قومی سطح پر ایک طرف کانگریس موجودہ ہندوتوا سیاست کے خلاف خم ٹھونک کر میدان میں لڑنے کادعویٰ کرتی ہے، وہیں دوسری طرف مدھیہ پردیش میں اس کےسینئر لیڈرکمل ناتھ ہندوتوا کے کٹر اور فرقہ پرست چہروں کی آرتی اتارتےاوربھرےاسٹیج پر ان کی عزت افزائی کرتےنظر آ تے ہیں۔
چھندواڑہ میں ہنومنت کتھا کے اسٹیج پرکمل ناتھ، ان کے بیٹے لوک سبھا ایم پی نکل ناتھ اور پنڈت دھیریندر کرشن شاستری۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر)
راہل گاندھی ملک میں ‘محبت کی دکان’ کھولنا چاہتے ہیں، لیکن مدھیہ پردیش کانگریس کے صدر کمل ناتھ ہندوستان کو ‘ہندو راشٹر’ قرار دے رہےہیں اور شدت پسند فرقہ پرست چہروں کے قدموں میں بیٹھ کر ان کی شان میں قصیدہ خوانی کررہے ہیں، حتیٰ کہ
خود ان کی آرتی بھی اتارتےنظر آ رہے ہیں۔
اس طرح مرکز اور مدھیہ پردیش میں کانگریس کے دو چہرے نظر آ تے ہیں۔مرکز میں کانگریس سیکولرازم کی وکالت کرتی ہے اور موجودہ مسلم مخالف ہندوتوا سیاست کے خلاف خم ٹھونک کرلڑنے کادعویٰ کرتی ہے، وہیں دوسری طرف دہلی سے تھوڑے ہی فاصلے پر واقع مدھیہ پردیش میں وہ اپنے سینئر لیڈر کمل ناتھ کی قیادت میں ہندوتوا کےکٹر اورفرقہ پرست چہروں کی بھرے اسٹیج پر عزت افزائی کرتی ہے۔
اس کی تازہ مثال مدھیہ پردیش کے چھندواڑہ ضلع میں دیکھنے کو ملی۔ خواتین کو ‘خالی/رجسٹرڈ پلاٹ’ بتانے والے ‘ہندو راشٹرا’ کے پرجوش حامی- جو تبدیلی مذہب کے ذریعے مسلمانوں کی ‘گھر واپسی’ کے برانڈ ایمبیسیڈر بن چکے ہیں، مسلمانوں کی املاک پر بلڈوز چلانے کی وکالت کرتے رہے ہیں اور ‘
لو جہاد‘ کا نعرہ دے کر ہندوؤں سے بیدا ر ہونے کی اپیل کرتے آ رہے ہیں- باگیشور دھام کے پنڈت دھیریندر کرشن شاستری کتھا واچن کے لیےچھندواڑہ پہنچے تو اپنے آبائی ضلع میں کمل ناتھ اور ان کے ایم پی بیٹے نکل ناتھ نے نہ صرف ان کی آرتی اتاری، بلکہ ان کی شان میں قصیدہ خوانی بھی کی۔
دھیریندر شاستری کے فرقہ وارانہ ماضی سے آنکھیں پھیرتے ہوئے کمل ناتھ یہ کہتے ہوئے نظر آئے،’ہندوستان کی سب سے بڑی طاقت روحانیت ہے اور مہاراج جی اس روحانی طاقت کی علامت ہیں۔’
اس سے پہلے بھی کمل ناتھ اور دیگر کانگریسی لیڈر
دھریندر شاستری کے قدموں میں بیٹھے نظر آ چکے ہیں۔
پہلے
بجرنگ سینا اور اب دھیریندر کرشن شاستری، جنہیں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی راہ پر چلتے ہوئے ‘ہندو خطرے میں’ نظر آتا ہےاور ایک بار نہیں بار بار بھرے اسٹیج سےایک مخصوص مذہب کے خلاف زہر فشانی کرچکے ہیں، کمل ناتھ کی آنکھوں کا نور بن گئے ہیں۔
جب گزشتہ ماہ جون میں کمل ناتھ کی موجودگی میں بجرنگ سینا کانگریس میں ضم ہوئی تو کانگریس لیڈروں نے دعویٰ کیا کہ سینا کے عہدیداروں کا دل بدل گیا ہے، ان کی قلب ماہیت ہوچکی ہے اور انہوں نے کانگریس کےنظریے کو اپنالیا ہے، لیکن سیناکے قومی صدر رنویر پٹیریا نے دی وائر سے
