حکومت کی بے حسی کی وجہ سے گرمی کا بحران شدید ہو جاتا ہے۔ شیلٹر ہوم بہت کم ہیں، انتہائی خستہ حال ہیں۔ مثال کے طور پر دہلی گیٹ کے شیلٹر ہوم کی صلاحیت 150 بتائی جاتی ہے، لیکن عمارت کا رقبہ 3229.28 مربع فٹ ہے، جس میں صرف 65 افراد ہی سما سکتے ہیں۔
نئی دہلی: پچاس سالہ گیتا دیوی ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے دہلی کے فٹ پاتھ پر رہ رہی ہیں۔ ان کا موجودہ پتہ ہے – ملک کے سب سے بڑے اسپتال ایمس کے فٹ پاتھ پر تنا ترپال۔
وہ اور ان کے شوہر تقریباً دو سال سے یہاں ہیں۔ 2022 کے آخر میں ڈاکٹر نے انہیں کینسر کی تشخیص کی تھی۔ اس کے بعد ایمس میں ان کا علاج شروع ہوا اور انہوں نے یہیں ڈیرہ ڈال دیا۔ اس سے پہلے وہ سرائے کالے خان کے قریب رہتے تھے جہاں میاں بیوی دہاڑی مزدور کے طور پر کام کرتے تھے۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ دنیا میں ان کا کوئی نہیں ہے، نہ رشتہ دار، نہ کوئی مددگار۔ بس فٹ پاتھ پرزندگی بسر کرنے والےکچھ ساتھی ہیں، اور سبھی زندہ رہنے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ‘میری زندگی کچھ دنوں کی ہے لیکن ایشور نے اسے بھی مشکل بنا دیا ہے،’ وہ کہتی ہیں۔ گرمی کی شدت ہر روز ان کا امتحان لے رہی ہے۔
ایمس کے آس پاس کے سینکڑوں بے گھر لوگ فٹ پاتھ پر اپنی زندگی بسر کرنے کو مجبور ہیں، جن کی حالت شدید گرمی کی وجہ سے بگڑتی جا رہی ہے۔
سینٹر فار ہولیسٹک ڈیولپمنٹ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کے مطابق، دہلی کی سڑکوں پر رہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ تنظیم نے تحقیق کی ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں دہلی کی سڑکوں پر کل 30731 نامعلوم لاشیں ملی ہیں جن میں سے 80 فیصد لوگ بے گھر تھے۔
غور طلب ہے کہ رواں سال ایک مئی سے 19 جون تک 789 نامعلوم لاشیں ملی ہیں، جن میں سے مئی میں 441 اور جون میں 348۔ اس کے برعکس جنوری میں 306، فروری میں 231، مارچ میں 284 اور اپریل میں 292 نامعلوم لوگوں کی موت ہوئی تھی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان دو ماہ میں اموات کی شرح میں اچانک اضافہ شدید گرمی کی وجہ سے ہوا ہے۔
اس تنظیم کے بانی سنیل کمارآلیڈیابتاتے ہیں کہ انھوں نے اپریل کے اواخر میں ہی دہلی اربن شیلٹر امپروومنٹ بورڈ کو ایک خط لکھ کر بے گھر لوگوں کی صورتحال سے آگاہ کیا تھا، لیکن اسے سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ دہلی کی سڑکوں پر 11 جون سے 19 جون کے درمیان 192 لوگوں کی جان چلی گئی۔
سنیل کمار بتاتے ہیں کہ انہوں نے دہلی حکومت کے وزیر سوربھ بھاردواج، نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن اور نیشنل لیگل سروسز اتھارٹی (این اے ایل ایس اے) کو بھی خطوط لکھے ہیں، لیکن حکومت نے ان بے گھر لوگوں کے لیے کچھ نہیں کیا۔
اس وقت دہلی حکومت کل 343 مستقل اور عارضی نائٹ شیلٹر چلا رہی ہے، جو 20 ہزار سے زیادہ لوگوں کو رہائش فراہم کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ تاہم، یہ نائٹ شیلٹر کھچاکھچ بھرے ہوئے ہیں اور سرکاری معیاروں کی صریح خلاف ورزی کرتے ہیں۔
