جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طلبا کی مانگ ہے کہ ہاسٹل مینول ڈرافٹ واپس لیا جائے، جس میں ان کے مطابق، فیس میں اضافہ ، کرفیو کا وقت اور ڈریس کوڈ جیسی پابندیوں کا اہتمام ہے۔
نئی دہلی :نئی دہلی واقع جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے موجودہ انتظامیہ کی ‘اسٹوڈنٹس مخالف’ پالیسی کے خلاف سوموار کو سیکڑوں طلبا نے مظاہرہ کیا۔ اس سے پہلے اپنی مانگوں کو لے کر طلبا پچھلے دو ہفتے سے کیمپس کے اندر مظاہرہ کر رہے تھے۔اسٹوڈنٹس وائس چانسلر سے ملنا چاہتے تھے اور ان کی مانگ تھی کہ ہاسٹل مینول کا مسودہ واپس لیا جائے جس میں ان کے مطابق، فیس میں اضافہ ، کرفیو کا وقت اور ڈریس کوڈ جیسی پابندیوں کا اہتمام ہے۔
طلبا نے بتایا کہ صبح شروع ہوا یہ مظاہرہ ہاسٹل مینول کی مخالفت کے علاوہ پارتھا سارتھی راکس میں داخلے پر انتظامیہ کی پابندی اور اسٹوڈنٹس یونین کے آفس کو بند کرنے کی کوششوں کی مخالفت میں ہو رہے مظاہرےکا ہی حصہ ہے۔مظاہرہ کر رہے طلبا اے آئی سی ٹی ای کی طرف آگے بڑھنے چاہتے تھے لیکن گیٹ بیریکیڈ لگا دیے گئے ہیں۔ نائب صدر جمہوریہ وینکیا نائیڈو اس جگہ پر کنووکیشن تقریب کو خطاب کر رہے تھے۔
جے این یو سے تقریباً تین کلومیٹر دور اے آئی سی ٹی ای کے دروازوں کو بند کر دیا گیا اور صبح شروع ہوئے مظاہرے کے مد نظرکیمپس کے باہر سکیورٹی فورسز کو تعینات کر دیا گیا۔ایک افسر نے بتایا کہ جے این یوکیمپس کے شمالی اور مغربی گیٹ کے باہر اور بابا بالک ناتھ مارگ پر اے آئی سی ٹی ای آڈیٹوریم اور جے این یو کے بیچ واقع سڑک پر بیریکیڈ لگائے گئے ہیں۔
پولیس نے بتایا کہ طلبا نے ان بیریکیڈ کو توڑ دیا اور دوپہرتقریباً 11:30 بجے اے آئی سی ٹی ای کی طرف مارچ کرنے لگے۔ کچھ مظاہرین کو حراست میں لے لیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی طلبا پر پانی کی بوچھاروں کا بھی استعمال کیا گیا۔ہاتھوں میں تختیاں لے کر طلبا نے ‘دہلی پولیس واپس جاؤ’ جیسے نعرے لگائے اور وائس چانسلر ایم جگدیش کمار کو ایک ‘چور’ بتایا۔
ایچ آر ڈی منسٹر رمیش پوکھریال پروگرام کی جگہ سے باہر نہیں آ پا رہے تھے۔ ایک افسر نے بتایا، ‘جے این یو ایس یو صدر آئشی گھوش اور نائب صدر ساکیت مون کو ایچ آرڈی منسٹر کے لیے راستہ دیے جانے کے لیے طلبا سے بات کرنے کو کہا گیا۔ پولیس نے مظاہرین سے دروازے سے ہٹنے کی گزارش کی لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔’
جے این یو ایس یو کے عہدے داروں نے پوکھریال سے ملاقات کی اور انہوں نے انہیں بھروسہ دلایا کہ ان کی مانگوں پر غور کیا جائے گا۔ بہرحال، وہ وائس چانسلر سے نہیں مل سکے۔ مظاہرین نعرے لگا رہے تھے،‘ ہم وائس چانسلر سے ملنا چاہتے ہیں۔’گھوش نے کہا، ‘ہمارے لیے یہ تاریخی دن ہے کہ ہم نے بیریکیڈ توڑ دیے اور پروگرام کے مقام پر پہنچے اور منسٹر سے ملاقات کی۔’ انہوں نے کہا، ‘ہمارا آندولن ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ ہم ایچ آر ڈی منسٹر سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ وی سی سے طلبا سے بات چیت کرنے کو کہیں ۔’ایچ آرڈی منسٹر نے وعدہ کیا کہ اسٹوڈنٹ یونین کو میٹنگ کے لیے وزارت بلایا جائے گا۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے جے این یو کے اسٹوڈنٹ انج نے کہا، یہ مظاہرہ اس لئے ہو رہا کیونکہ جے این یو کے 18-19 ہوسٹل کی فیس اچانک سے بہت زیادہ بڑھا دی گئی ہے۔ فیس بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا، اس میں نہ تو اسٹوڈنٹ یونین اور نہ ہی اسٹوڈنٹس سے بات چیت کی گئی۔ ہاسٹس کا ڈپازٹ تقریباً 5500 سے ہوتا ہے جس کو بڑھاکر 12000 کر دیا گیا ہے۔اگر فیس میں یہ اضافہ نافذ ہوتا ہے تو تقریباً 40 فیصدی طلبا کویونیورسٹی چھوڑنی پڑ سکتی ہے۔ اس کے ساتھ میس ملازمین اور ہاسٹل ملازمین کی فیس طلبا سے وصولنے کے لیے طلبا پر سروس چارج بھی لگا دیا گیا ہے۔ یہ جے این یو کی آئیڈیالوجی کو ختم کرنے کی کوشش ہے۔
ایک دیگر اسٹوڈنٹ پرشانت کمار نے کہا، انتظامیہ کی طرف سے ہم سے بات کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ انتظامیہ کی طرف سے ای میل کے ذریعے سے ہمیشہ ایک نوٹس آتا ہے جس میں ہم سے فوراً دھرنہ ختم کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ آج بھی یہاں ہزاروں طلبا اکٹھے ہیں لیکن انتظامیہ ہمیں مٹھی بھر طلبا بتا کر ہماری مانگوں کو خارج کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ 2016 سے لے کر آج تک جتنے بھی مظاہرے ہوئے ہیں ان میں انتظامیہ نے ایک بھی بار بات چیت کا راستہ نہیں اپنایا ہے۔
انہوں نے کہا، آج یہاں نائب صدر ، ایجوکیشن منسٹر اور وائس چانسلر موجود ہیں۔ایجوکیشن کے ان اعلیٰ افسروں کی موجودگی کی وجہ سے ہی آج یہ مظاہرہ ہو رہا ہے لیکن انتظامیہ نے جو رویہ اختیار کیا ہے اس سے لگتا ہے کہ یہ مظاہرہ لمبا چلنے والا ہے۔ جب تک ہم انتظامیہ کو جھکا نہیں دیں گے تب تک لڑائی جاری رہے گی۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)