دہلی فسادات: پولیس نے جن ’سیکریٹ‘ گواہوں کی پہچان چھپانے کی بات کہی، چارج شیٹ میں دیے ان کے نام

دہلی پولیس نے کہا تھا کہ دہلی فسادات معاملے میں گواہی دینے والے 15گواہوں نے اپنی جان کو خطرہ بتایا ہے، جس کی وجہ سے عرفی ناموں کا استعمال کر کےان کی پہچان پوشیدہ رکھی گئی ہے۔ حالاں کہ پچھلے دنوں دائر پولیس کی 17000صفحات کی چارج شیٹ میں ان سب کے نام پتے سمیت مکمل پہچان ظاہر کر دی گئی ہے۔

دہلی پولیس نے کہا تھا کہ دہلی فسادات معاملے میں گواہی دینے والے 15گواہوں نے اپنی جان کو خطرہ بتایا ہے، جس کی وجہ سے عرفی ناموں کا استعمال کر کےان کی پہچان پوشیدہ  رکھی گئی ہے۔ حالاں کہ پچھلے دنوں دائر پولیس کی 17000صفحات  کی چارج شیٹ میں ان سب کے نام پتے سمیت مکمل پہچان ظاہر کر دی گئی ہے۔

دہلی پولیس اہلکاروں  کے ساتھ پولیس کمشنر ایس این شریواستو۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

دہلی پولیس اہلکاروں  کے ساتھ پولیس کمشنر ایس این شریواستو۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے(شاید انجانے میں)دہلی فسادات کی سازش کےمعاملے میں اپنی بھاری بھرکم چارج شیٹ میں ایک ایسا دستاویز شامل کیا ہے، جس میں15 گواہوں کا پورا نام اور پتہ دیا گیا ہے جبکہ دہلی پولیس کا دعویٰ ہے کہ ان کی پہچان پوشیدہ رکھنے کی ضرورت ہے۔

نام پوشیدہ رکھنےکی ضرورت کے باوجود چارج شیٹ میں جب بھی ان کے بیان کوٹ کئے گئے ہیں،ان کے عرفی نام استعمال کیے گئے ہیں کیونکہ مبینہ طور پر انہوں نے اپنی جان کو خطرہ بتایا ہے۔پندرہ گواہوں کی اجاگر کی گئی پہچان کی بنیادپر ابھی تک جو سامنے آیا ہے ان میں چار ہندو اور 11 مسلمان ہیں۔

ایف آئی آرنمبر59/20 کی چارج شیٹ کی حتمی رپورٹ میں بڑی تعداد میں ان کے بیان درج کیے گئے ہیں اور پولیس نے ان کے عرفی نام استعمال کیے ہیں جو بیٹا، گاما، ڈیلٹا، گولف، ہیکٹر، جیوپیٹر، لیما، مائک، آسکر، الفا، براوو، اومیگا، وکٹر اور چارلی ہیں۔

اگر گواہ حقیقت میں ملزمین سےخوف زدہ  ہیں تو ان کے نام اور پتے ملزمین کے سامنےعوامی کرنے والے دہلی پولیس کے افسروں  کو کئی سوالات کے جواب دینے پڑیں گے۔دراصل،تمام ملزمین کو ان چارج شیٹ کی کاپی دی گئی ہے جس میں گواہوں کے نام اور پتے درج ہیں۔

یہ انکشاف دہلی پولیس کی جانچ کےاعتباراورقومی راجدھانی میں اس کےذریعےفراہم کرائی جا رہی سکیورٹی پر بھی سوال اٹھاتا ہے۔حالانکہ یہ صاف نہیں ہے کہ ٹرائل کورٹ نے اس لاپرواہی کونوٹس میں لیا ہے یا نہیں۔

پٹیالہ ہاؤس کورٹ میں دی گئی دہلی پولیس کی درخواست، جہاں اس نے 15  گواہوں کے نام پوشیدہ  رکھنے کی بات کہی تھی۔

پٹیالہ ہاؤس کورٹ میں دی گئی دہلی پولیس کی درخواست، جہاں اس نے 15  گواہوں کے نام پوشیدہ  رکھنے کی بات کہی تھی۔

بتا دیں کہ دہلی میں فروری 2020 کےفسادات  چار دنوں تک چلےاور ایک پولیس اہلکار سمیت 53 لوگوں کی جان چلی گئی۔مارے گئے لوگوں میں40مسلمان تھےاور12ہندو تھے۔اس تشددمیں تباہ ہوئی زیادہ ملکیت اورعبادت گاہ  مسلمانوں کے تھے۔

صاف طور پر نشانہ بناکر کیے گئےتشدد اور فساد کرانے میں ہندوتوارہنماؤں کے اشتعال انگیز بیانات  کے رول کے باوجود دہلی پولیس نے شہریت(ترمیم)قانون کے خلاف پرامن احتجاجی مظاہرہ کرنے والے کارکنوں کو بڑی تعداد (زیادہ تر مسلمان)میں گرفتار کیا۔

پچھلے مہینے میں داخل کی گئی17000پیج کی چارج شیٹ میں اس نے ملزمین پر امریکی صدر ڈونالڈٹرمپ کے ہندوستان دورے کے دوران ملک کی امیج خراب کرنے کی سازش کاالزام  لگایا۔

