پٹ پڑگنج اسمبلی حلقہ میں اقتدار اور حزب مخالف دونوں کے مطابق یہاں کا اہم مدعا پانی ہے۔ جہاں حکمراں عام آدمی پارٹی اور اس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے لوگوں کو مفت پانی کی سہولت دی، وہیں حزب مخالف کا الزام ہے کہ اس مسئلےپر کیجریوال حکومت ناکام ہوئی ہے۔
ویسٹ ونود نگر پٹ پڑگنج اسمبلی(فوٹو : دی وائر)
پٹ پڑگنج اسمبلی حلقہ میں انتخابی تشہیر میں لگے حزب اقتدار اور حزب مخالف دونوں کا کہنا ہے یہاں کا اہم مدعا پانی ہے۔ جہاں حکمراں عام آدمی پارٹی(عآپ)اور اس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے لوگوں کو مفت پانی کی سہولت دی،وہیں حزب مخالف کارکنان کا الزام ہے کہ پانی کے معاملے میں کیجریوال حکومت ناکام ہوئی ہے۔مشرقی دہلی کا پٹ پڑگنج علاقہ دہلی کی 70 اسمبلی حلقوں میں سے ایک ہے۔ مشرقی دہلی لوک سبھا انتخابی حلقہ میں آنے والی یہ اسمبلی سیٹ 1993 میں بنائی گئی تھی۔ تقریباً 25 لاکھ آبادی والے اس علاقے میں رائےدہندگان کی تعدادتقریباً 16 لاکھ ہے۔
اب تک اس سیٹ پر کانگریس نے سب سے زیادہ 3بار جیت درج کی ہے۔ فی الحال یہاں سے عآپ کے رہنما اور دہلی کے موجودہ نائب وزیر اعلیٰ منیش سیسودیاایم ایل اے ہیں۔ 2013 اور 2015 میں لگاتار دو بار جیت درج کرنے والے سسودیا کی نظریں ہیٹرک لگانے پر ہیں۔بی جے پی اور کانگریس نے اس بار یہاں سے نئے چہروں کو اتارا ہے۔ بی جے پی سے روندر سنگھ نیگی اور کانگریس سے لکشمن سنگھ راوت میدان میں کھڑے ہیں۔
اس اسمبلی حلقہ میں جب لوگوں سے بات کی تو ان کا کہنا ہے کہ ان کےلئے اہم مدعے ہیں تعلیم، پینے کا صاف پانی، صاف-صفائی اور صحت جیسی بنیادی چیزیں ۔عآپ اپنے پانچ سالوں کے کام کی بنیاد پر انتخاب لڑنے کی بات کر رہی ہے، تو کانگریس کیجریوال حکومت کی خامیوں کو اہم مدعا بنا رہی ہیں جس میں پینے کاپانی، صاف-صفائی، بد عنوانی وغیرہ شامل ہیں۔
جبکہ اس انتخاب میں اہم حریف مانی جانے والی بی جے پی بنیادی مدعوں کے بجائے شہریت ترمیم قانون (سی اے اے) اوراین آر سی کے خلاف شاہین باغ میں ہو رہے مظاہرے کو بڑے مدعے کے طور پر لے رہے ہیں۔حالانکہ بی جے پی امیدوار روندر سنگھ نیگی نے بتایا کہ اس علاقےمیں ان کی پارٹی بجلی اور پینے کے صاف پانی جیسے بنیادی مدعوں کو لےکر انتخاب لڑرہی ہے۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی جوڑا، ‘موجودہ حکومت ملک کے غدار وں کے ساتھ کھڑی ہے۔
