کانگریس صدر نے پی ایم نریندر مودی کے خلاف الزام لگاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پی آر کا استعمال کر کے حکومت کو عوام کے بنیادی مسائل سے دور رکھا ہے، لیکن جون 2024 کے بعد ایسا نہیں چلے گا، لوگ اب حساب مانگ رہے ہیں۔
ملیکارجن کھڑگے (تصویر بہ شکریہ: Twitter/@INCRajasthan)
نئی دہلی: کانگریس صدر ملیکارجن کھڑگے نے جمعہ کو کہا کہ ملک کے لوگوں کو بے روزگاری، مہنگائی اور عدم مساوات کی کھائی میں دھکیل کر نریندر مودی کی حکومت نے کروڑوں لوگوں کی زندگیاں تباہ کر دی ہیں۔
راجیہ سبھا ایم پی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پی ایم مودی کے خلاف الزام لگاتے ہوئے لکھا کہ انہوں نے پی آر کا استعمال کر کے حکومت کو عوام کے بنیادی مسائل سے دور رکھاہے، لیکن جون 2024 کے بعد ایسا نہیں چلے گا، لوگ اب حساب مانگ رہے ہیں۔
جمعہ (12 جولائی) کو ایکس پر ایک طویل پوسٹ میں کانگریس صدر نے نریندر کی بی جے پی حکومت پر کئی الزامات لگائے۔
کھڑگے نے کہا، ‘ آنے والے بجٹ کے لیے جب آپ کیمروں کے سائے میں میٹنگ کر رہے ہیں، تو ملک کے ان بنیادی معاشی مسائل پر بھی توجہ دیجیے، آپ کی ناکامیوں کی فہرست بہت طویل ہے۔’
اس کے بعد کانگریس صدر نے فہرست بناتے ہوئے کئی ایشوز پر بات کی ۔ بے روزگاری کے بارے میں بات کرتے ہوئے کھڑگے نے کہا، ‘9.2 فیصد بے روزگاری کی شرح کی وجہ سے نوجوانوں کا مستقبل صفر پر نظر آ رہا ہے۔ 20-24 سال کی عمر کے لوگوں کے لیے، بے روزگاری کی شرح 40 فیصد تک بڑھ گئی ہے، جو نوجوانوں میں روزگار کی منڈی میں سنگین بحران کو نمایاں کرتی ہے۔’
قابل ذکر ہے کہ
سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی (سی ایم آئی ای) کے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق، جون کے مہینے میں ہندوستان میں بے روزگاری کی شرح 9.2 فیصد تھی جو مئی کے مہینے کے مقابلے میں 2.4 فیصد زیادہ تھی۔
کسانوں کے مسائل پر حکومت پر حملہ کرتے ہوئے کانگریس صدر نے کہا، ‘کسانوں کی آمدنی کو دوگنا کرنے اور لاگت پر 50 فیصد ایم ایس پی دینے کا حکومت کا وعدہ جھوٹا نکلا۔’ کھڑگے نے یہ بھی کہا کہ سوامی ناتھن کمیٹی کی رپورٹ میں ایم ایس پی کی سفارشات کو صرف انتخابی حربے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔
معلوم ہو کہ ایم ایس پی کو لے کر مودی حکومت کو ملک کے کسانوں بالخصوص ہریانہ اور پنجاب کے کسانوں کے غصے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کسان اپنے مطالبات کو لے کر وقتاً فوقتاً احتجاج بھی کرتے رہے ہیں۔ اس طرح کے احتجاج کی وجہ سے مودی حکومت کو سال 2021 میں تین متنازعہ زرعی قوانین واپس لینے پڑے تھے۔
حال ہی میں، کسانوں کی تنظیم سنیکت کسان مورچہ (ایس کے ایم) نے اعلان کیا ہے کہ ایم ایس پی پر قانونی گارنٹی اور قرض کی معافی سمیت ان کے تمام مطالبات پورے نہیں تک وہ اپنا احتجاج دوبارہ شروع کریں گے ۔ تنظیم نے کہا ہے کہ 9 اگست کو ایس کے ایم اپنے مطالبات کو لے کر ملک بھر میں احتجاج کرتے ہوئے ‘ہندوستان چھوڑو دوس’ کو ‘کارپوریٹ ہندوستان چھوڑو دوس ‘ کے طور پر منائے گی۔ واضح ہو کہ 9 اگست 1942 کو بابائے قوم مہاتما گاندھی نے برطانوی حکومت کے خلاف ہندوستان چھوڑو تحریک شروع کی تھی۔
کانگریس صدر کھڑگے نےاپنے ٹوئٹ میں پبلک سیکٹر انڈرٹیکنگس (پی ایس یو) میں حکومت کی حصہ داری کی فروخت کا ذکر بھی کیا ہے۔ انہوں نے لکھا، ‘جن 7پی ایس یو میں زیادہ تر سرکاری حصہ داری بیچی گئی ہے، ان میں 3.84 لاکھ سرکاری نوکریاں چھینی ہے۔ ایس سی، ایس ٹی، او بی سی، ای ڈبلیو ایس سمیت تمام ریزرو پوسٹ کی نوکریاں چھینی ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘2016 سے لے کر اب تک سرفہرست 20 پی ایس یو میں تھوڑی حصہ داری بیچنے کی وجہ سے بھی 1.25 لاکھ لوگوں کی سرکاری نوکریاں گئی ہیں۔ پی ایس یو میں سرکار کی حصہ داری بیچنے جانے پر پر اپوزیشن کی طرف سے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے سال 2021 میں
حکومت نے لوک سبھا میں کہا تھا کہ اگر حکومت پبلک سیکٹر کے اداروں کی نجکاری کرنے کا فیصلہ کرتی ہے، تو شہریوں کا ایک طبقہ نوکریوں میں ریزرویشن سے محروم ہو جائے گا۔
اسی کڑی میں، نجی سرمایہ کاری کے بارے میں بات کرتے ہوئے کھڑگے نے لکھا، ‘گزشتہ 10 سالوں میں نجی سرمایہ کاری میں بھی زبردست گراوٹ آئی ہے۔ نئے نجی سرمایہ کاری کے منصوبے، جو کہ جی ڈی پی کا ایک اہم حصہ ہیں، اپریل سے جون کے درمیان 20 سال کی کم ترین سطح پر گر کر صرف 44300 کروڑ روپے رہ گئیں۔ پچھلے سال اس مدت میں 7.9 لاکھ کروڑ روپے کی نجی سرمایہ کاری ہوئی تھی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ جی ڈی پی میں مینوفیکچرنگ کا حصہ یو پی اے (متحدہ ترقی پسند اتحاد) کے دور میں 16.5 فیصد سے گر کر مودی حکومت کے دور میں 14.5 فیصد رہ گیا ہے۔
کانگریس صدر نے مزید کہا کہ مودی حکومت میں مہنگائی اپنے عروج پر ہے۔
انہوں نے کہا کہ مہنگائی کا تانڈو اپنے عروج پر ہے۔ آٹا، دال، چاول، دودھ، چینی، آلو، ٹماٹر، پیاز سمیت کھانے پینے کی تمام ضروری اشیاکی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ خاندانوں کی گھریلو بچت 50 سالوں میں اپنی کم ترین سطح پر ہے۔ معاشی عدم مساوات بھی 100 سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔‘
قابل ذکر ہے کہ ستمبر 2023 میں آر بی آئی کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ہندوستانیوں کی گھریلو بچت میں مسلسل گراوٹ آرہی ہے اور یہ 50 سال کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ لوگوں کی گھریلو بچت 2020-21 میں جی ڈی پی کے 11.5 فیصد سے کم ہو کر مالی سال 2022-23 میں 5.1 فیصد رہ گئی۔
کھڑگے نے یہ بھی کہا کہ دیہی ہندوستان میں تنخواہ میں اضافہ منفی میں ہے۔ دیہی علاقوں میں بے روزگاری میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور یہ مئی میں 6.3 فیصد سے بڑھ کر اب 9.3 فیصد ہو گئی ہے۔ منریگا کے تحت کام کرنے والے مزدوروں کے اوسط دنوں میں کمی آئی ہے۔
اپنے ٹوئٹ کے آخر میں کانگریس صدر نے لکھا، ‘ملک کی معیشت کے ساتھ کھلواڑ اب بند ہونا چاہیے۔‘