بی جے پی رہنما کپل مشرا اور دیگر لوگوں کے نفرت پھیلانے والے بیانات کے ویڈیو نہیں دیکھنے والے پولیس کے تبصرے پر دہلی ہائی کورٹ نے عدالت میں ویڈیو کو دیکھتے ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتہ سے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ پولیس کمشنر کے آفس میں ایک ٹی وی ہے۔ مہربانی کرکے ان سے اس کلپ کو دیکھنے کے لیے کہیں۔
نئی دہلی: گزشتہ اتوار سے دہلی میں جاری تشددکو بے حد تکلیف دہ بتاتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ نے بدھ کو کہا کہ وہ راجدھانی میں ایک اور 1984 فساد نہیں ہونے دے سکتا ہے اور ریاست کے سینئر افسروں کو بہت الرٹ رہنے کی ضرورت ہے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، ہائی کورٹ نے دہلی میں جاری تشدد میں ایک آئی بی افسر کے قتل کو افسوس ناک بتایا۔جسٹس ایس مرلی دھر نے کہا، ‘اب یہ دکھانے کا وقت آ گیا ہے کہ ہر کسی کے لیے زیڈ زمرے کی سکیورٹی ہے۔’
بتا دیں کہ گزشتہ تین دنوں سے جاری تشدد میں اب تک کم سے کم 21 لوگوں کی موت ہو چکی ہے جبکہ 250 سے زیادہ لوگ زخمی ہو چکے ہیں۔اس سے پہلے دن میں عدالت نے کہا تھا کہ وہ ‘حالات پر حیرت زدہ’ تھی کیونکہ دہلی پولیس نے کہا کہ اس نے ابھی تک بی جے پی رہنما کپل مشرااور دیگر لوگوں کے نفرت پھیلانے والے بیانات کے ویڈیو نہیں دیکھے ہیں جنہوں نے مبینہ طور شہریت ترمیم قانون (سی اے اے) کو لے کر شمال مشرقی دہلی میں بھیڑ کو حملے کے لیے اکسایا۔
جسٹس ایس مرلی دھر اور جسٹس تلونت سنگھ کی بنچ نے عدالت میں ویڈیو کو دیکھتے ہوئے مرکزی حکومت کی طرف سے پیش سالیسٹر جنرل (ایس جی) تشار مہتہ سے کہا کہ وہ ویڈیو کلپ کی جانچ کریں۔اس کے ساتھ ہی بنچ نے مہتہ سے کہا کہ وہ بی جے پی رہنماؤں انوراگ ٹھاکر، پرویش صاحب سنگھ اور کپل مشرا پر مبینہ طور پر نفرت پھیلانے والی تقریروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے لیے پولیس کمشنر امولیہ پٹنایک کو صلاح دیں۔
بنچ نے کہا، ‘ہمیں یقین ہے کہ پولیس کمشنر کے آفس میں ایک ٹی وی ہے۔ مہربانی کرکے ان سے اس کلپ کو دیکھنے کے لیے کہیں۔’راہل مہرا نے ہائی کورٹ میں کہا کہ شمال مشرقی دہلی میں تشدد میں شامل ہر شخص کے خلاف ایف آئی آر درج کی جانی چاہیے۔دہلی حکومت کے مستقل وکیل راہل مہرا نے ہائی کورٹ میں دلیل دی کہ تین بی جے پی رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر درج نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
ہائی کورٹ نے پوچھا کہ کیا تین میں سے کسی رہنما نے مبینہ متنازعہ بیان سے انکار کیا ہے ؛ عرضی گزار کے وکیل نے کہا نہیں، وہ اس میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔سالیسٹر جنرل نے کہا کہ ہائی کورٹ کو تین بی جے پی رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کو لےکر افسروں کے جواب کا انتظار کرنا چاہیے کیونکہ ابھی کوئی فیصلہ کرنے سے حالات بگڑ سکتے ہیں۔
نوٹس جاری کرتے ہوئے کورٹ نے یہ بھی کہا کہ کارروائی کے لیے پولیس کو کورٹ کے حکم کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہیں خود قدم اٹھانا چاہیے۔ یہ معاملہ سینئر وکیل کولن گونجالوس کے ذریعے ڈویژن بنچ کے سامنے ذکر کیا گیا۔ یہ الزام لگایا گیا ہے کہ بی جے پی رہنما کپل مشرا، انوراگ ٹھاکر جیسوں کے ذریعے اشتعال انگیز تقریر کرنے کی وجہ سے متنازعہ شہریت ترمیم قانون کے خلاف مظاہرہ کر رہے لوگوں پر وحشیانہ طریقے سے حملہ کیا گیا ہے۔ عرضی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 10 لوگوں کی موت ہو گئی ہے اور 150 لوگ زخمی ہیں۔
درخواست گزار نے کہا کہ موجپور، جعفر آباد، کردم پوری، بھجن پورہ ، بہرام پوری جیسے علاقوں میں لوگوں کے گھروں اور دکانوں کو آگ لگا دی گئی ہے۔ عرضی میں کہا گیا، ‘ اس کی (کپل مشرا کی تقریر) وجہ سے ہتھیاروں سے لیس بھیڑ فرقہ وارانہ گالیاں اور ‘ گولی مارو سالوں کو ‘ اور ‘ جئے شری رام ‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے موج پور میں جمع ہو گئی۔ ‘ درخواست گزار نے الزام لگایا ہے کہ 24 فروری کو ہوئے تشدد کے دن دہلی پولیس نے اس بھیڑ کو اکسایا اور اس کا ساتھ دیا جو ‘ جئے شری رام ‘ کا نعرہ لگا رہے تھے۔
یہ کہا گیا، ‘ بھجن پورہ میں آر ایس ایس سے جڑے 100 غنڈے اکٹھا ہو گئے اور لوگوں کو ہتھیار اور تلوار بانٹے۔ ‘ عرضی میں کہا گیا ہے کہ غیرسماجی عناصر کے ذریعے پولیس کی موجودگی میں پتھراؤ کیا گیا اور اس کا ثبوت دہلی حکومت کے ذریعے لگائے گئے سی سی ٹی وی کیمرے اور سوشل میڈیا پر دستیاب ویڈیو میں موجود ہے۔
اس بنیاد پر درخواست گزار نے مانگ کی ہے کہ کپل مشرا، انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما اور تشدد بھڑکانے والے دیگر لوگوں کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 147، 148، 149، 153 اے، 153بی، 120بی اور عوامی جائیداد کو نقصان پہنچانے سے متعلق ایکٹ کی دفعہ تین اور چار کے تحت مقدمہ درج کیا جائے۔ ان کی فوراً گرفتاری کی مانگ کی گئی ہے۔
اس سے پہلے رات 12:30 بجے جسٹس ایس مرلی دھر کے گھر پر ہوئی سماعت میں کورٹ نے شمال مشرقی دہلی کے علاقوں میں متاثرین کو محفوظ طریقے سے نکالنے اور ان کو صحیح سے ہاسپٹل پہنچانے کے انتظام کو یقینی بنانے کا حکم دیا تھا۔