کووڈ بحران کے بیچ جان اور نوکری گنواتے صحافیوں کی سننے والا کون ہے؟

کووڈانفیکشن کےخطرے کے بیچ بھی ملک بھر کےمیڈیااہلکار لگاتار کام کر رہے ہیں، لیکن میڈیااداروں کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ جوکھم اٹھاکر کام کررہے ان صحافیوں کو کسی طرح کا بیمہ یا اقتصادی تحفظ دینا تو دور، انہیں بناوجہ بتائے نوکری سے نکالا جا رہا ہے۔

کووڈانفیکشن کےخطرے کے بیچ بھی ملک بھر کےمیڈیااہلکار لگاتار کام کر رہے ہیں، لیکن میڈیااداروں کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ جوکھم اٹھاکر کام کررہے ان صحافیوں کو کسی طرح کا بیمہ یا اقتصادی تحفظ دینا تو دور، انہیں بناوجہ  بتائے نوکری سے نکالا جا رہا ہے۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: ملک میں کورونابحران کے بیچ بڑے سے لےکر چھوٹے لگ بھگ ہر طرح کے میڈیااداروں سے صحافیوں کو نکالے جانے کے معاملے لگاتار سامنے آئے ہیں۔کئی اخباروں نے سرکولیشن کم ہونے کا حوالہ دیا ہے، تو کچھ اداروں نے اشتہار کا پیسہ کم ہونے کی بات کہہ کر صحافیوں کو نکال دیا ہے۔

ایسے کئی اخبار ہیں، جن کے کچھ ایڈیشن بند کر دیےگئے ہیں، کئی میڈیااداروں میں صحافیوں کی تنخواہ  میں کٹوتی کی جا رہی ہے تو کچھ اداروں نے اسٹاف  کو بنا تنخواہ  چھٹیوں پر بھیج دیا ہے۔کچھ دنوں پہلے دی ہندو کے ممبئی بیورو سے لگ بھگ 20 صحافیوں سے استعفیٰ لیے جانے کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ اخبار کے کرناٹک اور تلنگانہ سمیت کئی ریاستوں کے بیورو سے بھی صحافیوں کو نوکری چھوڑنے کو کہا گیا تھا۔

گزشتہ تین مہینوں میں اکانومک ٹائمس کے مختلف بیورو میں چھٹنی کی گئی۔ ٹائمس آف انڈیا نے اپنے کئی ایڈیشن  بند کر دیے۔مہاراشٹر کے اسکال ٹائمس نے اپنے پرنٹ ایڈیشن کو بند کرکے پچاس سے زیادہ اسٹاف  کو نوکری سے نکال دیا۔ دی  ٹیلی گراف نے اپنے دو بیورو بند کر دیےاور لگ بھگ پچاس اسٹاف کو نوکری چھوڑنے کو کہہ دیا۔

ہندستان ٹائمس میڈیاگروپ نے بھی لگ بھگ 150اسٹاف کو نوکری سے نکال دیا ہے۔ وہیں دی کوئنٹ جیسے ڈیجیٹل میڈیاادارے نے اپنے کئی اسٹاف کو بنا تنخواہ کے چھٹی  پر بھیج دیا۔ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ جب صحافیوں کو اقتصادی اور سماجی طور پر زیادہ مضبوط کیے جانے کی ضرورت ہے، انہیں نوکریوں سے لگاتار نکالے جانے کے معاملے سامنے آ رہے ہیں، ان کی آمدنی کا ذریعہ  چھینا جا رہا ہے۔

لیکن  حال یہ ہے کہ میڈیااداروں سے لےکر سرکاروں تک کا رویہ ان کو لےکرلاتعلقی کا بنا ہوا ہے۔مرکزی حکومت نے کورونا واریرس کے طور پر کام کر رہے طبی اہلکاروں کے لیے پچاس لاکھ روپے کے بیمہ کور کا اعلان کیا ہے لیکن صحافیوں کو اس طرح کی سہولت نہیں دی گئی ہے جبکہ وہ بھی لگاتار ان واریرس کی طرح جوکھم بھرے ماحول میں کام کر رہے ہیں۔

