ایف آئی آر میں نیوز کلک کے ایڈیٹر پربیر پرکایستھ، گوتم نولکھا اور امریکی کاروباری نیول رائے سنگھم کے خلاف یو اے پی اے کی پانچ دفعات لگائی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ، شاؤمی اور وی وو کی طرف سے ‘غیر قانونی فنڈنگ’ اور کسی ‘گوتم بھاٹیہ’ کے ذریعے ‘ان ٹیلی کام کمپنیوں کے’ قانونی معاملات میں دفاع’ کے بارے میں بات کی گئی ہے۔ کمپنیوں سے متعلق عدالتی ریکارڈ میں کسی گوتم بھاٹیہ کے وکیل ہونے کے شواہد نہیں ہیں۔
نئی دہلی: نیوز کلک اور اس کے ایڈیٹر پربیر پرکایستھ کے خلاف دہلی پولیس کی ایف آئی آر، جس کی وجہ سے ان کی گرفتاری ہوئی اور تقریباً 50 دیگر صحافیوں، قلمکاروں اور نیوز پورٹل سے وابستہ دیگر افراد کے یہاں چھاپے مارے گئے، اس میں ایک’بڑی مجرمانہ سازش’ کا الزام لگایا گیا ہے۔ اس میں چینی کمپنیوں شاؤمی اور وی وو کی طرف سے ‘غیر قانونی فنڈنگ فراہم کرنے’ اور کسی ‘گوتم بھاٹیہ’ کے ذریعے ان ٹیلی کام کمپنیوں کے خلاف ‘قانونی معاملوں کے دفاع’ کرنے کی بات بھی کی گئی ہے، اور انہی بھاٹیہ کو ‘اہم شخص’ بتایا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، ایف آئی آر میں بھاٹیہ کے بارے میں کوئی اور تفصیلات نہیں ہیں اور جن دو چینی کمپنیوں کا نام لیا گیا ہے، ان سے متعلق عدالتی ریکارڈ میں کسی بھی گوتم بھاٹیہ کے وکیل ہونے کے شواہد نہیں ہیں۔
اس نام کے سب سے مشہور وکیل اور آئین اور اظہار رائے کی آزادی کے موضوع پراہم کتابیں لکھ چکے ہیں، اور ان کی عدالتی پریکٹس انسانی حقوق سے متعلق مقدمات پر ہی مرکوز رہی ہے۔ چینی کمپنیوں کو چھوڑ بھی دیں، تو ایسی کوئی جانکاری نہیں ہے جس سے پتہ چلتا ہو کہ ان کا کسی بھی ٹیلی کام کمپنی کے ساتھ کوئی ناطہ رہا ہو۔
قابل ذکر ہے کہ 17 اگست 2023 کو درج کی گئی ایف آئی آر میں پرکایستھ، انسانی حقوق کے کارکن گوتم نولکھا اور امریکی کاروباری نیول رائے سنگھم کے نام ہیں اور غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کی دفعہ 13/16/17/18/22 – یعنی غیر قانونی سرگرمی، دہشت گردی، دہشت گردی کے لیے فنڈز جمع کرنا، سازش کرنا اور گواہوں کو دھمکانے سے متعلق متعدد دفعات لگائی گئی ہیں- اس کے علاوہ تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 153 اے (گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) اور 120 بی (مجرمانہ سازش) کے تحت الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
پرکایستھ، نیوز کلک اور سنگھم – ایک امریکی کاروباری جن کی اوپن بینکنگ چینلوں کے ذریعے نیوز پورٹل کی فنڈنگ اب پولیس کیس کی بنیاد ہے – کے خلاف اپنے کلیدی دعووں کے بعد ایف آئی آر کہتی ہے؛
‘یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ بڑی چینی ٹیلی کام کمپنیوں مثلاً شاؤمی، وی وو وغیرہ نے اس سازش کو آگے بڑھانے کے لیے غیر قانونی طور پر غیر ملکی فنڈز ہندوستان میں لانے کے لیے پی ایم این اے/ایف ای ایم اے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہندوستان میں ہزاروں شیل کمپنیوں کو شامل کیا۔’
مزید لکھا ہے،
‘اس کے علاوہ پربیر پرکایستھ، نیول رائے سنگھم، گیتا ہری ہرن، گوتم بھاٹیہ (اہم افراد) نے مذکورہ چینی ٹیلی کام کمپنیوں سے حاصل ہونے والے منافع کے عوض میں ان کمپنیوں کے خلاف قانونی معاملوں میں مہم چلانے اور بڑھ چڑھ کران کا دفاع کرنے کے لیے ہندوستان میں ایک قانونی کمیونٹی نیٹ ورک بنانے کی سازش کی۔’
