خصوصی مضمون: فروری کےآخری ہفتے میں شمال مشرقی دہلی میں جو کچھ بھی ہوا اس کی اہم وجہوں میں سے ایک سینٹرل فورسز کو تعینات کرنے میں ہوئی تاخیرہے۔ ساتھ ہی وزیر داخلہ کا یہ دعویٰ کہ تشدد25 فروری کو رات 11 بجے تک ختم ہو گیا تھا،سچ کی کسوٹی پر کھرا نہیں اترتا۔
(یہ مضمون فروری، 2020 میں ہوئے دہلی فسادات پر لکھے گئے پانچ مضامین کا دوسرا حصہ ہے۔ پہلا حصہ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔)
اس سیریز کے پہلے مضمون میں دیے گئےتشدد کے ٹائم لائن سے ظاہر ہے کہ 24 فروری کی دوپہر تک دہلی پولیس کے اعلیٰ حکام کو اس بات کی اچھی طرح سے جانکاری تھی کہ شمال مشرقی دہلی میں حالات بےقابو ہونے والے ہیں۔اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے کہ انہوں نے وزارت داخلہ میں بیٹھے اپنے بڑے حاکموں سے یہ جانکاری شیئر نہیں کی ہوگی۔
یہاں یہ غورطلب ہے کہ راجدھانی کےنظم ونسق کے لیے نوڈل ایجنسی مرکزی وزارت داخلہ ہے نہ کہ دہلی سرکار۔ان حالات میں وزارت داخلہ سے وابستہ حکام نے تشدد کو بڑھنے سے روکنے کے لیے اور بغیر تاخیر کیے حالات کو قابو میں لانے کے لیے مطلوبہ تعدادمیں اور ضروری جگہوں پر ریپڈ ایکشن فورس تعینات کرنے کے آرڈر کیوں نہیں دیے؟
یہاں یہ یاد کیا جا سکتا ہے کہ 1992 میں سی آر پی ایف کے تحت آراے ایف اکائیوں کی تشکیل خاص طور پر ‘اسپیشل فورسز کے طور پر دنگوں اور دنگوں جیسےحالات سے نپٹنے کے لیے، سماج کے تمام طبقوں میں اعتمادپیداکرنے کے لیے اور ساتھ ہی داخلی سلامتی کی ڈیوٹی نبھانے کے لیے کی گئی تھی۔’
اس کے علاوہ جو چیز آر ا ے ایف کو باقی فورسز سے الگ کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ ‘یہ نو ٹائم میں ردعمل دینے والی فورس(زیرو رسپانس ٹائم فورس)ہے، جو مطلوبہ جگہوں پر کم سے کم وقت میں پہنچتی ہے اور اس طرح سے عام لوگوں کے بیچ تحفظ اور اعتماد کا جذبہ جگانے کا کام کرتی ہے۔’
پھر کیوں آر ا ے ایف کو 24 فروری کی دوپہر میں ہی حالات کو سنبھالنے اور تشدد کو بڑھنے سے روکنے کے لیے متاثرہ علاقوں میں وقت رہتے اور مطلوبہ تعداد میں تعینات نہیں کیا گیا؟ (23 فروری کو2:00 بجے دوپہر سے ہی حالات کے خراب ہونے کے کافی اشارے تھے۔)
کیا حالات کو اور بگڑنے دینے اور فرقہ وارانہ تشدد کوپھیلنے دینے کی اجازت دینے کے پیچھے کوئی خاص وجہ تھی؟
27 فروری کو ٹائمس آف انڈیا کی ایک رپورٹ میں پولیس کی طرف سے ہوئی بعض غلطیوں کو درج کیاگیا:
‘سوموار (24 فروری) کو جو ہوا اس نے یہ دکھایا کہ تشدد سے نپٹنے کے لیے پولیس کی تیاری ناکافی تھی۔’
(پولیس فورس کی)ناکافی تعدادمیں تعیناتی، پولیس کا پتھربازی کرنا اورخاموش تماشائی بنے رہنا، اوپر سے کوئی صاف آرڈر نہیں ہونا۔’
کوئی احتیاطی(پروینٹو)گرفتاری نہیں کی گئی، ڈرونوں کا استعمال کرکے چھتوں کی اسکیننگ اور ان کو سینٹائز (جانچ اور صفائی)کرنے کا کام نہیں کیا گیا۔’
ڈرونوں کا استعمال
