اس سے پہلے بھی غازی آباد کے ڈاسنہ دیوی مندر کے پجاری یتی نرسنہانند سرسوتی کے خلاف پیغمبر محمد پر قابل اعتراض تبصرہ کرنے کے الزام میں شکایت درج کرائی جا چکی ہے۔نرسنہانند تب سرخیوں میں آئے تھے، جب ڈاسنہ مندر میں پانی پینے کی وجہ سے ایک نابالغ مسلم لڑکے کی بے رحمی سے پٹائی کی گئی تھی۔
نئی دہلی:اتر پردیش پولیس نے غازی آباد کے ڈاسنہ دیوی مندر کے پجاری یتی نرسنہانند کے خلاف ہندو خواتین اور خاتون رہنماؤں کے بارے میں قابل اعتراض تبصرہ کرنے کے الزام میں تین ایف آئی آر درج کی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، غازی آباد (دیہی)کے ایس پی نے بتایا،‘یتی نرسنہانند کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے، جس میں وہ مندر احاطہ میں بیٹھے ہیں اور ہندو خواتین کے دوسرے مذہب کےمردوں کے ساتھ تعلقات کو لےکرقابل اعتراض تبصرہ کر رہے ہیں۔
یہ ایف آئی آر آئی پی سی کی دفعہ505(1)(سی)(اکسانے کے ارادے)، 509(خاتون کی بے عزتی کرنا)، 504(بدامنی کے ارادے سے جان بوجھ کر توہین کرنا)، 506(دھمکی دینا)اورآئی ٹی ایکٹ کی دفعہ67(الکٹرانک ذرائع سےفحش موادکو شائع یا مشتہر کرنا)کے تحت درج کیا گیا ہے۔
افسر نے کہا کہ جانچ پوری ہونے کے بعدقانونی کارروائی شروع کی جائےگی۔
نیشنل کمیشن فار وومین(این سی ڈبلیو)کی صدر ریکھا شرما کی ہدایت کے بعد پولیس نے نرسنہانند کے خلاف معاملہ درج کیا۔
ریکھا شرما نے ٹوئٹ کرکے اتر پردیش پولیس سے ایف آئی آر درج کرنے اور نرسنہانند کو گرفتار کرنے کو کہا تھا۔
Third FIR is also been done on this fake Sanyasi called Yati Narsinghanand. https://t.co/ajJkoAjYpz
— Rekha Sharma (@sharmarekha) August 31, 2021
نرسنہانند کے خلاف شکایت درج کرنے کے بعد شیئر کئے گئے ویڈیو میں نرسنہانند نے کہا ہے کہ ان کے تبصروں کو غلط تناظر میں لیا گیا اورسوشل میڈیا پر شیئر کئے جا رہے ویڈیو میں کافی کانٹ چھانٹ کی گئی ہے۔
حالانکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ویڈیو دراصل ایک فیس بک لائیو تھا، جسے اپ لوڈ کرنے سے پہلے ایڈٹ نہیں کیا جا سکتا۔
مسلمانوں کے خلاف مستقل پرتشدد اور اشتعال انگیز بیان دیے جانے پر نرسنہانند کی حمایت کرنے والے بی جے پی رہنما اب ان سے دوری بناتے دکھائی دے رہے ہیں۔مثال کے طور پراب بی جے پی رہنما کپل مشرانرسنہانند کی گرفتاری کی مانگ کر رہے ہیں جبکہ ایک وقت میں انہوں نے نرسنہانندکے لیے25 لاکھ روپے اکٹھا کیا تھا۔
حال ہی میں دہلی کی ایک عدالت نےان دعووں کو لےکر ایکشن ٹیکن رپورٹ مانگی تھی، جس میں دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ جامعہ نگر پولیس اسٹیشن نے ان کےفرقہ وارانہ بیان بازی کے معاملے میں نرسنہانند کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
دی وائر نے پہلے بھی اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ نرسنہانند نے میڈیااداروں سے بات کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اوردارالعلوم دیوبندسمیت کچھ تعلیمی اداروں کےطلباہندوستان کےآئین کے لیےسچی عقیدت اور احترام کاجذبہ نہیں رکھ سکتے ہیں یا ہندوستان کی خودمختاریت اورسالمیت کو بنائے نہیں رکھ سکتے ہیں۔
بتا دیں کہ دہلی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران پیغمبرمحمد کے خلاف نازیبا تبصرہ کرنے پر مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے الزام میں نرسنہانند کے خلاف اس سال اپریل میں بھی معاملہ درج کیا گیا تھا۔
معلوم ہو کہ ڈاسنہ مندر اس سال مارچ مہینے میں اس وقت سرخیوں میں آیا تھا، جب مندر میں پانی پینے گئے 14 سال کے ایک مسلم لڑکے کی وہاں کام کرنے والے ایک شخص نے بے رحمی سے پٹائی کی گئی تھی۔ اس شخص کو گرفتار کیا گیا تھا۔ حالانکہ بعد میں نرسنہانند نے ملزم کی حمایت کی تھی۔