کوردھا میں ایک عیسائی اسکول چلانے والے عیسائی خاندان کو 18 مئی کو چرچ سروس کے دوران ہندوتوا ہجوم کے پرتشدد حملے کے بعد روپوش ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔ متاثرین کا الزام ہے کہ یہ واقعہ برسوں کی ہراسانی اور جبراً وصولی کا نتیجہ ہے، جو پولیس کی بے عملی اور سیاسی مداخلت کے باعث اور بھی بڑھ گیا ہے۔

گزشتہ 18مئی کو عیسائی اسکول پر ہندوتوا ہجوم کے حملے کے ویڈیو کا اسکرین شاٹ۔
کوردھا: چھتیس گڑھ کے کوردھا میں ایک عیسائی اسکول چلانے والے عیسائی خاندان کو 18 مئی کو اتوار کی چرچ سروس کے دوران ہندوتوا ہجوم کے پرتشدد حملے کے بعد روپوش ہونے کو مجبور ہونا پڑا۔
آن لائن نشر ہونے والے ویڈیو کی تصدیق کی گئی اور اس میں بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے اراکین کو ہولی کنگڈم انگلش ہائر سیکنڈری اسکول میں داخل ہوتے، ملازمین کے ساتھ مارپیٹ کرتے اور جبراً تبدیلی مذہب کا الزام لگاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے – ایک ایسا دعویٰ جس کے لیے حملہ آوروں نے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔
تاہم، متاثرین کا الزام ہے کہ یہ پورا واقعہ برسوں سے جاری ہراسانی اور جبراً وصولی کا نتیجہ ہے، جو اب پولیس کی بے عملی اور سیاسی مداخلت کے باعث اور بڑھ گیا ہے۔
‘ہم کئی دہائیوں سے یہاں عبادت کرتے آ رہے ہیں؛ اب ہم مجرم ہیں؟‘
گزشتہ 18مئی کو، صبح قریب 11:40 بجے، بجرنگ دل اور وی ایچ پی کے تقریباً 80-100 ارکان اسکول کے احاطے میں داخل ہوئے، جہاں اتوار کی چرچ سروس چل رہی تھی۔ مبینہ طور پر، ہجوم نے’جئے شری رام’ کے نعرے لگاتے ہوئےعبادت گاہ میں گھس کر خواتین اور نابالغوں کوسمیت وہاں موجود لوگوں کو مارا پیٹا، اور ‘بیت الخلاء’ میں چھپی بچیوں کو ڈرایا دھمکایا گیا۔
ہولی کنگڈم اسکول کے پرنسپل، پادری جوز تھامس، 35 سال سے زیادہ سے کوردھا میں مقیم ہیں۔ ان کے بیٹے جوشوآ جوز تھامس بتاتے ہیں، ‘ہمارا خاندان تمام برادریوں کو تعلیم فراہم کرنے کے مقصد سے اس اسکول کو چلا رہا ہے۔ لیکن اس بار انہوں نے میری ماں اور چھوٹے بھائی کو زدوکوب کیا۔ میرے والد کو گرفتار کر لیا گیا۔ اب ہم چھپ کر رہ رہے ہیں۔ اور پولیس ہماری شکایت درج نہیں کرے گی۔’
ایک ویڈیو بیان میں پادری تھامس کہتے ہیں، ‘کئی آئی اے ایس افسران، پولیس افسران، ڈاکٹر، انجینئر اور سی اے (چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ) نے یہاں سے اپنی تعلیم مکمل کی ہے۔ یہ 35 سال پرانا اسکول ہے۔’
گزشتہ 18مئی کے واقعے کے ویڈیو میں مقامی پولیس اور میڈیا حملے کے دوران وہاں نظر آ رہے ہیں۔ تاہم، پولیس نہ صرف مبینہ طور پر تشدد کو روکنے میں ناکام رہی، بلکہ انہوں نے مبینہ طور پر جبری تبدیلی مذہب کے الزام کی حمایت کرنے کے لیے وہاں موجود لوگوں کو اپنے بیانات بدلنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔
بتایا گیا ہے کہ پولیس نے حملے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی قبضے میں لے لی ہے، تاہم، اسے عام نہیں کیا گیا ہے۔
‘سرکاری دباؤ‘
حملے کے ایک دن بعدپولیس نے پادری جوز کو مبینہ ‘سی سی ٹی وی تحقیقات’ کے لیے بلایا اور انہیں نامعلوم الزامات کے تحت گرفتار کر لیا۔
مبینہ طور پر بغیر وارنٹ کے ان کے فون کی تلاشی لی گئی اور ان کی بیوی کو بھی طلب کیا گیا۔ ضمانت ملنے کے بعد پادری جوز کو کار کی ڈکی میں چھپ کر کوردھا سے بھاگنا پڑا کیونکہ بجرنگ دل کے لوگ ان سے نمٹنے کے لیے عدالت کے باہر جمع ہو گئےتھے۔
کئی کوششوں کے باوجود پولیس نے حملہ آوروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے سے خاندان کو منع کر دیا ہے۔
جوشوآنے الزام لگایا کہ ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (اے ایس پی) بگھیل اور ایس پی دھرمیندر سنگھ سمیت مقامی پولیس اہلکار ‘سرکاری دباؤ’ میں کام کر رہے تھے۔
اس دوران بی جے پی کے ضلع صدر راجندر چندرونشی اور ریاستی وزیر داخلہ وجئے شرما سمیت سیاسی لیڈروں پر حملہ آوروں کو تحفظ فراہم کرنے کا الزام بھی لگایا جا رہا ہے۔
ایک ویڈیو میں ایک مقامی خاتون اہلکار، جو بجرنگ دل کے مردوں کے ساتھ بحث کرتی نظر آرہی ہے، کو تبدیلی مذہب کے ‘ہزاروں معاملوں کی جانچ’ کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ تاہم، ایسی کوئی خصوصی مثال کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
جبراً وصولی کی کوشش
جوشواآکا دعویٰ ہے کہ تشدد کے پیچھے اصل وجہ فیس کا تنازعہ تھا۔ بی جے پی لیڈر راجندر چندرونشی نے اسکول کو فون کیا تھا اور بی جے پی کے ایک حامی کے بچے کے لیے ٹرانسفر سرٹیفکیٹ طلب کیا تھا، حالانکہ فیس دو سال سے ادا نہیں کی گئی تھی اور نہ ہی کوئی رسمی درخواست دی گئی تھی۔ اسکول نے انکار کیا تو دباؤ اور بڑھ گیا۔
خاندان کا دعویٰ ہے کہ اس کےبعد انہیں دھمکیوں، تاوان کے مطالبات کا سامنا کرنا پڑا – جس میں تبدیلی مذہب کے بیانیے کو دبانے کے لیے 1 لاکھ روپے کا مطالبہ بھی شامل تھا –اس کے ساتھ ہی میڈیا کی طرف سے بھی پریشان کیا گیا۔
بتایا گیاہے کہ 6 مئی تک بجرنگ دل اور وی ایچ پی کے کارکنوں نے ایک مقامی آن لائن چینل کے ساتھ مل کر کلکٹریٹ پر احتجاج شروع کر دیا اور اسکول بند کرنے کی اپیل کی۔
بالآخر اسکول نے دباؤ میں آکر سرٹیفکیٹ جاری کر دیا، لیکن حملے یہیں نہیں رکے۔
ہراساں کرنے کا ایک پیٹرن ہے
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ تھامس فیملی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ 2010-11 میں پادری جوز کو جھوٹے الزامات میں 10 دنوں کے لیے جیل میں رکھاگیا تھا، جس کے بعد انہیں عدالتوں نے بری کر دیا تھا۔
اس کے بعد سال 2022 میں 100 لوگوں کے ہجوم نے اسکول کے رہائشی علاقے کے کچھ حصوں کو مسمار کر دیا۔ خاندان کا الزام ہے کہ انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ جیسی ایجنسیوں نے ان کے بینک کھاتوں کو بغیر کسی مناسب کارروائی کے منجمد کر دیا،یہ سب’انہیں باہر نکالنے کی ایک بڑی سیاسی کوشش’ کے حصے کے طور پر کیا گیا۔
ہجوم اب بھی مبینہ طور پر عدالتوں، تھانوں اور اسکول کے باہر روزانہ جمع ہوتا ہے۔
جوشوآ نے کہا، ‘وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم نے کوردھا نہیں چھوڑا تو وہ ہمیں مار ڈالیں گے۔ کوئی بھی دوست ہمارا ساتھ نہیں دے رہا ہے۔ یہاں تک کہ جن کانگریسی لیڈروں سے ہم نے رابطہ کیا وہ بھی مدد کرنے سے ڈر رہے ہیں۔’
ڈی ایم سے ملاقات کے بعد جوشوآ کی ماں نے ایک شادی کی تقریب میں چھتیس گڑھ کے وزیر داخلہ وجئے شرما سے براہ راست بات کرنے کی کوشش کی۔ جوشوآ کہتے ہیں،’انہوں نے ان سے بات کی اور انہوں نے کہا، ‘ہم دیکھیں گے’، لیکن تب سے یہ بد سے بدتر ہوتا چلا گیا ۔’
حکام خاموش ہیں
ویڈیو، عینی شاہدین کے بیانات اور جوشوآ کی مفصل تحریری شکایت سمیت متعدد شواہد کے باوجود پولیس نے حملہ آوروں کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کی ہے۔
خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ ایک افسر کا تبادلہ کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کے علاوہ بھیڑ کی قیادت کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔
گزشتہ اتوار کو کوردھا میں کئی گرجا گھر بند رہے، جوشوآ نے کہا۔’لوگ خوفزدہ ہیں۔ یہاں تک کہ جو ہمارے ساتھ کھڑے تھے وہ بھی خود کو دور کر رہے ہیں۔ ہر کوئی صورتحال کے پرسکون ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔’
( انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)