جموں و کشمیر میں انسداد تجاوزات مہم: دہلی پولیس نے محبوبہ کو پارلیامنٹ تک مارچ کرنے سے روکا

محبوبہ مفتی قومی دارالحکومت میں اپنے حامیوں کے ساتھ جموں و کشمیر انتظامیہ کی طرف سے چلائی جا رہی انسداد تجاوزات مہم کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے پارلیامنٹ ہاؤس جا رہی تھیں، جب دہلی پولیس نے انہیں حراست میں لے لیا۔

محبوبہ مفتی قومی دارالحکومت میں اپنے حامیوں کے ساتھ جموں و کشمیر انتظامیہ کی طرف سے چلائی جا رہی انسداد تجاوزات مہم کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے پارلیامنٹ  ہاؤس جا رہی تھیں، جب دہلی پولیس نے انہیں حراست میں لے لیا۔

پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی دہلی میں جموں و کشمیر میں انسداد تجاوزات مہم کے خلاف احتجاجی مظاہرہ میں۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/@ سہیل_بخاری)

پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی دہلی میں جموں و کشمیر میں انسداد تجاوزات مہم کے خلاف احتجاجی مظاہرہ میں۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/@ سہیل_بخاری)

نئی دہلی: پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی سربراہ محبوبہ مفتی جموں و کشمیر میں انتظامیہ کی طرف سے چلائی جارہی انسداد تجاوزات مہم کے خلاف بدھ کو یہاں قومی دارالحکومت میں سڑک پر اتریں۔

پارلیامنٹ تک مارچ کرنے کے ارادے سے محبوبہ بوٹ کلب کے علاقے پہنچی تھیں، جہاں ان کے درجنوں حامی جمع تھے۔ ان کے ہاتھوں میں تختیاں تھیں، جن پر لکھا تھا، ‘ڈرانا دھمکانابند کرو،’ اسٹاپ بلڈوزنگ ‘ (عمارتوں کو گرانا بند کرو)۔’

پی ڈی پی سربراہ اپوزیشن جماعتوں کو جموں و کشمیر میں چلائی جا رہی ‘بلڈوزر پالیسی’ کے بارے میں آگاہ کرنا چاہتی تھیں۔ تاہم دہلی پولیس نے جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کو حراست میں لے لیا اور انہیں اور ان کے حامیوں کو جنتر منتر لے گئی۔ بتایا گیا  ہے کہ اس کے بعد مظاہرین وہاں سے چلے گئے۔

دی وائر سے بات کرتے ہوئے محبوبہ کی بیٹی التجا مفتی نے ان کی حراست کی تصدیق کی اور کہا کہ وہ ان کی نانی (محبوبہ کی والدہ) کے علاج کے لیے دہلی آئی ہوئی ہیں۔ دریں اثنا، محبوبہ اور ان کے حامیوں نے جموں و کشمیر میں ہونے والی کارروائیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کا اہتمام کیا تھا، جہاں سے انہیں دہلی پولیس نے حراست میں لے لیا۔

جموں و کشمیر کے لیڈروں نے اس پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، محبوبہ نے احتجاج کے دوران کہا، ہم لوگوں، اپوزیشن جماعتوں اور حکمراں بی جے پی کے ارکان کو جموں و کشمیر کے لوگوں کی پریشانیوں کے بارے میں بتانے آئے تھے۔اگر ہم پارلیامنٹ میں نہیں جا سکتے تو ہم  کہاں جائیں؟ کیا حکومت چاہتی ہے کہ ہم اپنی شکایات اقوام متحدہ میں لے جائیں؟

مظاہرے کے دوران محبوبہ مفتی نے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا اور جموں و کشمیر انتظامیہ پر یونین ٹریٹری میں بڑے پیمانے پر تخریب کاری اور اسے افغانستان میں تبدیل کرنے کا الزام لگایا۔

