بُلی بائی ایپ پر نیلامی کے لیےسینکڑوں مسلم خواتین کی چھیڑچھاڑ کی گئی تصویروں کو ان کی اجازت کے بغیراپ لوڈ کرنےکےمعاملے میں گرفتار چوتھے شخص کی شناخت 21 سالہ نیرج وشنوئی کے طور پر کی گئی ہے۔ پولیس نے بتایا کہ بشنوئی نے گٹ ہب پلیٹ فارم پر ‘بُلی بائی’ایپ بنایا تھا اور وہ ٹوئٹر پر ‘بُلی بائی’کاکلیدی اکاؤنٹ ہولڈر بھی ہے۔
نئی دہلی: دہلی پولیس نے ‘بُلی بائی’ایپ تنازعہ کے سلسلے میں جمعرات کو آسام کے جورہاٹ سے انجینئرنگ کے دوسرے سال کے ایک طالبعلم کوگرفتار کیا ہے۔ ‘بُلی بائی’ایپ معاملےمیں یہ چوتھی گرفتاری ہے۔
اس ایپ پر نیلامی کےلیےسینکڑوں مسلم خواتین کی چھیڑ چھاڑ کی گئی تصویروں کو ان کی اجازت کے بغیر اپ لوڈ کیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ملزم کی شناخت 21 سالہ نیرج بشنوئی کے طور پر کی گئی ہے اور وہ دوپہر تقریباً 3.30 بجے دہلی پہنچے گا۔ پولیس نے بتایا کہ بشنوئی جورہاٹ کا رہنے والا ہے اور بھوپال میں پڑھائی کرتاہے۔
پولیس کے مطابق بشنوئی نے ہی گٹ ہب پلیٹ فارم پر ‘بُلی بائی’ایپ بنایا تھا اور وہ ٹوئٹر پر ‘بُلی بائی’کاکلیدی اکاؤنٹ ہولڈر بھی ہے۔ملزم کو دہلی پولیس کی انٹلی جنس فیوژن اینڈ اسٹریٹجک آپریشنز(آئی ایف ایس او)یونٹ نے گرفتار کیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر آف پولیس آئی ایف ایس او، کے پی ایس ملہوترا نے کہا، اسے تکنیکی تجزیہ اور آئی پی ڈی آر(انٹرنیٹ پروٹوکول ڈیٹیل ریکارڈز)اورگیٹ وےکااستعمال کرکےجمعرات کی صبح جورہاٹ سے گرفتار کیا گیا۔
ڈی سی پی نے بتایا کہ بشنوئی مدھیہ پردیش کی راجدھانی بھوپال کے ویلور انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی سے بی ٹیک کے دوسرے سال کا طالبعلم ہے۔اس معاملے میں یہ چوتھی گرفتاری ہے۔
معاملے کی جانچ کر ر ہےممبئی پولیس کے سائبر سیل نے اس سے قبل تین گرفتاریاں کی ہیں۔
اس معاملے میں بدھ کی صبح اتراکھنڈ سےمینک راول (21 سال)کو گرفتار کیا گیا تھا۔ شویتا سنگھ کو 4 جنوری کو اتراکھنڈ کے رودر پور سےگرفتار کیا گیا تھا، جبکہ انجینئرنگ کے طالبعلم وشال کمار جھا (21 سال)کو 3 جنوری کو بنگلورو سے گرفتار کیا گیا تھا۔
اس سے پہلے ممبئی پولیس نے جانکاری دی تھی کہ ایپ کو اوپن سورس سافٹ ویئر پلیٹ فارم گٹ ہب پر ہوسٹ کیا گیا تھا۔ بعد میں اسے پلیٹ فارم سے بلاک کر دیا گیا۔ اصل میں میں ایسی کوئی ‘نیلامی’ یا ‘فروخت’ نہیں ہوئی تھی بلکہ اس ایپ کا مقصد نشانہ بنائی گئی خواتین کی توہین کرنا اور انہیں دھمکانا تھا۔ ان میں سے بہت سی خواتین سوشل میڈیا پر کافی متحرک رہی ہیں۔
