فارسی زبان میں اس کو سنیما مشین کہتے ہیں۔ کار پارکنگ میں ہی ایک پردہ لگا ہوتا ہے اور ناظرین کو فلم کی آواز ان کی کار میں موجود ایف ایم ریڈیو اسٹیشن کے ذریعے سنائی دیتی ہے۔ 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد ڈرائیو ان تھیٹر کی سہولت ایران میں بند کر دی گئی تھی۔
پارکنگ میں اپنی بیوی کے ساتھ فلم دیکھنے آئے 36 سالہ بہروز نے کہا، ‘یہ بہت ہی دلکش تھا، کم سے کم میری عمر کے لوگوں کے لیے یہ پہلی بار ہو رہا ہے۔’انہوں نے کہا، ‘ایمانداری سے کہوں تو اکثر لوگ شوق اور جوش کی وجہ سے یہاں ہیں، فلم اپنے آپ میں کوئی معنی نہیں رکھتی۔ میرے لیے یہ معنی نہیں رکھتا کہ اس فلم کو کس نے بنایا ہے یا یہ کس بارے میں ہے۔’
یہاں فلم ‘ایکسڈس’(ہجرت) دکھائی گئی جس کو انقلابی گارڈ سےمتعلق کمپنی نے بنایاہے۔ فلمساز ابراہیم نے فلم کے موضوع کو کپاس کسانوں پرمرکوزکیا ہے، جن کی فصل مقامی باندھ سے سمندر کا کھارا پانی آنے سے خراب ہو جاتی ہے۔کسانوں کی قیادت کرنے والا ہیرو سرکار کے خلاف مظاہرہ کرنے کے لیے اپنا ٹریکٹر لےکر تہران آ جاتا ہے۔
سرکار حمایتی تہران ٹائمس کی رپورٹ کے مطابق، اس فلم میں مقامی انتظامیہ کے خلاف ایک کسان کے احتجاج کو دکھایا گیا ہے، جو علامتی طور پر حسن روحانی سرکار جیسی ہے۔فلم دیکھنے آئیں عاطفہ سہیلی نے گھر سے باہر تفریح کے انتظام پر خوشی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا، ‘میں یہاں ہاتھ صاف کرکے بیٹھی ہوں۔ اگر میں کچھ کھانا چاہتی ہوں یا تھوڑا آرام کرنا چاہتی ہیں تو اب مجھے دوسرے لوگوں سے سماجی دوری بنانے کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔’