سال2015 سے ڈوئچے ویلے کی جانب سےیہ سالانہ اعزازصحافت کے شعبہ میں انسانی حقوق اور بولنے کی آزادی کے لیے کام کرنے کے لیے دیا جاتا رہا ہے۔ اس بار یہ ایوارڈ دنیا بھر کے ان صحافیوں کو دیا جا رہا ہے، جنہوں نے کو رونابحران کے دوران ان کے ملکوں میں اقتدارکے استحصال اور کارروائی کا سامنا کیا ہے۔
نئی دہلی: د ی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن سمیت 14ممالک کے 17 صحافیوں کو اس سال ڈوئچے ویلے(ڈی ڈبلیو)کے فریڈم آف اسپیچ ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا ہے۔آج3 مئی کو ورلڈ پریس فریڈم ڈے کےموقع پر یہ اعلان کیا گیا۔ سال2015 سے ڈوئچے ویلے کی جانب سےیہ سالانہ اعزازصحافت کے شعبہ میں انسانی حقوق اور بولنے کی آزادی کے لیےوابستگی سے کام کرنے کے لیے دیا جاتا رہا ہے۔
اس بار یہ ایوارڈ دنیا بھر کے ان صحافیوں کو دیا جا رہا ہے، جنہوں نے کو رونابحران کے دوران ان کے ملکوں میں اقتدارکے استحصال اور کارروائی کا سامنا کیا ہے۔واضح ہو کہ ملک گیر لاک ڈاؤن کے بیچ اتر پردیش پولیس نے سدھارتھ وردراجن کو ایودھیا طلب کیا تھا۔
ریاست کی فیض آباد پولیس کی جانب سے درج ایک ایف آئی آر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن نے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے بارے میں ‘قابل اعتراض ’تبصرہ کیا تھا۔سدھارتھ کے علاوہ دنیا بھر کے مختلف ممالک کے 16دوسرے صحافیوں کو بھی اس ایوارڈسے نوازا گیا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق، ڈی ڈبلیو کے ڈائریکٹر جنرل پیٹر لمبورگ نے برلن میں ایوارڈ جیتنے والوں کے ناموں کا اعلان کرتے ہوئے کہاکہ ، طبی شعبے میں نافذ ہنگامی حالت کے اس دور میں صحافی کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں اور ہر صحافی پر بڑی ذمہ داری عائد ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام ممالک کے شہریوں کو مصدقہ اور تنقیدی معلومات تک رسائی کا حق حاصل ہے۔کسی بھی طرح کی سینسر شپ کے نتیجے میں اموات ہو سکتی ہیں اور موجودہ حالات کی مجرمانہ یا غلط رپورٹنگ کی کوئی بھی کوشش آزادی اظہار کی کھلی خلاف ورزی ہو گی۔
وہیں اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشیل باچلیٹ نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں ایوارڈ جیتنے والے صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عام شہریوں کو اس وقت اس وبا کے بارے میں درست معلومات کی ضرورت ہے اور انہیں ان فیصلوں میں بھی شامل کیا جانا چاہیے، جو ہماری جانب سے لیے جا رہے ہیں،یہ بہت ہی حیران کن ہے کہ اس وبا کی رپورٹنگ کے دوران صحافیوں پر حملے کیے جا رہے ہیں، دھمکیاں دی جا رہی ہیں، گرفتار کیا جا رہا ہے اور ان پر من گھڑت جرائم کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں اور انہیں غائب تک کیا جا رہا ہے۔
انا لالک، سربیا
نیوز ویب سائٹ نووا ڈاٹ آر ایس [Nova.rs]کے لیے کام کرنے والی انا کو نووی ساد شہر میں طبی آلات اور پروٹیکٹو گیئر(تحفظ کے وسائل)کی کمی کو لےکر رپورٹ شائع کرنے کے لیے دو دن کی جیل ہوئی تھی۔ان پر فیک نیوز پھیلانے کاالزام لگایا گیا تھا۔معلوم ہو کہ کووڈ 19 کی وجہ سے سربیا میں ایک نیا قانون بنایا گیا ہے، جس کے تحت کو رونا وائرس پر چھپنے والی ہر خبر پر وزیر اعظم دفتر کی نظر رہےگی۔
بلاززگاگا، سلووینیا