ایک طرف ان کے سامنے کورونا سے متاثر ہونے کا خطرہ ہے تو دوسری طرف نوکری جانے کا۔ ان کے پاس نہ اقتصادی تحفظ ہے اور نہ ہی سماجی۔اگر کام کے دوران ایک صحافی کورونا سے جوجھتے ہوئے دم توڑ دیتا ہے تو اس کی فیملی کو سرکار سے کوئی مالی  مدد نہیں ملے گی لیکن اس کی فکرنہ ان میڈیااداروں کو ہیں، جہاں یہ صحافی  کام کرتے ہیں اور نہ ہی سرکار کو۔

دی  وائر سے بات کرتے ہوئے سینئر صحافی  راہل دیو اسی بات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہتے ہیں،‘لاک ڈاؤن کے دوران جب پورا ملک گھروں کے اندرسمٹا بیٹھا تھا، تب کچھ ایک پیشوں  سے جڑے لوگ تھے، جو جوکھم کے بیچ باہر نکل کر کام کر رہے تھے۔ صحافی  ان میں سے ایک تھے لیکن سرکار کی طرف سے ان کے لیے بالکل بےحسی کودیکھنے کو ملی۔’

وہ آگے کہتے ہیں،‘وزیر اعظم نے حالانکہ مارچ مہینے میں فرنٹ لائن ورکرس کے طور پرطبی اہلکاروں اور پولیس کے ساتھ ساتھ صحافیوں کا بھی ذکر کیا، لیکن جس طرح کا بیمہ کور طبی اہلکاروں کو دیا گیا، اس سے صحافیوں کو محروم رکھا گیا جبکہ جوکھم صحافیوں کے لیے بھی کم نہیں ہے۔’

دہلی میں دینک بھاسکر کے ترون سسودیا کی مبینہ خودکشی نے وبا کے دوران تناؤ کے بیچ کام کر رہے صحافیوں کی ذہنی کیفیت اور ان کے ڈپریشن  کو لےکر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔دینک بھاسکر میں بطور ہیلتھ رپورٹر کام کرنے والے ترون کی موت چھ جولائی کو ہوئی تھی۔ وہ کوروناسے متاثر تھے اور ان کا ایمس میں علاج چل رہا تھا۔

ایمس کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اسپتال کی عمارت کی چوتھی منزل سے کود کر خودکشی کی۔ حالانکہ ان کی خودکشی  کو لےکر شکوک و شبہات کابھی اظہارکیا جا رہا ہے۔ان کے بھائی دیپک نے دی وائر کو بتایا تھا کہ میڈیا ادارہ  ان کے بھائی کو ہراساں کر رہا تھا۔ ان کا کہنا تھا، ‘ترون پورے دن کام کرتے تھے، لیکن ان کی اسٹوری نہ لی جاتی اور نہ ہی چھاپی جاتی تھی۔ انہیں بائی لائن بھی نہیں دی جا رہی تھی۔’

کوروناکی وجہ سےاداروں کا کام اور ان کے اسٹاف  کے لیےرویہ بدلا ہے۔ اس دوران کئی معاملوں میں صحافیوں نے آگے آکر اپنے ڈپریشن  کی بات بھی قبول کی  ہے۔نیوز نیشن میں نوکری سے ہٹائے گئے صحافی راجو کمار کہتے ہیں،‘لاک ڈاؤن کے شروعاتی مرحلےمیں ہی ہماری 16 لوگوں کی انگریزی کی ڈیجیٹل ٹیم سے جبراً استعفیٰ لے لیا گیا، جس کے بعد سے تمام لوگ گھر پر بےروزگار بیٹھے ہیں، جن میں سے کچھ ڈپریشن سے جوجھ رہے ہیں۔’