جون میں پٹیالہ ہاؤس کورٹ  میں ایک عرضی  میں دہلی پولیس کے اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ ان گواہوں نے گرفتار کیے گئے ملزمین کے بارے میں بتایا اوران  ملزمین کے علاوہ کچھ دیگر افراد کے ملوث ہونے کے بارے میں بتایا۔

عدالت کو بتایا گیا کہ ان گواہوں نے ملزمین سے اپنی  جان کے خطرے کی بات کہی ہے کیونکہ وہ ایک ہی علاقے میں رہتے یا کام کر رہے ہیں یا وہ ایک دوسرے کو جانتے ہیں اور ان میں سے کچھ نے اپنی جان کے خطرے کے بارے میں تحریر بھی دیا ہے۔

ان گواہوں کو ان کی پہچان چھپانے کے لیے اوران کے تحفظ کے لیےعرفی نام دیے گئے ہیں۔ان میں سے کچھ گواہوں نے سی آر پی سی کی دفعہ161 کے تحت بیان درج کیے ہیں، جبکہ دیگر نے دفعہ164 کے تحت مجسٹریٹ کے سامنے بیان درج کروائے ہیں۔

چارج شیٹ کے ساتھ دیے گئے15گواہوں کے نام پتے اور مکمل پہچان بتانے والی فہرست۔ دی  وائر دکے ذریعے ان کے نام چھپائے گئے ہیں۔

چارج شیٹ کے ساتھ دیے گئے15گواہوں کے نام پتے اور مکمل پہچان بتانے والی فہرست۔ دی  وائر دکے ذریعے ان کے نام چھپائے گئے ہیں۔

چارج شیٹ کے دستاویزوں میں شامل پولیس درخواست میں کہا گیا ہے کہ گواہوں کے پورے نام، پتوں کو تحفظ کی ضرورت  ہے اسی لیےعرفی نام دیےگئے ہیں۔عرضی میں کہا گیا ہے کہ اس لیےدرخواست کی جاتی ہے کہ عرفی ناموں (جو ان کے نام کے سامنے لکھے ہیں)والے متذکرہ عوامی گواہوں کی پہچان یواےپی اے کی دفعہ44 کے تحت شنوائی کے دوران پوشیدہ رکھی جائے۔

حالانکہ چارج شیٹ ایک عوامی  دستاویز ہے اور اس کی کاپیاں تمام ملزمین اور ان کے وکیلوں کے ساتھ ساتھ میڈیا اور دیگرلوگوں کے پاس ہیں پھر بھی دی  وائر نے ان کی پہچان کے تحفظ  کے لیے15‘عوامی گواہوں’کے نام اور پتے کو پوشیدہ رکھا ہے۔

ساتھ ہی چارج شیٹ کے ان حصوں کی بھی جانکاری نہیں دی ہے، جہاں دہلی پولیس کے اسپیشل سیل نے فہرست کو دوبارہ پیش کیا ہے۔دہلی پولیس جتنی مستعدی سے اس کیس کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور جس لاپرواہی بھرے رویے سے اس نے خفیہ  گواہوں کی پہچان لیک کی ہے وہ نہ صرف اس کی جانچ کی صلاحیت پر سوال اٹھاتے ہیں بلکہ جانچ کی سمت پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں۔

اگرگواہ اتنے اہم ہیں تو پولیس نے چارج شیٹ، جو ایک عوامی دستاویز ہے، میں ان کی پہچان کا انکشاف کرکے ان کی  زندگی  کو خطرے میں ڈالنے کی اجازت کیوں دی ہے؟یا پھر کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ پولیس ان کے بیانات کو قابل اعتماد نہیں مانتی ہے اور عدالت میں ثابت نہ کر پانے کی وجہ سے ان کے تحفظ  کو لےکر فکرمند ہی نہیں ہے۔

ایسی کوئی بھی وجہ ہو، دونوں ہی حال میں دہلی پولیس کے حکام  کو بہت سے سوالوں کے جواب دینے ہوں گے۔بدھ کو دی  وائر نے دہلی پولیس کمشنر ایس این شریواستو کو اس سلسلے میں چار سوالوں کی ایک فہرست بھیجی۔ جو اس طرح تھے:

کیا آپ اس بات سے واقف ہیں کہ [گواہوں کے بارے میں]جانکاری دہلی پولیس کی جانب سےملزمین کو دی گئی یا عوامی کر دی گئی ہے؟کیا دہلی پولیس کا ایسا ماننا ہے کہ 15 گواہوں کو اب کوئی خطرہ نہیں ہے اور اس لیےیہ انکشاف کیا گیا؟

اس معاملے میں کیا دہلی پولیس ابھی بھی مانتی ہے کہ خطرہ ہے، 15 گواہوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے آپ کیا قدم اٹھانا چاہتے ہیں؟اگر آپ مانتے ہیں کہ ابھی بھی خطرہ ہے توکیا دہلی پولیس ان تمام پولیس افسروں اوراستغاثہ  کےخلاف تادیبی  کارروائی کرےگی، جنہوں نے چارج شیٹ میں اس جانکاری کو شامل کرنے کی منظوری دی تھی؟

شریواستو کی جانب  سے اب تک کوئی جواب نہیں ملا ہے۔ جواب آنے پر اس رپورٹ کو اپ ڈیٹ کیا جائےگا۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)