دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کی دو ٹیمیں قومی راجدھانی کے باہری علاقے دہلی کے لاڈو سرائے اور گڑگاؤں واقع ٹوئٹر انڈیا کے دفاتر گئی تھیں۔ اسپیشل سیل کے ایک سینئر افسر نے کہا کہ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ٹوئٹر کے پاس ٹول کٹ کے بارے میں کیا جانکاری ہے اور اس نے کانگریس کے مبینہ ٹول کٹ سے متعلق بی جے پی کے ترجمان سمبت پاترا کے ایک ٹوئٹ کو ‘مینی پولیٹیڈ میڈیا’ کا ٹیگ کیوں دیا ہے۔
نئی دہلی: دہلی پولیس کی ا سپیشل سیل کے کئی عہدیدار سوموار شام کو ٹوئٹر انڈیا کے دہلی اور گڑگاؤں واقع دفاتریہ سمجھنے کے لیے پہنچے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم نے کانگریس کے مبینہ ٹول کٹ سے متعلق بی جے پی کے ترجمان سمبت پاترا کے ایک ٹوئٹ کو ‘توڑ مروڑ کر پیش کئے گئے (مینی پولیٹیڈ)میڈیا کے زمرےمیں’ ٹیگ کرنے کے لیے کیوں چنا تھا۔
رپورٹ کے مطابق، یہ چھاپےماری نریندر مودی سرکار کی جانب سے ٹوئٹر کو ٹیگ کو ہٹانےکی وارننگ دینے کے دو دن بعد ہوئی ہے اور اس کوکمپنی پر سرکاری دباؤ بنانے کے طور پردیکھا جا رہا ہے۔ ٹوئٹر کے ذریعے لگائے گئے ‘مینی پولیٹیڈ میڈیا’ ٹیگ کو بی جے پی کے لیے ایک جھٹکا اور کانگریس کی جیت کے طورپر دیکھا جا رہا ہے۔
آئی ٹی کی وزارت نےجمعہ کو بھیجے نوٹس میں اس کے فیصلےکی تعمیل نہ کیے جانے کی صورت میں نتائج کے بارے میں کچھ نہیں کہا تھا، لیکن اس نے کہا تھا کہ معاملہ قانون نافذ کرنےوالی ایجنسی کے سامنے زیر التوا ہے اور پاترا کے ٹوئٹ کو اس طرح سے ہری جھنڈی دکھانے سے کمپنی نتیجہ کو متاثر کر رہی ہے۔
اسپیشل سیل کی دونوں ٹیمیں قومی راجدھانی کے باہری علاقے دہلی کے لاڈو سرائے اور گڑگاؤں میں واقع ٹوئٹر انڈیاکے دفاتر گئی تھیں۔
اس چھاپےماری سے پہلے ہی میڈیا کے ایک حصہ کو جانکاری دے دی گئی تھی تاکہ پولیس کارروائی کو فلمایا جا سکے، جس سے ایسے اشارےملتے ہیں کہ حکام کامقصد کوئی گمبھیر جانچ نہیں بلکہ دکھاوا کرنا تھا۔
اسپیشل سیل کے ایک سینئر افسر نے
انڈین ایکسپریس سے کہا، ‘ہم جاننا چاہتے ہیں کہ ٹوئٹر کے پاس ٹول کٹ کے بارے میں کیا جانکاری ہے اور انہوں نے ‘مینی پولیٹیڈ میڈیا’ لیبل دینا کیوں چنا۔ ہماری ٹیم مہرولی واقع ان کے دہلی دفتر اور گولف کورس روڈواقع ان کے گڑگاؤں دفتر پر چھاپےماری کر رہی ہے۔’
وہیں، دہلی پولیس کے تعلقات عامہ کے افسر چنمئے بسوال نے بتایا،‘دہلی پولیس کی ٹیمیں عام ضابطہ کے تحت ٹوئٹر انڈیا کو نوٹس دینے کے لیے اس کے دفتروں میں گئی تھیں۔ اس کی ضرورت اس لیے پڑی کیونکہ وہ جاننا چاہتے تھے کہ نوٹس دینے کے لیے صحیح شخص کون ہےکیونکہ ٹوئٹر انڈیا کے ایم ڈی کی جانب سے ملا جواب بالکل صحیح نہیں تھا۔’
انہوں نے کہا، ‘ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ٹوئٹر کے پاس کچھ جانکاری ہے، جو ہمیں معلوم نہیں ہے اور جس کی بنیاد پر انہوں نے اسے (پاترا کا ٹوئٹ)لیبل کیا ہے۔ یہ جانکاری جانچ سے متعلق ہے۔ معاملے کی جانچ کر رہی اسپیشل سیل سچائی کا پتہ لگانی چاہتی ہے۔ سچ پتہ ہونے کا دعویٰ کرنے والے ٹوئٹر کووضاحت دینی چاہیے۔’
بسوال نے کہا کہ دہلی پولیس ٹول کٹ معاملے میں درج شکایت کی بنیاد پر جانچ کر رہی ہے۔ پولیس نے حالانکہ شکایت کے مندرجات یا شکایت کرنے والے کی پہچان عوامی کرنے سے منع کر دیا۔حالانکہ انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن کا ماننا ہے کہ پولیس کا یہ قدم نوٹس بھیجنا کم اور ان پر دباؤ بنانے کا زیادہ لگ رہا ہے۔
انہوں نے ٹوئٹ کر کہا، ‘نوٹس دینے کی کارروائی ای میل اور پوسٹ کےذریعےیا کئی پولیس اہلکاروں کے ساتھ کی جا سکتی ہے۔ جب یہ بعد والا(کئی پولیس اہلکاروں کے ساتھ)ہوتا ہے تو خطرے کا احساس پیدا کرےگا، جو عام قانونی کارروائی سے پرے ہے (جو خود مشتبہ ہے)۔ یہ اشارہ دے رہا ہے اور اسے چھوٹا نہیں بنایا جانا چاہیے۔’