پولیس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ایسا لگتا ہے کہ ملزمین نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل میں سکھ برادری سے متعلق ناموں کا استعمال لوگوں کو گمراہ کرنے اور اور اس مقصد سے کیا کہ ان کی پہچان نہ ہو سکے۔
پولیس کی جانب سے جاری ایک ریلیز میں کہا گیا تھا کہ ریلیز میں کہا گیا،سکھ برادری سے متعلق ناموں کا استعمال یہ ظاہر کرنے کے لیے کیا گیا کہ یہ ٹوئٹر ہینڈل اس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بنائے ہیں۔
اس میں کہا گیا ہے کہ چونکہ نشانہ بننے والی خواتین مسلمان تھیں، اس لیے اس بات کا امکان ہے کہ اس سے ‘دو برادریوں کے درمیان دشمنی’ پیدا ہو سکتی تھی اور ‘عوامی امن وامان میں خلل’ پڑ سکتا تھا۔
غور طلب ہے کہ سینکڑوں مسلم خواتین کی اجازت کے بغیر ان کی تصویروں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی اور انہیں ‘بُلی بائی’ایپ پر ‘نیلامی’کے لیے اپ لوڈ کر دیا گیا تھا۔
ایپ کے ذریعے نشانہ بننے والی خواتین میں سے ایک کی درج کرائی گئی شکایت کی پر ممبئی پولیس کرائم برانچ کے سائبر پولیس اسٹیشن(ویسٹ)نے یکم جنوری کو نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی،جنہوں نے اس ایپ کوتیار کیا تھا اور کچھ ٹوئٹر ہینڈلز نے اس مواد کی تشہیر کی تھی۔
اس ایپ کو31 دسمبر 2021 کو امریکہ کے گٹ ہب نے ہوسٹ کیا تھا۔جس میں کم از کم 100 مسلم خواتین کی ڈاکٹرڈ تصویریں فحش تبصروں کے ساتھ آن لائن پوسٹ کی گئی تھیں۔
قابل ذکر ہے کہ ۔ ایک سال سے بھی کم کےعرصے میں ایسا دوسری بار ہوا ہے۔ یہ ایپ ‘سلی ڈیلز’ کی طرح ہے، جس کی وجہ سے پچھلے سال بھی ایسا ہی تنازعہ کھڑا ہوا تھا۔
گزشتہ سال جولائی میں کچھ نامعلوم افراد نے سلی ڈیلز نامی ایپ پر سینکڑوں مسلم خواتین کی تصویریں اپ لوڈ کی تھیں۔
این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق، سلی ڈیلز ایپ کے معاملے میں دہلی اور اتر پردیش پولیس کی طرف سے دو ایف آئی آر درج کی گئی تھی، حالانکہ اب تک ذمہ دار لوگوں کے خلاف کوئی خاص کارروائی نہیں کی گئی ہے۔
ٹھیک اسی طرز پر اس باربُلی بائی نام کے ایک آن لائن پورٹل نےان خواتین کی تضحیک کے ارادے سے ان کی رضامندی کے بغیر ان مسلم خواتین کی چھیڑ چھاڑ کی گئی تصویروں کا استعمال کرتے ہوئے ایک’نیلامی'(تضحیک آمیز لفظ ‘بُلی’ کا استعمال کرتے ہوئے)کا اہتمام کیا ہے۔
کئی خواتین نے بتایا ہے کہ ان کی تصویروں کا اس پلیٹ فارم پراستعمال کیا جا رہا ہے۔ ان میں دی وائر کی صحافی عصمت آرا بھی شامل ہیں، جنہوں نے ٹوئٹر پر اس ویب سائٹ کا اسکرین شاٹ بھی شیئر کیا، جس میں انہیں ‘بُلی بائی دی ڈے’بتایا گیا ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)