واضح ہو کہ شاؤمی اوروی وو نہ صرف ہندوستان میں موبائل فون سپلائر ہیں بلکہ سرمایہ کار کے طور پر بھی ان کی بڑی موجودگی ہے۔ شاؤمی نے شیئر چیٹ، کریڈیٹ بی، زیسٹ منی جیسے ہندوستانی اسٹارٹ اپس میں بھی بہت پیسہ لگایا ہے۔ دونوں کمپنیاں اس وقت منی لانڈرنگ کے لیے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کی جانچ کے دائرے میں ہے اور ہندوستان میں ان کے مالیاتی اثاثوں کا ایک بڑا حصہ ضبط کیا جا چکا ہے۔
شاؤمی کے وکیل ادے ہولا نے اس سال کی شروعات میں کرناٹک ہائی کورٹ میں کمپنی کا دفاع کیا تھا، حالانکہ وہ کمپنی کے فریز کیے گئے فنڈ کو جاری کروانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ دہلی ہائی کورٹ میں وی وو کی نمائندگی سینئرایڈوکیٹ سدھارتھ لوتھرا اور سدھارتھ اگروال نے کی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ سال 2020 میں کووڈ وبائی مرض کے دوران شاؤمی نے پی ایم کیئرز فنڈ میں 10 کروڑ روپے کا چندہ دیا تھا اور فی الحال وہ ‘ہندوستان میں بڑے پیمانے پر پروڈکشن اکائیوں کی منصوبہ بندی کر رہا ہے’۔ وہیں، ہندوستان میں پہلے ہی 2400 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کر چکی وی وو مجموعی طور پر 7500 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کا منصوبہ بنا رہی ہے۔
تاہم، ہندوستان میں توسیع کے ان منصوبوں پر سوال اٹھنا یقینی ہے کیونکہ دہلی پولیس نے اب دونوں چینی کمپنیوں کو ہندوستان کو غیر مستحکم کرنے کی بین الاقوامی دہشت گردی کی سازش کے مرکز میں رکھا ہے۔
ہندوستانی حکومت کی پالیسیوں کی تنقید
ایف آئی آر میں ایک مقام پر پولیس کا کہنا ہے کہ چینی فنڈنگ سے آئی ‘خطیر رقم’ کا استعمال’پیڈ نیوز’ شائع کرنے کے لیے کیا گیا تھا، جس میں ہندوستانی حکومت کی پالیسیوں کی تنقید کی گئی تھی اور چینی پالیسیوں کو فروغ دیا گیا تھا، تاہم ایف آئی آر میں اس حوالے سے تفصیلات نہیں دی گئی ہیں۔
جیسا کہ 4 اکتوبر کو پولیس ریمانڈ کی درخواست میں بھی کہا گیاتھا، ایف آئی آر میں ایک بند ہوچکے وہاٹس ایپ گروپ کا نام بھی ہے، جس کو لے کر اس کا الزام ہے کہ یہ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں ‘گڑبڑی پھیلانے’ کے ارادے سے پرکایستھ کے ساتھ ایک سازش کے تحت کئی سال پہلے بنایا گیا تھا۔ ایف آئی آر میں لکھا ہے؛
‘یہ انکشاف ہوا ہے کہ پربیر پرکایستھ نے 2019 کے عام انتخابات کے دوران انتخابی عمل میں خلل ڈالنے کے لیے پیپلز الائنس فار ڈیموکریسی اینڈ سیکولرازم (پی اے ڈی ایس) نامی گروپ کے ساتھ سازش رچی تھی۔ اس گروپ میں شامل کلیدی لوگ، جو اس سازش میں شراکت دار تھے، وہ بتینی راؤ (کنوینر، پی اے ڈی ایس)، دلیپ سیموئن، دیپک ڈھولکیا، ہرش کپور، جمال قدوائی، کرن شاہین، سنجے کمار، اسیت داس وغیرہ ہیں۔’
دلیپ ایک مشہور مؤرخ ہیں جو کچھ سال قبل دہلی یونیورسٹی سے ریٹائر ہوئے ہیں، جبکہ دیپک ڈھولکیا ایک اسکالر اور سماجی کارکن ہیں۔ دونوں کے یہاں 3 اکتوبر کو دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے چھاپہ مارا تھا اور ان کے الکٹرانک آلات ضبط کیے تھے۔
یہاں بھی ایف آئی آر میں ان سنگین الزامات کو ثابت کرنے کے لیے کوئی تفصیلات یا مصدقہ معلومات نہیں دی گئی ہیں۔
‘گھریلو فارما انڈسٹری کے خلاف جھوٹے بیانیے’کا الزام
پرکایستھ اور سنگھم کے ساتھ ساتھ قلمکار وجے پرساد کے خلاف ایک اور الزام یہ ہے کہ انہوں نے دوسروں کے ساتھ مل کر ‘کووڈ-19 وبائی مرض پر قابو پانے کے ہندوستانی حکومت کی کوششوں کو بدنام کرنے کے لیے جھوٹا بیانیہ چلایا۔’ یہ الزام ریمانڈ کی درخواست میں بھی شامل ہے، ایف آئی آر میں ایک اور الزام بھی شامل ہے کہ؛