انہوں نے کہا، ‘جموں و کشمیر میں قانون کا راج نہیں ہے۔ پہلے ہمیں ہماری شناخت اور پھر نوکریوں سے محروم کیا گیا اور اب وہ ہمیں گھروں اور دکانوں سے محروم کر رہے ہیں۔ آخر یہ حکومت چاہتی کیا ہے؟

انہوں نے الزام لگایا کہ ‘جموں و کشمیر کو افغانستان کی طرح برباد کیا جا رہا ہے۔ ہم اپنی بات کہنے دہلی آئے تھے لیکن لگتا ہے یہاں بھی عام آدمی کی آواز کو دبا دیا گیا ہے۔

پی ڈی پی اور جموں و کشمیر کی دیگر سیاسی جماعتوں نے انسداد تجاوزات مہم کی مذمت کی ہے اور انتظامیہ سے اسے روکنے کی اپیل کی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس مہم سے غریب متاثر ہو رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ ‘بے گھر کرو مہم’ کی طرح ہے اور کشمیر کے لوگوں پر حملہ ہے۔ بڑے پیمانے پر افواہوں کے درمیان کہ اس مہم کو چلانے کے لیے کشمیر کے تمام اضلاع میں انتظامیہ کی طرف سےزمین کھودنے کے لیےٹیمیں بھیجی گئی ہیں، اپوزیشن جماعتوں نے اس معاملے پر وہائٹ پیپر کا مطالبہ کیا ہے۔

قبل ازیں منگل کو دہلی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے ملک کے اپوزیشن لیڈروں سے اپیل کی کہ وہ ‘بی جے پی کی طرف سے کیے جانے والے مظالم’ پر خاموش تماشائی نہ بنیں۔

انہوں نے الزام لگایا کہ بی جے پی آئین کو ‘تباہ’ کرنے کے لیے اپنی بھاری اکثریت کا استعمال کر رہی ہے۔

انھوں نے کہا،’فلسطین پھر بھی بہتر ہے، کم از کم لوگ بات کرتے ہیں۔ جس طرح بلڈوزر لوگوں کے گھر گرانے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں، اس سے کشمیر کے حالات افغانستان سے بھی بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ لوگوں کے چھوٹے چھوٹے گھر گرانے کا مقصد کیا ہے؟

محبوبہ نے کہا کہ حکومت کے مطابق صدیوں پرانا شنکراچاریہ مندر اور اس وقت کے مہاراجہ کی طرف سے بنوائی گئی چھاؤنی بھی قبضہ شدہ زمین پر بنائی گئی ہے۔

پی ڈی پی لیڈر نے کہا کہ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ انسداد تجاوزات مہم کے دوران غریبوں کے مکانات کو ہاتھ نہیں لگایا جائے گا، لیکن زمینی سطح پر ان کا پیغام نہیں سنا جا رہا ہے، کیونکہ ٹین کی چھتوں والے مکانات کو بھی گرایا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘ایک آئین، ایک قانون ، ایک پردھان’ کی شروعاتی کال نے ‘ایک ملک، ایک زبان، ایک مذہب’ کی  راہ  دکھائی، جس میں کوئی آئین نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئین کی بات کرنے والے کی آواز کو دبایا جا رہا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ‘کیا آرٹیکل 370 کو ہٹانا آئینی دفعات کے مطابق تھا؟’

دی وائر نے پہلے بھی اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی طرف سے بار بار یقین دہانی کے باوجود کہ صرف ان لوگوں کو نشانہ بنایا جائے گا جو ریاستی زمین پر قبضہ کرنے کے لیے طاقت کا غلط استعمال کرتے ہیں، یونین ٹریٹری کے لوگ روزانہ آ رہی  انہدام کی خبروں کے درمیان خوفزدہ ہیں۔

گزشتہ ہفتے انسداد تجاوزات مہم کے خلاف خواتین اور بچوں کے ساتھ ہزاروں لوگوں نے جموں کے مضافات میں سنجوان-بٹھنڈی میں سڑکوں پر نکل کر احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)