دہلی پولیس نے تین ملزم طالبعلموں کے بیانات کےسہارے دعویٰ کیا ہے کہ یوگیندریادو، سیتارام یچوری،جیتی گھوش، پروفیسراپوروانند جیسےلوگوں نےسی اے اےکی مخالفت کر رہے مظاہرین کو‘کسی بھی حد تک جانے کو کہا تھا’ اور سی اے اے-این آرسی کو مسلمان مخالف بتاکر کمیونٹی میں ناراضگی بڑھائی۔ حالانکہ پولیس کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کے نام بطور ملزم شامل نہیں ہیں۔
نئی دہلی: متنازعہ شہریت قانون (سی اے اے)کی مخالفت کرنے والے مظاہرین کے ذریعے ‘دہلی فسادات کی گہری شازش’ کرنے کے اپنے دعوے کو پختہ کرنے کی کوشش میں دہلی پولیس نے اب سیتارام یچوری، مشہور ماہرمعاشیات جیتی گھوش، دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند، سوراج ابھیان کےرہنمایوگیندریادو اور ڈاکیومنٹری فلمساز راہل رائے کا بھی نام اس میں گھسیٹ لیا ہے۔
الزام ہے کہ ان میں سے کچھ لوگوں نے سی اے اےکی مخالفت کر رہے مظاہرین کو ‘کسی بھی حد تک جانے کو کہا’، سی اے اے این آرسی کو مسلمان مخالف بتاکر کمیونٹی میں ناراضگی بڑھائی اورحکومت ہند کی امیج خراب کرنے کے لیے مظاہرےمنعقد کیے۔
شمال-مشرقی دہلی فسادات کو لےکر ایف آئی آرنمبر50/20 کےسلسلے میں پولیس کی جانب سےدائر کیے گئے ایک ضمنی چارج شیٹ میں ان لوگوں کے نام سامنے آئے ہیں، جس میں جعفرآباد تشدد میں تین طالبعلموں کےمبینہ رول کی تفصیلات دی گئی ہیں، جس کے بعد شمال-مشرقی دہلی کےدیگر حصوں میں فسادات بھڑکا تھا۔
اس میں پنجرہ توڑ کی دو کارکنوں دیوانگنا کلیتا اور نتاشا نروال کے علاوہ جامعہ ملیا اسلامیہ کی گل فشاں فاطمہ کا نام بطور ملزم شامل ہے۔کلیتا اور نروال کو مئی کے آخر میں گرفتار کیا گیا تھا، جبکہ فاطمہ کو جولائی کے آخر میں حراست میں لیا گیا تھا۔ تینوں کارکنوں پریو اے پی اےکے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔
نتاشا نروال اوردیوانگنا کلیتا جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ ہیں۔ کلیتا جے این یو کی سینٹر فار وومین اسٹڈیزکی ایم فل کی اسٹوڈنٹ ہیں جبکہ نروال سینٹر فار ہسٹوریکل اسٹڈیز کی پی ایچ ڈی اسٹوڈنٹ ہیں۔ دونوں پنجرہ توڑ کی بانی ممبر ہیں۔
خاص بات یہ ہے کہ دہلی پولیس نے فی الحال سیتارام یچوری، یوگیندر یادو اور جیتی گھوش کے ناموں کو ملزم کے طور پرشامل نہیں کیا ہے، بلکہ انہوں نے اس کے لیے کلیتا اور نروال کے‘دو یکساں بیانات’کا سہارا لیا ہے۔ حالانکہ دونوں ہی کارکنوں نے ان ‘بیانات’کے کچھ صفحات پر دستخط کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔
دہلی پولیس نے دعویٰ کیا کہ کلیتا اور نروال نے دہلی فسادات میں نہ صرف اپنے رول کو قبول کیا ہے، بلکہ انہوں نے گھوش، اپوروانند اور رائے کو سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کو متاثر کرنے کے لیے اپنا رہبر بتایا ہے۔پولیس نے دعویٰ کیا کہ کلیتا اور نروال نے اپنے بیانات جو کہ ایک جیسے دکھائی دیتے ہیں، میں کہا ہے کہ انہوں نے گھوش، اپوروانند اور رائے کے کہنے پر دسمبر میں دریا گنج میں مظاہرہ اور 22 فروری، 2020 کو سی اے اے کے خلاف جعفرآباد میں چکہ جام کیا تھا۔
اوپر لگے‘بیانات’کی کاپی، جس کو چارج شیٹ میں شامل کیا گیا ہے، میں صاف طورپر دیکھا جا سکتا ہے کہ کچھ جگہوں پر کلیتا اور نروال نے ‘دستخط کرنے سے انکار’ کیا ہے۔
