کووڈمینجمنٹ کی تنقیدکومودی حکومت ملک کی امیج کوخراب کرنا بتا رہی ہے۔ حالانکہ ملک کی امیج تب بھی بگڑتی ہے، جب وزیر اعظم انتخابی تشہیر میں حریف خاتون وزیر اعلیٰ کو ‘دیدی او دیدی’ کہہ کر چھیڑتے ہیں۔ وہ تب بھی بگڑتی ہے، جب ان کے حامی قاتل ہجوم میں بدل جاتے ہیں یا ریپ کرنے والوں کے حق میں ترنگے لہراکر جلوس نکالتے ہیں۔
حکومتوں کےکھیل بھی نرالے ہوتے ہیں!بالخصوص ناکام حکومتوں کے۔ اسے یوں سمجھ سکتے ہیں کہ ان دنوں کے ہمارے حکمراں اپوزیشن میں ہوا کرتے تھے تو ان کی کارستانیوں سے نمٹتے نمٹتے تھک جانے والی حکومتیں ان پر ملک توڑنے کی کوششوں کا ‘مواخذہ’ لگاکر اپنے فرائض کی تکمیل مان لیتی تھیں۔ شاید انہیں لگتا تھا کہ اس کے بعد عوام خود ان سے نمٹ لےگی۔
تب ان کے حامی دفاع میں کہا کرتے تھے کہ ملک کوئی ککڑی یا کھیرا نہیں ہے۔ لیکن اب، جب انہوں نے اپنے تئیں‘اپنی عوام’ بناکر، سب کچھ بدل ڈالنے کے وعدے پر، اقتدارہتھیا کر اس کی عمر سات سال کر لی ہے، تو بھی، جیسے ہی کوئی ان کے کسی فیصلے یا قدم کی مخالفت یاکسی کمزوری کی جانب اشارہ کرتا ہے، پرانی حکومتوں کی ہی لیک پر چلتے ہوئے، یہ اس پر ملک کو بدنام کرنے یا اس کی امیج بگاڑنے کی تہمت چسپاں کرنے لگتے ہیں۔
حالانکہ ان کی اپنی تاریخ یہ ہے کہ راجیو گاندھی نے وزیر اعظم رہتے ہوئے سابق وزیر اعظم لال بہادر شاستری کے قول‘میرا بھارت مہان’کو نعرے کے طور پر آگے بڑھانا شروع کیا تو انہوں نے اس حد تک اس کا مذاق اڑایا کہ انہیں کہنا پڑا تھا، ‘میرا بھارت مہان ہے، ان کا بےایمان ہوگا۔’
پچھلے دنوں اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی کانگریس نے کورونا سے لڑائی میں وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی حکومت کی کاہلیاں گناتے ہوئے کہہ دیا کہ ان کی وجہ سےملک میں‘کووڈ’وائرس‘مووڈ’میں بدل گیا ہے، اسپتالوں میں بیڈ، دواؤں، انجکشنوں، آلات اور آکسیجن وغیرہ کی کمی کی وجہ سے جانے گنوانے والوں کے اہل خانہ کے لیےیہ‘مودی میڈ پینڈمک’ اور ہم سب کے لیے ‘بھارت کی بدنامی کا سبب’ہے، تو حکومت اور سرکاری پارٹی کے ترجمانوں کی جانب سے یہی‘جواب’آیا کہ وہ دنیا میں ملک کی اس امیج کے انہدام پر آمادہ ہے، جو وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے سات سالوں میں بڑے جتن سے گڑھی ہے۔
اس‘جواب’سے تھوڑا بہت متفق ہوا جا سکتا تھا، اگر کانگریس کے کسی رہنمایاترجمان نے دنیا بھر میں جاکر کسی منچ سے یا کہیں غیرملکیوں کو مخاطب کرتے ہوئے مذکورہ باتیں کہی ہوتیں، جس سے لگتا کہ وہ ملک کے اندرونی طور پر منقسم ہونے کا پیغام دے رہی ہے۔
ملک میں حکومت کے کیے دھرے پر انگلیاں اٹھاکر اسے بے نقاب کرنا اور جواب مانگنا تو اس کا فرض ہے کیونکہ جن رائے دہندگان نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو حکومت چلانے کے لیے چنا ہے، انہوں نے ہی اسے اپوزیشن کارول سونپ رکھا ہے۔ اس لیےاپوزیشن کو آزادانہ طور پر اس کا رول ادا کرنے دینے سے ملک کی امیج خراب نہیں ہوتی، بلکہ اس کی جمہوریت کی شان بڑھتی ہے۔
حکومت اس کی تنقید کے آئینہ میں اپنی شکل دیکھ سکے، تو اسے راج کاج چلانے میں آسانی ہوتی ہے، سو الگ۔ وہ امیج تو تب خراب ہوتی ہے، جب حکومت بغلیں جھانکتی ہوئی یہ جتانے لگتی ہے کہ اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
یہاں ایک اور بات قابل غور ہے۔ یہ کہ کانگریس اپنی پرانی عادت کے مطابق اس تنقید میں بھی تھوڑی پچھڑ گئی تھی۔ غیرملکی میڈیا میں اس سے پہلے ہی ملک کے اسپتالوں میں فقدان اور بحران کے بیچ متاثرین کی شدید تکالیف جھیلنے، موت کے بعد شمشانوں میں احترام کے ساتھ آخری رسومات سے بھی محروم رہنے اور ندیوں میں ان کی لاشیں تیرنے کی تصاویر چھپ چکی تھیں اور ملک کی امیج بھرپور ‘بگڑ’چکی تھی۔
آسٹریلیا کے ایک اخبار نے تو یہاں تک لکھ ڈالا تھا کہ تکبر، شاوونیت اور نااہل نوکر شاہی نے ہندوستان کو تباہی کےگڑھے میں دھکیل دیا ہے، جبکہ دوسرے اخبار کے کارٹونسٹ نے ہندوستان کی کورونا سے ہارے ہوئے ہاتھی کےطورپر تصویر کشی کر وزیر اعظم نریندر مودی کو اس پر بیٹھ کر اسپیچ دیتے دکھایا تھا۔
تب مودی حکومت نے اسے ملک کے خلاف غیرملکی سازش کے طور پربھی دیکھا اور کارٹون تو نہیں، مگر رپورٹ کے خلاف شکایت کی تھی، جس کا جواب اس کی شکایت کو اظہار کی آزادی میں دخل بتاکر دیا گیا تھا۔ یعنی غیرملکی میڈیا ملک کی جو بھی امیج بنانی یا بگاڑنی تھی، بنا بگاڑ چکا تھا۔
دراصل یہ وہی غیرملکی میڈیا ہے، جو کبھی وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی حکومت کی تعریفوں کے پل باندھتا تو بی جے پی کے پرجوش ترجمان ان کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے تھے۔ کہتے تھے کہ دیکھیے مودی جی نے ملک کا نام کتنا بڑھا دیا ہے۔ تب انہیں یہ میڈیا ملک کے خلاف سازش کرتا ہوا نہیں بلکہ اس کے مفادات کی فکر کرتا نظر آتا تھا۔
اس لحاظ سے دیکھیں تو اپنے سات سالوں میں وزیراعظم اور ان کی حکومت نے یہ بات پوری طرح ظاہر کر ڈالی ہے کہ انہیں سب سے بڑا پرہیز اپنی تنقید سننے یا اس سے سبق لینے سے ہی ہے۔ غیرملکی پونجی ہو، کمپنیاں، ٹکنالوجی یا میڈیا، جب تک وہ ان کی تعریف کرتے رہتے ہیں،انہیں، اور تو اور اپنا سودیسی کا پرانا راگ تک یاد نہیں آتا۔
یہاں سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ تب کیا ملک کی امیج کی فکر کی ہی نہیں جانی چاہیے؟ جواب ہے ضرور کی جانی چاہیے، لیکن اس سے پہلے ٹھیک سے سمجھ لینا چاہیے کہ اصل میں وہ کیسے خراب ہوتی ہے؟
وزیر اعظم اور ان کے حامی اکثر کہتے ہیں کہ انہوں نے دنیا میں ہندوستان کا نام بہت بڑھا دیا ہے۔ واقعی ایسا ہوا ہے تو یقیناً، اس لیے ہوا ہوگا کہ دنیا ہندوستان کو ان کی آنکھوں سے دیکھتی ہوگی۔ ایسے میں اس نام کو اپوزیشن کے الزام کیسے خراب کر سکتے ہیں؟ اس کے خراب ہونے کا زیادہ اندیشہ تو ان ناسمجھی بھری باتوں سے ہی ہے، جن کی اب تک وزیر اعظم اور ان کی حکومت کئی مثالیں بنا چکی ہیں۔
ایسی ناسمجھی کی سب سے حیرت انگیز مثال انہوں نے پچھلے سال بنائی تھی، جب کورونا کی وجہ سے بنا سوچے سمجھے لگائے گئے ملک گیر لاک ڈاؤن کو اس انداز میں دنیا کا سب سے بڑا لاک ڈاؤن بتایا تھا۔ جیسے سب سے بڑا لاک ڈاؤن بھی کوئی قابل فخر بات ہو!
اب یہ کہیں کہ اس سے ہوئی ملک کی جگ ہنسائی سے کوئی سبق نہیں لیا گیا یا یہ کہ ہر کام کو ‘مودی کا ماسٹراسٹروک’بتانے کی ان کی عادت ہے کہ جاتی ہی نہیں، لیکن ٹیکہ کاری کو لےکرسرکاری رویہ بھی جوں کا توں ہے۔
گزشتہ21 جون کو 85 لاکھ لوگوں کو ٹیکے لگائے گئے تو اسے ‘مہاریکارڈ’بتایا گیا۔ وزیر اعظم خود کئی بار ٹیکہ کاری کو ٹیکوتسو قرار دے چکے اور ‘دنیا کی سب سے بڑی ٹیکہ کاری مہم’ کو لےکر اپنی چھاتی 56 انچ سے بھی زیادہ چوڑی کر چکے ہیں۔
سوچیے ذرا،آبادی کے لحاظ سے اتنے بڑے ملک کی ٹیکہ کاری مہم فطری طور پر بڑی ہی ہوگی۔لیکن دنیا جانتی ہے کہ چین نے 21 جون سے ایک دن پہلے ہی اپنے ایک کروڑ چورانوے لاکھ لوگوں کو ٹیکے لگائے اور کوئی ریکارڈ بنانے کا دعویٰ نہیں کیا۔ ایسے میں اس کی نگاہ میں ہماری امیج کیسی بنےگی؟ ویسی ہی تو، جیسی ہندوستان کو ٹیکوں کی‘عالمی راجدھانی’یا‘ورلڈ لیبارٹری’ بتانے کے بعد اسے غیرملکی ٹیکوں کے امپورٹ پرمنحصر کر دینے سے بنی ہے؟
یوں، سچ پوچھیے تو دنیا میں ملک کی امیج سب سے زیادہ تب خراب ہوئی، جب ڈونالڈ ٹرمپ کے راج میں وزیراعظم نریندر مودی دوسرے ملکوں کے انتخابات میں غیرجانبداری کی ہماری روایتی خارجہ پالیسی کو بیکار بتاکر ‘ہاؤڈی مودی’ کے بہانے امریکہ گئے اور ‘اب کی بار ٹرمپ سرکار’کا نعرہ لگوا آئے تھے۔ بے وجہ نہیں کہ امریکی عوام نے ٹرمپ کو ہراکر ان کے اس نعرے کو بھی حیثیت بتا دی تھی۔
اس سے پہلے 2018 میں بھی دنیا ہندوستان پر ہنسی ہی تھی اور وہ بدنام ہی ہوا تھا، جب وزیر اعظم مودی ورلڈ اکانومک فورم کی اپنی اسپیچ میں ڈینگ سی ہانکتے ہوئے ملک میں رائے دہندگان کی کل تعداد چھ سو کروڑ بتا آئے تھے۔ تب بھی، جب اپنے ایک اسپیچ میں وہ بابائے قوم مہاتما گاندھی کا صحیح نام تک نہیں لے پائے، ‘موہن داس’کے بجائے ‘موہن لال’ کہہ دیا، دوسرے میں تکششلا کو بہار میں کھینچ لائے اور تیسرے میں کبھی گنگا پار نہ کر پانے والے سکندر کو بہار کی فوج سے شکست دلا دی تھی۔
پاکستان کے خلاف بدنام زمانہ ایراسٹرائیک کے وقت ‘بادل رہیں گے تو پاکستانی رڈار ہمارے طیاروں کو دیکھ نہیں پائیں گے’والے ان کے ‘سائنسی بیان’ کا تو ابھی تک مزہ لیا جاتا ہے۔
اتنی مثالیں یہ بتانے کے لیے کافی سمجھی جانی چاہیے کہ اگر حقیقت میں ملک کی امیج کی فکر ہے تووزیر اعظم، ان کی حکومت اور پارٹی کو ایسی چیزوں کی تکرار کو روکتے ہوئے ملک میں اصل میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک رکھنا چاہیے۔
ورنہ اب دنیا اتنی چھوٹی ہو گئی ہے کہ وہ سچائی کو کتنا بھی چھپاکر رکھیں، وہ اس کے اس سرے سے اس سرے تک پہنچتی ہی رہےگی۔ جیسے ٹرمپ کے احمدآباد دورے کے وقت کھڑی کی گئی دیوار بھی اس کے اس پار کی سچائی ظاہر ہونے سے نہیں ہی روک پائی تھی۔
ملک کی امیج تب بھی بگڑتی ہی ہے، جب وزیر اعظم ہیوسٹن جاکر تو بھارت میں سب کچھ چنگا سی کہہ دیتے ہیں اور ملک میں کسانوں کو سات سات مہینوں تک راجدھانی کی سرحدوں پر بٹھائے رکھتے ہیں یا انتخابی تشہیر میں حریف خاتون وزیر اعلیٰ کو ‘دیداو و دیدی’ کہہ کر چھیڑتے ہیں۔
ہاں، وہ تب بھی بگڑتی ہے، جب ان کے حامی قاتل ہجوم میں بدل جاتے ہیں یا ریپ کرنے والوں کے حق میں ترنگے لہراکر جلوس نکالتے ہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں۔)