اسی سال مارچ میں ڈی جی ونجارا اور این کے امین نے سی بی آئی کی اسپیشل کورٹ میں ایک عرضی داخل کرتے ہوئے ان کو فوراً اس معاملے میں بری کرنے کی مانگ کی تھی۔ اس سے پہلے گجرات حکومت نے سی بی آئی کو دونوں سابق افسروں کے خلاف مقدمہ چلانے کی منظوری دینے سے انکار کر دیا تھا۔
احمد آباد میں منگل کو عشرت جہاں انکاؤنٹر معاملے کی سماعت کے لئے سابق پولیس افسر ڈی جی ونزارا اور این کے امین اسپیشل سی بی آئی کورٹ پہنچے۔ (فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: سی بی آئی نے یہاں ایک عدالت کو مطلع کیا کہ وہ عشرت جہاں کے مبینہ فرضی انکاؤنٹر معاملے میں پولیس کے سابق افسروں ڈی جی ونجارا اور این کے امین کو بری کئے جانے کے فیصلے کو چیلنج نہیں کرےگی۔سی بی آئی کے وکیل آرسی کوڈیکر نے سی بی آئی کے اسپیشل جج آر کے چوڑاوالا کے سامنے تحریری درخواست میں اپنے فیصلے کی جانکاری دی۔ عدالت نے معاملے میں اگلی سماعت 9 اگست کو طے کی ہے۔
2 مئی کو سی بی آئی کی عدالت نے ونجارا اور امین کو اس معاملے میں اس بنیاد پر بری کر دیا تھا کہ ریاستی حکومت نے ان کے خلاف مقدمہ چلانے کی اجازت نہیں دی۔عدالت نے غور کیا کہ سی آر پی سی کی دفعہ 197 کے تحت کسی سرکاری ملازم پر مقدمہ چلانے کے لئے حکومت کی اجازت ضروری ہوتی ہے۔اسی سال دو مئی کو سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے سی بی آئی کے ذریعے ریاستی حکومت سے مقدمہ چلانے کی منظوری لینے میں ناکام رہنے کے بعد سابق پولیس افسروں ڈی جی ونجارا اور این کے امین کے خلاف سماعت روک دی تھی۔
26 مارچ کو ڈی جی ونجارا اور این کے امین نے عرضی داخل کرتے ہوئے مانگ کی تھی کہ ان کو فوراً اس معاملے میں بری کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی مانگ کی تھی کہ اس معاملے میں بنا کوئی دیری کئے ہوئے سماعت روک دی جائے۔انہوں نے یہ عرضی گجرات حکومت کے اس فیصلے کے بعد داخل کی تھی جس میں اس نے سی بی آئی کو دونوں سابق افسروں کے خلاف
مقدمہ چلانے کی منظوری دینے سے انکار کر دیا تھا۔
غور طلب ہے کہ سی آر پی سی کی دفعہ 197 کے مطابق، سرکاری کام پر تعینات رہنے کے دوران کسی سرکاری ملازم پر اگر اس کے کاموں کے لئے مقدمہ چلانا ہے تو حکومت کی منظوری لینا ضروری ہوتا ہے۔سابق ڈی آئی جی ونجارا اور سابق پولیس سپرنٹنڈنٹ امین گجرات کے ان 7 پولیس افسروں میں شامل ہیں، جن کے خلاف 2013 میں سی بی آئی نے جون 2004 میں احمد آباد کے باہری علاقے میں ہوئی ممبئی کے قریب ممبرا کی 19 سالہ کالج اسٹوڈنٹ عشرت جہاں، اس کے دوست پرنیش عرف جاوید شیخ اور دو مبینہ پاکستانی شہری-ذیشان جوہر اور امجد رانا کے قتل کے الزام میں مقدمہ دائر کیا تھا۔
گجرات پولیس نے تب دعویٰ کیا تھا کہ یہ چاروں دہشت گرد تھے اور اس وقت کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کو مارنے آئے تھے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)