پر جینے کے بارے میں سوچنا کب جرم بن گیا؟
انہوں نے دعویٰ کیا کہ گرفتاری کے دوران ان کی خودمختاریت کی خلاف ورزی کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا، ‘میرے کاموں کو قصوروار ٹھہرایا گیا تھا – قانون کی عدالت میں نہیں، بلکہ ٹی آر پی چاہنے والوں کے ذریعے۔’