تشدد کے دوران ڈرونوں کے استعمال کو لےکر دو متضاد نیوز رپورٹ ہیں :
ایک میں 25 فروری کو تشدد کے دوران واقعات پرنظر رکھنے کے لیے ڈرونوں کے استعمال کی بات کی گئی ہے اور ثبوت کے طور پر ایک تصویر بھی لگائی گئی ہے۔ [فوٹو 5/25]
27 فروری کی ایک دیگر رپورٹ میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے کہ تشددزدہ علاقوں میں چھتوں کی اسکیننگ اور انہیں سینٹائز کرنے کے لیے ڈرونوں کا استعمال نہیں کیا گیا۔
غنیمت ہے کہ دہلی کی تنظیم میڈیانامہ، جو ہندوستان میں ڈیجیٹل پالیسی پراطلاع اور تجزیہ کا ایک اہم ذریعہ ہے، اس نے آر ٹی آئی، 2005 کے تحت 25 فروری، 2020 کو پبلک انفارمیشن افسر، شمال مشرقی ڈویژن، دہلی پولیس کے سامنے ایک عرضی لگائی۔
اس آر ٹی آئی عرضی پر دی گئی جانکاری کافی کچھ بیان کرنےوالی ہے۔31 مارچ، 2020 کی میڈیانامہ کی رپورٹ کے مطابق:
‘… دہلی پولیس کے شمال مشرقی ڈویژن نے کہا کہ دہلی پولیس نے ہیڈ آف آفسز کے دائرہ اختیار کے تحت اسٹیشن ہاؤس افسروں کے ذریعے کھلے بازار’سے ڈرونوں کو کرایے پر لیا۔’
‘ڈرونوں کی خریداری کرنے کی جگہ انہیں کھلے بازار’سے کرایے پر لینے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے لیے دہلی پولیس کوریکوئسٹ فار پرپوزل جاری نہیں کرنا پڑا ہوگا، جس میں ڈرونوں کی تکنیکی تفصیلات بھی بتانی ہوتی۔
ایسے کسی دستاویز کی غیر موجودگی میں یہ طے کر پانا مشکل ہے کہ دہلی پولیس نے کس طرح کے ڈرونوں کا استعمال کیا اور ان کی صلاحیت کتنی تھی۔ یہ پوری کارروائی میں شفافیت کی کمی کو دکھاتا ہے۔
کرایے پر لیے گئے ڈرونوں کو متعلقہ کمپنیوں کو واپس بھی کرنا ہوگا، جو کافی پریشان کن ہے، کیونکہ ایسے میں پولیس کے ذریعےریکارڈ کئے گئے فوٹیج ان کمپنیوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔’
میڈیانامہ کی رپورٹ میں آگے کہا گیا
‘پچھلے چھ یا 12 مہینوں میں دہلی پولیس کے ذریعے ڈرونوں کو تعینات کرنے کے لیے دیےگئے اتھارائزڈ آرڈرس کی کاپی دینے کی ہماری درخواست پر شمال مشرقی ڈویژن نے جواب دیا کہ تحریری طور پر ایسا کوئی آرڈر نہیں دیا گیا تھا۔
ڈرونوں سے نگرانی کا کام شروع کرنے سے پہلے کوئی تحریری آرڈر نہ دینے کا مطلب ہے دہلی پولیس کے ڈرونوں کا استعمال کرنے کو لےکر کسی کی کوئی جوابدہی نہیں ہے اور پولیس کے ذریعے اس کے من مانے استعمال کی گنجائش ہے…
اسی مہینے کی شروعات میں وزیر داخلہ امت شاہ نے یہ انکشاف کیا کہ سرکار نے دہلی فسادات کو بھڑ کانے والوں کی پہچان کرنے کے لیے چہرے کی پہچان کرنے والے سافٹ ویئرکا استعمال کیا تھا۔
لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کیا دہلی پولیس کے ذریعےکرایے پر لیے گئے ڈرونوں سے ریکارڈ کیے گئے فوٹیج کا استعمال بھی سافٹ ویئر کے ذریعے چہرہ پہچاننے کے لیے کیا گیا تھا؟
