بہار: کیا نتیش کمار کی حکومت میں ’جنگل راج‘ کی واپسی ہو گئی ہے؟

پچھلے کچھ وقتوں میں بہار میں خواتین اور بچیوں کے ساتھ ریپ اور قتل کے سفاکانہ واقعات سامنے آئی ہیں۔ اس کے علاوہ ریاست میں لوٹ اور اغوا کی واردات بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔

پچھلے کچھ وقتوں  میں بہار میں خواتین اور بچیوں کے ساتھ ریپ  اور قتل کے سفاکانہ واقعات سامنے آئی ہیں۔ اس کے علاوہ ریاست میں لوٹ اور اغوا کی واردات بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔

نتیش کمار(فوٹو : پی ٹی آئی)

نتیش کمار(فوٹو : پی ٹی آئی)

‘ آپ کے جیسا بکواس ہم نہیں کر سکتے ہیں۔ آپ جو بولیے۔ مجرموں کی بہار آ گئی ہے؟ بہار میں کیا ہوتا تھا آپ کو نہیں پتہ ہے؟ چالیس-چالیس، پچاس-پچاس لوگوں کا قتل عام ہوتا تھا۔ رات میں کوئی روڈ پر چل نہیں سکتا تھا۔ ایک واقعہ ہو گیا۔ بزدلوں نے گولی مار دی۔ گولی کوئی بھی مار سکتا ہے۔ ڈی جی پی اکیلے جا رہے ہیں، ان کو بھی کوئی گولی مار سکتا ہے۔ یہ مجرموں کی بہار ہو گئی؟ ‘

دو ہفتے پہلے بہار میں نظم و نسق  کے حالات کو لےکر ایک صحافی کے سوال پر غصہ سے تمتمائے بہار کے ڈی جی پی گپتیشور پانڈے نے یہ بات کہی تھی۔ڈی جی پی چھپرا میں مجرموں کی گولیوں کے شکار ہوئے پولیس اہلکار کے گھر ان کے اہل خانہ کو تسلی دینے پہنچے تھے۔ پولیس ملازم کے قتل سے کچھ ہی دن پہلے چھپرا میں ہی ایک بچی کو اغوا کرکے تین لوگوں نے اس سے ریپ  کیا تھا اور اس کی شرمگاہ میں  راڈ  ڈال دیا تھا۔واردات کو انجام دینے کے بعد اس کو سڑک کنارے پھینک دیا تھا۔ خون سے تربترلڑکی کسی طرح اپنے گھر پہنچی اور بےہوش ہو گئی۔ اس کے رشتہ داروں نے اس کو ہاسپٹل میں داخل  کرایا، جہاں حالت میں کچھ اصلاح ہونے کے بعد اس نے آپ بیتی سنائی۔

اس  سے پہلے چار اگست کو مغربی چمپارن کے رام نگر بلاک  کے ایک گاؤں میں کھیت میں قضائےحاجت  کے لئے گئی 16 سال کی لڑکی  کا قتل کرکے اس کے جسم پر تیزاب ڈال دیا گیا تھا۔ یہی نہیں، اس کے کپڑے بھی پھاڑ دئے گئے تھے اور شرمگاہ  کو بلیڈ سے نقصان پہنچایا گیا تھا۔لڑکی کے گھر میں بیت الخلا نہیں تھا، جس کی وجہ سے اس کو کھیت میں جانا پڑتا تھا۔ اس نے پانچویں تک ہی پڑھائی کی تھی۔ اس کے بعد کی پڑھائی کے لئے اس کو گھر سے دو کلومیٹر دور بازار میں جانا پڑتا۔ کسی انہونی کے خدشات کے مدنظر اس کی پڑھائی بند کروا دی گئی تھی۔

لڑکی کے 40 سالہ والد نے کہا، ‘ دن وقت خراب ہے۔ اسکول پڑھنے جاتی اور کچھ ہو جاتا، تو کیا کرتے! اسی ڈر سے ہم نے اس کی پڑھائی بند کروا دی تھی۔ وہ زیادہ تر وقت گھر میں ہی رہا کرتی تھی۔ ہم لوگ زیادہ تر وقت باہر نہیں رہنے دیتے تھے۔ ‘سشاسن  بابو (وزیراعلیٰ نتیش کمار) کی اس حکومت میں بھی ایک والد کا یہ ڈر کہ بیٹی جوان ہو رہی ہے، اس لئے اس کو گھر میں بند رکھنا ہے، بہار کے نظم و نسق پر سوال کھڑا کرتا ہے۔متاثرہ  کے اہل خانہ  کو شک ہے کہ قتل سے پہلے اس کے ساتھ ریپ  کیا گیا ہوگا۔ حالانکہ رام نگر کے ایس ڈی پی او ارجن لال نے ریپ  کے واقعہ سے انکار کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لڑکی کا قتل ہوا ہے اور دونوں گرفتار ملزمین نے اپنا گناہ قبول‌کر لیا ہے۔ انہوں نے پوسٹ مارٹم رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ لڑکی کا ریپ  نہیں ہوا ہے۔اس واردات کے محض تین دن بعد ہی کٹیہار ضلع کے امداباد تھانہ حلقے کے دیارا میں دو نابالغ بہنوں سے گینگ ریپ  کیا گیا اور پھر ان کا بےرحمی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ پولیس کے مطابق، ان کے جسم پر زخم کے نشان تھے اور قتل کے بعد ان کے جسم پر تیزاب بھی ڈالا گیا تھا۔ یہی نہیں شرمگاہ  پر بھی زخم کے نشان پائے گئے تھے۔

