اتوار کو دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے کہا تھا کہ کووڈ 19انفیکشن کے دوران دہلی کے سرکاری اور نجی اسپتال صرف دہلی کے باشندوں کاہی علاج کریں گے۔لفٹننٹ گورنر انل بیجل نے اسے پلٹتے ہوئے انتظامیہ کوہدایت دی ہے کہ وہ یقینی بنائے کہ رہائش کی بنیاد پر کسی بھی مریض کو علاج کے لیے منع نہ کیا جائے۔
نئی دہلی: وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے اتوار کواعلان کیا تھا کہ کو رونا وائرس انفیکشن کے دوران دہلی کے سرکاری اور نجی اسپتال صرف دہلی کے ہی لوگوں کا علاج کریں گے۔سوموار کو وزیر اعلیٰ کے اس فیصلے کو ایل جی انل بیجل نے پلٹ دیا ہے۔ ایل جی کےدفتر کی جانب سے انتطامیہ کو کہا گیا ہے کہ وہ یہ یقینی بنائیں کہ کسی بھی مریض کو اس بنیاد پر کہ وہ دہلی کا نہیں ہے، علاج کے لیے منع نہ کیا جائے۔
اس سے پہلے اتوار کو وزیر اعلیٰ کیجریوال نے ایک آن لائن پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ دہلی میں مرکزی حکومت کے تحت چلنے والےاسپتالوں کے لیے مریضوں پریہ پابندی نہیں ہوگی اور اگر دوسری ریاستوں کے لوگ کچھ مخصوص آپریشنوں کے لیے دہلی آتے ہیں تو انہیں نجی اسپتالوں میں علاج کرانا ہوگا۔
دہلی میں ایل این جےپی اسپتال، جی ٹی بی اسپتال اور راجیو گاندھی سپر اسپیشلٹی اسپتال سمیت لگ بھگ 40 سرکاری اسپتال ہیں۔ دہلی میں مرکز کے تحت چلنے والے بڑے اسپتالوں میں آر ایم ایل، ایمس اور صفدرجنگ اسپتال شامل ہیں۔کیجریوال نے بتایا تھا کہ دہلی سرکار کے اسپتالوں میں لگ بھگ 10 ہزار بستر ہیں اور لگ بھگ اتنے ہی بستر دہلی واقع مرکز کے تحت چلنے والے اسپتالوں میں ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس سے ایک توازن بنےگا اور دہلی اور دوسری ریاستوں کے لوگوں کے مفادکا بھی تحفظ ہوگا۔
اس کے بعد وزیر اعلیٰ دفتر کی جانب سے
ایک فہرست بھی جاری کی گئی تھی، جس میں بتایا گیا تھا کہ اگر دہلی میں رہنے والا کوئی شخص کسی ریزرو اسپتال میں جاتا ہے، تو ان کے پاس موجود کچھ دستاویزوں کے بنیاد پر ہی علاج کی سہولت ملے گی۔ان میں مریضوں کو دہلی کے پتے پر بنا ووٹر آئی ڈی کارڈ، بینک یا پوسٹ آفس کی پاس بک، راشن کارڈ، پاسپورٹ، ڈرائیونگ لائسنس، انکم ٹیکس رٹرن، مریض یا اس کے والدین یامیاں بیوی کے نام پر ٹیلی فون یا بجلی کا بل، دہلی کے پتے پر ملی ڈاک محکمے کی کوئی ڈاک یا 7 جون 2020 سے پہلے جاری کیا گیا آدھار کارڈ دکھانا ہوگا۔
نابالغوں کو اپنے سرپرست یا والدین کے انہی دستاویزوں کو دکھاکر علاج دینے کی بات کہی گئی تھی۔وزیر اعلیٰ نے پچھلے ہفتے شہر کے بارڈرس کو بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اس مدعے پر لوگوں سے رائے مانگی تھی۔ تقریباً ساڑھے سات لاکھ لوگوں نے اپنے مشورے بھیجے اور 90فیصدی سے زیادہ کا کہنا تھا کہ جب تک کو رونا وبا پھیلی ہوئی ہے، تب تک دہلی کے اسپتال دہلی والوں کے لیے ریزرو ہونے چاہیے۔
کیجریوال نے کہا، ‘90 فیصد سے زیادہ لوگ چاہتے ہیں کہ کو رونا وائرس وبا کے دوران دہلی کے اسپتال صرف قومی راجدھانی سے تعلق رکھنے والے مریضوں کا علاج کریں۔ اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ دہلی واقع سرکاری اور نجی اسپتال صرف دہلی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا ہی علاج کریں گے۔’