لیکن یہاں کے کئی باشندوں کا کہنا ہے کہ کیجریوال حکومت کے آنے سے کافی کچھ سدھرا ہے۔ ایک مقامی دکاندار رام چند بتاتے ہیں، عآپ کی حکومت آنے کے بعد اس علاقے میں بہت کام ہوا ہے۔ خاص طورپر تعلیم، صحت کے شعبے میں اچھا کام کیا ہے۔تعلیم کے بعد اہم کامیابی کے طور پر رام چند نے بجلی اور پانی کوگنایا۔ انہوں نے کہا، کیجریوال حکومت نے پانی مفت کر دیا ہے اور میرا بجلی بل بہت ہی کم ہو گیا ہے۔ میں اپنی بچی کو سرکاری اسکول میں پڑھاتا ہوں۔ پڑھائی اچھی ہو رہی ہے۔ جب سرکاری اسکول میں اچھی پڑھائی ہو رہی ہے، تمام سہولیات مل رہی ہیں تو میں کیوں اپنے بچوں کو مہنگے نجی اسکولوں میں بھیجوں؟
انہوں نے آگے کہا، اب سرکاری ہاسپٹلوں میں ہمیں اچھی دوائیاں مفت میں مل جاتی ہیں۔ پہلے سرکاری ہاسپٹل بہت ہی بد حال تھے، دوائیاں نہیں ہوتی تھیں۔ لیکن اب اگر دوائی نہ بھی ہو تو فون کرنے سے دوائیاں مل جاتی ہیں۔رام چند کا ماننا ہے کہ اس کے پہلے کسی بھی سیاسی جماعت کےرہنما-کارکن زمین پر نہیں آتے تھے۔ یہ تبدیلی کیجریوال کی سیاست میں آنے کے بعد ہی ہوئی ہے۔
وہ کہتے ہیں، کیجریوال نے بی جے پی اور کانگریس کو سیاست کرناسکھا دیا کیونکہ پہلے کسی بھی پارٹی کا کارکن ووٹ مانگنے تک کے لئے بستیوں کے اندرنہیں آتے تھے۔ ان کے اندر تاناشاہی تھی۔ اب عوام سمجھ گئی ہے کہ جو عوام کے لئےکام کرےگا وہی گدی پر بیٹھےگا۔
پٹ پڑگنج اسمبلی حلقہ(فوٹو : دی وائر)
وہیں ایک دیگر مقامی نوجوان رمیش کہتے ہیں کہ چاہے کوئی بھی پارٹی اقتدار میں آئے، ہم چاہتے ہیں کہ بد عنوانی نہ ہو، لڑکیوں سے چھیڑچھاڑ نہ ہو،غنڈاگردی نہ ہو۔ سب کو تمام بنیادی سہولیات ملیں۔ اسکول اچھے ہوں۔منڈاولی بستی میں رہنے والی لکشمی بتاتی ہیں،عآپ کی حکومت آنےکے بعد اس علاقے میں خواتین کے ساتھ چھیڑچھاڑ کے واقعات کم ہوئے ہیں۔ تعلیم اچھی ہوئی ہے، پانی-بجلی کی سہولیات ملی ہیں۔
وہ آگے کہتی ہیں،ہم غریبن کے کہاں اسکول تھے، سب امیرن کے اسکول تھے۔ لیکن آج ہم غریبن کے اسکول ہیں۔ پہلے سرکاری ہاسپٹل میں کوئی ہماری نہیں سنتا تھا۔ اب دوائیاں تو صحیح ملتی ہیں۔ جھاڑو والے نے نالیاں اچھی بنوائی ہیں۔نہیں تو پہلے گندا پانی ہمیشہ سڑکوں پر بہتا رہتا تھا۔ بجلی بل بھی کم کر دیا ہے۔پانی روز ٹائم پر آ رہا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ بی جے پی نے ان کے لئے کچھ بھی نہیں کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں، بس نام کے لئے تو سنتے ہیں کہ مودی ہیں۔ لیکن مودی نے کبھی ہم غریبوں کی بستی میں آکر نہیں دیکھا کہ ہم کیسے جی رہے ہیں، گلیاں کیسی ہیں۔
منڈاولی کے سرکاری اسکول کے سامنے کھڑے ایک مقامی نوجوان منوج بتاتے ہیں کہ کیجریوال حکومت نے اسکولوں کو اچھا کیا ہے۔ غریبوں کے لئے محلہ کلینک شروع کرکے اچھا کام کیا ہے۔منوج کہتے ہیں،میں پٹ پڑگنج علاقے میں پچھلے سات-آٹھ سال سے رہ رہا ہوں۔ مجھے کیجریوال حکومت کے آنے کے بعد تھوڑی بہت ترقی دکھی۔ پٹ پڑگنج کے تمام سڑکوں کو پکا کر دیا گیا ہے۔