میڈیانامہ کی جانب سے اس سے پہلے کیے گئے ایک آر ٹی آئی کے جواب میں جس میں متنازعہ سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کر رہے لوگوں کی ویڈیو ریکارڈنگ کرنے کے لیے دہلی پولیس کے ذریعے ڈرونوں کا استعمال کیے جانے کو لےکر جانکاری مانگی گئی تھی، دہلی پولیس نے ڈرونوں کا استعمال کرنے سے انکار کر دیا تھا جبکہ کم سے کم دو رپورٹ میں ان کے ذریعے ڈرونوں کا استعمال کیے جانے کی بات کی گئی تھی۔’
دہلی پولیس کے ذریعے میڈیانامہ کے آر ٹی آئی کے جواب سے کم سے یہ باتیں پکے طور پر کہی جا سکتی ہیں:
دلی پولیس نے کھلے بازار سے یعنی نجی ذرائع سے ڈرونوں کو ‘کرایے’پر لیا۔
استعمال کیے گئے ڈرونوں کی تکنیکی تفصیلات لوگوں کی جانکاری میں نہیں ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ اعلیٰ صلاحیت والے کیمرے لگے ڈرونوں کا استعمال کیا گیا ہو۔
کرایے پر لینے کے عمل میں شفافیت کی کمی۔
نجی کمپنیوں کی پہنچ پولیس کے ذریعے ریکارڈ کیے گئے فوٹیج تک ہوئی ہوگی۔
ڈرونوں کے ذریعے نگرانی کرنے کے لیے کوئی تحریری آرڈر نہیں دیا گیا تھا۔
نگرانی کے ذریعے جمع کی گئی جانکاری کا کوئی تحریری ریکارڈ نہیں ہے۔
اس بات کی کوئی جانکاری نہیں ہے کہ کیا فسادات/قتل عام کو پوری طرح سے کور کیا گیا یا اس کے صرف ایک حصہ کو منتخب طریقے سے کور کیا گیا۔ یہ ڈرونوں کے ذریعے جمع کی گئی اطلاع کے من مانے اور منتخب طریقے سے استعمال کے امکانات کو لےکر سوال کھڑے کرتا ہے۔
دہلی پولیس کی طرف سے ڈرونوں کے ذریعے حاصل کی گئی اہم جانکاری کو اجاگر نہیں کیا جا رہا ہے۔
آر ا ے ایف کو تعینات کرنے کو لےکر سوال
27 فروری، 2020 کی ٹائمس آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق آر ا ے ایف کی ٹکڑی 25 فروری کو کردم پوری، کراول نگر اور چاند باغ(شمال مشرقی دہلی کا فساد زدہ علاقہ)پہنچی۔
آر ا ے ایف کو اصل میں اس دن بھی متاثرہ علاقوں میں ڈیوٹی پر لگایا گیا تھا یا نہیں، یہ صاف نہیں ہے کیونکہ دہلی پولیس کے اپنے ریکارڈ کے مطابق تشددزدہ علاقوں کے کم سے کم دو پولیس اسٹیشن کے ذریعے، جیسا کہ این ڈی ٹی وی نے بتایا ہے، مدد کی فریاد کرنے والے کال کے جواب میں 26 فروری کی دیر شام تک مناسب کارروائی نہیں کی گئی۔
24 فروری کی دوپہر سے 26 فروری کی نصف شب تک تشدد کے جاری رہنے کا نتیجہ بڑے پیمانے کی آگ زنی، لوٹ پاٹ اور خون خرابے کے طور پر نکلا۔
فرقہ وارانہ تشدد کے ان تین دنوں کے دوران کم سے کم 53 لوگ مارے گئے۔ دستیاب جانکاری کے حساب سے یہ ظاہر ہے کہ دوکمیونٹی کے بیچ شروع ہوا فساد یا تصادم ممکنہ طور پر24 فروری کی شام سے پہلے تک ختم ہو چکا تھا۔
ایسا لگتا ہے کہ اگلے دو دن 26 فروری کو دیر شام تک یہ اور کچھ نہیں سیدھے سیدھے قتل عام تھا۔
دنگا/قتل عام کم سے کم سے کم 72 گھنٹے تک چلتا رہا، مگر وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیامنٹ میں ایک گمراہ کن بیان دیا کہ فسادات صرف 36 گھنٹے تک ہی چلے۔جیسے36 گھنٹے تک فسادات کاجاری رہنا دینا منصفانہ تھا!
