انٹرویو: سابق مرکزی وزیر ارون شوری نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے ملک کے کووڈ بحران کے لیے نریندر مودی سرکار کو ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ سرکارعوام کو ان کے حال پر چھوڑ چکی ہے، ایسے میں اپنی حفاظت کریں اور ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔
سابق مرکزی وزیر ارون شوری۔ (فوٹو: دی وائر)
نئی دہلی: گزشتہ سات سالوں سے اٹل بہاری واجپائی سرکار میں وزیر رہے ارون شوری نریندر مودی سرکار کے بڑے نقاد رہے ہیں۔ دی وائر کے ساتھ بات چیت میں انہوں نے ملک میں کووڈ 19کی سنگین صورتحال پر بات کی۔ سرکار کے حامیوں کے ذریعےاسے‘سسٹم’کی ناکامی بتانےپرشوری نے کہا کہ مودی اس کی ذمہ داری سے بچ نہیں سکتے ۔ بات چیت کے اہم اقتباسات۔
ہندوستان میں روزانہ انفیکشن کے جتنے معاملے آ رہے ہیں، اتنے معاملے پوری دنیامیں مجموعی طور پربھی نہیں آ رہے ہیں، وہیں ملک میں ہو رہی اموات دنیا بھر کی تقریباً تہائی ہیں۔ اور یہ سب سرکاری اعدادوشمارکے لحاظ سے ہیں، جو کہا گیاکہ اصل سے کم ہی ہیں۔ ملک کے موجودہ حالات کو لےکر کیا کہیں گے؟
ارندھتی رائے نے اس کے لیے بالکل ٹھیک لفظ استعمال کیے ہیں‘
انسانیت کے خلاف جرم۔’
‘جرم’یہ لفظ دکھاتا ہے کہ یہ کسی کے ذریعے کیا گیا ہے، لیکن آج حکومت کا جو کہنا ہے اور جسے میڈیا کے ایک بڑے طبقے کی طرف سے دہرایا بھی جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ یہ کسی ایک شخص یا ایک گروپ کا کیا دھرا نہیں ہے، بلکہ اس کا ذمہ دار‘سسٹم’ ہے۔
اور اس ‘سسٹم’ کی ذمہ داری کس کی ہے؟ بیچارے پنڈت نہرو کی؟ انگریزوں کی؟یا اس سے بھی بہتر مغلوں کی؟
کیا پریشانی یہ ہے کہ ‘سسٹم’نے ہمیں سی بی آئی، ای ڈی اور انکم ٹیکس جیسے محکمے دیےہیں؟یا یہ کہ آج ان کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔
آپ ایک پل کے لیے گجرات کے بارے میں سوچیے۔ کیایہ آکسیجن کی کمی سے جان گنوا رہے مریضوں کے معاملے میں، اسپتالوں میں آگ لگنے کے معاملوں میں پورے ملک سے کہیں بہتر کر رہا ہے؟ اور بی جے پی کتنے سالوں سے اس صوبے میں اقتدارمیں ہے؟ کتنے سالوں تک گجرات کا ‘سسٹم’وزیراعظم کے ہاتھوں میں تھا۔
یہ‘سسٹم’نہیں ہے۔اور جو ایک لفظ چل رہا ہے، یہ‘سسٹیمیٹک’(سسٹم کی)ناکامی نہیں ہے۔ یہ سسٹم کا منظم طریقے سے برباد کیا جانا ہے، جو اس صورتحال کے لیے ذمہ دار ہے۔
تو آپ کے حساب سے سسٹم کی اس منظم بربادی کے لیے کون ذمہ دار ہے؟
یقینی طور پر جواقتدار سنبھال رہا ہے۔ جب انتخابات میں واضح طور پر فراڈہوتا ہے جب بی جے پی ایک فرقہ وارنہ مہم چھیڑتی ہے، جب انتخاب کو سات مرحلوں تک کھینچا جاتا ہے تب کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ آئین نے یہ بتایا تھا کہ الیکشن کمیشن ہونا چاہیے۔
یا پھر وہ کرپٹ طریقہ، جس سے کمیشن سنبھالنے والے اپنا فرض نبھاتے ہیں؟ جب الیکٹورل بانڈ کے صاف دکھ رہے فراڈ پر سپریم کورٹ اپنی آنکھیں بند کرلیتا ہے، تب کیا وہ ‘سسٹم’ذمہ دار ہے جو عدالت کا نظام دیتا ہے یا پھر وہ چیف جسٹس اور باقی جج جو فیصلے لیتے ہیں؟
اور صرف وہ نہیں جو الیکشن کمیشن یا عدالتوں میں بیٹھے ہیں، بلکہ وہ بھی جنہوں نے انہیں وہاں پہنچایا اور وہ بھی جو تمام طریقوں سے یہ یقینی بناتے ہیں کہ یہ نامزد کیے گئے لوگ وہی فیصلہ لیں جو انہیں یہاں پہنچانے والوں کے لیےمفیدثابت ہوں۔
تو جب آج آپ اداروں کی حالت دیکھتے ہیں تو اس کے لیے موجودہ اقتدارذمہ دار ہیں، جنہوں نے انہیں بناریڑھ کے جی حضوری کرنے والوں سے بھرا ہے اور اس کا صاف مطلب ہے کہ وزیراعظم ، ان کے علاوہ کسی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
دہلی کا ایک شمشان۔ (فوٹو رائٹرس)
میں آپ کی بات سمجھتا ہوں لیکن موجودہ کووڈ 19 بحران، آکسیجن کی عدم دستیابی، دوسری لہر کا اندازہ نہ لگا پانے، ٹیکہ کاری مہم کو جی ایس ٹی سے بھی خراب طرح سے نافذ کرنے میں الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ سسٹم کے یوں بدحال ہونے کے بارے میں کیا کہیں گے؟
ان وزیرصحت کو کس نے چنا،جس نے اپنی مرضی سے یہ اعلان کیا کہ کورونا وائرس کے خلاف ‘اینڈگیم’ شروع ہو چکا ہے۔ کون کہہ رہا تھا کہ آکسیجن کی کمی نہیں ہے جب لوگ اس کے بنا مر رہے تھے؟ کون تھا جو میڈیا کے سامنے کھڑے ہوکر رام دیو کی دوائی یہ کہہ کر لانچ کر رہا تھا کہ یہ‘ڈبلیو ایچ او کی طرف سے مصدقہ’ہے؟ ایسے وزیر کو کس نے چنا، جو صوبوں سے ان کے یہاں بہتر طرح سے آکسیجن‘مینج’ کرنے کو کہہ رہا تھا گویا انہیں یہ کرنا چاہیے کہ مرتے ہوئے لوگوں سے کہیں کہ کم آکسیجن لو؟
لیکن یہ کسی بے یارومددگاروزیرصحت یا کسی اور وزیر کا مسئلہ نہیں ہے۔ یاد کیجیے، فروری میں ورلڈ اکانومک فورم میں خود وزیراعظم نے کیا کہا تھا کہ ہندوستان نے کووڈ 19کو ہرا دیا ہے اور یہ اب دنیا کو بچا رہا ہے۔ سول سروسز کےاہم عہدوں پر بنا ریڑھ کے جی حضوری کرنے والے کس نے بھرے ہیں؟
کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ وزیراعظم کو ان کی جی حضوری کرنے والے کے کیے اور ان کی کہی باتوں کے لیے قصوروار نہیں ٹھہرانا چاہیے۔
دیکھیے،غلطی نہ کریں۔ جو چننے کا ذمہ لیتا ہے، وہ دھیان سے اس شخص کو چنتا ہے، جووقت آنے پرچننے والوں کے وشو گرو ہونے کا اعلان کرتا ہے (جیسا کہ ہرش وردھن نے مودی کو بتایا)یا اسے ہندوستان کے لیے‘بھگوان کا تحفہ’کہتا ہے۔ (جیسا وینکیا نائیڈو نے انہیں کہا تھا۔)
اس قراردادکو یاد کریں، جو بی جے پی کی قومی اکائی نے وزیراعظم کے لاثانی اور دور بیں قیادت کو قبول کرتے ہوئے پاس کیا تھا، جس نے کووڈ -19پر فتح پا لی تھی اور ہندوستان کو دنیا کا محافظ بنا دیا تھا۔کیا کوئی مانتا ہے کہ آج بھی کوئی بی جے پی ہے جو وزیراعظم سے آزاد ہے؟ اس بی جے پی کے بارے میں کچھ نہیں کہنا جو اپنے تخیل کے زور پر ایک تجویز کا مسودہ تیار کرنے میں کامیاب ہوگی؟ کیا کسی کو لگتا ہے کہ ڈاکٹر ہرش وردھن منموہن سنگھ کے مشوروں کا فحش اور احمقانہ جواب دے سکتے ہیں؟
کیا ایک اسٹیڈیم کا نام سردار پٹیل سے بدل کر نریندر مودی رکھنے کے لیےصدرجمہوریہ جوابدہ ہیں؟ملک میں علامت اور نام (نا مناسب استعمال کی روک تھام)سے متعلق ایکٹ،1950 کام کرتا ہے، جس کے مطابق، وزیراعظم کے نام کا کسی بھی تنظیم یا عمارت یا واقعہ کے لیے استعمال تحریری طور پر ان کی یا کسی نامزد افسر کی اجازت کے بنا کیا ہی نہیں جا سکتا ہے۔
یقینی طور پر مودی ہی اہم جگہوں پر ایسے لوگوں کے انتخاب کے لیے ذمہ دار ہیں،لیکن…
لیکن ان کی ذمہ داری اس سے زیادہ کی بھی ہے! کیا ان ڈرے ہوئے چوہوں میں سے کسی نے فرمان سنایا کہ آپ کو بڑی بڑی ریلیاں کرنی چاہیے؟ کیا‘سسٹم’نے ایسا حکم دیا تھا، کیا ان خوفزدہ چوہوں میں سے ایک نے حکم دیا تھا کہ آپ کم وسائل کو ٹیکہ کاری اور آکسیجن پلانٹ پر نہیں بلکہ ایگوسٹک پراجیکٹس اپنے لیے ایک طیارہ ، ایک نیا گھر، ایک نئے راج پتھ پر خرچ کریں؟ 25000 کروڑ روپے ان منصوبوں پر خرچ کیے گئے چین سے آئے اس مجسمے کے ڈھانچے کے 3500 کروڑ روپے کی تو گنتی ہی نہیں کی ہے؟
وزیر اعظم نریندر مودی۔ (فوٹو بہ شکریہ: پی آئی بی)
کیا آپ مانتے ہیں، جیسا کہ رام چندر گہا نے دی وائر کے ساتھ حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ موجودہ تباہی وزیر اعظم مودی کی‘طرز حکومت ’ کابراہ راست نتیجہ ہے۔’کیا ہم اس سے یہ امید کر سکتے ہیں کہ وہ بنگال کے انتخابی نتائج کی وجہ سے اس کو بدلیں گے؟
اس طرح کی کسی بھی چیز کی امید کرنا بیوقوفی ہوگی۔ حکومت کی‘موجودہ طرز’ میں کچھ ایسا نہیں ہے جسے آپ آرگنائزیشن چارٹ پر بکسے پھیر بدل کرکے بدل سکتے ہیں۔ یہ ان کے مزاج میں ہے۔ سرکار،کمپنیوں وغیرہ کے سربراہوں کے لٹریچر میں ڈارک ٹرائیڈ کی بات کہی گئی ہے۔ اس کے تین عناصرہیں۔
سب سے پہلے،نرگسیت۔ اس کا ایک پہلو خود نام سے واضح ہے؛ انسان خود سے ہی پیار کرتا ہے، وہ خود کو ہی اتناپرکشش سمجھتا ہے۔ یہ ٹرمپ میں نمایاں طور پر تھا۔ یہاں آپ اسے اپنا نام چھپے سوٹ سے لےکراسٹیڈیم تک اور ٹیکہ کاری پیک پر ان کی تصویر میں دیکھتے ہیں۔
لیکن اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ کہیں اندر گہرے میں اس نرگسی شخص کو پتہ ہوتا ہے کہ وہ ایسا نہیں ہے جیسا اس نے خود کو بنایا ہے۔اور اس لیےوہ بہت نروس،غیرمحفوظ ہے۔ وہ خود کو لگاتار سنوار رہا ہے، باربار سنوار رہا ہے۔ اور اسی وجہ سے وہ مہارت سے گھبرایا ہوا ہے۔ وہ لازمی طور پر اوسط درجے کےافراد سے خود کو گھیر لیتا ہے۔ وہ خود کو ایک ایکو چیمبر میں بند کر لیتا ہے۔ اور پھر آپ کو ملتی ہے وہ ‘طرز حکومت’، جہاں ایک لامتناہی سلسلے تک دوسرے درجے کے شخص تیسرے کو چنتے ہیں، جس سے بدنظمی پیدا ہوتی ہے۔
وہ غیرمحفوظ ہے، اسے ہر دن خود کو یقین دلانا ہے کہ وہ اب بھی خوبصورت ہے، وہ اب بھی مضبوط ہے، اور اب بھی باقی لوگ اس سے ڈرتے ہیں۔ وہ ان سے بچاؤ نہ کی جا سکنے والی باتوں کا دفاع کرواتا ہے کل یہ نوٹ بندی تھی، آج مہاماری سے ٹھیک سے نہ نمٹ پانا ہے۔ اگر وہ صرف دفاع کر رہے ہوتے، جو سہی ہوتا، تو اس سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان کے پاس اب طاقت نہیں ہے۔ وہ سب ان سے ڈرتے ہیں،یہ تب دکھتا ہے جب وہ اعلان کرتے ہیں کہ نوٹ بندی ایک ماسٹراسٹروک تھا۔ ایسا تب نظر آتا ہے جب موجودہ بحران کے دوران اٹھائے گئے غلط اقدامات کو دوررس قیادت کہہ کر سراہا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اپنے معاونین کے لیے ان میں کوئی عزت نہیں ہے، نہ ہی لوگوں کے لیے ہے۔ ‘کیا کہا تم نے، لوگ مر رہے ہیں؟ تو مجھے ایسے وقت پر اپنا نیا گھر نہیں بنوانا چاہیے؟ ہاں، وہ مر رہے ہیں اور میں ایسے میں بھی اپنا نیا گھر بنواؤں گا جب وہ مر رہے ہیں۔ کیا کر سکتے ہو تم؟
اور دوسراعنصر؟
ڈارک ٹرائیڈ کی دوسری خصوصیت میکیاویلینسم ہے۔ ایسےلوگ ہرموقع ہرآدمی پر نظر رکھتے ہیں۔ جیسے ہی ان کا کسی شخص، معاملے سے سامنا ہوتا ہے، ان کے دماغ میں ایک ہی خیال آتا ہے،’میں اس شخص،واقعہ یا آفت کا کیا استعمال کر سکتا ہوں؟
دیکھیے کہ کس طرح اپنے ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کے لیے ایک مہلک بحران کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یاد کیجیے ان متضاد طریقوں کو جن سے وہ نظام الدین مرکز اور حال ہی میں ہوئے کمبھ کی بھیڑ سے نمٹتے ہیں۔
اس طریقے کو دیکھیے،جس سے آج پی ایم کئیرفنڈ کو قانونی بنانے کی مانگ کی گئی ہے۔ یہ دیکھیے کہ کس طرح سے صوبے کے ماتھے قصوردیا جا رہا ہے اور اقتدار کو اورسینٹرلائز کرنے کے لیے اس بدنظمی کا استعمال کیا جا رہا ہے۔مرکز اعلان کرتا ہے، ’18 سے اوپر کے سبھی لوگ ٹیکہ لگوا سکتے ہیں،’ لیکن اسٹاک ہی نہیں ہے، ‘ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ سبھی کو ٹیکہ ملے لیکن صوبے اس فیصلےکو نافذ نہیں کر رہے ہیں۔ اور اس لیے ہم اس معاملے کو اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے مجبور ہیں… ‘
لفظوں کے مایاجال بھی اسی لیے بچھائے جا رہے ہیں۔ ان کا کوئی تقدس نہیں ہے۔ سچائی مطلق نہیں ہے۔ آپ وہ کہتے ہیں جو راحت طلب ہے، اس وقت جو راحت طلب ہوتا ہے، آپ وہ جملہ نکال دیتے ہیں کہ آپ نے ایک ریلوے اسٹیشن پر چائے بیچی ہے – تو کیا ہوا اگر اس وقت اسٹیشن نہیں تھا؟ کہ آپ کے پاس ایک ڈگری ہے تو کیا ہوا اگریہ ایک ایسےموضوع میں ہے جس کا کبھی وجودہی نہیں تھا؟ تو کیا ہوا اگر یہ تب چھپی، جب ڈگری ہاتھ سے لکھی جایا کرتی تھیں، تو کیا ہوا اگر اسے ایک ایسے فانٹ میں نقش کیا گیا جو سالوں بعد تک وجود میں نہیں تھا؟ کہ آپ 25000 فٹ کی اونچائی تک پیدل چلے تھے…
