دہلی پولیس نے عام آدمی پارٹی کے سابق کونسلر طاہرحسین کو دہلی فسادات کے ماسٹر مائنڈ کے طور پر پیش کیاہے۔ حالانکہ اس پورے معاملے میں حسین کے رول سے وابستہ حقائق کسی اورجانب اشارہ کرتے ہیں۔
عام آدمی پارٹی کے سابق کونسلر طاہر حسین۔ (بیچ میں) (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)
(یہ مضمون فروری، 2020 میں ہوئے دہلی تشددپر لکھے گئے پانچ مضامین کا تیسرا حصہ ہے۔ پہلا اور دوسرا حصہ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔)
اس سیریز کے پہلےدومضامین میں ہم نے 23 فروری کو شمال -مشرقی دہلی میں فسادات کےامکانات کی رپورٹس کے باوجودمناسب کارروائی کرنے یا 24 تاریخ کو تین دنوں تک جاری رہنے والےتشددکی شروعات کے بعد فیصلہ کن طور پردخل اندازی کرنے میں دہلی پولیس کی ناکامی کا مفصل جائزہ لیا ہے۔
اپنی ناکامیوں پرغور وفکرکرنےاوربی جے پی رہنماؤں کےمتنازعہ بیانات، اس کے بعد شروع ہوئےتشدداورمنصوبہ بندتشددیااس کے ڈائریکشن کے بیچ کی کڑیوں کو جوڑ نے پر محنت کرنے کے بجائے دہلی پولیس کی پوری کوشش اس دلیل کی آڑ میں خود کو بچانے کی ہے کہ یہ فسادات متنازعہ شہریت قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کی سازش کا نتیجہ ہیں۔
پولیس کی چارج شیٹ کے مطابق اس سازش کے ماسٹرمائنڈعام آدمی پارٹی کے سابق کونسلر طاہر حسین ہیں۔پولیس انہیں ان کے گھر کے پاس ہی رہنے والے آئی بی افسر انکت شرما کے25 فروری کو ہوئےقتل میں بھی گھسیٹنے میں لگی ہوئی ہے۔یہ آفیشیل نیریٹوجن بنیادوں پرقائم ہے، ان میں سے ایک کو
دی کوئنٹ کی ایشوریہ کی شاندار رپورٹنگ نے پہلے ہی بے نقاب کردیاہے۔کہانی کے مطابق حسین نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ہندوستان دورے کے دوران سرکار کو شرمندہ کرنے کی غرض سے یہ سازش کی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ حسین اور ان کے ساتھیوں نے مبینہ طور پر اپنی سازش کا بیج جس میٹنگ میں بویا وہ میٹنگ 8 جنوری کو ہوئی تھی، جبکہ ٹرمپ کے ہندوستان دورے کی پہلی خبر پانچ دنوں کے بعد 13 جنوری کو آئی۔اس کانسپریسی تھیوری کی دوسری بنیاد، واضح طور پرشاہین باغ کو لےکربنی عام سمجھ-کہ یہ شہریوں کے مساوات کے آئینی اصولوں کے تحفظ کے مقصد سے کیا گیا ایک پرامن مظاہرہ تھا ،اس کو ختم کرنے کے ساتھ ہی مظاہرین کو تشدد پر آمادہ ہندو مخالف، جہادی’اور‘نکسل’قرار دینے پر قائم ہے۔
شاہین باغ کو بدنام کرنا
ان کےنظریاتی جھکاؤ کے مد نظر اس میں حیرت انگیز کچھ بھی نہیں ہے کہ وزارت داخلہ کو سونپی گئی
دو حالیہ رپورٹ کا رخ بھی ٹھیک یہی ہے۔گروپ آف انٹلیکچولس(جی آئی اے)کی رپورٹ سی اے اےمخالف مظاہرین کوہندوستان میں ممنوعہ تنظیم کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(ایم)کے اشارے پر کام کرنے والوں کے طور پر پیش کرتی ہے۔
سی اے اےمخالف مظاہروں کو جس کورپورٹ میں ‘شاہین باغ ماڈل’کہا گیا ہے ایک
ممنوعہ تنظیم سے جوڑکر جی آئی اے رپورٹ نے سرکار کو سی اے اےمخالف مظاہرین کو ملک کے سب سے سخت قانون یو اے پی اے کےتحت گرفتار کرنے کا ایک من پسند بہانہ دے دیا ہے۔
جی آئی اے رپورٹ مظاہروں کے ‘شاہین باغ ماڈل’کی جیتی جاگتی اوردرست عکاسی کرتی ہے، سوائے ‘جہادی’لفظ کو زبردستی ٹھونسنے کے:
‘ان میں سے زیادہ تر مظاہروں کاموادلیفٹسٹ جہاداور سی اے اے-این آرسی اوراین پی آر-مخالف سرگرمیوں کے میل جول سے بنا تھا۔ نعرے امت شاہ مخالف، مودی مخالف، فاشزم مخالف تھے۔