ٹی وی چینل نیوز نیشن ملک کا پہلا ایسا میڈیا ادارہ تھا، جس نے لاک ڈاؤن کے شروعاتی مرحلےمیں ہی 16صحافیوں کو بنا وجہ  بتائے نوکری سے نکالا تھا۔اس کے علاوہ دی  ہندو، انڈین ایکسپریس، دی  ٹیلی گراف، راجستھان پتریکا، ہندستان ٹائمس گروپ، ٹائمس گروپ سے بھی کئی صحافیوں کو نکالے جانے کے معاملے سامنے آئے۔

راجو نے دی  وائر سے بات چیت میں بتایا کہ نیوز نیشن ملک کا ایسا پہلا میڈیاادارہ  تھا، جس نے لاک ڈاؤن کے دوران نوکریوں سے نہ نکالے جانے کی وزیراعظم مودی کی اپیل کے کچھ دنوں بعد ہی صحافیوں کو نوکری سے نکالنا شروع کر دیا تھا۔

(فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

وہ کہتے ہیں،‘میں نیوز نیشن کی انگریزی ڈیجیٹل ٹیم کا حصہ تھا۔ ہماری ٹیم میں کل پندرہ لوگ تھے۔ ہم لاک ڈاؤن کے دوران گھر سے ہی کام کر رہے تھے کہ 10 اپریل کی شام کو ہمارے پاس ایچ آرکی طرف سے ای میل آیا، جس میں کہا گیا کہ ہماری خدمات  فوری اثر سے ختم  کی جا رہی ہیں۔ اس کی  کوئی وجہ نہیں بتائی گئی اور ایک جھٹکے میں ہماری کمائی کے واحد ذریعے کو ہم سے چھین لیا گیا۔’

نوکری کے اس طرح چھوٹنے پر راجو کہتے ہیں،‘میں اس وقت  اپنی نجی زندگی میں بھی کافی پریشانیوں  سے جوجھ رہا تھا۔ اپریل میں ہی میری بیوی  کی ڈلیوری ہوئی تھی۔ یہ پری میچیور ڈلیوری تھی، جڑواں بچوں کی چھٹے مہینے میں ہی پیدائش  ہوئی تھی۔ اس کی وجہ سے انہیں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا تھا۔اس کا ایک دن کا خرچ تقریباً12000 روپے تھا، دو وینٹی لیٹر کا ایک دن کا خرچ 24000 روپے ہوا۔ میں نے کمپنی کو اس بارے میں مطلع بھی کیا، کہا کہ مجھے ایسے وقت  میں روزگار کی سخت ضرورت ہے،لیکن کمپنی نے بالکل بھی انسانیت نہ دکھاتے ہوئے مجھے نوکری سے نکال دیا۔’

راجو اس طرح ہوئی غیر متوقع چھٹنی کا شکار ہونے والے اکیلے صحافی  نہیں ہیں۔پچھلے مہینے ہندستان ٹائمس گروپ سے نکالے گئے سینئر کاپی ایڈیٹر چیتن کمار کہتے ہیں،‘ہمیں لاک ڈاؤن کے دوران گھر سے کام کرنے کو کہا گیا تھا۔ ایک مہینہ ایسے کام کرنے کے بعد ہمیں استعفیٰ دینے کو کہا گیا۔ وجہ  بتائی گئی کہ ادارہ کو اشتہارنہیں مل رہے ہیں۔ آمدنی  کم ہو گئی ہے، اس لیےانہوں نے ہماری آمدنی کے ذریعہ کو بند کر دیا۔’

ہندستان ٹائمس کے علاوہ کئی اداروں نے اپنےاسٹاف  کی چھٹنی کرتے وقت آمدنی گھٹنے یامالی  نقصان اٹھانے کو وجہ بتایا ہے۔