پاس کے ایک سرکاری اسکول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا، پہلے اس اسکول میں بچے بارش کے وقت اینٹیں ڈالکرکیچڑ پار کرکے اسکول جاتے تھے،اب پکی سڑک بن گئی ہے۔ اسکول کے اندر بھی اچھا انتظام ہو گیا ہے۔ پہلے یہ اسکول ایسا نہیں تھا۔ سڑکوں پر لائٹیں لگا دی گئی ہیں۔ لیکن ٹھیلا پر نمکین بیچنے والے سمیر اس سے الگ رائے رکھتے ہیں، ان کا کہنا ہے، کوئی بھی حکومت رہے اس سے ہمیں کیا فرق پڑتا ہے۔ ہم پہلے جیسی محنت-مزدوری کرتے تھے، ابھی بھی ویسے ہی کر رہے ہیں۔ حکومت کو ایسا انتظام کرناچاہیے کہ امیرغریب سب کا پیٹ پلے۔ لیکن ابھی تو مہنگائی بہت بڑھ گئی ہےبےروزگاری بڑھی ہے۔ پانچ-دس روپے میں کیا بیچیںگے اور کیا کھائیںگے!
ٹھیلا چلاکر گزارا کرنے والے دینیش کمار مانتے ہیں کہ دوبارہ کانگریس کو اقتدار میں آنا چاہیے۔ اس کی وجہ پوچھنے پر انہوں نے کہا، مودی حکومت میں مہنگائی اتنی بڑھ گئی ہے کہ غریبوں کا گزارا نہیں ہو پاتا۔ جبکہ کانگریس کی حکومت تھی تو امیرغریب سب اپنے گزارے کے لائق تو کما پاتے تھے۔ساتھ ہی وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ عآپ کی حکومت نے غریبوں کے لئےاچھا کام کیا ہے۔ انہوں نے کہا،ہاں، یہ بھی سچ ہے کہ جھاڑو والوں نے یہاں اچھا کام کیا ہے۔
مشرقی ونود نگر میں رہنے والی سچترا کہتی ہیں کہ وہ تو ووٹ عآپ کودیںگی کیونکہ عآپ نے اچھا کام کیا ہے۔انہوں نے کہا، ہم بی جے پی اور کانگریس کی حکومتیں بھی دیکھ چکےہیں لیکن عآپ کی حکومت نے اچھا کام کیا ہے۔ ایک خاتون خانہ ہونے کے ناطے مجھے لگتاہے اس حکومت سے ہمیں بہت سی سہولیات ہوئی ہیں۔ اچھی دوائیاں مفت میں مل رہی ہیں،بجلی بل کم ہوا ہے، خواتین کو بسوں میں مفت سفر دیا ہے، پانی وقت پر آ رہا ہے۔ ان سب سے گھر کے خرچ کم ہوئے ہیں۔
لیکن سمیر بجلی بل کم کرنے سے بھی ناراض دکھے کیونکہ وہ کرایے کےمکان میں رہتے ہیں اور اس لئے ان کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ وہ کہتے ہیں،بجلی بل کم کر دینے سے ہم جیسے کرایے دار کو تھوڑی نہ فائدہ ہوا ہے۔ بجلی کم کرنےسے مکان مالکوں کو فائدہ ہوا۔ ہم پہلے بھی اتنا ہی بجلی بل دیتے تھے اب بھی اتناہی دے رہے ہیں۔
منڈاولی کے ایک مسجد میں عآپ اور کانگریس کارکن پرچہ بانٹتے ہوئے(فوٹو : دی وائر)