ارنب گوسوامی کے ری پبلک ورلڈ کے مطابق پارلیامنٹ میں فروری، 2020 کے دہلی دنگوں پر اپنے جواب کے دوران شاہ نے کہا ہے کہ ’25 فروری کے بعد ایک بھی فرقہ وارانہ فسادنہیں ہوا ہے۔ وزیر داخلہ نے 36 گھنٹے کےاندر دنگوں پرقابو پانے کے لیے دہلی پولیس کی کوششوں کی تعریف کی۔’
شاہ کی ٹائم لائن مشتبہ ہے، اس بات کی تصدیق ان کے وزارت کو سونپی گئی جی آئی اے رپورٹ سے بھی کی جا سکتی ہے [پیرا 4،ص:1]: ‘علاقے میں دنگا 24 فروری سے 26 فروری تک چلتا رہا۔’
جہاں تک سی ایف جے کی رپورٹ کا سوال ہے، تو اس کا عنوان‘رپورٹ آف فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی آن رائٹس ان نارتھ ایسٹ دہلی ڈیورنگ 23.02.2020 ٹو 26.02.2020’ ہی اپنے آپ میں سارا سچ بیان کر دیتا ہے۔
سی ایف جے رپورٹ میں یہ صاف طور پر کہا گیا ہے: دنگا بھڑ کانے والے واقعات کا آغاز 22.02.2020 سے ہو گیا اور یہ 27.02.2020 تک چلتا رہا۔ [ص: 38]
سوالوں کے گھیرے میں پارلیامنٹ میں کیے گئے دعوے
دراصل ‘25 فروری کو 11 بجے رات کے بعد فسادات کا کوئی واقعہ نہیں’ہونے کےوزارت داخلہ کے دعوے کی پول شرومنی اکالی دل کے ایم پی نریش گجرال نے ہی کھول دیا۔
اکالی دل بی جے پی کی قیادت والے این ڈی اےکی اتحادی پارٹی ہے۔
27 فروری، 2020 کو پولیس کمشنر کو اپنی تحریری شکایت میں بھڑکے ہوئے گجرال نے تشدد پر قابو پانے کے لیے کوئی قدم نہ اٹھانے کے لیے پولیس کو آڑے ہاتھوں لیا:
‘کل رات [26 فروری]تقریباً11:30بجے، مجھے ایک جاننے والے کا گھبراہٹ سے بھرا کال آیا کہ وہ اور دیگر15 مسلمان موج پور کے گونڈا چوک کے قریب ایک گھر میں پھنسے ہوئے ہیں اور باہر کھڑا گروہ گھر میں جبراً گھسنے کی کوشش کر رہا ہے۔’
‘میں نے فوراً شکایت درج کرنے کے لیے 100 نمبر پر فون کیا اور پولیس افسر کو مجھے فون کرنے والے شخص کا نمبر دیا۔ میں نے حالات کی نازکی سمجھائی اور آپریٹر کو اپنے ایم پی ہونے کے بارے میں بتایا۔
11:43 بجے رات کو دہلی پولیس کی طرف سے ریفرنس نمبر 946603 کے ساتھ شکایت ملنے کی تصدیق بھی کی گئی۔
‘لیکن مایوس کن ڈھنگ سے میری شکایت پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور ان 16 لوگوں کو دہلی پولیس کی طرف سے کسی بھی طرح کی کوئی مدد نہیں ملی۔ قسمت سے کچھ ہندو پڑوسیوں کی مدد سے وہ بچ کر نکل پانے میں کامیاب ہو پائے۔
اگر ایک پارلیامنٹ ممبر کے ذریعے نجی طور پر شکایت کرنے کے بعد یہ حالت ہے، تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے دہلی کا کچھ حصہ اب تک جل رہا ہے اور پولیس خاموش تماش بین بن کر کھڑی ہے۔’
نریش گجرال کی تحریری شکایت سے یہ بات صاف ہو جاتی ہے کہ :
امت شاہ کے دعوے کے الٹ کہ‘فسادات’25 فروری کو رات 11 بجے رات تک بند ہو گئے تھے (ویڈیو ریکارڈنگ کے 3.50 منٹ پر)، تشدد اصل میں26 فروری کو 11:30 بجے رات تک چلتی رہا۔
(23فروری سے ہی)متاثرہ علاقوں کے ڈرے ہوئے لوگوں کے ذریعے باربار مدد کی فریاد کرنےوالے فون کال کے باوجود پولیس نے 26 فروری کو رات 11:30بجے سے پہلے تک لوگوں کی جان مال کی حفاظت کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھائے۔
آر ا ے ایف بھلے ہی 25 فروری کو ‘دنگا’متاثرہ علاقوں کے نزدیک پہنچ گئی ہو، لیکن اسے 26 فروری کو رات 11:30 بجے تک اصل میں دنگا روکنے کے لیے تعینات نہیں کیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ گجرال کی چٹھی سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تشدد کر رہے لوگ زیادہ تر ‘ہندوتواوادی گروہ’کے تھے، جو 26 فروری کو رات 11: 30 بجے تک شمال مشرقی دہلی میں بنا کسی روک ٹوک کے گھوم رہے تھے۔
11:45 بجے رات تک ہندوتووادی بدمعاش اپنے ایک وہاٹس ایپ گروپ پر بھگی رتھی وہار میں دو مسلمانوں کے قتل کرنے کا اعلان کر رہے تھے۔ اور اصل میں ان کے شکار ہوئے لوگوں کی لاش اگلے دن نالے سے برآمد ہوئی۔
وزیر داخلہ کارول
نریش گجرال کی شکایت کے مد نظر فسادات کے شروع ہونے اور 26 فروری تک فسادات/قتل عام کے چلتے رہنے کے تناظر میں امت شاہ کی سرگرمیوں کا پتہ لگانا مناسب ہوگا۔
دہلی دنگوں کے دوران اپنی سرگرمیوں کو لےکر پارلیامنٹ میں بیان میں امت شاہ نے کہا :
‘میں وہاں [احمدآباد] ایک دن پہلے [23 فروری کو] گیا، جب کوئی دنگا نہیں ہو رہا تھا۔ میں [24 فروری کو] 6 بجے شام کو واپس [دہلی]آیا۔اس کے بعد میں نے ٹرمپ کی تقریب میں حصہ نہیں لیا۔ فسادات کو پھیلنے سے روکنے کے لیے میں دہلی پولیس کے ساتھ بیٹھا۔
اگلے دن [25 فروری]کو جب امریکی صدر نے دہلی کا سفر کیا، میں کسی بھی پروگرام میں موجود نہیں تھا۔ پورے وقت میں دہلی پولیس کے افسران کے ساتھ بیٹھا رہا…’
جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے دہلی پولیس23 فروری کو دوپہر 1:00 بجے کے بعد سے ہی جعفرآباد میٹرو اسٹیشن پر بگڑ رہے حالات سے واقف تھی [دیکھیں : جی آئی اے رپورٹ، ص:8]اس دن دو کمیونٹی کے بیچ پہلے دور کی جھڑپ صبح 9 بجے ہوئی [دیکھیں : جی آئی اے رپورٹ،ص:8].شام 4:30 بجے تک کپل مشرا کے بھڑکاؤبیان کے بعد حالات کے اور بگڑنے کے تمام اشارے تھے۔
اس کے ٹھیک بعد تناؤ بڑھنے لگا، جس کا نتیجہ شام تک دو گروپ کے بیچ باربار ہوئی جھڑپوں کے طور پر نکلا۔
24 فروری کی صبح سے حالات بد سے بدتر ہونے لگے۔ پولیس کی اسپیشل برانچ اور انٹلی جنس ونگ نے بگڑ رہے حالات کو لےکر 23 فروری کو ہی کم سے کم چھ الرٹ پولیس ہیڈکوارٹر کو بھیجے تھے۔
