بہار: کورونا انفیکشن کے بڑھتے معاملوں کے بیچ بدحال کورنٹائن مراکز میں رہنے کو مجبور مہاجر مزدور

بہار کے مختلف اضلاع کے کورنٹائن مراکز میں رہ رہے مہاجرمزدور لگاتار کھانے پینے اورصفائی سے متعلق بد انتظامیوں کی شکایت کر رہے ہیں۔ کچھ مراکز میں رہنے والے مزدوروں کا یہ بھی الزام ہے کہ ان کی شکایت کے بعد پولیس نے ان پر لاٹھی چارج کیا ہے۔

بہار کے مختلف اضلاع کے کورنٹائن مراکز میں رہ رہے مہاجرمزدور لگاتار کھانے پینے اورصفائی  سے متعلق بد انتظامیوں کی شکایت کر رہے ہیں۔ کچھ مراکز میں رہنے والے مزدوروں کا یہ بھی الزام ہے کہ ان کی  شکایت کے بعد پولیس نے ان پر لاٹھی چارج کیا ہے۔

بیگوسرائے ضلع کے ایک اسکول میں بنا کورنٹائن سینٹر۔

بیگوسرائے ضلع کے ایک اسکول میں بنا کورنٹائن سینٹر۔

ملک کے مختلف حصوں میں کو رونا وائرس کے بڑھتے انفیکشن کے بیچ بڑی تعداد میں لوگوں کو کورنٹائن سینٹروں میں رکھا گیا ہے۔ اسی بیچ بہار میں کئی کورنٹائن سینٹر پر خاطر خواہ سہولیات نہ ملنے کی وجہ سے لگاتار ہنگامے کی تصویریں سامنے آ رہی ہیں۔کہیں پر کھانے کامعیار ٹھیک نہیں ہے، کہیں ٹوائلٹ کا انتظام  نہیں ہے، تو کہیں پینے کے پانی کو لےکر ان سینٹروں میں رہ رہے لوگ لگاتار شکایت کر رہے ہیں۔

کئی ایسے بھی سینٹر ہیں، جہاں لوگوں نے ان بد انتظامیوں کی شکایت کرنے پر پولیس کے ذریعے لاٹھی چارج کا الزام بھی لگایا ہے۔ ان بد انتظامیوں کی وجہ سے یہاں رہ رہے لوگ ان سینٹروں کو جیل کی طرح بتانے لگے ہیں۔وزیر اعلیٰ نتیش کمار اضلاع کے بلاک سطھ کے کورنٹائن سینٹروں میں ہی زیادہ سے زیادہ لوگوں کو رکھنے اور ٹیسٹ کئے جانے پر زور دے رہے ہیں، لیکن کئی اضلاع کے سینٹروں میں لوگوں کی بنیادی سہولیات کو لےکر ناراضگی ہے۔ ساتھ ہی یہاں رہ رہے لوگوں کی ٹیسٹنگ نہ کے برابر ہو رہی ہے۔

کو رونا وائرس کے خطرے کو لےکر سرکار سینٹائزیشن پر سب سے زیادہ دھیان دینے کو کہہ رہی ہے لیکن کئی سارے کورنٹائن سینٹروں پر صاف صفائی کی حالت بےحد خراب ہے۔اس کی مثال روہتاس ضلع کے مڈل اسکول ، خالصہ پور میں بنا کورنٹائن سینٹر ہے، جہاں رہنے کے ساتھ ٹوائلٹ کا انتظام بدترہے۔ یہاں کل 13 کمروں میں باہر سے آئے تقریباً 150 لوگ رہ رہے ہیں۔

ضلع کے دینارا بلاک کے رہنے والے یوگیش گری احمدآباد سے لوٹے ہیں اور 5 دن سے اسی کورنٹائن سینٹر میں ہیں۔گری کہتے ہیں،‘یہاں جس طریقے سے بھیڑیادھسان(صلاحیت سے زیادہ)ہے، بنا سوشل ڈسٹنسنگ کے رکھا جا رہا ہے، اس سے اچھا ہوتا کہ سرکار سب کو گاؤں کے کورنٹائن سینٹر میں بھیج دیتی۔’