حالانکہ اس سلسلے میں سینئر صحافی  ارملیش بڑے میڈیااداروں کے گھاٹے کے دعوے کو لےکرتذبذب  میں ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ‘ملک بھر کےاداروں سے صحافیوں کو نکالا جا رہا ہے، چھوٹےاداروں کو چھوڑیے، بڑے بڑے ادارے چھٹنی میں سب سے آگے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ بڑے ادارے گھاٹے میں ہوں گے، ان کے پاس بے انتہا پیسہ ہے، ہاں اتنا ضرور ہے کہ ان کا منافع گھٹ گیا ہوگا۔’

انہوں نے آگے جوڑا،‘ابھی حال ہی میں مجھے پتہ چلا کہ ملک کا ایک بڑا میڈیاگروپ، جس کے ملک بھر میں3200 سے زیادہ اسٹاف  ہیں، وہ اپنے ایک تہائی اسٹاف کو نکالنے جا رہا ہے۔’راہل دیو کا بھی کچھ ایسا ہی کہنا تھا، ‘بدقسمتی یہ ہے کہ بڑے سے بڑے میڈیااداروں نے نوکریوں سے صحافیوں کو نکالنے میں سب سے زیادہ تیزی دکھائی ہے۔ لیکن اس میں ذمہ داری اکیلےاداروں کی نہیں بلکہ سرکار کی بھی ہے۔’

وہ آگے کہتے ہیں کہ میڈیااداروں کے رول  پر بھی سوال تو ہے ہی۔ ان کا کہنا ہے، ‘موجودہ وقت میں صحافیوں کے پاس کسی طرح کا تحفظ  نہیں ہے، نہ مالی اور نہ طبی۔چھوٹے بڑےادارے اپنی مالی حالت کو مستحکم رکھنے کےلیےصحافیوں کو نکال رہی ہیں، جبکہ اس چیلنجنگ وقت میں صحافی اپنی جان جوکھم میں ڈال کر رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ ان کے لیے بیمہ کی کوئی سہولت  نہیں ہے، جبکہ وہ لگاتار جوکھم کے بیچ کام کر رہے ہیں۔’

یعنی ایسے میں ملک میں صحافیوں کے مفاد اورتحفظ کے لیے قانون بنائے جانے کی ضرورت تو ہے۔ اس پر ارملیش کہتے ہیں،‘صرف قانون بنا دینا کسی مسئلے  کا حل نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے سب سے زیادہ قانون ہے لیکن سب سے زیادہ جرم بھی ہمارے یہاں ہوتا ہے۔ ڈنمارک اور فن لینڈ جیسےملکوں میں سب سے کم قانون ہیں لیکن وہاں جرم نہ کے برابر ہے۔ صحافیوں کے مفادکاتحفظ تبھی ہوگا، جب ان کو آزادانہ اور جمہوری  ڈھنگ سے کام کرنے دیا جائےگا۔’

وہ آگے کہتے ہیں،‘ایسا کوئی ادارہ  ہمارے ملک میں نہیں ہے، جو لاک ڈاؤن کے دوران نوکریوں سے نکالے گئے صحافیوں کی تعداد کے سہی اعدادوشمار پیش کرسکے لیکن کچھ لوگوں سے بات چیت کی بنیاد پر پتہ چلا ہے کہ صرف دہلی میں ہی کورونا کے اس بحرانی دور میں لگ بھگ 550صحافی بےروزگار ہوئے ہیں، ہو سکتا ہے کہ یہ تعدادزیادہ ہو۔ ایسے میں یہ تعداد پورے ملک میں ہزاروں میں ہوگی۔’