معلوم ہو کہ گزشتہ18مئی کو اس وقت
تنازعہ کھڑا ہو گیا تھا جب بی جے پی نے کانگریس پر کورونا مہاماری کے دوران عوام کو گمراہ کرنے اور وزیر اعظم نریندر مودی کی امیج کو خراب کرنے کا الزام لگایا تھااور کہا تھاکہ اس بحران میں اپوزیشن پارٹی کی ‘گدھوں کی سیاست’ اجاگر ہوئی ہے۔
ایک‘کووڈ 19 ٹول کٹ’کا حوالہ دیتے ہوئے بی جے پی ترجمان سمبت پاترا نے الزام لگایا تھاکہ کورونا کے وقت جب پورا ملک مہاماری سے لڑ رہا ہے تو کانگریس نے اپنے سیاسی مفاد کے لیےہندوستان کو پوری دنیا میں‘ذلیل اور بدنام’کرنے کی کوشش کی ہے۔
اسی طرح کے الزام بی جے پی رہنما جےپی نڈا، اسمرتی ایرانی اور بی ایل سنتوش نے بھی کانگریس پر لگائے تھے۔ اس کے علاوہ اس میں مرکزی وزیروں پیوش گوئل، ہردیپ سنگھ پوری، کرن رجیجو، انوراگ ٹھاکر، پرہلاد جوشی، اتراکھنڈ کے وزیراعلیٰ تیرتھ سنگھ راوت، منی پور کے وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ، بی جے پی ایم پی راجیہ وردھن سنگھ راٹھوڑ، تیجسوی سوریا، پی سی موہن، منوج کوٹک، ونئے سہستربدھے جیسے لوگ بھی شامل ہیں۔
بتا دیں کہ ٹول کٹ ایک طرح کا دستاویز ہوتا ہے، جس میں اپنی مہم کو آگے بڑھانے کے لیے مرحلہ وار مدعے ہوتے ہیں۔ مہم کو رفتار دینے کے لیے انہی مدعوں پرمخالفین کو گھیرنے کے لیےپروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔
اس کے بعد کانگریس نے بی جے پی پرکورونا مہاماری کے وقت وزیر اعظم نریندر مودی کی امیج بچانے اور لوگوں کا دھیان بھٹکانے کے لیے‘فرضی ٹول کٹ’تیار کرنے کا الزام لگایا اور مقتدرہ پارٹی کے صدرجےپی نڈا، اس کےسینئررہنماؤں بی ایل سنتوش، اسمرتی ایرانی، سمبت پاترا اور کئی دیگر کے خلاف دہلی پولیس میں‘جعلسازی’ کی شکایت درج کرائی۔
پاترا کے علاوہ دایاں محاذ کی شیفالی ویدیہ کے
ٹوئٹ کو بھی ٹوئٹر نے اسی خانے میں ڈالا ہے۔
اس پر 21 مئی کو آئی ٹی وزارت نے اعتراض کیا تھا۔ ٹھیک اسی دن دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے ٹوئٹر انڈیا کے مییجنگ ڈائریکٹرکو نوٹس بھیجا تھا۔پولیس نے نوٹس میں ٹوئٹر انڈیا کے ایم ڈی سے جانچ کے سلسلے میں تمام متعلقہ دستاویزوں کے ساتھ 22 مئی کی دوپہر ایک بجے ڈی ایس پی دفتر پہنچنے کی گزارش کی تھی۔
ٹوئٹر انڈیا کے ایم ڈی کو بھیجے گئے نوٹس میں کہا گیا تھا کہ مبینہ طور پرکانگریس کے ذریعے شیئر کی گئی ٹول کٹ کے سلسلے میں شروعاتی جانچ کی جا رہی ہے۔ جانچ کے دوران ہمارے علم میں آیا ہے کہ آپ معاملے کی سچائیوں سےواقف ہیں اور اس بارے میں آپ کے پاس جانکاری ہے۔’
وہیں،نام نہاد‘کانگریس ٹول کٹ’معاملے میں چھتیس گڑھ پولیس نے سابق وزیر اعلیٰ اور بی جے پی رہنما رمن سنگھ اور پارٹی ترجمان سمبت پاترا کے خلاف کیس درج کیا ہے۔اس معاملے کو لےکرصوبے کی مقتدرہ پارٹی کانگریس کی طلبہ تنظیم این ایس یو آئی کے ریاستی صدرآکاش شرما نے رمن سنگھ اور سمبت پاترا کے خلاف رائے پور کے سول لائنس تھانے میں معاملہ درج کرایا تھا۔
کانگریس نے بھی ٹوئٹر کو خط لکھ کر ان ٹوئٹ کو ہٹانے اور فرضی ٹول کٹ شیئر کرنے والوں کے اکاؤنٹ کو مستقل طورپرسسپنڈ کرنے کی مانگ کی ہے۔خط میں کہا گیا ہے کہ بی جے پی کے اعلیٰ عہدیداروں نے ‘غلط جانکاری’ پھیلانے کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طورپر ٹوئٹر کا استعمال کیا تھا، جو ‘موجودہ مہاماری کے بیچ ملک میں سماجی بدامنی کی وجہ بن سکتا ہے۔’
ٹوئٹر انڈیا کے ایک ترجمان نے دی وائر کے سوالوں کے جواب میں اس معاملے پر تبصرہ دینے سے انکار کر دیا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)