کانگریس کارکن راجیو ورما کیجریوال حکومت کے ذریعے مفت میں پانی دیے جانے پر سوال اٹھاتے ہیں، حکومت مفت میں پانی مت دے لیکن پینے لائق صاف پانی تو دے۔ جو پانی حکومت دے رہی ہے وہ پینے لائق نہیں ہے۔ راجیو کا دعویٰ ہے کہ لوگ پانی خریدکر پی رہے ہیں۔بی جے پی امیدوار رویندر سنگھ نیگی نے بھی یہی دعویٰ کیا ہے کہ اس علاقے میں جو پانی حکومت مفت میں دے رہی ہے وہ پینے لائق نہیں ہے۔ لیکن اس بارےمیں بستیوں میں کچھ لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سے جو پانی سپلائی ہو رہا ہے، وہ وہی پانی پیتے ہیں۔
جھگی بستی میں رہنے والی لکشمی کہتی ہیں،حکومت جو پانی دے رہی ہے وہ صاف ہے۔ ہم تو وہی پانی پیتے ہیں۔ ہاں کبھی کبھار کہیں پائپ ٹوٹ جاتی ہے توگندہ پانی آتا ہے۔ لیکن شکایت کر دینے پر ٹھیک بھی کر دیتے ہیں۔شاہین باغ کو مدعا بنانے کے سوال پر ہم نے ویسٹ ونود نگر میں بی جےپی امیدوار رویندر نیگی کے دفتر میں موجود کچھ کارکنان سے بات کی۔ اس پر ایک کارکن نے کہا،یہ تو مدعا بننا ہی چاہیے کیونکہ رہنما لوگ (بنا کسی کا نام لئے) سی اےاے اور این آر سی پر لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ شاہین باغ میں مظاہرہ کرنے والوں کو عآپ پیسہ دے رہی ہے۔
ایک دوسرے کارکن نے بہت ہی جارحانہ اندازے میں کہا، وہ شاہین باغ نہیں ہے بلکہ توہین باغ ہے۔ جس ملک کا کھاتے ہیں، جس مٹی میں پنپے ہیں، اسی کوٹکڑے ٹکڑے کرنے کی بات کر رہے ہیں۔لیکن اس موضوع پر عام لوگوں کی رائے الگ تھی۔ شاہین باغ میں جس مدعے کو لےکر مظاہرہ ہو رہا ہے اس پر آپ کیا سوچتے ہیں،یہ پوچھنے پر رمیش کہتےہیں،وہاں جو لوگ مظاہرہ کر رہے ہیں وہ کوئی لڑائی-جھگڑا نہیں کر رہے ہیں۔ وہ پرامن طریقے سے دھرنا دے رہے ہیں، لیکن بی جے پی اس کو بےکار مدعا بنا رہی ہے۔
ایک دیگر خاتون ساوتری نے کہا،وہاں جو مظاہرہ کر رہے ہیں وہ بھی تو ہمارے جیسے ہی لوگ ہیں۔ اسی ملک کے لوگ ہیں۔ بی جے پی رہنما اپنی تقاریرمیں اقتدار میں آنے کے بعد شاہین باغ کو ختم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ بولنے کا سب کوبرابر حق ہے نہ؟کل ملاکر پٹ پڑگنج علاقے میں سی اے اے، این آر سی، شاہین باغ سےلےکر پانی، بجلی، تعلیم، ہاسپٹل تک کی باتیں اور بحث ہو رہی ہیں۔ جہاں بی جے پی اپنی تشہیر میں بنیادی مدعوں کے ساتھ-ساتھ نام نہاد قوم پرستی کے مدعے کو بھی اچھال رہی ہے، وہیں عآپ بنیادی سہولیات کے معاملے میں اپنی کامیابیوں کو گنوانے پرزور دے رہی ہے۔
کانگریس کا زور عآپ کی ناکامیاں گنوانے پر ہے۔ لیکن سبھی کی تشہیرمیں اہم مدعے کے طور پر پانی کی زیادہ بات ہو رہی ہے۔ کہیں نہ کہیں تمام پارٹیو ں کو یہی لگ رہا ہے یہی مدعا ان کو کامیابی کے دروازے تک لے جا سکتا ہے۔لیکن عوام جیت کا سہرا کس کے سر پر باندھےگی، کس کی امیدوں پرپانی پھیرےگی،یہ تو 11 فروری کو ہی پتہ چلےگا جب ووٹوں کی گنتی ہوگی۔