ایسے وقت میں بدقسمتی یہ ہے کہ صحافیوں کو اپنی آواز اٹھانے کے لیے ساتھ بھی بہ مشکل ہی نصیب ہو رہا ہے۔ صحافیوں کی موجودہ حالت  کو لےکر ملک کی میڈیاتنظیمیں  بھی سوال کھڑے کرنے میں پیچھے رہی ہیں۔ایسی تنظیموں اور اداروں کی خاموشی  کے سوال پرآئی آئی ایم سی کے سابق ڈائریکٹر جنرل پروفیسرکے جی سریش کہتے ہیں،‘سوال یہ ہے کہ ملک میں صحافیوں کے مفاد کا تحفظ کیسے ہو؟ ملک میں اس طرح کی کوئی تنظیم نہیں بچی ہے۔ جو ہیں، وہ خیموں میں بٹی ہیں، وہاں صحافیوں کے تحفظ کے نام پر بس پریس ریلیز جاری کرکے مذمت کر دی جاتی ہے۔’

وہ آگے کہتے ہیں، ‘پہلے ورکنگ جرنلسٹ ایکٹ اور ویج بورڈ صحافیوں کے لیے دو ستون  ہوا کرتے تھے، جو میڈیااہلکاروں کے سماجی  تحفظ کویقینی بناتے تھے لیکن آج کے وقت  میں ویج بورڈ کو ختم کر دیا گیا، ورکنگ جنلسٹ ایکٹ کو ضم کر دیا گیا ہے۔ ہماری حالت منریگا مزدوروں سے بھی خراب ہے، منریگا مزدوروں کے پاس کم سے کم سیکورٹی تو ہے لیکن صحافیوں کے پاس وہ بھی نہیں ہے۔’

سریش مانتے ہیں کہ نظریاتی تفاوت ایک وجہ ہے، جس کی وجہ سےصحافیوں کے مفادکی بات آنے پر بھی تمام میڈیااہلکار ہی ساتھ کھڑے نہیں ہو پاتے۔وہ کہتے ہیں،‘آج کے وقت میں میڈیااہلکاروں میں بہت پولرائزیشن  ہو گیا ہے۔ ہم نظریاتی  طورپر اتنے بٹ گئے ہیں کہ اپنے مدعوں کے لیے ساتھ آنے تک کو تیار نہیں ہے۔’

صحافیوں کی کٹتی تنخواہ اور جاتی نوکریوں کے بیچ ملک میں صحافیوں کے مفادکے لیے کام کر رہی تنظیم  نیشنل یونین آف جرنلسٹس (انڈیا)نے صحافیوں کو مالی تحفظ دیے جانے کی مانگ کرتے ہوئے وزیر اعظم  نریندر مودی کو چٹھی بھی لکھی ہے۔اس کےصدر راس بہاری کہتے ہیں،‘موجودہ وقت میں صحافیوں کی حالت بہت خراب ہے۔ بہ مشکل ہی ملک کا ایسا کوئی ادارہ ہے، جہاں صحافیوں کونوکریوں سے نہیں نکالا گیا ہو یا جن کی تنخواہ میں کٹوتی نہیں ہوئی ہو۔ اخبار لگاتار بند ہو رہے ہیں، بےشرمی کے ساتھ میڈیا ادارےصحافیوں کو باہر کا راستہ دکھا رہے ہیں، جس میں طے ضابطوں  پر کہیں عمل  نہیں ہو رہا ہے۔’

ان کا کہنا ہے کہ اس مسئلے پر سرکار کی سنجیدگی بھی شک کے دائرے میں ہے۔وہ بتاتے ہیں،‘ہم نے صحافیوں کو مالی تحفظ دینے کی مانگ کرتے ہوئے اپریل سے لےکر جون تک چار بار وزیراعظم مودی کو چٹھی لکھی، جن میں ہم نے صحافیوں کو مالی پیکیج دینےیا ایک مشت رقم دینے کی مانگ کی ہے۔ لیکن آج تک ایک بھی چٹھی کا جواب نہیں آیا۔ مطلب سرکار اس معاملے کوسنجیدگی  سے نہیں لے رہی۔’