ان میں سے زیادہ تر مقامات پر دیواروں پر ابھی تک انقلاب کے نعرے لکھے ہوئے ہیں۔ لاؤڈ اسپیکروں سے آزادی کے نعرے،سرکار مخالف نعرے، فاشزم کے خطروں کو بیان کرنے والے نعرے لگائے گئے اور دھرنے کی جگہوں کوان نعروں سے رنگ دیا گیا۔
بیلا چاؤ جیسے اطالوی لوک گیت روایات کے گیت روز گائے جاتے ہیں۔ یہ ‘شاہین باغ ماڈل’ہے۔’
یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ان سرگرمیوں میں ‘جہادی’جیسا کیا تھا:امت شاہ مخالف، مودی مخالف، فاشزم مخالف نعرے لگاناجمہوریت میں احتجاج کی ایک قانونی صورت ہے۔انقلاب کےنعرے لگانا، دیواریں رنگنا، ‘آزادی’اور فاشزم کے خطرے کی بات کرنا، یہ سب عدم اتفاقات کے جمہوری اظہار کا لازمی حصہ ہیں، لیکن ایسے ترقی پسنداقدامات کو لیفٹسٹ قرار دیا جا رہا ہے۔
دھرنے کی جگہ پرسرکار مخالف نعرے لگانے یا دیواریں پینٹ کرنے کو بھی ملک مخالف سرگرمی نہیں مانا جا سکتا ہے۔ شاہین باغ کو، جس کی فطرت اصل میں کثیر ثقافتی اورسیکولرتھی، فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کے تحت جی آئی اے رپورٹ میں کہا گیا ہے؛
یہ دیکھا گیا کہ شاہین باغ میں نعروں اور پوسٹروں کا مواددانستہ طور پر بھڑکاؤ اور ہندو مخالف تھا۔ سواستک اور اوم کے علامات کی عکاسی توہین آمیز ڈھنگ سے کی گئی تھی۔
ہندوؤں کی دیوی ماں کالی اور بندی لگائی ہوئی عورتوں کو برقع میں دکھایا گیا تھا۔ جہاں ایک طرف اسلامی نعرے باربار لگائے گئے، وہیں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستان زندہ باد کے نعرے بھی لگائے گئے۔
یہ سب آئین اورہندوستان کے قومی ترنگے جھنڈے کےنیچے کیا جا رہا تھا۔ [پیراگراف 9،ص:1-2 اورص: 145]
لیکن
فیکٹ چیک ویب سائٹ آلٹ نیوز نے بتایا،
‘پوسٹر پر بنایا گیانشان سواستک کا نہیں ہے کہ بلکہ نازی پارٹی کے ذریعے اپنایا گیا ہک دار کراس (ہیکینکروز)ہے۔عام طور پر بنائے جانے والے ہندو سواستک کی سب سے نمایاں خصوصیت کراس کے چاروں بازؤں کے بیچ کے چار نقطے ہیں، جو نازی علامت سے غائب ہیں۔ اس کے ساتھ ہی نازی علامت45 ڈگری پر گھوما ہوا ہے۔’
نازی علامت کے بارے میں پوری دنیا کو پتہ ہے اور اس کو لےکر کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔جی آئی اے رپورٹ کو
بندی لگائی عورتوں کو برقع پہنے دکھائے جانے والے پوسٹر پر بھی اعتراص ہے۔ حالانکہ یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ان کے اعتراض کی وجہ کیا ہے؟
دراصل، پوسٹر میں دکھائی گئی عورت کی مذہبی پہچان کو جان بوجھ کر دھندلا کیا گیا تھا ۔یہ نریندر مودی کے اس دعوے کو چیلنج دینے کے لیے تھا کہ
کسی شخص کو اس کے لباس سے پہچانا جا سکتا ہے۔ سی اے اےمخالف مظاہرین نے اس بابت بھی
ایک خاص مہم چلائی تھی۔
اس کے علاوہ یہ بتانا ضروری ہے کہ جب بھی دھرنے کی جگہ پر کوئی ایسا
متنازعہ مدعا اٹھانے کی کوشش کی گئی جو شاہین باغ مظاہرہ کی روح کےموافق نہیں تھا، آرگنائزرس کی طرف سے فوراً ایسے
غیر مطلوبہ بیانات سے مظاہرہ کو الگ کرنے کے لیے قدم اٹھائے گئے۔
لیکن یہ سچائی جی آئی اے رپورٹ کے قلمکاروں کے ذریعے
فرضی قصہ کی تشکیل کے آڑے نہیں آئی ہیں:
‘ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایسےمظاہروں کا بین الاقوامی اسلامی تنظیموں کے ساتھ بھی تعلق ہے۔
یہ مظاہرےجس طرح سے ہر جگہ سرخیوں میں چھائے رہے، وہ بھی بڑے پیمانے پرغیرملکی فنڈنگ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔اور یہ سب جس طریقے سے منصوبہ بند تھا، وہ بھی غیرملکی ایجنسیوں کے ہاتھ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ [پیرا-2،ص:37]
یہ الزام فطری طور پر کچھ سوالوں کو قائم کرتے ہیں :
کیوں اور کیسے یہ ‘لگتا’ہے کہ سی اے اے مخالف مظاہروں کاتعلق بین الاقوامی اسلامی تنظیموں سے ہے؟
کیوں اور کیسے سرخیوں میں چھائے رہنے والے مظاہرے غیرملکی فنڈ کی طرف اشارہ کرتے ہیں؟
کیوں اور کیسے منصوبہ بند(پلاننگ)غیرملکی ایجنسیوں کے ہاتھ کی طرف اشارہ کرتی ہے؟
بناحقائق کے لگائے گئے ان الزامات کا مقصدغیر محتاط قاری کے ذہن کو طے شدہ خیالات سےمتاثر کرنا ہے، تاکہ وہ فرقہ وارانہ پولرائزیشن کے بیانیہ کو قبول کر لیں۔ایسا لگتا ہے کہ جی آئی اے رپورٹ کےقلمکاروں کو اس بات کی امید ہے کہ سی اے اے مخالف مظاہرین پر جو کیچڑ وہ اچھال رہے ہیں، اس میں سے تھوڑا سا تو ان پر ضرور چپکےگا۔
قربانی کے بکروں کی تلاش
فسادات کو شروع ہونے سے روکنے کےلیے وقت پرمطلوبہ تعداد میں اور تمام وسائل سےلیس پولیس فورس کو تعینات کرنے میں کی گئی تاخیر اور اس کے بعدتشدد کو بند کرانے میں وزارت داخلہ کی طرف سے کی گئی 72 گھنٹے کی تاخیرکے دفاع میں نااہلی کی وجہ سےجی آئی اے رپورٹ اورسٹیزن فار جسٹس رپورٹ کےقلمکاروں نے قربانی کے بکروں کی تلاش کی کوشش کی ہے۔
جی آئی اے رپورٹ دہلی کی یونیورسٹیوں کے طلبا کو نشانہ بناتی ہے۔ اس کے مطابق:
‘اس بات کے ثبوت ہیں کہ اربن نکسل جہادی نیٹ ورک نے فسادات کا منصوبہ بنایا اور اس کو انجام دیا: دہلی فسادات برادری یا کسی کمیونٹی کو نشانہ بناکر کیا گیاقتل عام نہیں ہیں۔
یہ دہلی کی جامعات میں فعال الٹرا لیفٹ اربن نکسل نیٹ ورک کی جانب سےاقلیتوں کی منصوبہ بند اورمنظم انتہا پسندی کاافسوس ناک نتیجہ ہے۔’[پیرا2،ص: 45]
یہ ثبوت کیا ہے، کسی کو شاید نہیں پتہ۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ثبوت ہونے کا دعویٰ ہی پولیس کے لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی(جے این یو)کے کئی طلباکے ساتھ ساتھ کئی دیگر سی اے اےمخالف کارکنوں کے خلاف بے حد سنگین الزام لگانے کے لیے کافی ہے۔
سی ایف جے رپورٹ کا کہنا ہے :
سی اے اےمخالف انتہاپسندگروپ عوام کے بیچ اپنی زمین گنوا رہا تھا، اس لیے مدعے کو زندہ رکھنے کے لیے کئی پلیٹ فارم کااستعمال کرتے ہوئے سماج کےمختلف طبقوں کو نشانہ بناکر کئی طرح کی کہانیاں پورے تال میل کے ساتھ پھیلائی گئیں،جس نے آخرکارمسلم کمیونٹی کو الگ تھلگ کر دیا اور پھر منصوبہ بند طریقے سے پیسہ اور مین پاور اور دیگر وسائل کو جمع کرکے شمال -مشرق[دہلی]میں مسلمانوں کو فسادات میں دھکیل دیا گیا۔ [ص:1]
اس کے علاوہ یہ اس بات پر زور دیتی ہے کہ:
‘فسادات میں عآپ رہنما طاہر حسین کےرول کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ فسادات کے دوران اور اس کے بعد کے کئی ویڈیو سوشل میڈیا اور میڈیا میں آئے، جس نے یہ دکھایا کہ اس کے گھر کا استعمال پاس کے علاقوں پر پٹرول بموں، غلیل سے گولیوں اور پتھروں کونشانہ لگانے کے لیے بیس کے طور پر کیا گیا۔
کئی ویڈیوزمیں اس کے گھر کےچھت پر کئی لوگوں کو اکٹھابھی دکھایا گیا اور ان کے گھر سے تیزاب کی بوتلیں بھی برآمد کی گئیں۔ (پیرا 9.2 (iii) ص:52-53)
طاہر حسین کے خلاف معاملہ
دہلی پولیس کی جانب سے2 جون، 2020 کو دائر کی گئی چارج شیٹ میں طاہر حسین کو ماسٹر مائنڈکے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔
انڈیا ٹو ڈے کے مطابق، ‘پولیس نے کہا کہ 25 فروری کوطاہر حسین کے خلاف ایک معاملہ درج کیا گیا۔’پولیس ذرائع کے حوالے سے اس رپورٹ میں آگے کہا گیا:یہ معاملہ 24 فروری کو کھجوری خاص میں طاہر حسین کے گھر کے باہر 2:15 بجے ہوئے فسادات کے سلسلے میں درج کیا گیا۔’
جیسا کہ اس سیریزکے
پہلے حصےمیں درج کیا گیا تھا، ‘انڈیا ٹو ڈے نے 24
فروری کو 5: 57 بجے شام میں طاہر حسین کے گھر پر حملہ ہونے کی رپورٹنگ کی تھی۔قابل ذکر ہے کہ27فروری، 2020 کو ری پبلک ٹی وی نے طاہر حسین کے گھر کے واقعات کا ویڈیو
یو ٹیوب پر اپ لوڈ کیا۔ 4 منٹ 45 سیکنڈ کے اس ویڈیو میں، جس کے دو الگ الگ حصے تھے،میں پیچھے سےایک بھرمانے والا آنکھوں دیکھا حال (کمنٹری)سنا جا سکتا تھا۔
پیچھے سے چل رہے آنکھوں دیکھا حال کے الٹ اس ویڈیو میں کہیں بھی طاہر حسین اور ان کے ساتھیوں کو کسی طرح کے تشدد میں شامل نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔اتنا ہی نہیں،جس چھت پر طاہر حسین کھڑے دکھتے ہیں، اس پر پتھر، تیزاب کی بوتلیں یا کوئی اور گھر جلانے والی چیز نہیں دیکھی جا سکتی ہیں، جیسا کہ آنکھوں دیکھا حال میں بتایا جا رہا ہے۔
ویڈیو کا پہلا حصہ 24 فروری 2020 کی شام میں ریکارڈ کیا ہوا معلوم پڑتا ہے۔ یہ طاہر حسین کی سرگرمیوں پر پینی نظر رکھے ہوئے کسی آدمی کا ہی کام ہو سکتا ہے۔لیکن ویڈیو کے دوسرے حصہ میں، جو 2 منٹ، 27 سیکنڈ پر شروع ہوتا ہے اور جو اس ویڈیو کے ریکارڈ کیے جانے کے وقت کو لےکرسوال کھڑے کرتا ہے، ایک رپورٹر کو پتھروں، تیزاب کی بوتلوں اور پٹرول بموں وغیرہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اور یہ دعویٰ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ سب حسین کی چھت سے برآمد ہوئے ہیں اور انہوں نے ان کا استعمال فسادات کے دوران کیا۔
اس رپورٹ میں بے حدآسانی سے اس سچائی کو چھپا لیا گیا ہے کہ ایسے کام چلاؤ ہتھیاروں کو 24 فروری کو قریب 11: 30 بجے طاہر حسین کے گھر چھوڑکرمحفوظ جگہ پر جانے کے لیے نکلنے کے لیے مجبور ہونے کے بعد وہاں رکھا جا سکتا ہے اور دنگائیوں کی جانب سے ان کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
جیسا کہ
اس ویڈیو سے صاف ہو جائےگا، حسین، جن کے چارمنزلہ مکان پر مبینہ طور پر 2: 00 بجے دوپہر سے حملے ہو رہے تھے، نے 24 فروری کو شام قریب 6: 30 بجے سیل فون پر انڈیا ٹو ڈے/آج تک کے نامہ نگارسشانت مہتہ سے بات کی۔اسی کی ایک 49 سیکنڈ کی ویڈیو ریکارڈنگ وہاٹس ایپ کے ذریعےعام آدمی پارٹی (عآپ)کے
ترجمان دیپک واجپائی کو اسی دن قریب 6: 44 بجے شام کو فارورڈ کی گئی، جس میں حسین کو پولیس سے فریادکرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے کہ انہیں اور ان کے اہل خانہ کو فسادیوں سے بچایا جائے۔
اس ویڈیو میں وہ کہتے ہیں کہ وہ لگاتارمقامی پولیس افسروں کو فون کر رہے ہیں کہ لیکن وہ انہیں بچانے کے لیے نہیں آئے۔
آلٹ نیوز نے
اس ویڈیو کے صحیح ہونے کی تصدیق کی ہے:‘سوشل میڈیا پر کیے جا رہے دعووں کے الٹ آلٹ نیوز کو اس ویڈیو کے ہائی ڈیفینیشن ورژن میں ایڈیٹنگ کا کوئی اشارہ نہیں ملا۔ نتیجے کے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مدد کی اپیل کرنے والا عآپ کونسلر محمد طاہر حسین کا ویڈیو 24 فروری کو بھیجا گیا تھا۔’