‘اس کے علاوہ، انہوں نے گھریلو فارما انڈسٹری اور ملک دشمن قوتوں کے ساتھ مل کر جمہوری طور پر منتخب حکومت ہند کی پالیسیوں اور اقدامات کے بارے میں گمراہ کن اور جھوٹے بیانیے کو فروغ دے کر قومی مفاد کے خلاف کام کیا ہے۔’
تاہم اس حوالے سے کوئی تفصیلات نہیں بتائی گئی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایف آئی آر میں پولیس ریمانڈ رپورٹ میں شامل زیادہ سنگین (لیکن غیر ثابت شدہ) الزامات میں سے ایک کا ذکر نہیں کیا گیا ہے، جیسے کہ ‘ملزمین نے ملزم نیول رائے سنگھم کے ساتھ مل کر سماج کے مختلف طبقوں میں عدم اطمینان پیدا کرنے کی سازش کی’اور وہ ‘ کالعدم دہشت گرد تنظیم کے ساتھ ہمدردی رکھتے پائے گئے تاکہ ملک کی یکجہتی، سالمیت، سلامتی اور خود مختاری کو خطرہ ہو۔’
ابھی تک پولیس نے اس بات کی نشاندہی نہیں کی کہ وہ کس کالعدم دہشت گرد تنظیم کا حوالہ دے رہی ہے۔
ایف آئی آر میں کلیدی الزام ‘ نقشے بنانے سے متعلق دہشت گردی’کا
ایف آئی آر میں پرکایستھ اور سنگھم پر ایک دوسرے کو ایسے ای میل بھیجنے کا الزام بھی لگایا گیا ہے جو ‘کشمیر اور اروناچل پردیش کو ہندوستان کا حصہ نہ دکھانے کے ان کے ارادے کو اجاگر کرتا ہے۔’ پولیس کا کہنا ہے کہ اس سے’عالمی اور گھریلو سطح پر ایک بیانیہ چلانے کی ان کی سازش کا پتہ چلتا ہے کہ کشمیر اور اروناچل پردیش متنازعہ علاقے ہیں۔ ہندوستان کی شمالی سرحدوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے اور کشمیر اور اروناچل پردیش کو ہندوستان کے نقشے پر نہ دکھانے کی ان کی کوششیں ہندوستان کی یکجہتی اور علاقائی سالمیت کو نقصان پہنچانے کے مقصد سے کیا گیا کام ہے۔’
حالاں کہ، ایف آئی آر میں اس الزام کو ثابت کرنے کے لیے کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکام نے 5 اگست 2023 کو سنگھم پر نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں نیوز کلک کا حوالہ آنے کے فوراً بعد میڈیا کے ایک حصے کواس مبینہ ای میل کے حصے لیک کر دیے۔
انڈیا ٹوڈے میگزین کی 9 اگست 2023 کی ایک خبر میں اس کا ذکر ہے۔ اسی دن آر ایس ایس کے ترجمان ‘آرگنائزر’ نے بھی اسی طرح کا ذکر کیا تھا۔
تاہم، دونوں رپورٹ میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ نقشے سے متعلق کوئی میل پربیر نے بھیجا ہو۔
سنگھم سے پوچھ گچھ کے لیے ہندوستان کیا قدم اٹھا رہا ہے اس بارے میں کوئی جانکاری نہیں
سنگھم ایک امریکی شہری ہے جو اس وقت چین میں مقیم ہیں۔ جمعرات کو وزارت خارجہ سے پوچھا گیا کہ کیا اس نے امریکی حکومت کے ساتھ سنگھم کی شمولیت کاسوال اٹھایا ہے۔ اس پر وزارت خارجہ کے ترجمان نے اشارہ دیا کہ ہندوستان میں ابھی تک ایسا کوئی معاملہ نہیں اٹھایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘اگر ہماری ایجنسیوں کو پتہ چلتا ہے کہ کوئی ادارہ یا فرد ہمارے قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور اس کے لیے غیر ملکی حکومتوں تک رسائی یا مدد کی ضرورت ہوگی، تو ہم ایسا کرتے ہیں۔ اور جب ہماری ایجنسیاں کہیں گی تو ہم ایسا کریں گے۔ میرے پاس کسی ایک شخص یا کسی معاملے پر بتانے لیے کچھ خاص نہیں ہے۔’
سنگھم پر دہشت گردی کا الزام لگانے والی ایف آئی آر 17 اگست کو درج کی گئی تھی، لیکن ایسا لگتا ہے کہ مودی حکومت نے ابھی تک امریکی یا چینی حکام سے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ نہیں کیا ہے۔