بات چیت میں کہا تھا کہ وہ ‘ہندو راشٹرا’ کے اپنے مطالبے پر قائم ہیں اور کانگریس نے یقین دلایا ہےکہ اگر وہ مرکز میں حکومت بناتی ہے تو ہندوستان کو ‘ہندو راشٹر’ بنانے کی کوشش کی جائے گی۔
تب کانگریسی اس بیان سے کنارہ کشی کرتی ہوئی نظر آ رہی تھی، لیکن اب ‘ہندو راشٹرا’ کے حامی ایک اور چہرے سے کانگریس کی قریبی کے بعد کیا ایسا کہہ سکتے ہیں کہ بجرنگ سینا کا تونہیں، کمل ناتھ اور کانگریس کی قلب ماہیت ضرور ہوگئی ہےاور اقتدار کی سیاست کے لیےاسے سنگھ کے نظریے کو بھی اپنانے سے گریز نہیں ہے؟
کانگریس کے قریبی سمجھے جانے والے آچاریہ پرمود کرشنن کا کمل ناتھ کے اقدام کی تنقید کرتے ہوئے سوموار کو کیا گیا ٹوئٹ تو کچھ ایسا ہی اشارہ کرتا ہے۔
انہوں نے لکھا ہے،’ مسلمانوں کے اوپر بلڈوزر چڑھانے اور ’ہندو راشٹرا‘ کے آر ایس ایس کے ایجنڈے کی کھلے عام وکالت کرکے ’آئین‘ کی دھجیاں اڑانے والےبی جے پی کے اسٹار پرچارک کی آرتی اتارنا کانگریس کےسینئر لیڈروں کو زیب نہیں دیتا۔’
کمل ناتھ اور مدھیہ پردیش کے دیگر کانگریسی لیڈروں کے بیانات بھی مذکورہ حقائق سے میل کھاتے ہیں۔
بجرنگ سینا کے انضمام کے وقت کانگریس کے ایک ترجمان نے دی وائر کو بتایا تھا، ہندوستان ہندو راشٹرہے کیونکہ یہاں 80-82 فیصد ہندو رہتے ہیں۔اب ریاستی صدر کمل ناتھ نے بھی اسی بات کو دہرایا ہے۔ جب ان سے دھیریندر شاستری کے ‘ہندو راشٹرا’ کے مطالبے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا،’انہوں نے چھندواڑہ میں ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا،سب کےاپنے خیالات ہوتے ہیں جب لوگ ان سے پوچھتے ہیں… آج 82 فیصدہمارے ملک میں ہندو ہیں، تو یہ کون سا راشٹر ہے؟
اس طرح کا بیان دینے کے بعد بھی کمل ناتھ ‘سیکولر’ ہونے کی بات کہنے لگتے ہیں، لیکن کیاآئین میں ہندوستان کو ‘ہندو اکثریت’ ہونے کی وجہ سے ‘ہندو راشٹر’ کہا گیا ہے؟ اور کیا ایک کٹر فرقہ پرست شخص صرف آپ کے سامنے فرقہ پرستی کی باتیں نہ کریں تو وہ ‘سیکولر’ بن جاتا ہے ؟
اس سے پہلے، جب سپریم کورٹ نے ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے حق میں فیصلہ دیا تھا، تب بھی مدھیہ پردیش کانگریس کمیٹی کا دفتر
بھگوا رنگ میں رنگ گیا تھا۔ کئی مواقع پر کانگریس لیڈر دی وائر سے بات چیت میں فخر کے ساتھ کہہ چکے ہیں کہ ‘رام مندر کی تعمیر کا کریڈٹ ہمیں جاتا ہے کیونکہ یہ راجیو گاندھی ہی تھے جنہوں نے رام مندر کے دروازے کھلوائے تھے’۔
یہاں وہ بھول جاتے ہیں کہ اس کے بعد ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد میں کتنےلوگوں کے گھر ماتم کدے میں تبدیل ہوگئے تھے۔
تاہم، آچاریہ پرمود کرشنن نے کانگریس کے سینئر رہنماؤں پر طنز کرتے ہوئے لکھا، ‘آج (مہاتما) گاندھی کی روح رو رہی ہو گی اور پنڈت نہرو اور بھگت سنگھ تڑپ رہے ہوں گے، لیکن سیکولرازم کے علمبردار جئےرام رمیش،دگوجئے سنگھ اور ( کانگریس صدر) ملیکارجن کھڑگے سب خاموش ہیں۔’
انہوں نے ٹوئٹ میں’محبت کی دکان’ کھولنے والےراہل گاندھی اور کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی کو بھی ٹیگ کیا، لیکن دونوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔اور ایسا پہلی بار نہیں ہے کہ مرکز میں سیکولرازم ، آئین اور مہاتماگاندھی کے نظریات کا واسطہ دینے والی کانگریس اور اس کی مرکزی قیادت مدھیہ پردیش میں ان باتوں کی خلاف ورزیوں پر خاموشی اختیارکر لیتی ہے۔
گزشتہ دنوں انتہائی فرقہ پرست اور ‘گوڈسے نواز’ بجرنگ سینا کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔
اس سے پہلے جب کمل ناتھ مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ تھے تو انہوں نے گاندھی کے قاتل ‘ناتھورام گوڈسے’ کے مندر کی بنیاد رکھنے والے
بابولال چورسیا کو پارٹی میں شامل کیا تھا، اس وقت بھی مرکزی قیادت خاموش رہی تھی۔
شاید اس خاموشی کی وجہ اقتدار سے وہ لمبی جدائی ہے، جس نے گزشتہ اسمبلی انتخابات میں بھی راہل گاندھی کو ‘شیو بھکت’ بتاتے ہوئےصوبے کوہورڈنگز/پوسٹروں سے ڈھانپ دیا تھا اور دگوجئے سنگھ کو کمپیوٹر بابا اور جنسی ہراسانی کے الزام میں جیل میں بند مرچی بابا کی پناہ میں پہنچا دیا تھا۔وہ کانگریس کا ‘سافٹ ہندوتوا’ تھا، جو اب ‘ہارڈکور ہندوتوا’ میں بدلتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ریاست میں حکومت سازی کی حکمت عملی میں جس دھیریندر شاستری کو ریاستی صدر کمل ناتھ اور ان کے ایم پی بیٹے نکل ناتھ اپنا
‘ناتھ’ یا ‘سرکار‘ کہہ رہے ہیں، انہیں ریاستی اسمبلی میں کانگریس کے قائد حزب اختلاف ڈاکٹر گووند سنگھ ‘
فرضی‘ قرار دے چکے ہیں ، انہوں نے تو عوامی طور پر شاستری کو
بی جے پی کاپرچارک بھی کہا تھا۔
ویسے، کمل ناتھ کی مانیں تو سابق وزیر اعلیٰ دگوجئے سنگھ بھی دھیریندر شاستری کے دربار میں
حاضری لگا چکے ہیں۔ ہاں، وہ بات الگ ہے کہ عوامی طور پر دگوجئے سنگھ کو ہندو راشٹر، لو جہاد، بلڈوزر جسٹس وغیرہ کے خلاف سنگھ اور بی جے پی کا گھیراؤ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
تاہم، کمل ناتھ بھلے ہی اپنے دفاع میں یہ کہتے رہیں کہ پنڈت دھیریندر کرشن شاستری نے چھندواڑہ میں کوئی زہر (ہندو راشٹر کی بات) فشانی نہیں کی، لیکن وہ یہ ضرور کہہ گئے کہ، ‘گیان واپی مسجد نہیں ہے، بھگوان شنکر کا مندر ہے۔’ اب اس بیان کے تناظر میں کانگریس کی سیاست کوسمجھیے کہ مرکز میں وارانسی میں گیان واپی مسجد تنازعہ پر پارٹی کے سینئر لیڈر پی چدمبرم اور سلمان خورشیدٹھیک اس کے
برعکس رائے کا اظہار کرتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔
اسے کیا کہیں، اقتدار کی خواہش میں سستی سیاست کا وہ تضاد، جس کے تحت مرکز میں کھل رہی ‘محبت کی دکان’ کا ‘شٹر’ مدھیہ پردیش میں فرقہ پرست سوچ رکھنے والے ساتھیوں کے لیے ‘نیچے گرا دیا جاتا ہے۔’