وہ آگے بتاتے ہیں، ‘کمروں میں زمین پر بستر دیا گیا ہے، نہ کبھی ٹوائلٹ میں صفائی کی جاتی ہے نہ کمرے میں۔ٹوائلٹ میں صرف پانی ڈالا جاتا ہے، جس کی وجہ سے بدبو آتی رہتی ہے۔ آس پاس کہیں بھی کچھ سینٹائز کرنے جیساکوئی انتظام  نہیں ہے۔’

روہتاس (بائیں) اور چھپرہ  کے کورنٹائن سینٹر کے ٹوائلٹ کا حال۔

روہتاس (بائیں) اور چھپرہ  کے کورنٹائن سینٹر کے ٹوائلٹ کا حال۔

بیگوسرائے ضلع میں بھی کئی کورنٹائن سینٹر پر باہر سے آنے والے مزدور صفائی کے علاوہ بنیادی سہولیات نہ ملنے سے پریشان ہیں۔ضلع کے مڈل اسکول پرہارا میں بنائے گئے کورنٹائن سینٹر میں 5 دنوں سے رہ رہے راہل شاہ بتاتے ہیں، ‘صفائی کے نام پر جھاڑو بھی نہیں لگایا جاتا ہے۔ اس سینٹر کی حالت یہ ہے کہ مئی کی تپتی گرمی میں یہاں پنکھا تک نہیں ہے۔ 4 کمروں کے اس کورنٹائن سینٹر میں بھی ایک کمرے میں 10-12 لوگ رہ رہے ہیں، جو گرمی میں تڑپنے کو مجبور ہیں۔’

راہل آگے بتاتے ہیں، ‘یہاں پنکھا بھی نہیں لگا ہوا ہے، کل لائٹ لگایا ہے۔ بنچ کو ملاکر بیڈ بنایا گیا ہے۔ یہاں تین ٹوائلٹ ہیں جس میں دو اسٹاف کے لیے ہے۔ یہاں رہ رہے 30 لوگ ایک ہی ٹوائلٹ  کا استعمال کرتے ہیں۔ روز صاف صفائی بھی نہیں ہوتی ہے، یہاں تک کہ کمرے میں بھی کوئی صفائی نہیں کی جا رہی ہے۔’

ایسا ہی حال چھپرہ  ضلع کے ایس ڈی ایس کالج جلال پور میں بنے کورنٹائن سینٹر کا ہے۔ اس سینٹر میں گجرات سے لوٹے سورج بھی رہ رہے ہیں۔وہ بتاتے ہیں،‘یہاں کوئی صفائی نہیں ہے، اس کے لیے کچھ کیا بھی نہیں جاتا ہے۔ یہاں فی الحال تقریباً 110-120 لوگ رہ رہے ہیں۔ 4 کمروں کے علاوہ ایک ہال بھی ہے۔ ہال میں 40-50 لوگ رہتے ہیں لیکن اتنے لوگوں کے حساب سے اتنی گرمی میں صرف 7 پنکھے ہیں۔

باقی جگہوں کی صفائی اور سینٹائزیشن کے بارے میں وہ بتاتے ہیں،‘ٹوائلٹ میں گھستے ہی بہت تیز بدبو آتی ہے، سب لوگ ایک ہی ٹوائلٹ استعمال کر رہے ہیں۔ جہاں سوتے ہیں، وہاں خود سے جھاڑو لگا لیتے ہیں، لیکن کوئی بھی کیمیکل وغیرہ نہیں چھڑکا جا رہا ہے۔’اس کے علاوہ سورج نے بتایا کہ کھانے میں دونوں ٹائم چاول ہی مل رہا ہے۔ پوچھنے پر بتایا جاتا ہے کہ روٹی نہیں مل سکتی ہے۔

صفائی  کے مناسب انتظامات کو لےکر سیوان ضلع کے سینٹر کا حال بھی کچھ الگ نہیں ہے۔ ضلع کے بڑہریا بلاک میں جی ایم ہائی اسکول  میں بنے کورنٹائن سینٹر میں 250 سے زیادہ لوگوں کو رکھا گیا ہے۔بالیندر کمار رام تقریباً ایک ہفتہ  سے یہاں کورنٹائن میں ہیں۔ وہ کہتے ہیں،‘2 دن پہلےوقت پر کھانا نہیں ملنے کی وجہ سے یہاں ہنگامہ ہوا تھا۔ اس کے بعد یہاں صاف صفائی بھی لگاتار ہو رہی ہے۔

وہ بتاتے ہیں، ‘یہاں ایک کمرے میں 7-8 لوگ رہتے ہیں۔ ابھی تک کوئی ٹیسٹ نہیں کیا گیا ہے۔ صرف کبھی کبھی بخار چیک کیا جاتا ہے۔ ہنگامہ ہونے سے پہلے یہاں نہ صفائی ہو رہی تھی اور نہ ہی کھانا ٹائم پر مل رہا تھا۔’بیگوسرائے کے بکھری بلاک کے مڈل اسکول  میں بنے کورنٹائن سینٹر میں فی الحال تقریباً 150 لوگ کورنٹائن میں ہیں۔ سبھی باہر سے آئے ہوئے مزدور ہیں۔

یہاں ایک کمرے میں 10-12 لوگ رہے ہیں، یہاں رہ رہے لوگوں کے ذریعےبھیجی تصویروں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ سوشل ڈسٹنسنگ کی بات ان کے لیے بے معنی  ہے۔ یہاں بھی بستر کے نام پر اسکول کے ہی دو بنچ کو ملا دیا گیا ہے۔بکھری کے کورنٹائن سینٹر کے لوگ بھی بتاتے ہیں کہ یہاں بھی جھاڑو لگانے کے علاوہ سینٹائزیشن کے نام پر کچھ نہیں ہو رہا ہے، جھاڑو بھی کئی بار کہنے پر لگایا جا رہا ہے۔ پینے کے لیے چاپاکل (ہاتھ سے چلانے والا نل) کا پانی ہی ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ چاپاکل کے پانی سے بیماری کا خطرہ بھی ہے۔

راجستھان کے ناگور ضلع سے لوٹے دیوک سنگھ 12 دن اس سینٹر پر بتا چکے ہیں۔ بکھری بلاک کے رہنے والے دیوک کہتے ہیں،‘کھانے میں دونوں ٹائم چاول دیا جاتا ہے۔ مجھے بواسیر کی بیماری ہے، ڈاکٹر نے چاول اور مصالحہ دار سبزی کھانے سے منع کیا ہے پر کہنے کے باوجود نہ کھانا بدلا جا رہا ہے اور نہ ہی دوا دی جا رہی ہے۔ حالت ایسی ہے کہ لگتا ہے جیل میں بند کر دیے گئے ہیں۔’

سیوان ضلع کا کورنٹائن سینٹر۔

سیوان ضلع کا کورنٹائن سینٹر۔

حاجی پور میں کپڑے کی دکان پر کام کرنے والے گلشن کمار بھی 8 دنوں سے بیگوسرائے ضلع کے اسی کورنٹائن سینٹر پر ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ‘دو بنچ کو ملاکر بیڈ بنایا گیا ہے، جس سے سونے میں دقت ہوتی ہے۔ ہم لوگ کیا کر سکتے ہیں۔ یہاں اگر شکایت کرنے جا ئیں گے تو یہ لوگ لاٹھی چارج کریں گے۔’

وہ بھی دونوں ٹائم کھانے میں چاول ملنے سے پریشان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ رات میں چاول کھانے سے طبیعت بھی خراب ہو جا رہی ہے۔ ان کا یہ بھی الزام ہے کہ رات کے کھانے میں روٹی کی مانگ کرنے پر دو تین پہلے ان پر لاٹھی چارج کیا گیا۔گلشن کہتے ہیں،‘ہم لوگوں نے یہاں کے اسٹاف سے شکایت کی تو انہوں نے پولیس کو بلا لیا۔ پولیس نے آتے ہی لاٹھی چلانا شروع کر دیا، ایک لڑکے کو اتنا مارا گیا کہ اس کا پیر فریکچر ہو گیا۔’

اس لاٹھی چارج کو لےکر جب بکھری تھانے کے ایس ایچ او سے بات کی، تو انہوں نے کچھ بھی بتانے سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا، ‘فون پر یہ سب بات نہیں ہو سکتی ہے۔ آپ ہمارے سینئر سے بات کر لیجیے۔’اس کے بعد جب بکھری ایس ڈی پی او میں بات کرنے کی کوشش کی گئی، تب وہاں کے ایک افسر کچھ بتانے کے بجائے سوال کرنے لگے کہ کس نے بتایا کہ لاٹھی چارج ہوا، ان کا نام بتائیے۔ اس کے بعد انہوں نے صاف کہا کہ آپ اس کے بارے میں کچھ نہیں جان سکتے ہیں۔

اس کے بعد بیگوسرائے ایس پی اوکاش کمار سے بات کرنے کی کوشش کی گئی، ان سے بات نہیں ہو سکی لیکن میسیج کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ کہیں کوئی لاٹھی چارج نہیں ہوا ہے۔لاٹھی چارج کا ایک واقعہ تقریباً ہفتہ بھر پہلے بانکا ضلع کے شمبھوگنج بلاک میں دوارکا امرت اشرفی ہائی اسکول  میں بنے کورنٹائن سینٹر میں بھی سامنے آیا تھا۔ لوگوں نے الزام لگایا تھا کہ کھانے اور دوسری چیزوں کی شکایت کرنے پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا، جس میں ایک شخص  کا ہاتھ بھی ٹوٹ گیا۔

حالانکہ یہاں بھی پولیس نے لاٹھی چارج کے الزامات سے انکار کر دیا اور بتایا تھا کہ بارش کی وجہ سے پھسلنے سے اس کا ہاتھ ٹوٹ گیا۔

اسپیشل ٹرین سے آئے لوگوں کو نہیں کیا جا رہا کورنٹائن

ریاست میں باہر سے مہاجر مزدور اور دوسرے محنت کش  لگاتار واپس آ رہے ہیں، جنہیں کورنٹائن سینٹر میں پہنچایا جا رہا ہے اور لگاتار تعداد بڑھنے سے ان سبھی کے لیے انتظامات کو بنائے  رکھنا ریاستی حکومت کے لیے چیلنج  بنتا جا رہا ہے۔13 مئی کو وزیر اعلیٰ دفتر نے جانکاری دی کہ اب تک الگ الگ ریاستوں  میں پھنسے 1.37 لاکھ مزدور اور دوسرے 115 ٹرینوں کے ذریعے واپس آ چکے ہیں۔ وہیں 267 ٹرینوں سے 4.27 لاکھ اور لوگوں کو واپس لایا جائےگا۔ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ آگے اور لوگوں کو لانے کا منصوبہ بنے گا۔

حالانکہ 12 مئی سے شروع ہوئی اسپیشل ٹرین(راجدھانی)سے واپس آ رہے لوگوں کو ریاستی حکومت کورنٹائن نہیں کر رہی ہے۔ حال یہ ہے کہ ہر روز دوسری ریاستوں سے ہزاروں لوگ واپس آ رہے ہیں۔اس بارے میں سوال کرنے پر محکمہ اطلاعات کے سکریٹری  انوپم کمار کا کہنا ہے، ‘ان کوضابطوں میں ملی چھوٹ کے تحت لایا جا رہا ہے۔ اس میں اکثر لوگ وہ ہیں، جو کسی نہ کسی کام کی وجہ سے آ رہے ہیں۔ یہ لوگ پہلے سے اسکرین کرکے بھیجے جا رہے ہیں، اس لیے انہیں کورنٹائن نہیں کیا جا رہا ہے۔’

حالانکہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کوٹا یا دوسری  کسی ریاست سے آ رہے طلبا کو سرکار ہوم کورنٹائن کر رہی ہے۔ وہیں دوسرے ملکوں سے آنے والے لوگوں کو ہوٹل میں یا دوسری جگہ پیڈ کورنٹائن کیا جائےگا یعنی انہیں کورنٹائن ہونے کے لیے ادائیگی  کرنی ہوگی۔اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے بھی کہا ہے کہ سات دنوں کے اندر دوسری  ریاستوں  سے بہار آنے کے خواہش مند لوگوں کو واپس لانے کے لیے دوسری ریاستوں کے ساتھ تال میل قائم  کرکے فوری حکومت کارروائی کرےگی۔ ساتھ ہی نزدیک کی ریاستوں سے جو مہاجر مزدور بہار آنا چاہتے ہیں انہیں بس سے لانے کا بھی انتظام  جلد ہوگا۔’

شرمک اسپیشل ٹرین سے داناپور پہنچے بہار کے مزدور۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

شرمک اسپیشل ٹرین سے داناپور پہنچے بہار کے مزدور۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

سکریٹری انوپم بتاتے ہیں کہ بلاک کی سطح پر کورنٹائن سینٹر کی تعداد 4163 ہو گئی ہے اور ان میں ابھی تقریباً 1.90 لاکھ لوگ رہ رہے ہیں۔وہیں ڈیزاسٹرمینجمنٹ کے چیف سکریٹری پرتییہ امرت نے حال ہی میں بتایا ہے کہ ریاست میں 172 راحت کیمپ  چلائے جا رہے ہیں۔ ان کے مطابق بلاک کی سطح پر کوارنٹائن سینٹر پر 3.75 لاکھ جبکہ پنچایت کی سطح پر کوارنٹائن سینٹر پر 2.42 لاکھ لوگوں کو کورنٹائن کرنے کا انتظام  کر لیا گیا ہے۔

ریاست میں اب تیزی سے بڑھ رہے ہیں انفیکشن کے معاملے

ریاست میں کو رونا وائرس کے معاملے لگاتار بڑھ رہے ہیں۔ ایسے میں ٹیسٹ کی ضرورت بہت بڑھ گئی ہے، لیکن سینٹروں پر رہ رہے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کی کوئی جانچ نہیں ہوئی ہے۔بیگوسرائے کے بکھری بلاک کے کورنٹائن سینٹر میں رہ رہے کئی لوگوں نے بتایا ہے کہ اب تک ان کا کوئی ٹیسٹ بھی نہیں ہوا ہے، صرف بخار چیک کیا جا رہا ہے۔ جبکہ یہ سبھی لوگ باہر سے آئے ہیں۔

بہار میں 14 مئی کی صبح 10 بجے تک 41915 لوگوں کی جانچ ہوئی تھی۔ لاکھوں لوگوں کے باہر آنے کے باوجود جانچ کی رفتار کافی کم ہے۔اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ باہر سے آ رہے مہاجر مزدوروں اور دوسروں  میں ابھی تک 277 لوگ متاثر پائے گئے ہیں۔ یہ تعداد بھی لگاتار بڑھتی جا رہی ہے۔ریاست میں 14 مئی کی صبح تک انفیکشن کے 953 معاملے سامنے آ چکے تھے اور 7 لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ ریاستی حکومت کے مطابق بہار میں ابھی کو رونا کے 546 متحرک معاملے ہیں، وہیں اس وائرس سے اب تک 400 لوگ ٹھیک بھی ہو چکے ہیں۔

(مضمون نگارآزاد صحافی  ہیں۔)