فری لانس کے بطور کام کرنے والے بلاز انویسٹی گیٹو صحافی ہیں اور انٹرنیشنل کانسورٹیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس کا حصہ ہیں۔گزشتہ وقت میں انہیں سرکار کے استحصال کا شکار ہونا پڑا ہے، ساتھ ہی انہیں جان سے مارنے کی گمنام دھمکیاں بھی ملی ہیں۔
سیرگیج سازک، بیلاروس
آن لائن اخبار ‘یزہیدنیونک’ کے لیے کام کرنے والے سیرگیج کو 25 مارچ کو گرفتار کیا گیا اور 4 اپریل کو رہا کیا گیا۔ سرکار نے ان پر رشوت دینے کاالزام لگایا گیا تھا۔گرفتاری سے پہلے انہوں نے کو روناوبا سے نپٹنے کو لےکر سرکاری رویے کی تنقید کی تھی۔ اس سے پہلے صدر لکاشینکو کہہ چکے ہیں کہ ‘جو میڈیا اس وبا پر رپورٹ کر رہے ہیں، ان پر دھیان رکھا جانا چاہیے۔’
ایلینا میلاشینا، روس
سال 2009 میں ہیومن رائٹس واچ کے ایوارڈ سے سرفراز انویسٹی گیٹو ایلینا پر اس سال کی شروعات میں چیچنیا میں حملہ ہو چکا ہے۔گزشتہ 12 اپریل کو ‘نووایا گزیٹا’ میں انہوں نے چیچنیا انتظامیہ کے ذریعے کووڈ 19 سے نپٹنے کے بارے میں لکھا تھا، جس کے اگلے دن انہیں سوشل میڈیا پر چیچنیا کےصدر قادیروف کی جانب سے جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی۔
دراونسن روخاس، وینزویلا
وینزویلا میں کو رونا وائرس کے پھیلاؤ پر رپورٹ کرنے کے بعد فری لانس جرنلسٹ روخاس کوتشدد کے ساتھ گرفتار کیا گیا اور 12 دنوں تک حراست میں رکھ کر پوچھ تاچھ کی گئی۔ان پر نفرت پھیلانے اور اکسانےکےالزام لگائے گئے تھے۔ 2 اپریل کو انہیں ضمانت پر رہا کیا گیا ہے۔
محمد موسائید، ایران
کو رونا وائرس کو لےکر سرکار کی تیاریوں کی تنقید کرنے پرفری لانس رپورٹر موسائید کو گرفتار کیا گیا تھا۔رپورٹس کے مطابق عدالت سےشنوائی کی تاریخ ملنے کے انتظار میں بیٹھے موسائید کی صحافت پر روک لگا دی گئی ہے اور انتظامیہ کی جانب سے ان کے سبھی سوشل میڈیا اکاؤنٹ بند کر دیے گئے ہیں۔
بیٹ فک نگمبوانڈا،زمبابوے
ہفتہ وار اخبار ٹیلزم کے رپورٹر بیٹ فک کو 8 اپریل کو لاک ڈاؤن کے ضابطوں کی خلاف ورزی کرنے کے لیے گرفتار کیا گیا تھا۔ اپنی پہچان بتانے کے باوجود انہیں کئی گھنٹوں تک حراست میں رکھا گیا۔
ڈیوڈ موسیسی کاریانکولو،یوگنڈا
‘بوکےڈے ٹی وی’ کے صحافی ڈیوڈ کو اپریل کی شروعات میں ان کے گھر پر کئی سکیورٹی اہلکاروں نےبری طرح پیٹاتھا، جس کے بعد وہ تقریباً دس گھنٹوں تک کوما میں رہے تھے۔ان اہلکاروں کا کہنا تھا کہ وہ کرفیونافذ کروا رہے تھے، حالانکہ ڈیوڈ کی بیوی نے بتایا تھا کہ وہ برآمدے میں صرف نہانے کے لیے پانی لانے گئے تھے۔ بعد میں وہاں انچارج ایک پولیس اہلکار کو مبینہ طور پر ایک صحافی پر حملہ کرنے کے لیے گرفتار کیا گیا تھا۔
نرکان بایسال، ترکی
کئی ایوارڈ پا چکی نرکان پر دو الگ الگ معاملوں میں جانچ چل رہی ہے، جہاں ان پر ‘لوگوں میں دشمنی اور نفرت پھیلانے’ کےالزام ہیں۔ انہوں نے اس سے پہلے کو رونا پرانتطامیہ کے ردعمل کے بارے میں تبصرہ کیا تھا۔انہوں نے کو رونابحران کے بیچ جیل میں رہ رہے قیدیوں کے حالات پر رپورٹ لکھی تھی۔ ساتھ ہی قیدیوں کی چٹھیوں، اخباروں کے مضامین کے ساتھ اپنی رائے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی تھی۔
اسمیت سگت، ترکی
ایس ای ایس کوکیلی اخبار کے چیف ایڈیٹر اسمیت کو مارچ مہینے میں اس رپورٹ کو لےکر گرفتار کیا گیا تھا، جہاں انہوں نے کو رونا وائرس سے ہوئی دو موت کے بارے میں لکھا تھا۔ انہیں بعد میں رہا کر دیا گیا تھا۔
فاریس سائیگھ، جارڈن