طاہر حسین کی جانب سےصحافی راجدیپ سردیسائی کو دیے گئے ایک ویڈیو میں کچھ لوگ طاہر کے گھر کا دروازہ ٹوٹنے سے بچانے کے لیے اندر سے اسے اس طرح پکڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ (بہ شکریہ : ٹوئٹر/ویڈیوگریب)
پولیس کا خود کو پھنسانا
انڈین ایکسپریس کے مطابق،
‘چارج شیٹ میں پولیس نے دعویٰ کیا کہ 24-25 فروری کو حسین نے پی سی آر (پولیس کنٹرول روم) کو 12 کال کیے تھے۔
پی سی آر کال اٹھانے والے ایمرجنسی افسر سے پوچھ تاچھ کی گئی۔ پتہ چلا کہ دنگائیوں کی بھاری بھیڑ کی وجہ سےپولیس وقت پر نہیں پہنچ سکی۔
پولیس کہیں جاکر دیر رات میں پہنچ پائی اور اس نےحسین کو اپنے گھر کے سامنے پایا ، کچھ نزدیکی گھر، لیکن ان کی عمارت نہیں کا نقصان ہواتھا اور اس کے اہل خانہ کو کوئی چوٹ نہیں آئی تھی۔’
ایسے میں اس بات کو لےکر کوئی تنازعہ نہیں ہے کہ جب علاقے میں بڑے پیمانے پرتشددجاری تھا تب طاہر حسین نے مدد کے لیے پولیس کوکئی فون کال کیے تھے۔
پولیس تبھی آئی جب حالات نسبتاًتھوڑے ٹھیک تھے۔ اس کے گھر پر پہنچنے کے بعد پولیس نے عمارت کا معائنہ کیا۔ اگر انہیں ان کے گھر کے اندر سے کوئی بھی قابل اعتراض سامان ملا ہوتا، تو پولیس انہیں وہیں اور اسی وقت گرفتار کر لیتی۔
اس سے پہلے کرائم برانچ کے ایڈیشنل کمشنر آف پولیس اےکے سنگلا کی جانب سے تھوڑی الگ تفصیل پیش کی گئی۔ 3 مارچ، 2020 کو
ایک پریس بریفنگ میں انہوں نے صحافیوں کو بتایا:
‘طاہر حسین کے مدد مانگنے والے کال کے بعد پولیس کی ٹیم اس کی عمارت میں گئی۔ انہوں نے پولیس اسکارٹ کے بغیر عمارت سے باہر آنے سے انکار کر دیا، جس کے بعد انہیں پولیس کی ایک ٹیم کی جانب سے باہر نکالا گیا۔’
لیکن سنگھ کی پریس کانفرنس کے ایک گھنٹے کےاندر دہلی پولیس کے پی آراونے ایک دوسری
پریس بریفنگ کی، جس میں انہوں نے اپنے سینئر افسرکے بیان کی تردید کی:
‘سچائی یہ ہے کہ 24-25 فروری کے بیچ کی رات میں، کچھ لوگوں نے چاندباغ میں تعینات پولیس کو بتایا کہ بھیڑ کے ذریعے گھیر لیے جانے کی وجہ سے طاہر حسین پھنس گئے ہیں۔ پولیس کے جانچ کرنے پر یہ بات جھوٹی پائی گئی اور طاہر حسین اپنے گھر میں موجود پائے گئے۔’
یہ صاف نہیں ہے کہ 24-25 فروری کی رات کو طاہر حسین کو بچائے جانے کو لےکر میڈیا کو مبینہ طور پر جو غلط جانکاری دی، اس کے لیے دہلی پولیس نے اےسی پی سنگلا کے خلاف کوئی کارروائی کی ہے یا نہیں۔ایک دن بعد پولیس کمشنر اس سلسلے میں پوچھے گئے
سیدھے سوال کا جواب دینے سے بچتے نظر آئے۔
دلچسپ یہ ہے کہ 3 مارچ، 2020 کو، اےسی پی سنگلا کی پریس کانفرنس کے بعد سی این این نیوز 18 کے نامہ نگار
ساحل مرلی میگھانی نے 27 تاریخ کو لیے گئے
طاہر حسین کے ایک انٹرویو کو ٹوئٹ کیا، جس میں طاہر نے واقعات کے سلسلے میں اپنی بات رکھی تھی۔اس میں انہوں نے کہا تھا کہ 24 فروری کو قریب 4: 30 بجے شام میں ان کی طرف سے عآپ کے راجیہ سبھا ایم پی سنجے سنگھ کی جانب سےدخل اندازی کے بعد پولیس قریب 7: 30 بجے شام میں انہیں بچانے کے لیے آئی تھی۔
حسین نے انٹرویو میں یہ بھی بتایا تھا کہ اےسی پی سنگلا 24 فروری کو اس کے گھر پرتقریباً11: 00 بجے رات میں پہنچے تھے اور پولیس افسر کی موجودگی میں ان کے گھر کی اچھی طرح سے تلاشی لی گئی تھی تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ کوئی فسادی گھر میں چھپا ہوا نہیں ہے۔
اس کے بعد حسین کی پیشگی ضمانت کی عرضی کے مطابق، جس کا حوالہ
انڈین ایکسپریس نے دیا ہے:
فیکٹری اور گھر دونوں کو تالا لگاکر ان کی چابی پولیس کو سونپ دی گئی تھی۔ پوری رات اور اگلے پورے دن یعنی 25 فروری کو عرضی گزار اپنے دوست کے گھر میں تھا، سوائے صبح قریب 8: 30 بجے کے جب وہ اپنے اور اہل خانہ کے لیے کپڑے لینے کے لیے اپنے گھر گیا تھا، لیکن احاطہ کے باہر بھیڑ جمع ہونے کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کر پایا۔
وہاں موجود پولیس افسروں نے اسے وہاں سے چلے جانے کی صلاح دی اور عرضی گزار نے ان کی موجودگی میں ایسا ہی کیا۔’
اوپر درج کیے گئے حقائق کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ :
قابل ذکر ہے کہ24 فروری کو طاہر حسین نے پولیس کو کم سے کم 12 بار اپنے اور اپنے اہل خانہ پر دنگائیوں کی جانب سے حملے کی شکایت کی۔اگر ناگزیر وجہوں سے متاثرہ علاقے میں پہنچنے میں پولیس کو دیری ہوئی، تو بھی حسین کے گھر کے آس پاس حالات پر نظر رکھنے کے لیے فوری طور پر ڈرون کو تعینات کرنے سے پولیس کو کسی نے نہیں روکا تھا۔ ڈرون سے جمع کی گئی اطلاعات کے بارے میں کوئی جانکاری سامنے نہیں آئی ہے۔’
پولیس 24 فروری کو قریب شام 7: 30 بجے، یعنی طاہر کی جانب سے کی گئی مددکے لیے پہلے کال کے لگ بھگ ساڑھے پانچ گھنٹے کے بعد ان کے گھر پر گئی، جس کا مطلب تھا کہ دنگا ساڑھے پانچ گھنٹے تک چلتا رہا۔
پولیس کو طاہر حسین کے گھر کے چاروں طرف 24 فروری کو 2 بجے دوپہر سے 7: 40 بجے شام تک دنگا ہونے کے صاف اشارہ دینے والے نشان ملے ہوں گے۔ (اگر ایسا کچھ پولیس کی نظر میں آیا، تو اس علاقے میں ایسے کسی واقعہ کو ہونے دینے سے روکنے کے لیے اس نے کیا قدم اٹھائے؟)
سینئرپولیس افسروں کی ایک ٹیم بھی ان کے گھر پر گئی اور 24 فروری کو قریب 11:00 بجےرات میں حسین کے گھر کی اچھی طرح سے تلاشی لینے کے بعد اسے مبینہ طور پر وہاں جمع کرکے رکھی گئی کوئی قابل اعتراض چیز(پتھروں کی ٹوکری،غلیل، تیزاب کی بوتلیں، پٹرول بم وغیرہ)نہیں ملی۔
غور طلب ہے کہ25فروری کو دوپہر بعد قریب 4 بجے حساس علاقے سے پولیس فورس ہٹاکر (جیسا کہ حسین نے الزام لگایا ہے)پولیس25 فروری کی شام سے 26 فروری تک اسی علاقے میں تشدد کو بڑھنے دینے سے روکنے میں پوری طرح سے ناکام رہی۔
دوجون، 2020 کو طاہر حسین کے خلاف دائر کی گئی چارج شیٹ کے سیاق میں یہ بات کافی اہم ہو جاتی ہے۔
چارجون، 2020 کی انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق، چارج شیٹ میں یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ: ‘حالات کے حساب سے ایسا لگتا ہے کہ ملزم لوگ/فسادی حسین کے جاننے والے تھے اور وہ دنگائیوں کے ساتھ اپنے گھر میں موجود تھے اور انہوں نے مستقبل میں قانونی پیچیدگیوں سے خود کو بچانے کی غرض سے جان بوجھ کر پی سی آر کو فون کیا تھا۔’
دراصل اگر پولیس کو حسین کے ارادوں کے بارے میں ایسا زبردست الہام تھاتو حسین کا نشانہ بننے والوں کو بچانے کے لیے وقت گنوائے بغیر آنے سے پولیس کو کس نے روکا تھا؟ اس کی جگہ اس چارج شیٹ میں یہ قبول کیا گیا ہے کہ پولیس(ساڑھے پانچ گھنٹے بعد)حسین کے اہل خانہ کو [دنگائیوں سے]سے بچانے کے لیے پہنچی!
اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ درج کی جا سکتی ہے کہ 3 مارچ، 2020 کو جاری ‘وضاحت’کے دوران دہلی پولیس کے پی آراو نے ایک بار بھی 25 فروری کو طاہر حسین کے خلاف کوئی معاملہ درج کرنے کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا۔اصل میں پی آراو نے صاف طور پر یہ کہا کہ 24 فروری کو جب پولیس مدد کی فریادکرنے والے فون کال کے بعد اسے دنگائیوں سے بچانے کے لیے گئی تھی، اس وقت حسین اپنے گھر پر تھے۔ اس وقت پولیس نے اس کے گھر سے کوئی قابل اعتراض چیز برآمد ہونے کا دعویٰ نہیں کیا تھا۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ انہیں 24 فروری کے فسادات کے لیے ماسٹرمائنڈکے طور پر نامزد کرنے والی چارج شیٹ کو تیار کرنے کی بنیادکیا ہے؟
حسین اور انکت شرماقتل معاملہ
آئی بی میں سیکورٹی اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنے والے 26سالہ انکت شرما کے بے رحمی سےقتل میں بھی حسین کو پھنسانے کی منظم طریقے سے کوشش کی جا رہی ہیں۔حسین، جن کا گھر شرما کے گھر کے قریب ہی تھا، نے یہ باربار کہا ہے کہ وہ 24 فروری کو رات قریب 11: 30 بجے سے اپنے گھر پر موجود نہیں تھے اور 25 فروری کی صبح کو ضروری سامان لینے کے لیے انہوں نے تھوڑی دیر کے لیے اپنے گھر جانے کی کوشش کی، لیکن وہاں موجود بھیڑ کی وجہ سےپولیس نے ان کو واپس بھیج دیا۔ ان کی عمارت کی چابی پولیس کے پاس ہی رہی۔
بتادیں کہ24تاریخ کو 7: 30 بجے شام کے بعد سے پولیس کی موجودگی کی وجہ سے حسین کے گھر کے آس پاس کے علاقے کسی حد تک پرامن رہے، 25 فروری کو قریب 4: 00 بجے دوپہر بعد پولیس فورس کو وہاں سے ہٹانے کے فیصلے نے حسین کی عمارت کے ساتھ ساتھ اس علاقے کو غیر محفوظ چھوڑ دیا۔
فسادیوں کی جانب سے لوٹ پاٹ، آگ زنی اور خون خرابہ پھر شروع ہو گیا۔ دنگائیوں نے موقع کا استعمال حسین کے گھر پر قبضہ کرنے کے لیے کیا۔انکت شرما کے والد رویندر کمار نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ 25 فروری کو قریب 5 بجے شام کے آس پاس انکت شرما کاقتل کیا گیا۔
آئی بی افسر انکت شرما۔ (فوٹو بہ شکریہ: اے این آئی)
دی کوئنٹ کے مطابق، ‘…رویندر کمار نے کہا کہ 25 فروری کو 5 بجے شام کے آس پاس انکت کمار اپنے گھر سے باہر نکلا تھا، لیکن وہ کبھی واپس لوٹ کر نہیں آیا۔’بڑے پیمانےپر تلاشی کے بعد اگلے دن انکت کی لاش پاس کے نالے میں ملی۔
جن حالات میں انکت کا بے رحمی سےقتل کیا گیا اس کا ایک دوسرا ورژن
وال اسٹریٹ جرنل کی جانب سے 26 فروری، 2020 کو ‘
انڈیاز رولنگ پارٹی، گورنمنٹ سلیمڈ اوور دہلی وائلنس’رپورٹ میں پیش کیا ہے۔ انکت کے بڑے بھائی انکر شرما سے ٹیلی فون پر ہوئی بات چیت کے حوالے سے مضمون میں کہا گیا ہے؛
‘اس کے بھائی [انکر]نے بتایا کہ [انکت] شرما اپنے گھر لوٹ رہا تھا، جب دنگائیوں کے ایک گروپ نے پتھر پھینکنے شروع کر دیے اور اس گلی پر دھاوا بول دیا، جس میں اس کا گھر ہے۔
انکر شرما نے ٹیلی فون پر دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ پتھروں، چھڑوں، چاقو اور یہاں تک کہ تلواروں سے لیس تھے؛ انہوں نے جئےشری رام کے نعرے لگائے؛ کچھ ہیلمیٹ پہنے ہوئے تھے۔ ‘وہ انکت شرما کی مدد کے لیے جانے والے وہاں کے شہریوں پر پتھر اور اینٹ پھینکنے لگے۔ .بعد میں اس کی لاش نالے میں پائی گئی۔’
انکت شرما پر وال اسٹریٹ جرنل کی رپورٹ ہندوتوا بریگیڈ کی ہنگامہ آرائی اور غصے کا نشانہ بن گئی۔انکت کے بڑے بھائی انکر شرما نے رپورٹ سے کنارہ کشی کی کوشش کی اور ایسا کوئی انٹرویو نہ دینے کا دعویٰ کیا۔ وال اسٹریٹ جرنل کے خلاف
پولیس میں شکایت بھی درج کی گئی۔’
معلوم ہوکہ29فروری کو دی وائر کے سوالوں کے جواب میں
وال سٹریٹ جرنل کے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ اخبار اپنی خبر پر قائم ہے۔انہوں نے کہا، ‘ہمیں اپنے مضمون کے صحیح ہونے کا پورا یقین ہے۔ ہم ہندوستان کے واقعات کو غیر جانبدارانہ طریقے سے دیکھنے دکھانے کے لیے پرعزم ہیں۔’