اس کے علاوہ علاقے کے بیدار لوگوں نے بحران کو بھانپتے ہوئے (23 فروری کو)پولیس کو کم سے کم 700 ڈسٹریس کال کیے تھے۔
ایسے میں کیوں پولیس نے 24 فروری کی صبح میں ہی حالات پر فوراً قابو پانے کے لیے قدم نہیں اٹھائے، خاص طور پر اگلے دن دہلی میں امریکی صدر ٹرمپ کے دہلی میں طے پروگرام کو دیکھتے ہوئے؟
فسادات/قتل عام کو ختم کرانے میں امت شاہ کو 54 گھنٹے کا (24 فروری کو شام 6:00 بجے سے 26 فروری کو رات 11:30 بجے تک)وقت کیوں لگا، جبکہ ان کے پاس دنگوں کو روکنے کے لیے ضروری تمام وسائل تھے؟
ان کے اپنے قبولنامہ کے مطابق شاہ کچھ نہیں تو 24 فروری کو شام 6:00 بجے سے 25 فروری کو 11 بجے رات تک واقعات پر ذاتی طور پر نگاہ رکھے ہوئے تھے۔
جوابدہی سے بری کرنے کی قواعد
مرکزی وزارت داخلہ اور دہلی پولیس کو جوابدہی سے بری کرنے کی کوشش کے تحت ‘گروپ آف انٹلیکچولس’(دنشوروں کا گروپ)کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘انقلاب کے لیفٹ جہادی ماڈل’کے پیروکاروں کے ذریعے ایک ‘منصوبہ بند سازش’رچی گئی۔ [آرٹیکل1،ص: 44]
سی ایف جے کی رپورٹ میں بھی اسی طرح کے الزام لگائے گئے ہیں۔ اس کے مطابق،
‘… شدت پسند گروپوں نے ایک بڑا دھکا دینے کی سازش رچی، جو آگ زنی، لوٹ پاٹ، لوگوں کو زخمی کرنے اور موتوں کے بغیرممکن نہیں ہوتا۔’[ص: 8]
سی ایف جے رپورٹ میں آگے دعویٰ کیا گیا ہے
‘… شدت پسند گروپ، صرف فسادات کے دوران ہی نہیں، بلکہ فسادات کے بعد بھی افواہ پھیلانے کی اپنی مہم میں مصروف رہے تاکہ مسلم کمیونٹی پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنانے اور اسے انجام دینے کا ٹھیکرا سرکار اور ہندوکمیونٹی پر پھوڑا جا سکے۔’[ص:67]
الزام،حقائق کے برابر نہیں ہوتے۔ ایک طرف گالی کے طور پر استعمال کیا گیا ٹرم‘لیفٹ جہادی’اپنے آپ میں غلط ہے، کیونکہ نظریاتی طورپر‘لیفٹسٹ’اور ‘جہادی’ دو متضادپول ہیں اور وہ ایک دوسرے سے الٹی سمت جانے والے ہیں۔
دوسری طرف، سارا قصور‘لیفٹ-جہادی’طاقتوں پر ڈال کر جی آئی اےکی رپورٹ فرقہ وارانہ تشدد پھیلانے میں بی جے پی رہنماؤں کی قیادت میں ہندوتووادی طاقتوں کے بنیادی رول کے دستاویزی ثبوت کارواں میگزین اور دوسری جگہوں پر ہے اورقتل عام کے دوران دہلی پولیس کو منظم طریقے سے محض خاموش تماشائی بنا کر رکھے جانے کو چھپانے کی گھماؤدار کوشش کرتی ہے۔
اصل میں اس سلسلےمیں پولیس کے سامنے دائر کی گئی کچھ شکایتوں کے مطابق کچھ سینئرپولیس افسروں نے تشدد پھیلانے میں فعال کردارنبھایا۔ کارواں کے لیے رپورٹنگ کرتے ہوئے پربھجیت سنگھ نے لکھا ہے:
‘عینی شاہدین کے ذریعےدائر کی گئی شکایتوں کے مطابق فروری کے آخری ہفتے میں شمال مشرقی دہلی میں ہوئے تشدد کے دوران دہلی پولیس کے کم سے کم ایک ڈپٹی کمشنر، دو ایڈیشنل کمشنر، اور دو تھانہ انچارج مجرمانہ دھمکی دینے، بنا کسی اکساوے کے گولی چلانے، آگ زنی اور لوٹ پاٹ میں شامل رہے۔
ایک شکایت گزارنے لکھا کہ اس نے چاند باغ میں تین سینئر پولیس افسروں انج شرما، اےسی پی گوکل پوری پولیس اسٹیشن، تارکیشور سنگھ، جو اس وقت دیال پوری پولیس اسٹیشن میں تھانہ انچارج تھے اور آر ایس مینا، بھجن پورہ پولیس اسٹیشن کے تھانہ انچارج کو گولی چلاتے اور مظاہرین کا قتل کرتے دیکھا۔’
کارواں کے مطابق، متاثرین کے ذریعےنامزد دو دیگر ملزم پولیس افسر تھے ڈی ایس پی وید پرکاش سوریہ اور اےسی پی دنیش شرما۔ بدقسمتی ہے کہ دہلی پولیس نے ان شکایتوں پر ابھی تک کوئی ایف آئی آر دائر نہیں کی ہے۔
پولیس کو بچانے کی کوشش
قومی اور بین الاقوامی میڈیا اور دہلی اقلیتی کمیشن پر انگلی اٹھاتے ہوئے ‘گروپ آف انٹلیکچولس’کی رپورٹ نے یہ اشارہ دینے کی کوشش کی ہے کہ یہ ایجنسیاں فسادات/قتل عام کے دوران دہلی پولیس کے رول پرحقائق کے ساتھ توڑ مروڑ کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
‘قومی اور بین الاقوامی میڈیا کے ایک حصہ نے دنگوں کے دوران کوئی کارروائی نہ کرنے کے لیے سیدھے پولیس پر الزام لگایا ہے۔ بدقسمتی سے دہلی اقلیتی کمیشن جیسی تنظیموں نے دنگوں کو ہونے دینے کی اجازت دینے کے لیے پولیس پر الزام لگایا ہے۔’(میڈیا میں آئی رپورٹ کے مطابق) [ص: 35]
لیکن بالکل اگلے ہی پیراگراف میں رپورٹ یہ کہتی ہے کہ؛
شمال مشرقی دہلی کے 11 تھانوں کے علاقوں سے فسادات کی خبر آئی۔
ضلع میں جہاں دنگا پھیل رہا تھا پولیس 88 جگہوں پر تعینات تھی۔ حالانکہ اس کی تعداد کم پڑ گئی اور یہ پوری طرح سے تیار نہیں تھی۔
دنگائی گروہوں کے پاس مقامی طور پر بنائے گئے کئی طرح کے ہتھیار تھے اور انہوں نے پٹرول بم اور مولوٹوو بم جیسے بم تیار کر لیے تھے۔
کیوں اور کیسے دہلی کا انٹلی جنس نیٹ ورک بڑے پیمانے پر پتھروں، لوگوں، مقامی طور پر تیار کیے گئے ہتھیاروں کو اکٹھا کرنے کی قواعد کو پکڑ نہیں پایا، یہ سوال مقامی لوگ باربار پوچھ رہے ہیں۔ ویسے حالات کیسے بنے کہ تشدد پرآمادہ جہادی گروہوں سے اپنی جان اور مال کی حفاظت کے لیے شمال مشرقی دہلی کے مقامی لوگوں کو خود آگے آنے آنا پڑا۔ یہ ایک سوال ہے جس کی جانچ ضرور ہونی چاہیے۔’[ص:35-36]
جی آئی اے رپورٹ خود ہی آگ زنی اور پتھربازی کر رہے بےحد ‘پرتشددگروہوں’کے لحاظ سے ‘تعداد میں کم اوروسائل میں تنگ’پولیس فورس کے سچ کو سامنے لاتی ہے، لیکن پھر بھی قومی اور بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ ساتھ دہلی اقلیتی کمیشن پر فسادات/قتل عام کے دوران ‘دنگوں کو ہونے دینے کے لیے‘دہلی پولیس کے رول کو غلط طریقے سے پیش کرنے کی کوشش کرنےکاالزام لگاتی ہے!
جی آئی اے رپورٹ جس سوال سے بچ کر نکل گئی ہے وہ یہ ہے کہ آخر کس بات نے وزارت داخلہ کو 24 فروری کی صبح میں ہی مطلوبہ تعداد میں اوروسائل سےآراستہ سی آر پی یف کو بھیجنے سے روکا تاکہ تعداد میں کم پڑ گئے اور کم وسائل والے پولیس فورس کی مدد کی جا سکے اور سی اے اےحامیوں اورسی اے اے مخالفین کے بیچ کسی بھی پل شروع ہونے والے تصادم کو ٹالا جا سکے؟
اسی طرح سے جی آئی اے رپورٹ کا یہ تبصرہ کہ ‘شمال مشرقی دہلی کے مقامی لوگوں کو اپنی جان اور مال کی حفاظت کے لیے خود آگے آنا پڑا’ خود اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ جب لٹیروں، آگ لگانے والوں اور مار کاٹ کر رہی بھیڑ کے ذریعے ہنگامہ مچایا جا رہا تھا، تب پولیس نے کچھ نہیں کیا اور ہاتھ پر ہاتھ دھر کر تماشہ دیکھتی رہی۔
کیا دہلی پولیس، اپنی غیرفعالیت کے ذریعے‘دنگوں کو ہونے دینے کی اجازت دینے’کے الزاموں سے بچ سکتی ہے؟ یقینی طور پر زمین پر موجود پولیس فورس کو ‘تعداد میں کم پڑ جانے یا وسائل سے لیس نہ ہونے’ کے لیے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ [ص:35، جی آئی اے رپورٹ]۔
وقت رہتے اورسب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں کافی تعداد میں اور پوری تیاری سے لیس پولیس فورس تعینات کرنے میں ناکام رہنے کے لیے پولیس فورس کی کمان سنبھالنے والے اعلیٰ افسران کو ہی جوابدہ ٹھہرایا جانا چاہیے۔
کیا یہ انٹلی جنس کی ناکامی تھی؟
جی آئی اے کی رپورٹ نے یہ سوال بھی اٹھایا، ‘کیوں اور کیسے فیل ہوا انٹلی جنس نیٹ ورک…’
اس نے اس حقیقت کو بےحد آسانی سے بھلا دیا ہے کہ 23 فروری کو اسپیشل برانچ اور دہلی پولیس کی انٹلی جنس ونگ نے کم ہی کم سے چھ رپورٹ پولیس ہیڈکوارٹر کو کپل مشرا کے بھڑکاؤ بھاشن کے بعد ممکنہ تشدد کی وارننگ دینے کے لیے اور اضافی پولیس فورس کی تعیناتی کی ضرورت کے بارے میں بتانے کے لیے بھیجی تھیں۔
اس کے علاوہ، 27 دسمبر، 2019 کو سیلم پور میں سی اے اے مخالف مظاہرین پر نظر رکھنے کے لیے ڈرونوں کا استعمال کرنے کے ضمنی ذکر [ص: 7] کے علاوہ جی آئی اے رپورٹ (ساتھ ہی سی ایف جے رپورٹ بھی)[ص:19] 23-26 فروری، 2020 کے پورے بحران کے دوران انٹلی جنس اکٹھا کرنے کے لیے ڈرونوں کے استعمال (یا اگر دوسری رائے مت کو مانیں، تو ڈرونوں کا استعمال کرنے میں ناکام رہنے کو لےکر) پوری طرح سے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔
کیا انٹلی جنس اکٹھا کرنے کی ناکامی کے لیے مبینہ ‘لیفٹ’اور جہادی’ طاقتوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جائےگا؟یا انٹلی جنس میں چوک کا دعویٰ صرف اصل میں تشدد کی سازش کرنے والوں کو لےکر اکٹھا کی گئی اہم جانکاری کو چھپانے کے لیے چلی گئی چال ہے؟
بنا کسی تحریری آرڈرکے کھلے بازار سے ڈرونوں کو کرایے پر لینے کی مکمل کارروائی میں شفافیت کی کمی کا مطلب ہے جوابدہی کی کمی جیسا کہ میڈیانامہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے۔
ان حالات میں یہ خیال آنا لازمی ہے کہ کیا سی سی ٹی وی فوٹیج کا استعمال بھی بے حدمنتخب طریقے سے کیا جا رہا ہے۔
(این ڈی جئےپرکاش دہلی سائنس فورم سے وابستہ ہیں۔)