سیتامڑھی ضلع میں ایک کورنٹائن سینٹر میں بدنظمی کے لےکر ہوئے مہاجر مزدوروں کے ہنگامہ کی خبر کرنے والے صحافی پر انتظامیہ کی جانب سے معاملہ درج کرواتے ہوئے کہا گیا ہے کہ صحافی نے مزدوروں کو اکسایا تھا۔ بیگوسرائے میں بھی ایک مقامی صحافی کے خلاف ایف آئی آر ہوئی ہے۔
ملک بھر میں حال میں کورنٹائن سینٹر اور مہاجر مزدوروں کی حالت پر خبر کرنے کو لےکر کئی صحافیوں کے خلاف مقدمے درج ہوئے ہیں۔ مقدموں کا یہ سلسلہ اب بہار پہنچ چکا ہے۔بہار کے سیتامڑھی ضلع میں دینک بھاسکر اخبار کے مقامی صحافی گلشن کمار مٹھو پر ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ صحافی کا الزام ہے کہ کورنٹائن سینٹر کی بدنظمی پر اخبار میں رپورٹ لکھنے کی وجہ سے ان کے خلاف یہ کارروائی کی گئی ہے۔
12 مئی کو دینک بھاسکر کے سیتامڑھی ایڈیشن میں ریگا بلاک کے بلاکی پور گاؤں واقع ہائی اسکول میں بنے کورنٹائن سینٹر میں ہنگامہ کی خبر چھپی تھی، جس کو گلشن کمار نے لکھا تھا۔خبر میں مزدوروں کے حوالے سے خراب کھانا ملنے کی شکایت کی گئی تھی۔ خبر کے مطابق، ‘مزدوروں نے بتایا تھا کہ 8 دنوں سے سوکھا چنا کھانا پڑ رہا ہے۔ چاول بھی ٹھیک سے پکا نہیں رہتا ہے۔ یہاں رہ رہے 200 مزدوروں کے بیچ صرف 6 ٹوائلٹ دستیاب ہیں جو کہ گندے رہتے ہیں۔’
انہی سب شکایتوں کو لےکر سینٹر میں رہ رہی خواتین اور دوسرے لوگوں نے انتظامیہ کے خلاف 11 مئی کو ہنگامہ کیا اور مانگ کی تھی کہ اگر انتظامات بہتر نہیں ہو سکتے، تو انہیں ہوم کورنٹائن کر دیا جائے۔
اس کے بعد 12 مئی کو ہی ریگا بلاک کے سی او رام ارانو نے اس سینٹر پر ہوئے ہنگامہ کےبارے میں ریگا تھانے میں ایک ایف آئی آر درج کرنے کو لےکر درخواست دی ، جس میں کہا گیا تھا کہ کورنٹائن سینٹر پر نظم ونسق کے لیے مسئلہ پیدا کیا گیا۔
ایف آئی آر کے مطابق، ‘کورنٹائن سینٹر پر موجود پولیس حکام سے پوچھ تاچھ میں پتہ چلا کہ صحافی مٹھو اور دو تین دوسرے لوگوں نے سینٹر میں رہ رہے مہاجروں کو اکسا کر نعرےبازی کروائی۔ سارامعاملہ ان کے اکساوے پر ہی ہوا ہے، اس لیےصحافی مٹھو اور دوسرے نامعلوم لوگوں کے خلاف متعلقہ دفعات کے تحت کیس درج کیا جائے۔’
دو دن بعد 14 مئی کو گلشن کو تھانے سے پوچھ تاچھ کے لیے نوٹس بھیجا گیا، جس میں کہا گیا کہ ان کے آئی پی سی کی دفعہ 147 (غیر قانونی طور پر جمع ہونے)، 188(وبا کے وقت سرکاری احکامات کی خلاف ورزی)، 269 اور 270 (انفیکشن پھیلانے کے ملزم)کے تحت کیس درج کیا گیا ہے۔
حالانکہ تھانے کے اہلکار اکھیلیش کمار کے ذریعےدستضط شدہ نوٹس میں صحافی کو غلط تاریخ(15-04-2020) میں بلایا گیا، جس کی وجہ سے گلشن پوچھ تاچھ کے لیے نہیں پہنچے۔گلشن بتاتے ہیں،‘تھانے سے ایک پولیس والے نے فون کیا تھا کہ ترمیم شدہ خط ہم لےکر آ رہے ہیں، لیکن میں گھر پر اس وقت موجود نہیں تھا۔ اس کے بعد پھر فون نہیں آیا ہے۔’
انتظامیہ کے اس الزام اور گلشن کی رپورٹ کی تصدیق اس کورنٹائن سینٹر میں رہ رہے کچھ لوگوں سے بات کرکے کی جا سکتی ہے۔
مہیش راؤت اس سینٹر میں ایک ہفتے سے رہ رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں،‘جب ہنگامہ ہوا تو دو دن تک کھانا ٹھیک ملا، لیکن پھر اسی طرح کا کھانا ملنے لگا۔ دال پانی والا رہتا ہے۔ ایک روم میں 7-8 آدمی رہتے ہیں، سب پلاسٹک پر سوتے ہیں۔ اتنی گرمی ہے، اس کے باوجود یہاں ایک بھی کمرے میں پنکھا نہیں ہے۔ صرف اسٹاف کے کمرے میں ہے۔’
وہ کہتے ہیں کہ سی او سے بھی شکایت کی ہے، لیکن اس کے باوجود ڈھنگ کا انتظام نہیں ہو رہا ہے۔ گجرات کے ایک ہاسپٹل میں صفائی کا کام کرنے والی میرا دیوی گزشتہ کچھ دنوں سے اسی سینٹر میں رہ رہی ہیں۔وہ بتاتی ہیں،‘نہ کبھی کمرے کی صفائی ہوتی ہے اور نہ ٹوائلٹ ہی صاف ہوتا ہے۔ یہاں اتنی دقت ہے کہ کئی خواتین کو ہنگامہ کے بعد ہوم کورنٹائن کیا گیا۔ اتنی گندگی ہے کہ یہاں لوگ رہتے رہتے بیمار پڑ جائیں گے۔’
گلشن کمار ریگابلاک میں ہی املی بازار کے رہنے والے ہیں۔ 24 سال کے گلشن 2014 سے ہی صحافت میں ہیں۔ اپنے خلاف درج ہوئے معاملے کو لےکر وہ کہتے ہیں، ‘ایف آئی آر کے بعد میں ڈرا ہوا تو ہوں، پولیس مجھے جیل بھیج سکتی ہے۔ انتظامیہ کے کاموں میں جو بھی غلط ہوتا ہے، اس کے خلاف میں لگاتار خبر لکھتے آ رہا ہوں۔’
وہ آگے کہتے ہیں، ‘یہ آواز کو دبانے کی ایک کوشش ہے۔ انہیں (انتظامیہ کو) لگتا ہے، اگر اس طرح سے ہماری آواز کو دبایا جائےگا، تو ہم لکھنا بند کر دیں گے۔ یہاں کے تھانہ انچارج نے دباؤ بناکر یہ کیس کروایا ہے۔ اس سے پہلے بھی 2017 میں میری خبر کی وجہ سے ایک سی او سسپنڈ ہوئے تھے۔’
گلشن کے مطابق، ایف آئی آر میں غلط جانکاری دی گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ‘اس میں بتایا گیا ہے کہ میں معاملے کے وقت گلابی ٹی شرٹ پہنے سفید گمچھے سے منھ ڈھک کر نعرےبازی کر رہا تھا، یہ سراسر غلط ہے۔ میں واقعہ کے دن وہاں کالاکپڑے پہنے بنا گمچھے کے موجود تھا، جس کی تصویر بھی میرے پاس ہے۔’
ایف آئی آر درج کرانے والے سی اورام ارانو سے کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن بات نہیں ہو سکی، انہیں پیغام بھی بھیجا گیا، لیکن رپورٹ کے شائع ہونے تک اس کا جواب نہیں آیا، جواب آنے پر اسے رپورٹ میں جوڑا جائےگا۔
معاملے کے بارے میں ریگا تھانے کے ایس ایچ او سبھاش مکھیا نے کہا، ‘گلشن پر الزام ہے کہ انہوں نے کورنٹائن سینٹر پر جاکر لوگوں کو اکسایا، جس کے بعد وہاں ہنگامہ ہوا۔ سی او صاحب نے کیس درج کرایا ہے۔ جھوٹ سہی کی بات وہی کریں گے، وہ گلابی ٹی شرٹ پہنے تھا یا نہیں، وہی بیان دے رہے ہیں۔’
گلشن کے خلاف درج ہوئے اس معاملے پر سیتامڑھی پریس کلب نے احتجاج کیاہے۔ پریس کلب نے ضلع مجسٹریٹ ابھیلاشا کماری شرما کو خط لکھ کر بتایا ہے کہ صحافی پر جھوٹا مقدمہ درج ہوا ہے، اس خط کی کاپی ضلع کے ایس پی کو بھی بھیجی گئی ہے۔پریس کلب نے خط میں لکھا ہے، ‘درج ایف آئی آر میں جوحقائ لکھے گئے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مقامی انتظامیہ کسی پرانی رنجش کو لےکر یہ کام کر رہی ہے۔ اگر اسی طرح کے حالات رہیں گے تو ضلع میں صحافیوں کا غیر جانبدارانہ طور پر کام کرنا مشکل ہو جائےگا۔’
اس خط میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ پورے معاملے کی غیر جانبدارانہ جانچ کر کےصحافی کو ایف آئی آر سے آزاد کیا جائے اور اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو سیتامڑھی پریس کلب بھی آگے کی کارروائی کے لیے آزاد مانا جائےگا۔
سیتامڑھی پریس کلب کے صدر راکیش رنجن اس ایف آئی آر کو لےکر کہتے ہیں،‘سرکار کے خلاف خبر چھپ رہی ہے، پورے بہار میں کورنٹائن سینٹر بدحال ہے، انتظامیہ نہیں چاہتی کہ سچ باہر آئے اس لیے سچ کو چھپانے کے لیے اس طرح کی ایف آئی آر درج ہوئی ہے۔’
گلشن نے یہ بھی بتایا ہے کہ ضلع مجسٹریٹ نے اس کیس کو رفع دفع کرنے کو کہا ہے۔ وہ کہتے ہیں،‘ضلع مجسٹریٹ دفتر کی جانب سے کہا گیا کہ پہلے میں تھانے پر جاکر ضمانت لے لوں، جو آسانی سے مل جائےگی۔’ان کے مطابق یہ باتیں زبانی ہوئی ہیں۔ وہ آگے کہتے ہیں، ‘اگر میں ضمانت لیتا ہوں تو میں ہی چور ثابت ہو جاؤں گا۔ میں چاہتا ہوں کہ افسر پر کارروائی کی جائے۔’
گلشن کہتے ہیں کہ اس کے پہلے 2018 میں بھی ان کے خلاف یہاں کی ایک بی ڈی او نے جھوٹا مقدمہ درج کروا دیا تھا۔وہ کہتے ہیں، ‘میں نے بی ڈی او کی سرکاری رہائش کو لےکر ایک رپورٹ لکھی تھی، جس کو توڑکر اور لاکھوں روپے خرچ کراکر محل کا درجہ دیا جا رہا تھا۔ جب اس ناجائز خرچ پر رپورٹ کیا، تو میرے خلاف ہی غلط الزام لگاکر کیس درج کروا دیا گیا تھا۔ یہ معاملہ اب تک کورٹ میں چل رہا ہے۔’
گلشن اکتوبر 2018 سے دینک بھاسکر میں کام کر رہے ہیں۔ اس کے پہلے وہ سی ٹی این نیوز سیتامڑھی، آج اخبار اور پربھات خبر میں کام کر چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ گزشتہ سال 15 اگست کو انہیں ضلع مجسٹریٹ کی طرف سے ان کے کام کے لیے نوازا بھی جا چکا ہے۔
بیگوسرائے میں بھی صحافی کے خلاف کیس درج
اس سے پہلے گزشتہ 15 اپریل کو بیگوسرائے ضلع میں بھی ایک مقامی نیوز پورٹل ‘پرتیک نیوز لائیو’ کے صحافی امت پودار پر لاک ڈاؤن کے ضابطوں کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں کیس درج کیا گیا تھا۔حالانکہ امت کہتے ہیں کہ بکھری تھانے (جہاں کیس درج کیا گیا) کی پولیس بدلے کی کارروائی کی کر رہی ہے۔ اس ایف آئی آر پر امت کہتے ہیں، ‘بکھری بلاک کے گوڑھیاہی چوک کے پاس 15 اپریل کو کچھ لوگ دو بی ایم پی جوان پر پتھر پھینک رہے تھے۔ میں وہاں موبائل نکال کر ریکارڈ کرنے لگا۔’
وہ آگے بتاتے ہیں،‘اس کے بعد اس کی خبر چلی اور دو دن بعد مجھے پتہ چلا کہ میرے ہی خلاف ایف آئی آر درج ہوئی کہ میں نے پتھر پھینکا ہے۔ لکھا گیا کہ میں نے لوگوں کو اکسایا ہے، جبکہ میں وہاں اپنا کام کر رہا تھا۔’انہوں نے آگے بتایا کہ ان کے خلاف ابھی تک کل تین کیس ہوئے ہیں، جن میں سے دو کیس لاک ڈاؤن کے دوران ہی ہوئے۔ سبھی معاملے بکھری تھانے میں ہی درج ہیں۔
امت کہتے ہیں، ‘میں ہمیشہ سچ دکھاتا ہوں جس کی وجہ سے میرے خلاف یہ کارروائی ہوئی۔ اگر انتظامیہ کی حمایت میں خبر چلاتا ہوں تو ان کے لیے ٹھیک ہے، اگر کوئی نگیٹو خبر کرتا ہوں تو مجھے دھمکی دی جاتی ہے۔’امت کے خلاف درج ہوئے معاملے پر بیگوسرائے ضلع جرنلسٹ ایسوسی ایشن نے اس کی سخت مخالفت کی ہے۔ جنرل سکریٹری سوربھ کمار نے بتایا، ‘ہم نے ایس پی کو بکھری تھانہ انچارج کے خلاف تحریری شکایت دی تھی، جس کی جانچ چل رہی ہے۔ ہمیں جانکاری ملی ہے کہ امت کو 15 اپریل کے معاملے میں بے قصورثابت کر دیا گیا ہے، لیکن ابھی تحریری طور پر نہیں دیا گیا ہے۔’
اس معاملے پر بکھری تھانہ انچارج مکیش کمار پاسوان سے جب جانکاری مانگی گئی تو انہوں نے ‘فون پر یہ سب بات نہیں ہو سکتی ہے’ کہہ کر کال کاٹ دیا۔
کورنٹائن سینٹر میں صحافیوں کے داخلہ پر روک
بتا دیں کہ کچھ دن پہلے بہار سرکار کی طرف سے بلاک کی سطح پرکورنٹائن سینٹر پر میڈیااہلکاروں کے داخلہ پر روک لگانے کی بات سامنے آئی تھی، جس کے بعد مونگیر ضلع مجسٹریٹ نے بہار سرکار کے چیف سکریٹری کے آرڈرکا حوالہ دیتے ہوئے کورنٹائن سینٹر کے اندر صحافیوں کے داخلہ پر روک کے لیے حکم بھی جاری کر دیا تھا۔
اس حکم پر ردعمل دیتے ہوئے بہار کی سابق وزیر اعلیٰ رابڑی دیوی نے ٹوئٹ کیا تھا، ‘کیا میڈیا کو ایسی ہی سرکاریں پسند ہیں جو ان کے کام پر روک لگائے؟ نتیش کمار نے کورنٹائن سینٹروں میں جانے سے میڈیا پر روک لگا دی ہے تاکہ ان کی بدنظمیوں پر جگ ہنسائی نہ ہو۔’
میڈیا پر لگائی گئی اس پابندی کو لےکر آر جے ڈی رہنما تیجسوی یادو نے بھی سیدھے وزیر اعلیٰ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ انہوں نے کہا، ‘نتیش جی نے کورنٹائن سینٹروں میں میڈیا کے داخلے پراس لیے پابندی لگائی ہےکہ ان کا جھوٹ، لوٹ، کشاسن، بدنظمی اوربدعنوانی اجاگر نہ ہو سکے ورنہ میڈیا پر روک کا کیا مطلب؟ اگر آپ اچھا کر رہے ہیں تو میڈیا ضرور اچھا دکھائےگا۔ نتیش جی، آپ پوری طرح سے بے نقاب ہو چکے ہیں۔’
ملک گیر لاک ڈاؤن کے دوران صحافیوں کے خلاف معاملہ درج ہونے کی کئی معاملے سامنے آ چکی ہیں۔ نیوزلانڈری کی رپورٹ کے مطابق، حال ہی میں اتر پردیش کے سیتاپور ضلع میں ایک نیوز پورٹل کے صحافی پر کورنٹائن سینٹر کی بدانتظامی دکھانے پر انتظامیہ نے ایف آئی آر درج کر لی ہے۔
وہیں ہماچل پردیش کے الگ الگ ضلعوں میں لاک ڈاؤن کے دوران مہاجر مزدوروں اور لوگوں کی دوسری پریشانیوں پر رپورٹ کرنے والے 6 صحافیوں کے خلاف 10 سے زیادہ ایف آئی آر درج ہو چکی ہیں۔
ملک میں میڈیا پر بڑھتے شکنجے کی وجہ سے پچھلے 5 سالوں میں ہندوستان کی پریس فریڈم رینکنگ میں لگاتار گراوٹ آئی ہے۔ پچھلے مہینے رپورٹرس ودآؤٹ بارڈر کی جاری رپورٹ کے مطابق،ہندوستان دو پائیدان اور پھسل کر 180 ممالک کی فہرست میں 142ویں نمبر پر آ گیا ہے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)