سنیل کمار کے مطابق، ‘معیار کے مطابق شہر میں ہر ایک لاکھ کی آبادی پر ایک شیلٹر ہوم ہونا چاہیے، یعنی ایک ہزار مربع میٹر کی مستقل بلڈنگ ہونی چاہیے۔ اس معیار پر دہلی میں صرف تین یا چار شیلٹر ہوم ہیں۔ حکومت کے پاس 82 مستقل عمارتیں ہیں۔ دہلی میں شیلٹر ہومز کے نام پر 103 پورٹا کیبن ٹین اسٹرکچر ہیں، جو اس شدید گرمی میں آگ کی بھٹی بنے ہوئے ہیں۔’
دراصل اربن شیلٹر امپروومنٹ بورڈ صرف عمارتیں بنا دیتا ہے، یہ نہیں دیکھتا کہ اس وقت کسی بھی شیلٹر ہوم میں بجلی اور پانی کی مناسب سہولت موجود نہیں ہے۔ ‘ ان 343 نائٹ شیلٹرز میں کیا واقعی 20 ہزار لوگ رہ بھی سکتے ہیں؟’ سنیل کمار کہتے ہیں اور جوڑتے ہیں کہ سرکاری اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔
ایک مثال دیتے ہوئے سنیل کہتے ہیں،’دلی گیٹ پر شیلٹر ہوم کی صلاحیت 150 بتائی جاتی ہے، لیکن بلڈنگ کا رقبہ 3229.28 مربع فٹ ہے، جس میں صرف 65 افراد ہی رہ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، ہمت گڑھ شیلٹر ہوم کا رقبہ 370 مربع فٹ ہے، جس کی صلاحیت 20 بتائی جاتی ہے، لیکن اس میں 8 لوگ بھی مشکل سے ہی آ سکیں گے۔’
اس شدید گرمی میں نہرو پلیس، گریٹر کیلاش اور سرائے کالے خان شیلٹر ہومز کی حالت بدتر ہے۔ پنکھے تک کا بھی کوئی مناسب انتظام نہیں ہے۔ یہاں ایگزاسٹ فین کو بانس پر ‘جگاڑ’ کے ساتھ لٹکا دیا گیا ہے، جو کبھی گر جائے تو کسی کی جان بھی جا سکتی ہے۔ کئی نائٹ شیلٹرز میں چارپائی اور بستر کی سہولت نہیں ہے، لوگ زمین پر سونے کو مجبور ہیں اور ہوا کے لیے پلاسٹک ہاتھ والے پنکھے ہلا رہے ہیں۔ بعض جگہوں پر شیلٹر ہوم اس قدر خستہ حال ہیں کہ یہاں کے لوگوں کو دن کے وقت باہر درختوں یا بس اسٹاپوں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
این جی او آشرے ادھیکار سے وابستہ سویتا سنگھ دی وائر کو بتاتی ہیں کہ کشمیری گیٹ اور یمنا کے پستہ کے قریب سب سے زیادہ بے گھر لوگ رہتے ہیں۔ ہر سال کشمیری گیٹ تھانے میں سب سے زیادہ بے گھر افراد کی اموات ریکارڈ کی جاتی ہیں۔ لیکن سرکاری محکمے کے کسی اہلکار کو ان کے بارے میں کوئی خیال نہیں ہے۔ صرف غیر سرکاری ادارے اور کچھ اچھے لوگ ہیں جن کی مدد سے یہ لوگ کھلے آسمان کے نیچے بھی گزر بسر کر رہے ہیں۔
سویتا کے مطابق، ‘سڑکوں پر زیادہ تر لوگ وہ ہیں جو اپنی روزی کمانے کے لیے ہر روز محنت کرتے ہیں۔ جیسے کچرا اٹھانا، شادی بیاہ یا تقریب میں پلیٹوں کی صفائی، یومیہ مزدوری، گھروں سے کباڑ اکٹھا کرنا وغیرہ۔’
پنچ شیل فلائی اوور کے نیچے گزر بسر کرنے والے راجیش بتاتے ہیں کہ وہ یہاں تقریباً پانچ سال سے رہ رہے ہیں۔ اس سے پہلے وہ اپنی بیوی اور ایک بیٹے کے ساتھ مغربی دہلی میں رہتے تھے۔ راجیش لوگوں کے گھروں میں نالیوں کی صفائی کرتے ہیں اور دوپہر کو کورا چنتے ہیں۔ جس سے ان کی یومیہ آمدنی تقریباً 200-300 روپے ہو جاتی ہے۔ لیکن دہلی میں کرائے کے مکان کے لیے یہ کافی نہیں ہے۔
راجیش کہتے ہیں، ‘کئی بار پولیس ہمیں ہٹا دیتی ہے۔ جی20 کے دوران ہمارا سامان بھی پھینک دیا گیا تھا۔ ہم لوگ کہاں جائیں؟’
راجیش کی طرح دیپک بھی یہاں کئی سالوں سے اپنے والدین کے ساتھ یہاں رہ رہے ہیں۔ ان کے والد کام کی تلاش میں دہلی آئے تھے لیکن یہاں انہیں کچھ ڈھنگ کا کام نہیں ملاتو سرکاری پروجیکٹ میں مزدوری کا کام کرنے لگے۔ اس حقیقت کے پیش نظر کہ دہلی میں گزشتہ 36 گھنٹوں کے دوران شدید گرمی کی وجہ سے 34 لوگوں کی جان چلی گئی ہے ، ایسے کئی لوگوں کی جان خطرے میں ہے۔