
دہلی کی عدالتوں نے 2020 کے فسادات سے متعلق کم از کم 17 معاملوں میں ملزمین کو ‘من گھڑت’ شواہد،’فرضی’ گواہ اور ‘فرضی معاملوں’ کا حوالہ دیتے ہوئے بری کر دیا ہے۔ ججوں نے دہلی پولیس کی تحقیقات پر سنگین سوال اٹھائے ہیں۔

سیکورٹی اہلکار 26 فروری 2020 کو دنگوں سے متاثرشمال-مشرقی دہلی کے بھاگیرتھی وہار علاقے سے گزرتے ہوئے۔ (تصویر: پی ٹی آئی/فائل)
نئی دہلی: دہلی کی عدالتوں نے ‘من گھڑت’ شواہد، ‘فرضی’ گواہوں اور ‘فرضی’مقدمات(تھوپے گئے معاملوں) کا حوالہ دیتے ہوئے 2020 کے فسادات سے متعلق کم از کم 17 مقدمات میں ملزمان کو بری کر دیا ہے ۔ یہ انکشاف انڈین ایکسپریس کی ایک تحقیقات میں ہوا ہے۔
اخبار نے بری کیے گئے 93 احکامات کا جائزہ لیا، جس میں ایک واضح پیٹرن نظر آیاکہ ججوں نے بار بار دہلی پولیس کی تحقیقات پر سنگین سوال اٹھائے۔ اب تک جن 116 مقدمات کے فیصلے ہو چکے ہیں، ان میں سے 97 مقدمات میں ملزمان بری ہو چکے ہیں۔
کم از کم 12 احکامات میں عدالتوں نے پایا کہ پولیس نے ‘مصنوعی’ گواہ پیش کیایا ‘من گھڑت’ ثبوت سامنے رکھے۔ دو مقدمات میں گواہوں نے عدالت کو بتایا کہ پولیس افسران نے ان سے بیان لکھوایا تھا۔
گزشتہ ماہ ایڈیشنل سیشن جج پروین سنگھ نے ایک فیصلے میں پولیس کی تفتیش پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا،’تفتیشی افسر نے بڑے پیمانے پر شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی ہے۔ اس طرح کے معاملات قانون اور تفتیشی عمل میں عوام کے اعتماد کو ختم کرتے ہیں۔’
واضح ہو کہ سال 2020 میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف مظاہروں کے دوران دارالحکومت دہلی میں فسادات پھوٹ پڑے تھے، جس میں کم از کم 53 افراد ہلاک اور 700 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
انڈین ایکسپریس کی تحقیقات میں کئی ایسے احکامات سامنے آئے جن میں عدالت نے استغاثہ کے کیس کو مکمل طور پر مسترد کر دیا۔ ایک جج نے کہا، ‘ایک اہم گواہ کی موجودگی شک کے دائرے میں ہے اور اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ شخص فرضی ہو سکتا ہے۔’
اسی طرح کے دو معاملات میں عدالت نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پولیس کو معلوم تھا کہ ان کا کیس ‘من گھڑت’ تھا کیونکہ انیوں نے ٹیسٹ آئیڈینٹی فکیشن پریڈ (ٹی آئی پی) کروانا ضروری نہیں سمجھا۔
عدالتوں کے ان سخت تبصروں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دہلی کے سب سے بھیانک فرقہ وارانہ تشدد کی تحقیقات میں سنگین خامیاں ہیں۔