دانش ارشاد کی کتاب ‘آزادی کے بعد’ کشمیر کے دونوں خطوں خاص طور پر پاکستانی زیر انتظام علاقہ کی حرکیات جاننے کے لیے ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کی کتاب دراصل اس خطے کی سیاسی اور سماجی حرکیات کے حوالے سے ایک اہم تحقیق ہے۔
جمو ں و کشمیر میں جب اوڑی، کیرن، کرناہ یا گریز جانے کا اتفاق ہوتا تھا، تو لائن آف کنٹرول کے اس پار دیکھتے ہوئے لگتا تھا جیسےوہاں کوئی طلسماتی سرزمین ہے۔ اوڑی سیکڑ میں ایک بار اسکول کے ساتھ پکنک کے دوران دوسری طرف بھی پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے اسکول کے بچے نظر آرہے تھے،جو ہمیں ہاتھ ہلاکر خوش آمدید کہہ رہے تھے۔
گو کہ نسل و زبان کے لحاظ سے جموں و کشمیر کے خطوں میں شاید ہی کوئی مماثلت ہو، مگر 1846کے امرتسر اگریمنٹ کی رو سے اس خطے کی جو سرحدیں متعین ہوئی تھیں،نے ان کو منسلک کردیا ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا نیلم اور مظفر آباد کا علاقہ وادی کشمیر کے اضلاع بالترتیب کپواراڑہ اور بارہمولہ سے لگا ہوا ہے۔ مگر اس کا بڑا حصہ باغ، پلندری، راولا کوٹ، کوٹلی،میر پور، بھمبر وغیرہ 1947 سے قبل جموں ڈویژن کا حصہ ہوتا تھا۔
اس ریاست میں گیارہ نسلی گروپ کشمیری، کرگلی، لداخی، بلتی، ہنزہ، کلاشا، چترالی، پوٹو ھاری (پہاڑی)، ڈوگرہ گجر-بکروال اور شینا رہتے ہیں۔
غیر منقسم ریاست میں کشمیری نسل کل آباد ی کا 52فیصد کے لگ بھگ ہے۔
وادی کشمیر کی نسبتاً یکساں نسلی آبادی کے برعکس پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں آبادی سید، مغل، گوجر، سدھن، راجپوت چوہان اور دیگر ان گنت برادریوں میں بندھے ہوئے ہیں۔یہاں غالب اکثریت پہاڑی زبان بولنے والوں کی ہے، جو پوٹوھاری اور ہندکو سے ملتی جلتی ہے۔ اس خطہ میں بس 5 فیصد لوگ ہی کشمیری زبان بولتے ہیں۔
چونکہ تاریخی، سماجی اور سیاسی طو اس پورے خطے کا مرکز یا نیوکلیس وادی کشمیر کو تسلیم کیا جاتا ہے، اس لیے دیگر خطوں کی حرکیات اور طرز فکر وغیر ہ محققین کی نظروں سے اوجھل رہی ہیں۔
وادی کشمیر پر جہاں ہزاروں کتابیں اور تحقیقی مقالے لکھے جا چکے ہیں، پاکستانی زیر انتظام کشمیر، جو کہ اصل میں 1947سے قبل اس خطے کے دور درازکے مضافاتی اطراف تھے پر بہت کم توجہ دی گئی ہے۔
انگریزی زبان میں چند مصنفین جیسے انم زکریا نے قلم تو اٹھایا ہے، مگر وہ تحقیق سے عاری سفر نامہ کی طرز پر لکھا ہوا مخصوص ایجنڈہ سے بھر پور مواد لگتا ہے۔
اس خلا کو ابھی حال ہی میں راولا کوٹ کے نوجوان مصنف اور صحافی دانش ارشاد نے پُر کیاہے۔
ان کی کتاب”آزادی کے بعد“اس خطے کی سیاسی اور سماجی حرکیات کے حوالے سے ایک اہم تحقیق ہے۔
عبوری حکومت کے قیام سے لےکر، جمہوریت کے قیام کے مطالبات، پاکستانی حکمرانوں کی بلا وجہ نادانیاں، سندھ تاس معاہدہ، منگلا ڈیم اور موجودہ عوامی حقوق تحریک اور دیگر ان گنت موضوعات پر اس 293 صفحات کی کتاب میں سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔
ویسے تو دونوں ممالک یعنی ہندوستان اور پاکستان کو جموں اور کشمیر کے اپنے اپنے زیر انتظام علاقوں کو نظم و نسق بہتر کرنے اور جمہوری روایات کی پاسبانی کے حوالے سے مسابقت کرکے ان کو جنوبی ایشیا ء کے لیے مثال بنا نا چاہیے تھا، مگر انہوں نے جمہوری اداروں کا گلا گھونٹے میں دوڑ لگائی۔
نئی دہلی کے حکمران تو کشمیری عوام سے خائف تھے کہ اگر ان کو حقوق دیے جائیں تو وہ ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوسکتے ہیں۔ مگر پاکستان نے انتہائی غیر ضروری طور پر اس خطے کو جمہوری نظام سے محروم رکھنے کی کوشش کرکے بلاوجہ ہندوستان کی ہمسری کرنے کی کوشش کی ہے، جس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی ہے۔
چونکہ پاکستان کے پاس ایک چھوٹا سا خطہ تھا، یعنی 1947کے جموں و کشمیر کے ڈھائی ضلعے۔لہذا ا ن کو جمہوری و معاشی و سماجی اصلاحات کی لیبارٹری بناکر پورے جنوبی ایشیاء کے لیے ایک نمونہ بنا یا جا سکتا تھا۔
مصنف نے 5اکتوبر 1947کی غلام نبی گلکار کی سربراہی میں ایک حکومت کی تشکیل کا ذکر کیا ہے۔ یعنی مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے دستاویز الحاق پر دستخط کرنے اور ہندوستانی افواج کی آمد اور قبائلیوں کے حملہ سے قبل کا یہ واقعہ ہے۔
رسم اجرا کے موقع پر لی گئی ایک تصویر
کتاب کے مطابق گلکار کی سرینگر میں شیخ عبداللہ کے ساتھ ملاقات بھی ہوئی تھی۔ جس کے امکانات بہت کم ہیں۔گو کہ باقی سیاسی رہنماوں کے برعکس شیخ عبداللہ کو جیل سے رہا توکر دیا گیا تھا، مگر وہ جلد ہی آل انڈیا اسٹیٹس پیپلز کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے دہلی چلے گئے تھے۔ کانگریس اور جواہر لال نہرو کی ایما پر ان کی عدم موجودگی میں ہی ان کو کو آل انڈیا اسٹیٹس پیپلز کا نفرنس کا صدر مقرر کیا گیا تھا۔
کتا ب میں ریڈیو صدائے کشمیر کی تشکیل کا ذکر ہے۔ گو کہ مصنف نے ذکر نہیں کیا ہے، مگر تقسیم کے فوراً بعد دونوں ممالک میں ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈہ نہ کرنے کا سمجھوتہ ہو گیا تھا۔ اس کو بعد میں عملی شکل میں 1950 میں نہرو-لیاقت پیکٹ کا حصہ بنایا گیا۔
کتاب
ریڈیو کشمیر ان ٹائمز آف پیس اینڈ وار کے مصنف راجیش بھٹ کے مطابق، ہندوستان نے جب جولائی 1948کو سرینگر میں ریڈیو اسٹیشن قائم کیا، تو اس کا نام آل انڈیا ریڈیو یا آکاش وانی کے بجائے ریڈیو کشمیر سرینگر رکھا۔ اس کا کشمیر کی خصوصی پوزیشن کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ اگر پاکستان اس کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے اور سمجھوتہ کی خلاف ورزی کی شکایت کرتا ہے، تو یہ بتایا جائے کہ اس ریڈیو کا ہندوستان کے سرکاری ادارے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس سے قبل اسی وجہ سے پاکستان نے بھی اپریل 1948کو صدائے کشمیر ریڈیو اسٹیشن کی بنیاد ڈالی اور اس کو ریڈیو پاکستان سے الگ رکھا۔
صفحہ 31پر چودھری غلام عباس کی 1948میں پاکستان آمد کا ذکر ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ وہ گورنر جنرل پاکستان محمد علی جناح کو آمادہ کروانا تھا کہ جموں و کشمیر کی 15اگست والی پوزیشن بحال کی جائے، مگر پاکستانی قیادت نے یہ تجویز ماننے سے انکار کر دیا۔
ویسے چودھری عباس قیدیوں کے تبادلے کے سلسلے میں پاکستان آئے تھے۔جموں کے مسلم کش فسادات میں ا ن کی بیٹی کو بھی اغوا کیا گیا تھا۔
وقتاً فوقتاً پاکستان کے اکثر اسکالرز ایسے دعوے کرتے رہتے ہیں، جن کی کوئی تاریخی حقیقیت نہیں ہے۔ جموں و کشمیر کے بارے میں ہندوستان کا موقف ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے انڈیا انڈپنڈنس ایکٹ کی رو سے دستاو یز الحاق پر دستخط کرنے سے یہ خطہ ہندوستان کا اٹوٹ حصہ بن گیا۔ پاکستان کا موقف ہےکہ اسی ایکٹ کی رو سے جہاں حکمران اور رعایا دو الگ مذاہب سے تعلق رکھتے ہوں، آبادی کی اکثریت کی رائے کو اہمیت دی جانی چاہیے۔
ہندوستانی کابینہ نے دستاویز الحاق کو تسلیم کرتے ہوئے خود ہی وعدہ کیا تھا کہ قانون اور نظم کی بحالی کے بعد عوام سے الحاق کی توثیق کرائی جائےگی۔ اس کا اعادہ پھر اقوام متحدہ کی قراردادوں نے بھی کیا۔
مگر جو دستاویزات اب سامنے آرہے ہیں، ان کے مطابق وزیر اعظم جواہر لال نہرو کا رائے شماری کے ذریعے الحاق کی عوامی توثیق کروانے کا کبھی کوئی ارادہ نہیں تھا۔ نہرو اور اندرا گاندھی کے مشیر جی پارتھاسارتھی کے فرزند اشوک پارتھا سارتھی، جو خود بھی ہندوستانی حکومت میں بیورکریٹ اور وزیر اعظم اندراگاندھی کے مشیر رہے ہیں کا کہنا ہے کہ ان کے نانا سر گوپال سوامی آئینگر، کو جولائی 1947کو نہرو نے انتہائی خفیہ مشن پر سرینگر روانہ کیا تھا، جس نے مہاراجہ کو ہندوستان کے ساتھ الحاق پرآمادہ کیا تھا۔
آئینگر 1937 سے 1943 تک مہاراجہ کے وزیر اعظم بھی رہ چکے تھے۔ ا یر پورٹ پر ہندوستانی فضائیہ کی پوسٹ تعینات کی گئی تھی، جہاں سے پیغامات پہلے پٹیالہ اور پھر آگے دہلی روانہ کیے جاتے تھے۔ سرینگر سے دہلی تک براہ راست وائر لیس سروس ان دنوں دستیاب نہیں تھیں۔ نہرو کی اس تگ و دو کے دوران سردار پٹیل نے توجہ دلائی تھی کہ اتنی بڑی آبادی کو ان کی مرضی کے خلاف اپنے ساتھ رکھنا قومی سلامتی کے لیےدائمی خطرہ ہو سکتا ہے۔ مگر نہرو کا کہنا تھا کہ وہ کشمیریوں کی فطرت سے واقف ہیں۔ ان کا پیٹ بھرا ہوا ہو، تو وہ اف نہیں کریں گے اور قسمت پر صبر کریں گے۔ اس کو خطر ہ مضافات یعنی پونچھ، میر پور و مظفر آباد کے علاقوں سے تھا۔
نئی دہلی کے دفاع سے متعلق تھنک ٹینکوں میں کشمیر پر جب سیمینار ہوتے تھے، تو تان اس پر ٹوٹتی تھی کہ نہرو نے جنگ بندی کرانے میں جلد بازی کی، ورنہ پورا جموں و کشمیر ہندوستان کے پاس ہوتا۔ اس کا جواب ایک بار فیلڈ مارشل جنرل مانک شاہ نے یوں دیا کہ فوج ایک فوج کے ساتھ لڑ سکتی ہے، نہ کہ عوام کے ساتھ۔
ان کا کہنا تھا کہ جس طرح جنرل کے ایس تھمایا نے نومبر 1948 کو زوجیلا کے بلند و بالا پہاڑوں پر ٹینکوں کو چڑھا کر کرگل و لداخ کو ہندوستان میں شامل کروایا، وہ اوڑی کپواڑہ اور پونچھ سے آگے بھی اسی طرح کی پیش قدمی کر سکتے تھے۔
وادی کشمیر میں شیخ عبداللہ کی ہندوستان کے ساتھ الحاق کی حمایت کی وجہ سے فوج کو کسی عوامی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا، مگر ان کا اثر و رسوخ اوڑی یا پونچھ سے آگے نہیں تھا۔وہاں پاکستانی فوج، قبائل کے علاوہ مقامی آبادی کے ساتھ بھی مقابلہ کرنا پڑسکتا تھا۔ اس لیے جتنا علاقہ ہندوستان کو کشمیر میں چاہیے تھا، ان کو مل گیا ہے۔
جب شیخ عبداللہ چیف ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے جموں کے دورے پر آئے اور وید بھسین، کرشن دیو سیٹھی اور دیگر اکابرین نے ان سے جموں کے فساد زدہ مسلمانوں کی باز آبادکاری اور ان کو پاکستان جانے سے روکنے کی مانگ کی، تو ان کا بھی ٹکا سا جواب تھا کہ جموں کے مسلمانوں نے ان کو کب لیڈر مانا ہے۔
اکتوبر میں کشمیری پنڈت رام چندر کاک کو معزول کرکے مہر چند مہاجن کو وزیر اعظم اور رام لال بترہ کو نائب وزیر اعظم بنانا واضح اشارہ تھا کہ مہاراجہ اور راشٹریہ سیوئم سیوک سنگھ یعنی آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا مظفر آباد، میر پور، پونچھ،جموں یعنی کشمیر کے اطراف کو مسلمانوں سے خالی کروانا چاہتے تھے۔
مہر چند مہاجن کی فرقہ وارانہ ذہنیت کا تذکرہ خوشونت سنگھ نے بھی کئی بار کیا ہے۔ رام لال بترہ تو آرایس ایس کا ہی ورکر تھا۔
جموں کے قتل عام کو بند کروانے کی غرض سے پرنس آف ویلز کالج کے چند طلبہ وید بھسین، بلراج پوری اور اوم صراف جب فریاد کرنے مہاراجہ کے محل پہنچے، تو ان کومہر چند مہاجن کے پاس لے جایا گیا، جس نے ان سے کہا کہ چونکہ اب جمہوری دور کا آغاز ہونے والا ہے اس لیے بطورہندو ان کو ریاست میں اقتدار تک پہنچنے کے ذرائع ڈھونڈنے ہوں گے۔
جب اس وفد نے اس نے پوچھا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کیونکہ ریاست میں مسلم آبادی اکثریت میں ہے؟ تو کھڑکی کے پاس لے جاکر اس نے ان کو محل کے پاس کھائی کی طرف اشارہ کرکے کہا، ”کہ ایسے۔“
اس کھائی میں چند مسلم گجروں کی بے گورو کفن لاشیں پڑی ہوئی تھیں، جوصبح سویرے محل میں دودھ پہنچانے آئے تھے۔
تقسیم سے نو سال قبل احمد آباد قلعہ میں جہاں نہرو نے ڈسکوری آف انڈیاکتاب لکھی، اس کا بین السطور مطالعہ کرنے سے ہی پتہ چلتا ہے کہ وہ وادی کشمیر کے بارے میں جذباتی تھا اور کبھی اس کو پاکستان میں یا خود مختار نہیں رہنے دے سکتا تھا۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک لیڈر سدھانشو متل نےکچھ سال قبل آرایس ایس پر شائع اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ کس طرح آر ایس ایس کے کارکنان قبائلی اور پاکستانی فوج کی صفوں میں گھس گئے تھے، تاکہ ان کو مظفر آباد، اوڑی، بارہمولہ اور سوپور میں سرینگر میں باضابطہ ہندوستانی فوج کی آمد تک مشغول رکھا جائے۔
مئی 1948کو جب اندرا گاندھی نے اپنے والد نہرو کو سونہ مرگ سے خط لکھ کر کہا کہ”شیخ عبداللہ کے سوا کشمیر میں کوئی بھی ہندوستان کے حق میں استصواب رائے جیتنے کے بارے میں پر اعتماد نہیں ہے“، تو اس کے جواب میں نہرو نے لکھا کہ وہ یہ وعدہ انہوں نے عالمی رائے عامہ کو دھوکہ میں رکھنے کے لیے کیا تھا، اس کی کوئی وقعت نہیں ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کوبھر پیٹ چاول ملیں گے اور وہ اپنی قسمت پر صبر کریں گے۔اگر وہ یہ وعدہ نہیں کرتے، تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کسی دوسرچیپٹر کے تحت قرار داد منظورکرتی، جس میں عمل درآمد کے لیے فوجی مداخلت ناگزیر ہو جاتی۔ موجودہ قرار داد میں چونکہ دونوں فریقین نے رضامندی ظاہر کی تھی، اس لیے اس میں ”نفاذ“ کی دفعہ شامل نہیں تھی۔
تفصیل میں جانے کا مقصدتھا کہ ان اقعات پر قلم اٹھانے اور تجزیہ کرنے سے قبل اب نئی دستاویزات اور انکشافات کا مطالعہ کرنا لازمی بنتا ہے۔
خیر دانش ارشاد نے غازی محمد افسر خان کا حوالہ دے کر لکھا ہے کہ میرواعظ مولو ی محمد یوسف شاہ جو پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے صدر بھی رہ چکے ہیں نے نہرو کو خط لکھا تھا کہ کشمیر کو ہندوستان میں شامل کرنا ہی بہتر ہے۔ مگر اس کی کسی اور ذریعے سے تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ خط نہرو کے خطوط جو سو جلدوں میں اب دستیاب ہیں، کہیں موجود نہیں ہے۔ ہاں اس میں مہاراجہ ہری سنگھ کا 1948 کاایک مکتوب ہے جس میں انہوں نے الحاق واپس لینے کی استدعا کی ہے۔
کتاب میں کئی واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے، جن سے میں بھی نابلد تھا۔ سردار ابراہیم، چودھری غلام عباس، سردار عبدالقیوم کی آپسی چپقلش نے پاکستانی زیر انتظام کشمیر کو ایک میدان جنگ سا بنا کر رکھ دیا تھا۔ 1950 میں سردار ابراہیم کی حکومت کی برطرفی کے خلاف پونچھ میں بغاوت ہوئی اور اس حد تک کہ جب اس بغاوت کے ایک لیڈر غازی محمد امیر کے گھر کا گھیراو کر لیا گیا، تو پاکستانی فوج کے دستوں کو ہتھیار پھینک کر پسپا ہونا پڑا۔ ان فوجیوں کو بعد میں جنرل ایوب نے سزا دی۔اسی طرح باغ میں ایک متوازی حکومت قائم ہوگئی۔
اسی طرح دو سال بعد پھر پونچھ میں خان آف منگ کی قیادت میں بغاوت ہوئی۔ فوجی کارروائی کے بعد انہوں نے سیز فائر لائن کراس کی اور دو سال کے بعد واپسی کی۔ مطالبہ بس ا س قدر تھا کہ عوام کو ووٹ کا حق دیا جائے۔
ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں یہ حق تو بہت جلدی دیا گیا تھا، مگر فرق یہ تھا اس حق کا استعمال کرنے کے بعد وہاں بیلٹ بکس میں چھیڑ چھاڑ کرکے منظور نظر امیدواروں کو جتایا جاتا تھا۔
پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں بالغ رائے دہی کا حق 1970میں پہلی بار دیا گیا۔ مگر پھر 1974میں پارلیامانی نظام معطل کیا گیا۔
دلچسپ پیرایے میں کتاب کئی واقعات کا احاطہ کرتی ہے۔ جیسے کہ صدر ابراہیم خان کے خلاف سازش کرکے پاکستان کے صدر اسکندر مرز ا نے چوہدری غلام عباس کو کشمیر میں حالات خراب کرنے کے لیے اکسایا، تاکہ حکومت کوبرخاست کرایا جائے۔ اس کے لیے کشمیر لبریشن مومنٹ کی بنیاد ڈالی گئی اور اعلان کیا گیا کہ یہ سیز فائر لاین کو عبور کرکے سرینگر کی طرف کوچ کرے گی۔
اسی طرح کے ایچ خورشید کے دور صدارت میں پاکستانی زیر انتظام کشمیر کو کشمیر کی نمائندہ حکومت کے بطور تسلیم کروانے کی سعی کا ذکر ہے۔
کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ چین،الجیریا سمیت کئی ممالک اس کو تسلیم کرنے پر تیار تھے۔ ڈھائی ضلعوں کے خطے کو کیسے ایک آزاد مملکت کے بطور کوئی تسلیم کرتا، سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔
ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ چونکہ دنیا بھر میں ہندوستان کے زیر انتظام سرینگر میں قائم حکومت کو کشمیر کی نمائندہ حکومت تسلیم کیا جاتا ہے، اس لیے کے ایچ خورشید کی سعی رہی ہوگی کہ یہ پہچان مظفر آباد کے حصے میں آئے۔ مگر اس خطے کے مرکز و ادی کشمیر کے ہندوستان کی طرف ہونے سے یہ بیل شاید ہی منڈھے چڑھ سکتی تھی۔
دوسری طرف جموں و کشمیر کی اسمبلی میں پاکستانی کشمیر کے لیے نشستیں خالی رکھی جاتی ہیں، جس سے بھی اس کی پورے غیر منقسم جموں و کشمیر کے ترجمان کی حیثیت مسلم ہوجاتی ہے۔خورشید کا یہ قدم واقعی سیاسی طور پر تخلیقی لگتا ہے، جس سے پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے اراکین اسمبلی کوپورے کشمیر کے عوامی نمائندوں کے بطور پذیرائی مل جاتی۔
ابتداء میں کچھ وقت تک امریکی انتظامیہ جموں و کشمیر کو ایک آزاد مملکت کی حیثیت کے بطور نرم گوشہ رکھتی تھی۔ مگر امریکی محکمہ خارجہ کے دستاویزات، جو حال ہی میں عام کیے گئے ہیں کے مطابق اس کی جلد ہی سختی کے ساتھ مخالفت کی گئی۔1950 میں، سکریٹری آف اسٹیٹ کو ایک یادداشت میں صراحت سے بتایا گیا کہ ”ایک آزاد کشمیر ممکنہ طور پر کمیونسٹوں کے قبضے میں چلا جائے گا۔“ 1956 کے ایک ٹیلی گرام میں بتایا گیا کہ ”جنگ کے علاوہ کوئی دباؤ ہندوستانی حکومت کوکشمیر کی چھوڑنے پر مجبور نہیں کرے گا۔“
کتاب میں پانی کے مسائل کے حوالے سے بھی سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ شکوہ کیا گیا ہے کہ انڈس واٹر ٹریٹی یعنی سندھ تاس معاہدے کے وقت دونوں اطراف کے کشمیر کی حکومتوں سے دستخط سے قبل مشورہ نہیں کیا گیا۔ ویسے اگر مشورہ کیا بھی ہوتا، اس کے علاوہ اور کوئی معاہدہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
جغرافیہ اس بات کو ناممکن بنا دیتا ہے کہ ہندوستان دریائے سندھ، چناب اور جہلم سے پانی حاصل کرسکے۔ یہ مذاکرات ورلڈ بینک کی ثالثی میں منعقد ہوئے۔کشمیر کی خوبصورت اور گنجان آباد وادی سمندری سطح سے اوسطاً 1,850 میٹر کی اونچائی پر ہے لیکن اس کے ارد گرد پیر پنجال کی پہاڑیوں کی اوسط اونچائی 5,000 میٹر ہے۔اس لیے وہاں پانی کا ذخیرہ کیا جا سکتا نہ کسی اور جگہ منتقل کرکے استعمال کیا جا سکتا۔ اس لیے اسے پاکستان میں بہتے رہنا پڑتا ہے۔
جہلم جنوبی کشمیر کے چشمہ ویری ناگ سے شروع ہوتا ہے اور کشمیر کی وادی میں 200 کلومیٹر سے زیادہ کی دوری طے کرنے کے بعد پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں داخل ہوتا ہے۔ سرینگر سے گزرنے کے بعد یہ ولر جھیل کو بھر دیتا ہے، جو ایک قدرتی ذخیرہ ہے۔
اگر کشمیر کا قضیہ پیدا نہ ہوا ہوتا، تو میر پور کے مقام پر منگلا ڈیم بنانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ ولر کو ہی گھیر کر پانی کاذخیرہ کیا جاسکتا تھا۔ 20 ویں صدی کے آغاز میں ولر پر بیراج بنانے کی تجویز سب سے پہلے پنجاب حکومت نے مہاراجہ کو دی تھی۔
جیولوجی کے ماہر اور وائس چانسلر ڈاکٹر شکیل احمد رومشو کا کہنا ہے کہ پانی ذخیرہ کرنے کی سہولت کشمیر میں ہے ہی نہیں اور پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے بڑے ذخیرے بنا بھی نہیں سکتے ہیں۔ چونکہ پاکستان کے زرعی شعبے کے لیے آبپاشی کا 80 فیصد پانی کشمیر کے دریاوں سے حاصل ہوتا ہے، اس لیے اس کا فائدہ اٹھانے والو ں کو ان کے منبعوں کی دیکھ ریکھ کا بھی بار اٹھانا چاہیے اور اس کے لیے ان علاقوں میں رہنے والی آبادی کی ضروریات کاخیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ وقتا فوقتا یہ آبادی، جب وہ ایک حد سے کراس کر جائے، کونیچے لاکران کی باز آبادکاری کی ضرورت ہے تاکہ پہاڑوں میں بڑھتی آبادی اور آمد و رفت کا خمیازہ گلیشیئرز کو نہ اٹھانا پڑے۔
چونکہ یہ دریا نشیبی علاقوں کے لیے فوڈ سیکورٹی کا کام کرتے ہیں، لازم ہے کہ پہاڑوں میں رہنے والے، جو ان دریاؤں کے محافظ ہیں کی انرجی ضروریات کا خیال رکھا جائے۔ یہ سچ ہے کہ ان دریاؤں پر کئی ہزار میگا واٹ کے بجلی کے پروجیکٹس بنائے جاسکتے ہیں، مگر ان کو بنانے کا خرچہ کون اٹھائے گا؟ جو خرچہ اٹھاتا ہے وہ اس سے پیدا کی جانی والی بجلی کا حصہ دار بھی بن جاتا ہے۔
ہندوستان کی ہائیڈرو پاور کمپنی این ایچ پی سی کے جموں و کشمیر اور لداخ میں 2250 میگاواٹ کی نصب صلاحیت کے ساتھ چھ پاور سٹیشن ہیں۔ ریاست کو رائلٹی کے طور پر جنریشن کا 12 فیصد مفت ملتا ہے جو کہ 270 میگاواٹ ہے۔ باقی بجلی یہ ایجنسی نیشنل گرڈ کو بیچتی ہے۔ بگلیہار جو ریاست کا اپنا پروجیکٹ ہے، کو بنانے کے لیے بینکو ں سے قرضہ لیا گیا تھا۔اس سے پیدا شدہ بجلی سے ابھی تک وہ قرضہ ہی اتار رہی ہے۔
یہ ایک سچ ہے کہ اس ریاست کے مختلف علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے مسائل الگ الگ ہیں اور سیاسی مستقبل کے حوالے سے بھی ان کی اپنی اپنی سوچ ہے۔فوجی جماؤکے علاوہ وادی کشمیر کی غالب اکثریت بیرون دنیا سے روابط یعنی کنکٹویٹی کے لیے تشنہ ہے۔
فوٹو بہ شکریہ: سوشل میڈیا
یہ شاید پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں رہنے والوں کی سمجھ میں نہیں آسکتا ہے۔ 2015 میں جب پہلی بار سرینگر سے مرحوم شجاعت بخاری کی قیادت میں صحافیوں کا ایک وفد مظفر آباد دورے پر آیا تھا، تو جس چیز نے ان کو سب سے زیادہ جذباتی اور متاثر کیا وہ جہاں نیلم اور جہلم کے سنگم پر لگا ایک سائن بورڈ تھا، جس پر سری نگر 179کلومیٹر، تاشقند578 کلومیٹر،کابل 393 کلومیٹر لکھا ہوا تھا۔ وہ اس شاہراہ کو دیکھ رہے تھے کہ جس کو ان کے آباء واجداد روابط کے لیے استعمال کرتے تھے۔ یہ سائن بورڈ علامتی ہی سہی، مگر اس نے گروپ کو جذباتی کردیا۔
ان جذبات کی تہہ میں وہ درد چھپا تھا کہ نصف صدی قبل جو خطہ پوری دنیا کے ساتھ مربوط تھا، جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے درمیان پل کا کا م کرتا تھا، آناً فاناً بیسیوی صدی میں ایک وسیع و عریض جیل میں تبدیل ہوگیا۔ اب یہ خطہ تجارتی قافلوں کو راہداری دینے اوران کا استقبال کرنے کے بجائے فوجی بوٹوں کی دھمک سے لرز رہا ہے۔
وادی کشمیر اب بذریعہ ٹرین اور شاہراؤں کے ذریعے ہندوستان کے دیگر علاقوں سے جڑ رہی ہے۔ مگر ہماچل پردیش یا دیگر علاقوں میں شال بیچنے والی چھوٹے موٹے تاجروں سے جس طرح کا سلوک کیا جاتا ہے، مختلف تعلیمی اداروں میں کشمیری طالبعلم کس قدر خوف میں مبتلا ہوتے ہیں، یہ ایک الگ کہانی ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام رہنے والے بھی اپنے آپ کو کشمیری گر دانتے ہیں، مختلف ممالک میں اس نام سے اسکالرشپ اور مراعات وغیرہ بھی حاصل کرتے ہیں، مگر آزمائشوں کے وقت کنی کاٹتے ہیں۔
دوسری طرف وادی کشمیر کے لیڈران بھی ان سے دوردور ہی رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ حریت کانفرنس کی اکائیوں میں بھی پاکستان کی زیر انتظام حکومت نہ اس خطے کی کسی سیاسی پارٹی کو کبھی نمائندگی مل سکی۔
دونوں اطراف کی مین اسٹریم پارٹیوں نے 1947 کے بعد دوسرے خطے میں اپنی سیاسی سرگرمیاں بند کرکے یونٹ ہی معطل کیے۔ نیشنل کانفرنس نے مظفر آباد اور میر پور سے بستر گو ل کردیا، تو مسلم کانفرنس نے وادی کشمیر اور جموں کو خیر باد کر دیا۔
ایک بڑا سوال ہے کہ جس طرح ہندوستان کے مختلف خطوں میں بھانت بھانت کے لوگوں کے آباد ہونے کے باوجود کامیابی کے ساتھ ایک آئیڈیا آف انڈیا کو وضع کیا گیا ہے،غیر منقسم جموں و کشمیر کے لیڈران یا عوام ایک آئیڈیا آف کشمیر کیوں وضع نہیں کرپا تے ہی؟اس طرح کے آئیڈیا میں ہر خطے اور ہر نسل کے مفادات کا خیال رکھا جا سکتا تھا۔یا کم سے کم مشترکہ پروگرام ہی کو تشکیل دیا جاسکتا تھا۔مگر کسی بھاری بھرکم لیڈر کی عدم موجودگی میں یہ شاید ہی کبھی ممکن ہوسکے۔
خیر دانش ارشاد کی یہ کتاب کشمیر کے دونوں خطوں خاص طور پر پاکستانی زیر انتظام علاقہ کی حرکیات جاننے کے لیے ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔
امید ہے کہ اگلے ایڈیشن میں معروضیت کے ساتھ دیگر ایشو ز پر بھی سیر حاصل بحث کی جائے گی۔ کسی نظریہ کے تعلق سے رومانیت رکھنا بر ی بات نہیں، مگر اس کو فنتاسی بنالینا محقق کے لیے سم قاتل ہوتا ہے۔