جارڈن کے سب سے بڑے میڈیا ہاؤس رویا ٹی وی نے کووڈ 19 کے ملک میں پھیلاؤ کے شروعاتی دور میں بچاؤ میں ہوئی کمیوں کو اجاگر کیا تھا۔اس بارے میں شہریوں کے انٹرویو والی رپورٹ کے براڈکاسٹ ہونے کے بعد 9 اپریل کو اس کے ایم ڈی سائیگھ اور ان کے ایک معاون کو گرفتار کیا گیا تھا۔ تین دن بعد انہیں ضمانت پر چھوڑ دیا گیا۔
سووان ریتھی، کمبوڈیا
سووان ٹی وی ایف بی نیوز ویب سائٹ کے چیف ہیں۔ انہوں نے وزیر اعظم ہن سین کے دیوالیہ ہونے کی حالت پر پہنچ گئے ٹیکسی ڈرائیوروں کی مدد نہ کر پانے کو لےکر لکھا تھا۔انہیں سماج میں انتشار پھیلانے اور سماجی خطرہ پیدا کرنے کے الزام میں 7 اپریل کو گرفتار کیا گیا۔
وزارت طلاعات کے ذریعےان کا میڈیا لائسنس بھی رد کر دیا گیا ہے۔ اگر وہ قصوروار پائے گئے تو سالوں کی قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
ماریہ وکٹوریہ بیلتران،فلپنس
سیبو سٹی میں رہنے والی ماریہ رائٹر اور اداکارہ ہیں۔ انہوں نے سیبو سٹی میں کو رونا کے بڑھ رہے معاملوں کے بارے میں تنقید کرتے ہوئے فیس بک پوسٹ لکھا تھا، جس کے بعد شہر کے میئر نے پوسٹ کو ‘فیک نیوز اورمجرمانہ کارنامہ’ بتاتے ہوئے انہیں جیل بھیجے جانے کی دھمکی دی تھی۔
شین کوئشی، چین
چینی وکیل، سماجی کارکن اور سٹیزن جرنلسٹ کوئشی کو 2019 میں ہوئے ہانگ کانگ میں ہوئے مظاہروں کی کوریج کے لیے جانا جاتا ہے۔ ان مظاہروں کے کوریج کے بعد ان کا وائبو اکاؤنٹ ڈی لٹ کر دیا گیا تھا اور انہیں حراست میں لیا گیا تھا۔اس بار وہ ووہان شہر میں ڈاکٹروں اور شہریوں کا انٹرویو کر رہے تھے، انہوں نے ٹوئٹر اور یوٹیوب پر ڈاکٹروں سے بات چیت پوسٹ کی تھی۔ وہ 6 فروری 2020 سے لاپتہ ہیں۔
گزشتہ30 جنوری کو ایک ویڈیو میں انہوں نے کہا تھا، ‘مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ میرے سامنے بیماری ہے اور پیچھے چینی سرکار، لیکن جب تک میں زندہ ہوں، میں نے جو دیکھا سنا ہے، وہ بولتا رہوں گا۔’
لی زیہوا، چین
چین کے ووہان میں کو رونابحران کو کور کر رہے سٹیزن جرنلسٹ اور سی سی ٹی وی چینل کے سابق پریزینٹرلی 26 فروری سے لاپتہ تھے۔پھر 22 اپریل کو انہوں نے یوٹیوب پر ایک ویڈیو اپ لوڈ کیا جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ انہیں کورنٹائن کیا گیا ہے، لیکن ان کے اس دعوے پر سوال اٹھ رہے ہیں۔
فینگ بن، چین
بزنس مین سے سٹیزن جرنلسٹ بنے بن 2020 کی شروعات میں اپنے آبائی شہر ووہان سے کو رونا کے بارے میں رپورٹ کر رہے تھے۔ان کا سب سے مشہور ویڈیو وہ رہا تھا، جہاں انہوں نے ایک ہسپتال کے باہر کھڑی ایک ایسی گاڑی دکھائی تھی، جو کپڑوں میں لپٹی ہوئی لاشوں سے بھری ہوئی تھی۔ 2 فروری کو پولیس کے ذریعےان کا لیپ ٹاپ ضبط کر لیا گیا تھا۔ وہ 9 فروری سے لاپتہ ہیں۔
غور طلب ہے کہ ڈی ڈبلیو کی جانب سے آزادیِ صحافت کا ایوارڈ دینے کا سالانہ سلسلہ 2015 سے جاری ہے۔ اس دوران انسانی حقوق اور آزادیِ اظہار کے حق کے دفاع کی خاطر گراں قدر خدمات انجام دینے والی شخصیات اور اداروں کو اس کا حقدار ٹھہرایا جاتا ہے۔
ماضی میں سعودی بلاگر رائف بدوی، وائٹ ہاؤس کوریسپونڈینٹس ایسوسی ایشن اور میکسیکو کی صحافی اور مصنفہ انابیل ہیرنانڈیس یہ ایوارڈ جیت چکی ہیں۔ روایتی طور پر تقسیم ایوارڈ کی تقریب ہر سال بون میں ہونے والے گلوبل میڈیا فورم کے موقع پر ہوتی ہے تاہم اس مرتبہ کورونا وائرس کی وجہ سے ڈی ڈبلیو کی یہ کانفرنس آن لائن منعقد کی جائے گی۔