جے این یو کے سابق طالبعلم عمر خالد کو دہلی پولیس نے ستمبر 2020 میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دورہ ہندوستان کے دوران دہلی میں فرقہ وارانہ تشدد کی منصوبہ بندی کے الزام میں یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیا تھا۔
نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے جمعرات کو جے این یو کے سابق طالبعلم عمر خالد کو فروری 2020 کے دہلی فسادات سے متعلق مبینہ طور پربڑے پیمانے پر سازش کے معاملے میں ضمانت دینے سے انکار کر دیا۔ خالد 14 ستمبر 2020 سے جیل میں ہیں۔
یہ فیصلہ ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت نے کڑکڑڈوما ڈسٹرکٹ کورٹ میں سنایا، جو 8 ماہ سے ضمانت کی اس عرضی پر سماعت کر رہے تھے اور گزشتہ چند دنوں میں اس فیصلے کو تین بار مؤخر کر چکے تھے۔
حالیہ دنوں میں ٹرائل کورٹ نے 14 مارچ کو سابق کونسلر عشرت جہاں کو کیس میں پہلی ضمانت دی تھی۔ 16 مارچ کو عدالت نے دو دیگر ملزمین گلفشاں فاطمہ اور تسلیم احمد کی ضمانت عرضی بھی مسترد کر دی تھی۔
گزشتہ 21 مارچ کو ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت نے اس معاملے کی سماعت 23 مارچ تک ملتوی کرتے ہوئے کہا تھاکہ آرڈر تیار نہیں ہے۔
گزشتہ 3 مارچ کو عدالت نے خالد اور استغاثہ کی جانب سے پیش ہونے والے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ اس کے بعد عدالت نے 14 مارچ تک فیصلہ سنانے کی بات کہی تھی۔ سماعت کے دوران ملزم نے عدالت کو بتایا تھا کہ استغاثہ کے پاس اس کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے شواہد کی کمی ہے۔
گزشتہ 17 فروری کو خالد کو کڑکڑڈوما عدالت میں ہتھکڑی لگا کر پیش کیے جانے کے بعدغم و غصہ کا اظہار کیا گیا تھا۔ حال ہی میں عدالت کےایک فیصلے کے باوجود انہیں ‘ہتھکڑی یا بیڑیوں’ میں پیش کیا گیا تھا۔
فروری 2020 کے فسادات کے سلسلے میں خالد اور کئی دیگر کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیاتھا۔ فسادات میں 53 افراد ہلاک اور 700 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
فروری 2020 میں، شہریت (ترمیم) ایکٹ (سی اے اے)، 2019 اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کی حمایت اور اس کے خلاف مظاہروں کے دوران شمال-مشرقی دہلی میں تشدد پھوٹ پڑا تھا۔
خالد کے علاوہ سماجی کارکن خالد سیفی، جے این یو کی طالبات نتاشا ناروال اور دیوانگنا کلیتا، جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی کی رکن صفورہ زرگر، عآپ کے سابق کونسلر طاہر حسین اور بہت سے دوسرے لوگوں کے خلاف بھی اس معاملے میں سخت قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
ستمبر 2020 میں دہلی پولیس نے عمر خالد کو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دورہ ہندوستان کے دوران دہلی میں فرقہ وارانہ تشدد کی منصوبہ بندی کرنے کے الزام میں یو اے پی اےکے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔
واضح ہو کہ ایف آئی آر 59/2020 کے سلسلے میں کئی دانشوروں، کارکنوں اور وکلاء کو گرفتار کیا گیا ہے،جن میں زیادہ تر مسلمان ہیں۔ ان پرسیڈیشن کے علاوہ قتل اور قتل کی کوشش سمیت آئی پی سی کی 18 دیگر دفعات میں بھی الزام لگایا گیا تھا۔
پھر یکم اکتوبر 2020 کو عمر خالد کے حراست میں رہتے ہوئےہی انہیں دہلی کے شمال-مشرقی علاقے میں مسلم اکثریتی علاقے کھجوری خاص اور اس کے آس پاس تشدد سے متعلق ایک اور معاملے میں دوبارہ گرفتار کیا گیا تھا۔
معلوم ہو کہ فسادات میں دہلی پولیس کی تحقیقات پر عدالتوں، اپوزیشن اور سول سوسائٹی نے یکساں طور پر سخت تنقید کی ہے۔ پولیس کی ‘سازش’ کے زاویے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے اور دی وائر نے اس کی خامیوں کی چھان بین کی ہے۔
عدالت میں خالد نے اپنے وکیل کی مدد سے اظہار رائے کی آزادی کا دفاع کیا تھا اور اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی نوعیت پر سخت تنقید کی تھی اور اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے عصری کلچر اور سنیما کی مثالیں پیش کی تھیں۔
پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) کے خلاف مظاہروں میں شامل عمر خالد اور دیگر لوگوں نے دہلی میں فسادات کی سازش کی، تاکہ دنیا میں مودی حکومت کی امیج کو خراب کیا جاسکے۔
بتادیں کہ 15 جون 2021 کو دہلی ہائی کورٹ نے یو اے پی اے کے تحت گرفتار نتاشا نروال، دیوانگنا کلیتا اور اقبال آصف تنہا کو ضمانت دی تھی۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)