یہ سب تب اور آسان ہے کہ اگرآپ ایک ثقافت، ایک ایسی تنظیم سے آتے ہیں، جہاں فکشن کوحقائق میں ڈھالا جاتا ہے۔ کہ ہزاروں سال پہلے ہمارے پاس راکیٹ اور ہوائی جہاز تھے، کہ ہمارے پاس پلاسٹک سرجری تھی، کہ ہمارے پاس انوٹرو فرٹلائزیشن تھا … پھر تو یہ اعلان کرنا پوری طرح سے آسان ہے کہ سکندر بہار تک آیا تھا اور یہ کہ بہاری شجاعت نے اسے وسط ایشیا میں واپس بھیجا۔ آپ ایسی باتیں آسانی سے کہہ سکتے ہیں اور جب سہولت ہو ان گاندھی جی کی تعریف بھی کر سکتے ہیں، جو مانتے تھے کہ ستیہ ہی ایشور ہے۔
ایسے لوگ صرف اعلان نہیں کرتے بلکہ ایک دن یقین کرنے لگتے ہیں کہ ہم نے کووڈ -19 پر جیت حاصل کی ہے اور وہ بھی پوری طرح سے ہمارے ہی کوششوں سے، کہ ہم آتم نربھر(خودکفیل) بن گئے ہیں۔ اور اگلے دن یہ مان لیتے ہیں کہ چالیس ممالک نے ہمیں مشکل سے نکالنے کے لیے مدد بھیجی ہے جو ہندوستانی ڈپلومیسی کی کامیابی کی علامت ہے۔
اور تیسرا؟
تیسرا ہے ذہنی مرض ، اس کا سب سے بڑاعنصر ہے افسوس کا نام ونشان نہ ہونا۔ کیا پچھلی بار مزدوروں کے معاملے میں آپ نے ذرا سا بھی افسوس دیکھا؟ پچھلے چار مہینوں میں ان کے دیےگئے سینکڑوں بیانات میں آپ نے ان کے بارے میں ایک بھی ہمدردی کا لفظ سنا جو آکسیجن کی کمی سے مارے گئے؟
اور ہمیں اس بھلاوے میں بالکل نہیں رہنا چاہیے کہ اس کھیپ میں بس ایک ذہنی مریض ہے۔ یہ ان کی تہذیب میں ہے۔ دیکھیے، ہریانہ کے وزیر نے کیا کہا جب انہیں بتایا گیا کہ شمشان گھاٹ کے منظروں سے پتہ چلتا ہے کہ کووڈ 19 سے مرنے والوں کے سرکاری اعدادوشماربہت کم ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘اس مدعے پر بحث کرنے کا کوئی مطلب نہیں ہے، مرنے والے واپس نہیں آئیں گے۔’
تاریخ بتاتی کہ ان خصوصیت والے رہنما کو لگتا ہے کہ اس نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے۔
بالکل صحیح بات ہے۔ آپ کو پتہ ہے کہ ایسے لوگ رات کو سوتے کیسے ہیں؟ بہت آرام سے! کیونکہ انہوں نے خود کو یہ بھروسہ دلا دیا ہوتا ہے کہ وہ جو بھی کر رہے ہیں وہ ایک بڑے مفادکے لیے ہے۔ ہم جیسےعام لوگ جلتی چتاؤں کو دیکھ کر ہل جاتے ہیں اور مرنے والوں کی تعداد کو دبائے جانے کے خلاف ہو جاتے ہیں۔ لیکن وہ ایسا کر رہے ہیں کہ ‘لوگوں کا حوصلہ ٹوٹنے سے بچا رہے۔’
اور اس طرح سے سوچنا، ‘مثبت’طور پرسوچنا ان کی عادت میں شمار ہو جاتا ہے۔ ہاں، یہاں تباہی آ رکھی ہے۔ لیکن دوسری طرف دیکھیے، کیا کوئی لداخ کے ان علاقوں کے بارے میں بات کر رہا ہے جنہیں چین نے خالی کرنے سے منع کر دیا ہے؟ کیا کوئی کسان تحریک کی بات کر رہا ہے؟یہ طریقہ ہے آگے بڑھنے کا؛‘ہمیں مثبت سوچ پھیلانی چاہیے،’یہ دتاترییہ ہوسبلے کہتے ہیں جو آر ایس ایس کے اگلے سربراہ ہوں گے۔
یہ سب کہاں ختم ہوتا؟
آخر میں ایسےرہنما پوری طرح سےختم ہو جاتے ہیں۔ جس طرح ایک جھوٹ دوسرے جھوٹ کے لیے مجبور کرتا ہے، ویسے ایک تاناشاہی قدم اگلے کے لیے راستہ بناتا ہے۔
مہاماری کے دوسری لہر کے دوران کانپور کا ایک اسپتال۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
جو تصویر آپ دکھا رہے ہیں، وہ بہت خوشگوار نہیں ہے، ایسے میں شہریوں کو کیا کرنا چاہیے؟
سب سے پہلے اور سب سے ضروری تو یہ کہ ہمیں اپنی ذمہ داری سمجھنی چاہیے۔ نصیرالدین شاہ ایک بےحداچھے فن کار ہیں، انہوں نے اسے بہترین طریقے سے کہا ہے سوال یہ نہیں کہ بستیاں جلائیں کس نے، سوال ہے کہ اس کے ہاتھ میں ماچس کس نے دی؟
دوسرا، اس بار مجرمانہ طور پر اپنے فرض نہ نبھائے جانے کو یاد رکھیے۔ذمہ داریوں کو ایسے چھوڑ دیا گیا جہاں سرکاری اعدادوشمار کے حساب سے ہی ڈھائی لاکھ لوگوں نے اپنی جان گنوا دی۔ جھوٹوں کو یاد رکھیے۔ یہ بھی یاد رکھیے کہ یہ حادثاتی طور پرنہیں ہوا ہے۔ یہ سب ان کے جین میں ہے۔ اس جرم کو درج کریے، جھوٹوں کو لکھیے، جس سے اگلی بار انہیں جلدی پہچان لیا جائے۔
تیسرا، ان جگہوں پر باز کی طرح نظر رکھیے، جہاں وہ اس تباہی کے ذریعے اپنا ایجنڈہ پورا کر رہے ہیں یا کریں گے۔ مثلاً، اختیارات کا اور زیادہ سینٹرلائزیشن کرنے کے لیے۔ اسے ناکام کرنے کے لیے ان حقائق کو دنیا کے سامنے رکھنا ہوگا۔ 1.انہیں قانونی جواز چاہیے ان سے جو ابھی ان کے بس میں نہیں ہے، ان سے جو بھکت یا کمبخت نہیں ہیں۔ 2.ان کی نااہلی انہیں بارباردوسرےممالک سے مدد لینے کے لیے مجبور کر دےگی۔ اس لیے دنیا کو راضی کریں کہ بنا شرط مدد نہ کریں۔ دیگر ممالک کو ان تجارتی مواقع سے پرے دیکھنے کے لیے تیار کریں، جو انہیں ہندوستان یا چین جیسےملک دیتے ہیں۔
چوتھا، حکمرانوں کے اس پروپیگنڈہ کوکہ وہ وہ یہ کر رہے ہیں وہ کر رہے ہیں، میں نہ آئیں۔سچائی یہی ہے کہ سرکار نے ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ خود کو بچائیں ماسک، سماجی دوری ، ویکسین، ایک دوسرے کی مدد۔ سب سے بڑی مثال نرسوں اور ڈاکٹروں کی ہے، گرودواروں کا ہے، ان رضاکاروں کا جو ملک بھر میں کام کر رہے ہے اسے اپنی تحریک بنائیں۔
پانچواں اور سب سے ضروری؛جس طرح اس وبا نے ہر آفت کی طرح کچھ بہت اچھی چیزیں سامنے لائی ہیں، وہیں کچھ بہت خراب باتیں بھی سامنے آئی ہیں دواؤں میں ملاوٹ، کالابازاری، وہ رشوتیں جو اسپتال کے بیڈ، آکسیجن اور آخری رسومات کے لیے دی گئی ہیں…یہ قابل نفرت لالچ جلتی ہوئی چتاؤں کی طرح ہی سامنے دکھ رہا ہے۔ اور ہم خود کو گاندھی اور بدھ کاملک کہتے ہیں۔ جب ہم حکمرانوں کے اصلاح کی بات کرتے ہیں، تو ہمیں خود کو بھی اس لالچ سے آزاد کرنا چاہیے، ہمارے بیچ کے لالچیوں اور بے ضمیر لوگوں کو سامنے لاکر انہیں سزادی جانی چاہیے۔
(اس انٹرویو کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)