یوم آزادی سے ایک دن پہلے گیا شہر میں ایک بچی سے گینگ ریپ  کیا گیا اور جب وہ انصاف مانگنے کے لئے پنچایت کے سامنے پہنچی تو انصاف دلانے کی جگہ اس کا سر منڈواکر گاؤں میں گھمایا گیا۔دلچسپ بات یہ رہی کہ اس واقعہ کو دو ہفتے سے زیادہ وقت بیت گیا لیکن پولیس کو اس کی بھنک تک نہیں لگی۔ بعد میں جب یہ خبر میڈیا میں آگ کی طرح پھیلی تو پولیس نیند سے جاگی اور آدھے درجن سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا۔پچھلے مہینے کے آخری ہفتے میں سپول میں ایک 11 سال کی بچی سے ریپ  کیا گیا اور جب معاملہ پولیس تک پہنچا تو پولیس نے قصوروار پر کارروائی کرنے کے بجائے پنچایت میں معاملہ سلجھا لینے کی صلاح دی۔

خبر کے مطابق، جب بچی پنچوں کے پاس گئی تو پنچوں نے الزام تراشی پر پانچ لاکھ روپے کا جرمانہ لگانے کے علاوہ 11 چپل مارنے کی سزا دےکر معاملہ رفع دفعہ کر دیا۔پچھلے ایک مہینے میں ہوئے ریپ  کے واقعات میں سے یہ کچھ واردات ہیں، جن کا ذکر کیا گیا ہے۔ بہار کا وومین  کمیشن بھی یہ قبول  کرتا ہے کہ ریاست میں حالیہ دنوں میں خواتین کے خلاف جرائم بڑھے ہیں۔کمیشن کی صدر دل منی مشرا نے بتایا،’یہ بات صحیح ہے کہ ریاست میں اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور لگ رہا ہے کہ مجرموں کے ا ندر کا ڈر ختم ہو گیا ہے لیکن ہم لوگ ان واقعات پر فوراً نوٹس بھی لے رہے ہیں۔ ‘

ریپ  کے واقعات کے علاوہ قتل، لوٹ اور اغوا کی واردات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ 31 اگست اور ایک ستمبر کی بات کریں تو پٹنہ، سمستی پور، گوپال گنج، سہرسہ، مدھوبنی، سیوان، موتیہاری، گیا، آرا اور بھاگلپور میں قتل کی 10 وارداتیں  ہو چکی ہیں۔حال کے دنوں میں کئی قتل پھروتی کو لےکر ہوئے ہیں۔ لنچنگ کی واردات کم وبیش ہر روز ہو ہی رہی ہے۔ اتنی واردات ہو جانے کے بعد بھی ڈی جی پی کے پرانے دور (لالو پرساد یادو کی حکومت کا دور جب کہا جاتا تھا کہ بہار میں جنگل راج ہے) کو یاد کرنے کی صلاح دینا پولیس-انتظامیہ کی لاچاری کو اجاگر کرتا ہے۔نظم و نسق  کے کیا حالات ہیں اور پولیس کیسے کام کر رہی ہے، اس کو سمجھنے کے لئے کچھ دن پہلے ہی ایک کارروائی کو بھی یاد کر لینا ضروری ہے۔

پچھلے مہینے ریاست کے 500 سے زیادہ پولیس ملازمین‎ کو تھانے کی ڈیوٹی سے اس لئے ہٹا دیا گیا، کیونکہ وہ لوگ اپنی ڈیوٹی صحیح  سے نہیں نبھا رہے تھے۔ پولیس ذرائع کے مطابق، شراب بندی قانون کو سختی سے نافذ نہیں کرنے، شعبہ جاتی ذمہ داری سے کنی کاٹنے، خواتین سے بد سلوکی کرنے، بد عنوانی وغیرہ کے الزامات کی وجہ سے  ان پر یہ کارروائی ہوئی۔اس پر طرہ یہ کہ ڈی جی پی نے ایک ستمبر کو ایک پروگرام میں بہار پولیس کو برٹن اور کناڈا کی پولیس سے بھی بہتر ہونے کا خطاب دے دیا۔بہار پولیس کا انٹلی جنس سسٹم اتنا کمزور ہے کہ کچھ دن پہلے ریاست کے ڈی جی پی گپتیشور پانڈے کو اپنا وہاٹس ایپ نمبر عام کر کے عام لوگوں سے اپیل کرنی پڑی تھی کہ وہ مجرمانہ سرگرمیوں کی جانکاری ان کو دیں۔