وزیرداخلہ امت شاہ کو رپورٹ کرنے والی دہلی پولیس نے اپنی چارج شیٹ میں کہا، ‘ملزم دیوانگنا کلیتا نے بتایا ہے کہ سی اے اے پاس ہونے کے بعد دسمبر مہینے میں جیتی گھوش، پروفیسر اپوروانند، فلم ساز راہل رائے نے کہا تھا کہ ہمیں سی اے اے/این آرسی کے خلاف مظاہرہ کرنے ہیں اور اس کے لیے ہم کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اور عمر خالد نے بھی سی اے اے/این آرسی کے خلاف مظاہرہ کے لیے کچھ ٹپس دیے تھے۔’
کلیتا کا ذکر کرتے ہوئے پولیس نے آگے دعویٰ کیا؛
‘ان لوگوں کی ہدایت پرعمر خالدکے یونائٹیڈ اگینسٹ ہیٹ گروپ اور جے سی سی(جامعہ کوآرڈنیشن کمیٹی)اورہمارے پنجرہ توڑ کے ممبروں نےدہلی کے مختلف حصوں میں مظاہرے شروع کیے۔تاریخ 20/12/2019 کو میں اور پنجرہ توڑ کے دیگرممبردریا گنج میں چندرشیکھر‘راون’کی جانب سےبلائے گئے ایک مظاہرہ میں شامل ہوئے۔ جب پولیس نے ہمیں جنتر منتر جانے سے روکنے کی کوشش کہ تو ہم نے مظاہرین کو بھڑکایا، جس کی وجہ سے لوگ تشدد پر آمادہ ہو گئے اور کئی لوگ زخمی ہوئے۔
پروفیسر اپوروانند کے رول کا ذکر کرنے کے لیے پولیس نے پنجرہ توڑ کے بانی ممبروں کے بیانات کو کچھ اس طرح سے پیش کیا ہے؛
‘پروفیسر اپوروانند نےانہیں کہا کہ جےسی سی(جامعہ کوآرڈنیشن کمیٹی)دہلی میں20-25 جگہوں پر مظاہرہ شروع کرنے والی ہے۔ عمر خالد اوردیگرکی ہدایت پر ہم نے شمالی دہلی کی ایک مقامی لڑکی گل فشاں کو چنا اور انہوں نے تسلیم اوردیگر کے ساتھ ذمہ داری لی ہے کہ وہ سی اے اے/این آرسی کے خلاف مظاہرہ کے لیے بھیڑ اکٹھا کریں گی۔’
پولیس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ مظاہرین نے بتایا ہے کہ گھوش، اپوروانند اور رائے نے اسلامی گروپ پاپولرفرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی)اور جے سی سی کے ساتھ مل کر پنجرہ توڑ کے ممبروں کو ہدایت دی تاکہ وہ سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کر سکیں۔
ان مبینہ دلائل کی تصدیق کے لیے پولیس نے فاطمہ کے بیان کو پیش کیا جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ سیتارام یچوری، بھیم آرمی کے چیف چندرشیکھر، سوراج ابھیان کے رہنمایوگیندر یادو، وکیل محمود پراچہ، یونائٹیڈ اگینسٹ ہیٹ کے کارکن عمر خالد اور مسلم کمیونٹی کے رہنماؤں مثلاًسابق ایم ایل اےمتین احمد، انس، صدف، اور ایم ایل اے امانت اللہ خان نے بھی تشدد کی سازش کرنے والوں کی مدد کی۔
بے حدبولڈ ہوکر شہریت قانون کی مخالفت کرنےوالی فاطمہ نے 15 جنوری سے سیلم پور میں مظاہرے کاانعقاد کیا تھا۔ ان کے بیانات کا ذکر کرتے ہوئے پولیس نے دعویٰ کیا کہ انہیں اس لیے مظاہرہ کرنے کو بولا گیا تھا تاکہ ‘حکومت ہند کی امیج کو خراب کی جا سکے۔’
‘بھیڑ بڑھتی جا رہی تھی اور پلان کے مطابق بڑے رہنما اور وکیل بھیڑ کو بھڑ کانے اور ان کی صف بندی کے لیے آنے لگے، جس میں عمر خالد، چندرشیکھر راون، یوگیندر یادو، سیتارام یچوری، وکیل محمود پراچہ، چودھری متین وغیرہ شامل تھے۔محمود پراچہ نے کہا کہ دھرنا دینا آپ کا جمہوری حق ہے اور باقی رہنماؤں نے سی اے اے/این آرسی کو مسلم مخالف بتاکر کمیونٹی میں ناراضگی کے احساس کو بھر دیا۔’
پولیس نے دعویٰ کیا کہ پنجرہ توڑ کی دونوں کارکنوں نے اپنی ‘تعلیمی صلاحیت کا استعمال عام مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے کیا ہے کہ سی اے اے/این آرسی مسلمانوں کے خلاف ہے۔’چارج شیٹ پر ردعمل دیتے ہوئے یچوری نے ایک کے بعد ایک ٹوئٹ کرکے سرکار کو نشانہ بنایا ہے۔
दिल्ली पुलिस भाजपा की केंद्र सरकार और गृह मंत्रालय के नीचे काम करती है। उसकी ये अवैध और ग़ैर-क़ानूनी हरकतें भाजपा के शीर्ष राजनीतिक नेत्रत्व के चरित्र को दर्शाती हैं। वो विपक्ष के सवालों और शांतिपूर्ण प्रदर्शन से डरते हैं, और सत्ता का दुरुपयोग कर हमें रोकना चाहते हैं। https://t.co/8wrbN0URUO
— Sitaram Yechury (@SitaramYechury) September 12, 2020
انہوں نے کہا ہے، ‘دہلی پولیس بی جے پی کی مرکزی حکومت اور وزارت داخلہ کے نیچے کام کرتی ہے۔ اس کی یہ ناجائز اور غیر قانونی حرکتیں بی جے پی کی اعلیٰ سیاسی قیادت کے کردار کو پیش کرتی ہیں۔ وہ اپوزیشن کے سوالوں اور پرامن مظاہروں سے ڈرتے ہیں، اوراقتدار کا غلط استعمال کرکے ہمیں روکنا چاہتے ہیں۔’
انہوں نے کہا، ‘ہمارا آئین ہمیں نہ صرف سی اے اے جیسے ہر طرح کے امتیاز والے قوانین کے خلاف پرامن مظاہرہ کرنے کا حق دیتا ہے، بلکہ یہ ہماری ذمہ داری بھی ہے۔ ہم اپوزیشن کا کام جاری رکھیں گے۔ بی جے پی سرکار اپنی حرکتوں سے باز آئے۔ ایمرجنسی کو ہم نے ہرایا تھا۔ اس ایمرجنسی سے بھی نپٹیں گی۔’
यह मोदी सरकार न सिर्फ़ संसद में सवालों से डरती है, यह प्रेस कॉन्फ़्रेन्स करने से घबराती है और RTI का जवाब देने से – वो मोदी का निजी Fund हो या अपनी degree दिखाने की बात। इस सरकार की सभी असंवैधानिक नीतियों और असंवैधानिक क़दमों का विरोध जारी रहेगा।
— Sitaram Yechury (@SitaramYechury) September 12, 2020
ایک دیگر ٹوئٹ میں یچوری نے کہا، ‘یہ مودی سرکار نہ صرف پارلیامنٹ میں سوالوں سے ڈرتی ہے، یہ پریس کانفرنس کرنے سے گھبراتی ہے اور آر ٹی آئی کا جواب دینے سے وہ مودی کا نجی فنڈ ہو یا اپنی ڈگری دکھانے کی بات۔ اس سرکار کی تمام غیر آئینی پالیسیوں اورغیرآئینی اقدامات کی مخالفت جاری رہےگی۔’
انہوں نے آگے کہا، ‘56 لوگ دہلی کے تشدد میں مارے گئے۔ زہریلے بیانات کا ویڈیو ہے، ان پر کارروائی کیوں نہیں ہو رہی ہے؟کیونکہ سرکار نے آرڈر دیا ہے کہ اپوزیشن کو لپیٹا جائے، کسی بھی طرح سے۔ یہی ہے مودی اور بی جے پی کا اصلی چہرہ، چرتر، چال اور چنتن۔ مخالفت تو ہوگی اس کی۔’
56 लोग दिल्ली की हिंसा में मारे गए। ज़हरीले भाषणों का video है, उन पर कार्यवाई क्यों नहीं हो रही है? क्योंकि सरकार ने आदेश दिया है कि विपक्ष को लपेटा जाए, किसी भी तरह से। यही है मोदी और BJP का असली चेहरा, चरित्र, चाल और चिंतन। विरोध तो होगा इसका।
— Sitaram Yechury (@SitaramYechury) September 12, 2020
حالانکہ پولیس نے صفائی دی ہے کہ ان لوگوں کے نام چارج شیٹ میں ملزموں کے بیانات کے بنیاد پر شامل ہیں۔ ان پر کوئی الزام نہیں ہے۔انہوں نے ٹوئٹ کرکے کہا،‘یہ صاف کیا جاتا ہے کہ دہلی پولیس کی جانب سے دائر ضمنی چارج شیٹ میں سیتارام یچوری ،یوگیندریادو اور جیتی گھوش کے نام بطور ملزم شامل نہیں کیے گئے ہیں۔’
It is clarified that Shri Sitaram Yechury, Shri Yogendra Yadav and Smt Jayati Ghosh have not been arraigned as accused in the supplementary chargesheet filed by Delhi Police.
— #DilKiPolice Delhi Police (@DelhiPolice) September 13, 2020
دہلی پولیس کے ایڈیشنل تعلقات عامہ کے افسرانل متل نے کہا، ‘یہ نام سی اے اے مخالف مظاہروں کے انعقاداور انہیں مخاطب کرنے کے سلسلے میں ایک ملزم کے انکشاف کرنے والے بیان کا حصہ ہیں۔ صرف بیان کی بنیاد پر کسی شخص کو ملزم نہیں بنایا جاتا ہے۔’
اپوروانند نے دی وائر سے کہا، ‘دہلی فسادات کی سازش اور بھیما کورےگاؤں معاملے کے ساتھ ایک یکسانیت ہے۔ دونوں معاملوں میں تشدد کے حقیقی ملزمیں کی جانچ بالکل نہیں کی جا رہی ہے۔ دونوں معاملوں میں پولیس کو تشدد کے پیچھے کی سچائی کا پتہ لگانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ یہاں انہوں نے اینٹی سی اے اے مظاہرین کو مجرم بنانے کے لیے ایک الگ مہم شروع کی ہے۔’
بعد میں ایک بیان میں انہوں نے کہا، ‘ان ناموں کا ذکر ملزمین کے غیرمصدقہ بیانات میں کیا گیا ہے، جو کہ حراست میں ہیں اور جہاں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ انہوں نے سی اے اے مخالف مظاہرہ کے انعقاد میں مدد کی تھی۔’
اپوروانند نے کہا کہ ویسے تو ایف آئی آر نمبر 50/20 گولی لگنے سے امان نام کے ایک 17سالہ بچہ کی موت سے جڑی ہوئی ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ جانچ مظاہروں کو غلط ٹھہرانے اور امان کی موت کے لیے مظاہرین کو بالواسطہ طورپر ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش ہے۔
پروفیسر نے کہا کہ انہیں اس میں ملزم نہیں بنایا گیا ہے لیکن انہوں نے حیرانی کا اظہارکیا کہ دہلی پولیس نے امان کاقتل کرنے کے لیے تین عورتوں کو ملزم بنایا ہے۔
انہوں نے آگے کہا کہ طالبعلموں پر ایک شوٹر کو اکسانے کا الزام لگایا گیا ہے، لیکن جانچ میں یہ نہیں پتہ چلا کہ امان کو کس نے گولی ماری، بلکہ اس میں یہ زور دےکر کہا گیا ہے کہ ‘جو کوئی بھی تھا، وہ ملزمین کے اینٹی سی اے اے رخ کے ذریعے اکسایا گیا تھا۔’
پروفیسر اپوروانند نے اپنے بیان میں ایک ستمبر کو دہلی ہائی کورٹ میں کلیتا کی ضمانت عرضی پر شنوائی کا ذکر کیا، جس میں کورٹ نےمتنازعہ بیان دینے کا ثبوت پیش نہیں کر پانے پر دہلی پولیس کی سرزنش کی تھی۔پولیس کے مطابق دہلی فسادات میں 53 لوگوں کی موت ہوئی تھی اور581 لوگ زخمی ہو گئے تھے جن میں سے 97 گولی لگنے سےزخمی ہوئے تھے۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