اس معاملے نے کافی طول پکڑ لیا اور کئی ٹی وی چینلوں نے شرما کےقتل کا استعمال دہلی کےتشدد کو ‘ہندو مخالف’ قرار دینے کے لیے شروع کر دیا۔ایسے میں ایک غیر ملکی اخبار میں ایسی رپورٹ کا آنا کہ وہ [انکت شرما] ہندوتوا گروہوں کا شکار ہو سکتا ہے، اس نیریٹو کو راس آنے والا نہیں تھا۔
پروپیگنڈہ وار کو ایک درجہ اور آگے بڑھاتے ہوئے سرکار کی ملکیت والے آل انڈیا ریڈیو اور دوردرشن کو چلانےوالے ‘خودمختار’ کارپوریشن پرسار بھارتی نے یہ ٹوئٹ کیا کہ
وال اسٹریٹ جرنل کے بیورو چیف کو ہندوستان سے نکالا جا رہا ہے:
‘خارجہ امورکی وزارت نے آج امریکہ میں ہندوستانی ہائی کمیشن کو ہندوستان میں کام کر رہے @ڈبلیوایس جے وال اسٹریٹ جرنل کے ساؤتھ ایشیا ڈپٹی بیورو چیف @ایرک بیل مین کو ‘ہندوستان مخالف سلوک’کے لیے ہندوستان سے فوراً برخاست کرنے کی اپیل پر دھیان دینے کے لیے کہا۔’
بعد میں خارجہ امور کی وزارت کی اس وضاحت کے بعد کہ بیل مین کو ملک سے نکالنے کا ‘کوئی فیصلہ’ نہیں لیا گیا ہے، اس ٹوئٹ کوہٹالیا گیا۔
رائٹ ونگ کی ناراضگی کے بڑھنے کے باوجود وال اسٹریٹ جرنل اپنی سٹوری پر قائم رہا۔ یہاں تک کہ
ری پبلک ٹی وی کو بھی بےدلی کے ساتھ یہ قبول کرنا پڑا کہ ‘ڈبلیوایس جے آئی بی افسر انکت شرما کے بھائی انکر کے حوالے سے چھاپی گئی اپنی رپورٹ پر قائم ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اس بیان کی ریکارڈنگ ہے۔’
اگر چاہ لیا جاتا، تو ڈبلیوایس جے کے رکارڈیڈ انٹرویو کی جانچ کرناکتنامشکل کام ہوتا؟
گڑبڑ رپورٹنگ اور تفصیلات کا گھال میل
نیوزلانڈری کے آیوش تیواری نے کافی محنت کرکے یہ دکھانے کی کوشش کی کہ انکت شرما کے قتل کے معاملے کے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق:
انکت شرما کے بے رحمی سے قتل کیے جانےپر ٹیلی ویژن، ٹوئٹر پر چل رہی کمنٹری کے باوجود ان قتل کی تفصیلات کو لےکر ابھی تک بھرم کی حالت بنی ہوئی ہے۔ بے حد بنیادی حقائق کو لےکر گراؤنڈ رپورٹس میں فرق اس بات کو ثابت کرتے ہیں۔
سب سے اہم یہ ہے کہ زیادہ ترصحافیوں نے اس ماحول پر دھیان نہیں دیا، جس میں یہ جرم ہوا خاص طور پر اس بات پر کہ کس طرح سے دو گروہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے اور ایک ہندو گروہ انکت کی گلی کے باہر موجود تھا اور مسلمانوں کی ملکیت کی لوٹ پاٹ اور اس کو نقصان پہنچارہا تھا۔
اس کا واضح مطلب یہ نہیں نکلتا ہے کہ انکت کا قتل اسی گروہ کے ذریعےکیا گیا، لیکن اس تناظر کو پیچھے کر دینے سے ناظرین کے حصہ میں صرف آدھی سچائی ہی آتی ہے۔
اس میں تب اور توڑ مروڑ کر دیا گیا، جب بی جے پی کے آئی ٹی سیل نے انکت کی موت پر ایک مؤثر آن لائن مہم چلائی، جس کااہم مقصد عآپ کے کونسلر طاہر حسین کو فسادات کے ماسٹرمائنڈ کے طور پر پیش کرنا تھا۔
مین اسٹریم ہندوستانی میڈیا کی تنگ نظررپورٹنگ نے ایک خالی جگہ تیار کی، جس نے سرکار کو دخل اندازی اور اپنی کہانیاں بننے کی اجازت دے دی ہے چاہے پرسار بھارتی کا وال اسٹریٹ جرنل کے پیچھے پڑنا ہو یا دہلی پولیس کے ذریعےانکت کے قتل کی جانچ ہو۔
پہلا ایک سرکاری نشریاتی ادارہ ہے، جو بہت زیادہ بھروسےمند نہیں ہے اور دوسرا ایک ادارہ ہے، جو بےحسی اور ملی بھگت کے سنگین الزامات کا سامنا کر رہا ہے۔
یوں، ایسا لگتا ہے کہ انکت شرما کے قاتلوں کا پتہ لگانا ترجیح میں نہیں ہے، بلکہ اصل ترجیح اس کے قتل کاالزام سیاسی حریفوں پر لگانا ہے!تب سے طاہر حسین کو بڑی آسانی سےجابرانہ قانون یو اے پی اے کے تحت جیل میں بند کرکے رکھا گیا ہے، جس میں عام قانون کی ضمانت بھی نافذ نہیں ہوتی۔
سچائی یہ ہے کہ اگر فرقہ وارانہ طور پر حساس علاقے میں، جہاں ایک دن پہلے ہی فساد ہوا تھا، دہلی پولیس نے مطلوبہ تعداد میں جوانوں کو تعینات کیا ہوتا تو انکت شرما اور کئی دوسروں کی زندگی بھی شاید بچائی جا سکتی تھی۔
(این ڈی جئےپرکاش دہلی سائنس فورم سے وابستہ ہیں۔)