اسٹیٹ کرائم ریکارڈ بیورو (ایس سی آر بی) کے اعداد و شمار بھی بہار میں کمزور ہوتت سسٹم  کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ ایس سی آر بی کے اعداد و شمار کی مانیں، تو اس سال جنوری سے مئی کے درمیان پھروتی کے لئے اغوا کرنے کے 14 واقعات ہوئے ہیں۔ وہیں، قتل کے 1277 اورریپ  کے 605 واقعات ہو چکے ہیں۔اس کے علاوہ سال 2018 میں قتل کے 2933، ریپ  کے 1475 اور اغوا کے 10310 واقعات ہوئے تھے۔ وہیں پھروتی کے لئے اغوا کرنے کی 46 واقعات درج ہوئے تھے۔غور طلب ہے کہ سال 2005 میں جب اسمبلی انتخاب ہوئے تھے تو نظم ونسق ایک اہم مدعا تھا۔ اسی مدعے کے بل پر بہار میں این ڈی اے کی حکومت بنی تھی۔نتیش کمار کی حکومت بننے پر نظم و نسق میں اصلاح بھی ہوئی اور اسی اصلاح پر نتیش کمار نے ووٹ مانگا اور لگاتار تیسری بار بہار میں حکومت بنائی، لیکن حالیہ دنوں  میں بہار میں منظم جرائم کے ساتھ ہی ریپ  اور لنچنگ جیسے واقعات بڑھے ہیں۔

صوبے میں نظم ونسق کو لےکر قبل  میں جے ڈی دیو کی مددگار پارٹی بی جے پی بھی سوال اٹھا چکی ہے۔ اسی سال جون میں بی جے پی رکن پارلیامان رما دیوی نے نتیش کمار کو تنقید کا  نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا، ‘ وہ (نتیش کمار)نہیں جانتے ہیں کہ عام لوگوں کو کیسی حفاظت دی جائے۔ میں اس بات سے متفق ہوں کہ ہر کسی کو تحفظ  فراہم نہیں کیا جا سکتا ہے، لیکن ریاست میں سب سے زیادہ تنازعہ زمین کے مدعے پر ہے۔ حکومت کے تحت کام کرنے والے تمام افسروں کو چاہیے کہ فوری کارروائی کرکے ان مدعوں کو سلجھائیں تاکہ لوگ امن سے رہ سکیں۔ ‘اس مدعے پر حزب مخالف پارٹیاں بھی حملہ آور ہیں۔ راجد کے سینئر رہنما شیوانند تیواری کہتے ہیں،’ڈی جی پی جن قتل عام کی بات کر رہے ہیں، وہ سماجی اقتدار کے جدو جہد کا نتیجہ تھا۔ ابھی جو ہو رہا ہے، وہ عام جرم ہے۔ چھوٹے-چھوٹے مدعے پر قتل ہو رہے ہیں۔ مجرموں میں پولیس کا ڈر نہیں رہ گیا ہے۔ خاکی وردی کا رتبہ ختم ہو گیا ہے۔ ‘

ڈی جی پی کے ذریعے پہلے کی مجرمانہ واردات کی یاد دلانے کو لےکر تیواری کہتے ہیں، ‘ ٹھیک بات ہے کہ پہلے جرم ہوتے تھے، لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ ابھی کے جرم کو آپ جائز ٹھہرائیں۔ آپ کی حکومت پچھلی حکومت کی فوٹوکاپی تھوڑے ہی ہے۔ ‘کسی ریاست میں مجرمانہ واقعات جب بڑھتے ہیں تو وہاں کا کاروباری طبقہ بھی پریشانی  میں آ جاتا ہے اور ان کو اپنی اور اپنے دھندے کی فکر ستانے لگتی ہے۔بہار میں جرم کے بڑھتے واقعات نے کاروباریوں کو بھی پریشانی  میں ڈال دیا ہے۔ بہار چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے صدر پی کے اگروال کہتے ہیں،’میڈیا میں مجرمانہ واقعات کی خبریں دیکھ‌کر کاروباری طبقہ پریشان ہے۔ ان کو ڈر ستانے لگا ہے اور وہ یہ ڈر ظاہر کرنے لگے ہیں۔ ‘

کیا انہوں نے اپنی تشویش  سے وزیراعلیٰ نتیش کمار کو واقف کرایا ہے، اس سوال پر انہوں نے کہا، ‘یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ وزیراعلیٰ کو پتہ نہیں ہے۔ ‘

(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)