جو حکومت ہمیں خود کا خیال رکھنے کی صلاح بھر دے سکتی ہے، وہ ہمیں اس وباسے کتنا بچا سکتی ہے؟
تنقید ہمیں وبا سے بچائےگی، اطاعت نہیں۔
کورونا وائرس کا سامنا کرنے کے لئے ہمیں ایک جمہور ہونا چاہیے۔ یہ کہامدھو تریہن نے جن کے تجربے اور سمجھداری پر شک کرنے کی وجہ نہیں۔ لیکن یکجہتی کی یہ نیک صلاح دینے کے پہلے ان کو ضروری لگا کہ وہ ارندھتی رائے پر طنز کریں اورکہیں کہ رائے سے معافی مانگتے ہوئے وہ کہنا چاہتی ہیں کہ ابھی ہمیں ایک کی جمہوریت کی نہیں، ایک جمہوریت ہونے کی ضرورت ہے۔
یکجہتی کی صلاح کسی ایک پر پھبتی کستے ہوئے اگر دی جائے، وہ بھی اس پر جوخودمختار ریاست کے مقابلے اکیلے شہری کی وکالت کرنے کے لئے بدنام ہے تو اس صلاح میں کتنی نیک نیتی ہے؟دوسرے، ریاست کے اشارے پر بغیر سوچے سمجھے چل پڑنے میں کتنی عقلمندی ہے؟ وہ بھی اس ریاست کے جس کا آج تک کا ہر قدم جمہوریت میں تقسیم اور عدم تحفظ ہی پیداکرتا رہا ہے؟
اسرائیل کے قلمکار یووال ہراری پر اس لئے حملہ ہو رہا ہے کہ انہوں نےالزام لگایا ہے کہ بنجامن نیتانیاہو کورونا ڈکٹیٹرشپ لادنے کی کوشش کر رہے ہیں۔کورونا کے بہانے ایک ہنگامی صورتحال پیدا کرکے نیتانیاہو اسرائیل کے سارےجمہوری اداروں کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔ ہراری کی تنقید کی جا رہی ہے کہ یہ وقت جمہوریت کا سوال اٹھانے کا نہیں، حکومت کا ہاتھ مضبوط کرنے کا ہے۔
لیکن جیسا امرتیہ سین نے اپنے مطالعے میں کافی پہلے ہی قائم کر دیا ہے کہ جتنا زیادہ کھلا پن اور جمہوریت ہوگی، وبا کو اتنا ہی روکا جا سکےگا۔اگر چین میں کھلا پن ہوتا تو ڈاکٹر لی وین لیانگ کی وارننگ کو جنوری میں ہی سن لیا جاتا۔ ایسا کرنا تو دور چینی افسروں نے وین لیانگ پر افواہ پھیلانے کا الزام لگایا اور ان کی سخت تنقید کی گئی۔
بیچارے وین لیانگ خود اس وائرس کے شکار ہوئے اور فروری میں ان کی موت ہوگئی۔ اب جاکر چین کی حکومت نے اپنی غلطی مانی ہے اور وین لیانگ کی فیملی سے معافی مانگی ہے۔لیکن حکومت بیدار ہوتی یا سچائی کو قبول کرتی تب تک کافی دیر ہو چکی تھی۔سینکڑوں موتیں ہو چکی تھیں۔ چین کی حکومت نے اس کے بعد اس کو پھیلنے سے روکنے کےلئے جو قدم اٹھائے ان کی تعریف ہو رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ آخر اب نئے انفیکشن کی خبر نہیں ہے۔
لیکن آخر اس حکومت پر کیسے بھروسہ کریں جو دو مہینہ پہلے سچ کو چھپا رہی تھی؟ چین کی حکومت اب یہ بتا رہی ہے کہ حالات معمول پر آرہے ہیں لیکن یہ خبر بھی آرہی ہے کہ حالات کے نارمل ہونے کے ثبوت جھوٹے ہیں۔
چین کی حکومت کا بھروسہ نہیں ہے، اس لئے اس سے لگاتار سوال کرنا ہی پڑےگا۔سوال کرنے کا مطلب حکومت کو کمزور کرنا نہیں ہے۔
لیکن یہ سوال چین جیسے بند ملک کا ہی نہیں ہے۔ امریکہ، جو دنیا کا سب سےکھلا ملک ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ایسے صدر کا سامنا کر رہا ہے جس نے پہلے کوروناکو بکواس بتانے کی کوشش کی اور اب بدحواسی میں چاروں طرف سے لوگوں کو اپنے یہاں آنے سے روکنے کا قدم اٹھاکر ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ امریکہ کو اس وباسے بچا لےگا۔
امریکہ کے ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کہ عوامی صحت نظام کو تباہ کرنے کے بعد اس وباسے بچانے کی بات کرنا امریکہ کے ساتھ بھدا مذاق ہے۔ہرکوئی یہ کہہ رہا ہے کہ کورونا وائرس جیسی عالمی وبا کاسامنا عالمی-یکجہتی کے سہارے ہی کیا جا سکتا ہے۔ سرحدوں کو بند کر دینے سے شاید آپ اس وائرس سے بچ نہیں سکتے۔
اگر آپ چین سے آنے والوں پر حملہ کر رہے ہوں، یا کورونا کو چینی وائرس کہہ رہے ہوں، اگر اپنے ملک کے شمال مشرق کے لوگوں سے چینی ناک-نقشے کی وجہ سے آپ کو ڈرلگ رہا ہو تو یہ یکجہتی کی بات صرف ایک نعرہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس-وزیر اعظم کاملک کے نام خطاب اور زمینی حقائق
