یہ معاملہ دہلی کے آدرش نگر میں ایک فلائی اوور پر بنے مزار سے جڑا ہوا ہے۔ گزشتہ دنوں ہندوتووادی تنظیم سے جڑے کچھ نوجوان وہاں پہنچتے ہیں اور مولوی سےسوال جواب کرتے ہوئے بحث کرنے لگتے ہیں۔تب بیچ بچاؤ کےلیےایس ایچ او آ جاتے ہیں۔اس واقعہ کا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تھا۔دہلی پولیس کا دعویٰ ہے کہ ڈیوٹی میں لاپرواہی برتنے کے مدنظر انہیں سسپنڈ کیا گیا ہے، لیکن کارروائی کو اس واقعہ سے جوڑکر دیکھا جا رہا ہے۔
ہندوتوادی نوجوان کو وارننگ دیتے ایس ایچ او سی پی بھاردواج۔
نئی دہلی: دہلی پولیس نے آدرش نگر تھانے کے انچارج(ایس ایچ او)سی پی بھاردواج کوسسپنڈ کر دیا ہے، جنہوں نے ایک ہفتے پہلے ہندوتووادی گروپ کےذریعےایک مزار کےمولوی کو ہراساں کیے جانے کے معاملےدخل اندازی کی تھی اور ایسا کرنے سے انہیں روکا تھا۔
اس معاملے کو لےکرسوشل میڈیا پر ایک ویڈیو تیزی سے وائرل ہوا تھا،جس میں بھاردواج کو بیچ بچاؤ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ انہوں نے متعلقہ شخص کو پھر سے یہ سب نہ دہرانے کی وارننگ بھی دی تھی۔
ویسے تو دہلی پولیس کا دعویٰ ہے کہ ‘صحیح طریقے سے کام نہیں کرنے’کی وجہ سے بھاردواج کو سسپنڈکیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سی پی بھاردواج کے خلاف کئی شکایتیں بھی دائر ہوئی تھیں۔ حالانکہ اس کارروائی کو اس وائرل ویڈیو سے جوڑکر دیکھا جا رہا ہے، جہاں آفیسر نے مولوی کو ہراساں کرنے سے شخص کو روکا تھا۔
ایس ایس او بھاردواج نے رائٹ ونگ کے شخص سے کہا تھا کہ اگر وہ کسی بھی غیرقانونی مذہبی تعمیرات کی شکایت کرنا چاہتے ہیں، تو دہلی سرکار نے اس کے لیے ایک کمیٹی بنائی ہوئی ہے، وہاں وہ جاکر اپنی بات رکھ سکتے ہیں، لیکن اس طرح سڑک پر تماشہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائےگی۔
گزشتہ بدھ کو خبررساں ایجنسی-اے این آئی نے دہلی پولیس کے حوالے سے بتایا کہ افسرکو ‘ڈیوٹی کی تعمیل میں لاپرواہی برتنے اور ان کے خلاف درج کئی شکایتوں کے مد نظر سسپنڈ کیا گیا ہے۔’
دہلی پولیس کے ایڈیشنل پبلک ریلیشن آفیسرانل متل نے دی وائر سے رابطہ کرنے پر اسی وضاحت کو دہرایا۔
اس معاملےپرتبصرہ کے لیےدی وائر نے ڈپٹی کمشنر آف پولیس(شمالی ضلع)اوشا رنگانی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن ان سے فون پر رابطہ نہیں ہو سکا۔ اگر ان کی طرف کوئی جواب آتا ہے تو اسے سٹوری میں اپ ڈیٹ کر دیا جائےگا۔
دراصل یہ معاملہ آدرش نگر میں ایک فلائی اوور پر بنے مزار سے جڑا ہوا ہے، جہاں گزشتہ دنوں ہندوتووادی تنظیم سے جڑے نوجوان پہنچتے ہیں اور مولوی سے سوال جواب کرتے ہوئے بحث پر اتر آتے ہیں۔ انہوں نے اس کا ایک ویڈیو بنایا تھا، جس پر نیوز ایکسکلوسو لکھا ہوا ہے۔ اسے گزشتہ چار اگست کو سوشل میڈیا پر ساجھا کیا گیا تھا۔
ویڈیو میں بھگوا رنگ کا گمچھا کندھے پر رکھے ہوئے ایک نوجوان مائیک لےکر مولوی سے سوال پوچھتا ہے فلائی اوور کب بنا، اس پر مولوی بتاتے ہیں کہ نیا فلائی اوور 2009 میں بنا اور پہلے والے کی تعمیر1982 میں ایشیائی کھیلوں سے پہلے کی گئی تھی۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ یہ انہیں ان کے بزرگوں نےبتایا تھا، جن کا انتقال ہو گیا ہے۔
نوجوان مولوی سے کھانا کہاں بناتے ہیں اور ان کے بچہ کہاں رہتے ہیں، جیسے سوال پوچھتا ہے۔ اس کے بعد نوجوان مولوی سے پوچھتا ہے، ‘آپ کے ایسے کتنے مزار چل رہے ہیں’، تب ویڈیو میں آدرش نگر کے ایس ایچ او سی پی بھاردواج نظر آتے ہیں۔
بھاردواج نے ان لوگوں سے سوال کیا کہ ‘آپ کو کس نے یہ حق دیا ہے کہ آپ ہندوستان کےشہریوں پر اس طرح کا دباؤ ڈالیں۔ اگرآپ کچھ کہنا چاہتے ہیں تو آپ کو قانونی راستہ اپنانا ہوگا۔’
ایس ایچ او نے کہا کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر دہلی سرکار نے ایک مذہبی کمیٹی بنا رکھی ہے اور اگر انہیں کوئی پریشانی ہے تو وہ اس کمیٹی میں جاکر اپنی بات رکھیں۔سی پی بھاردواج نے نوجوان کووارننگ بھی دی تھی کہ اگر وہ دوبارہ اس طرح دھمکانے کی کوشش کریں گے تو ان پر قانونی کارروائی کی جائےگی۔
ویڈیو میں صبروتحمل کے ساتھ مثبت جواب دیتے ہوئے ایس ایچ او بھگوا رنگ کا گمچھا لپیٹے نوجوان سے کہتے ہیں،‘کمیٹی میں ایسی کسی بھی تعمیرات کا تجزیہ کیا جاتا ہے، سبھی فریقین کی رائے لی جاتی ہیں اور اگرکوئی ڈھانچہ کسی بھی طرح سے رکاوٹ ڈالتا پایا جاتا ہے یا آمدورفت کو متاثرکرتا ہے تو پھر اسے منتقل کر دیا جاتا ہے۔’
ویڈیو میں بھاردواج نوجوان سے یہ بھی کہتے ہیں،‘آپ کسی ہندوستانی کو دھمکانے کا حق نہیں رکھتے۔’اس بیچ نوجوان کہتا ہے کہ چاندنی چوک پر مندر توڑا گیا اس پر آپ کیا کہیں گے؟
اس پر ایس ایچ او کہتے ہیں،‘جو آئینی اہتمام ہے، آپ اس پر بات کیجیے۔ آپ کسی بھی شہری یا مذہبی شخص کو اس طرح سے دھمکائیں گے نہیں۔ آپ کو کوئی حق نہیں ہے۔’
وہ گروپ کے خلاف قانونی کارروائی کی دھمکی بھی دیتے ہیں اور کہتے ہیں،‘میں آپ لوگوں کو سخت وارننگ دے رہا ہوں۔’
حالانکہ،جب بھگوا گمچھا والا نوجوان اپنی دلیل پر قائم رہتے ہوئے کہتا ہے کہ ہم بھی آپ کے خلاف کارروائی کریں گے، تو افسر حملہ آور ہو جاتے ہیں اور نوجوان کو پیچھے دھکیلتے ہوئے اپنے ملازمین کو اسے ساتھ لےکر چلنے کو کہتے ہیں۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)