ان کا یہ بھی کہنا تھا، ‘کو رونا پھیلنے سے پہلے تک کسی بھی وقت میں دہلی کے اسپتالوں میں 60 سے 70 فیصدمریض دوسری ریاستوں کے ہوتے تھے۔ لیکن اس وقت دہلی خود بہت بڑی پریشانی میں ہے۔ کورونا کے معاملے تیزی سے بڑھ رہے ہیں جس سے نپٹنے کے لیے سرکار بیڈس کا انتظام کر رہی ہے۔ ایسی صورت میں دہلی کے اسپتالوں کو اگر پورے ملک کے لیے کھول دیا گیا تو دہلی کے لوگوں کو کو رونا ہوا تو وہ کہاں جا ئیں گے؟
وزیر اعلیٰ کے اس اعلان سے ایک دن پہلے سنیچر کو عآپ سرکار کے ذریعےبنائی گئی پانچ رکنی کمیٹی نے سفارش کی تھی کہ کووڈ 19 بحران کے مد نظر شہر کے ہیلتھ انفرااسٹرکچر کا استعمال صرف دہلی والوں کے علاج کے لیے ہونا چاہیے۔
وزیر اعلیٰ کیجریوال نے اتوار کو کہا، ‘دہلی کےہیلتھ انفرااسٹرکچر کو اس وقت کو رونا وائرس بحران سے نپٹنے کی ضرورت ہے۔’
کیجریوال کے اس فیصلے کی ہر طرف سے تنقید ہوئی تھی۔ سابق وزیر پی چدمبرم نے سوال اٹھایا تھا۔ انہوں نے کہا تھا، کیجریوال کہتے ہیں کہ دہلی کے اسپتال دہلی والوں کے لیے ہیں۔ کیا وہ ہمیں بتائیں گے کہ دہلی والا کون ہے؟ اگر میں دہلی میں رہتا ہوں یا کام کرتا ہوں، تو کیا میں ایک دہلی والا ہوں؟
انہوں نے ایک ٹوئٹ میں لکھا، ‘مجھے لگا کہ اگر کسی شخص نے جن آروگیہ یوجنا/آیوشمان بھارت میں نام درج کیا ہے، تو وہ ہندوستان میں کہیں بھی، کسی بھی اسپتال، پبلک یا نجی اسپتال میں علاج کرا سکتا ہے؟ کیا کیجریوال نے اعلان کرنے سے پہلے قانونی رائے لی؟’ بی ایس پی سپریمو مایاوتی نے بھی کیجریوال کے اس فیصلے کو غلط بتایا تھا۔ دہلی میں ہی اپوزیشن نے بھی وزیر اعلیٰ کے اس فیصلے پر مثبت ردعمل نہیں دیا تھا۔
دہلی کانگریس کے صدرانل چودھری نے وزیر اعلیٰ سے سوال پوچھتے ہوئے کہا کہ وہ پہلے بتا دیں کہ دہلی میں باہر والا ہے کون۔
ایک نیوز چینل کو دیے بیان میں ان کا کہنا تھا، ‘وہ مہاجر جنہوں نے اس شہر کو چنا، جو یہاں کام کرتے تھے، جن کے پاس اپنے گاؤں کے پتے کے کاغذ ہیں، جو اس آفت میں اپنے گھروں کی طرف نکل گئے یا جو بچے ہوئے ہیں، اگر وہ متاثر ہوئے تو کہاں جا ئیں گے؟’
وہیں دہلی بی جے پی کےرہنماؤں نے بھی وزیر اعلیٰ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ دہلی بی جے پی کے صدرآدرش کمار گپتا نے کہا، انتخاب سے پہلے انسان سے انسان کا ہو بھائی چارہ کہنے والے وزیر اعلیٰ نے ساری انسانیت کو ہی شرمسار کر دیا۔ لاکھوں لوگ دوسری ریاست میں روزگار کے لیے جاتے ہیں۔ دہلی میں بھی ہیں۔ ان میں سے کسی کو انفیکشن ہوا تو وہ کہاں جائےگا کیجریوال جی؟ اس کو اگر کچھ ہوا تو ذمہ داری کس کی ہوگی ؟
اسپتالوں کے مسئلے پر دہلی ہائی کورٹ نے دہلی سرکار سے مانگا جواب
اسپتالوں کو لےکر ہو رہی کھینچ تان کے بیچ سوموار کو دہلی ہائی کورٹ نے ایک عرضی کے جواب میں دہلی سرکار سے جواب طلب کیا ہے۔
دینک بھاسکر کے مطابق، عدالت نے سوموار کو ایک عرضی پرشنوائی کی، جس میں کہا گیا تھا کہ دہلی کے اسپتال کو رونا متاثرین کو بھرتی کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔
عرضی میں اپیل کی گئی کہ عدالت دہلی سرکار کوہدایت دے کہ وہ سبھی کو رونا متاثرین کے نجی اور سرکاری اسپتالوں میں علاج کو یقینی بنائے۔ ہائی کورٹ نے اس معاملے میں دہلی سرکار سے جواب مانگا ہے۔عرضی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دہلی کے سبھی سرکاری اسپتال صرف کو روناسے شدید طور پرمتاثرہ لوگوں کو ہی بھرتی کر رہے ہیں۔ نجی اسپتالوں کی فیس اتنی زیادہ ہے کہ عوام اس کو برداشت نہیں کرسکتی ہے۔