یکجہتی اور اقتدار کی اطاعت میں کیا رشتہ ہے؟ اقتدار جو کہے اس کو مان لینےسے کیا آپ زیادہ محفوظ ہوںگے یا لگاتار اس سے سوال کرتے رہکر؟جو حکومت ہمیں خود کا خیال رکھنے کی صلاح بھر دے سکتی ہے، وہ ہمیں اس وباسے کتنا بچا سکتی ہے؟مثلاً، حکومتوں سے پوچھنا ہی ہوگا کہ اگر ہمارے یہاں اس وبا کا پھیلاؤ کتناہے۔ یہ تبھی ہو سکتا ہے جب اس کے لئے تفتیش بھی وسیع ہو اور تفتیش کی تعداد بھی زیادہ ہو۔
اس لئے جنوبی کوریا باقی ممالک کے مقابلے بہتر ہے کیونکہ وہ تیزی سے اورزیادہ سے زیادہ جانچکر رہا ہے۔ اگر آپ کی حکومت اس کا انتظام نہیں کر پا رہی اورآپ کو احتیاط برتنے کا مشورہ ہی دے رہی تو آپ کو اسے پابند کرنا ہی پڑےگا۔کورونا وائرس سازش نہیں ہے۔ نہ تو امریکہ کی نہ چین کی، جیسا ایک مہینہ پہلے تک کئی دوست سمجھ اور سمجھا رہے تھے۔ یہ کسی جرثومہ جنگ کا آغاز نہیں ہے۔
وبا کے ماہر خبردار کر رہے ہیں کہ یہ ایک نئی وبا کی صرف شروعات بھر ہوسکتی ہے۔ چھوٹی چیچک کا خاتمہ کرنے میں بڑا کردار نبھانے والے لیری برلئینٹ کاکہنا ہے کہ اس کے نئے پن کو ہمیشہ دھیان میں رکھنا چاہیے۔اس کا کوئی توڑ ابھی نہیں نکلا ہے لیکن وہ مطمئن ہیں کہ کچھ ہی مہینوں میں وہ ضرور کھوج لیا جائےگا۔ لیکن جب تک یہ ہو، ممالک اور سماجوں کو زیادہ سےزیادہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔
لیکن سماج کوئی خودکار اکائی نہیں ہے۔ ریاست اور حکومت کے بغیر اس طرح کی وبا کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہے۔لیکن اگر حکومت صرف واعظ کا کردار اپنا لے اور آپ کو آپ کے حال پر چھوڑ دےتو آپ کو اس کی تنقید کرنی ہی ہوگی۔ساتھ ہی ہمیں اپنے آپ سے بھی سوال کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا سماج جو دانشوروں اور ماہرین کی کھلی اڑاتا ہو، وہ کتنا محفوظ سماج ہے؟
جو تاریخ کے قصےمیں ماہرین کی ریسرچ کی جگہ من پسند قصہ کو برتری دیں وہ کورونا کے معاملے میں لیری برلئینٹ کی بات بھی شاید ہی سنیں۔جو یہ مانے کہ سارے ایجادات قدیم دور میں ہی ہندوستان میں ہو چکے ہوں، وہ کیسے اس وبا کے لئے نئی ریسرچ کی ضرورت محسوسکر سکتے ہیں اورکیا اثر و رسوخ والوں سے بھی اس کا مطالبہ کرسکتے ہیں؟
وہ حکومت جو سائنسی ریسرچ سے پیسہ کھینچکر ہتھیار خریدنے پر لگا دے، وہ آپ کو کتنا محفوظ رکھ سکتی ہے؟کیا اس کی دوا بھی باہر ہی کسی ملک میں تلاش کی جائے اور ہم صرف اس کے خریداربنکر رہ جائیں؟ کیا اپنے ملک پر فخر کرنے کا یہی مطلب ہے؟
یہ بھی کہ وہ رہنما جو ہر روز سماج کو باٹنے کے لئے کبھی بامحاورہ زبان کا استعمال کرے اور کبھی اس کی آڑ کی ضرورت بھی محسوس نہ کرے، وہ کیسے اس آفت کےوقت ملک کو متحد کر سکےگا؟سماج میں یکجہتی اگر وبا کا ڈر دکھاکر ہی قائم کیا جا سکے، تو اس میں درارپڑنے میں کتنی دیر لگےگی؟
ہندوستان میں کورونا کا مقابلہ کرنے کے لئے اگر ساجھاپن چاہیے تو بنایکساں شہریت کی تحریک کی بات کے اور بنا اس سے جوجھے وہ حاصل نہیں کیا جا سکتا۔وہ جو 3 مہینے سے خود کو مشتبہ شہری بنائے جانے کی سازش کے خلاف سڑک کنارےاپنی مخالفت کے اظہار کو بیٹھے ہیں، وہ آج پوچھ سکتے ہیں کہ اگر ان کو نہ تو حکومت سن رہی ہے اور نہ ان کا پڑوسی سماج تو وہ ایک ہی جمہوریت کے ممبر کیسے ہیں؟
اگر تشدد کے دوران وہ ہاسپٹل میں بے عزتی جھیلیں، تو پھر کورونا کے وقت وہ اسی ہاسپٹل میں کیسے جائیں؟یہ سارے سوال کورونا کے وقت ہی اٹھیںگے۔ ان کے لئے اور کسی وقت کا انتظارنہیں کیا جا سکتا۔
(مضمون نگار دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔ )