جمعہ کو پرچہ نامزدگی داخل کرنے کا آخری دن تھا۔ ششی تھرور کے ساتھ ہی پارٹی کے سینئر لیڈر ملیکارجن کھڑگے اور جھارکھنڈ کے سابق وزیر کے این ترپاٹھی اس عہدے کی دوڑ میں سامنے آئے ہیں۔ پرچہ نامزدگی داخل کرنے کے بعد تھرور نے کہا کہ ہم دشمن یا حریف نہیں ہیں۔ یہ ایک دوستانہ مقابلہ ہے۔
نئی دہلی: کانگریس کے رکن پارلیامنٹ ششی تھرور (66) نے جمعہ کو پارٹی صدر کے عہدے کے لیے پرچہ نامزدگی داخل کرنے کے بعد کہا کہ ان کے پاس پارٹی کو مضبوط کرنے کا نظریہ ہے، جو تبدیلی لائے گا۔
پرچہ نامزدگی داخل کرنے کے بعد انہوں نے ایک پریس کانفرنس میں ملیکارجن کھڑگے سے مقابلے کے سوال پر کہا کہ وہ کانگریس کے بھیشم پتامہ ہیں۔
پارٹی صدر کے عہدے کے لیےکھڑگے نے بھی پرچہ نامزدگی داخل کیا ہے۔
Mr. Tharoor says he will go by the assurance of neutrality given by #Congress chief #SoniaGandhi. Mr. Tharoor adds, "I will change the high command culture".
— The Hindu (@the_hindu) September 30, 2022
این ڈی ٹی وی کے مطابق، انہوں نے پارٹی کےسربراہ کے طور پر اپنے وژن کے بارے میں بات کی اور کہا کہ وہ پارٹی کے ‘ہائی کمان کلچر’ کو بدلیں گے۔
لگاتارمسائل کو’دہلی بھیجنے’ کی پارٹی کی روایت پر تھرور نے کہا کہ پارٹی ایک جملے میں یہ کہتے ہوئے قرار داد منظور نہیں کر سکتی کہ کانگریس صدر فیصلہ کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ پارٹی رضامندی والے امیدوار کی تلاش نہیں کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا، میں نے پارٹی کارکنوں سے بات کی تھی اور میں نے ہی ڈی سینٹرلائزیشن کا خیال پیش کیا تھا۔
نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے تھرور نے کہا، یہ ایک دوستانہ مقابلہ ہے۔ ہم دشمن یا حریف نہیں ہیں۔ میں ان کی بے ادبی نہیں کرسکتا، لیکن اپنے خیالات کا اظہار کروں گا۔
We're not enemies/rivals, we're colleagues & we're interested in seeing party going forward… LoP RS Mallikarjun Kharge is the 'Bhishma Pitamah' of our party. Let party workers decide how to proceed. I won't say anything negative about Kharge, Digvijaya Singh, Tripathi: Tharoor pic.twitter.com/ex0eMduKkf
— ANI (@ANI) September 30, 2022
تھرور نے کھڑگے (80) کو ‘تسلسل برقرار رکھنے والا امیدوار’ قرار دیا۔ ان کا اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ کرناٹک کے لیڈر کھڑگے گاندھی فیملی کی پسند ہیں۔
تھرور نے کہا کہ وہ صورتحال کو برقرار رکھنے کے سلسلے میں پارٹی کی سوچ پر حیران نہیں ہیں۔ انہوں نے کہااگر آپ صورتحال کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو کھڑگے جی کو ووٹ دیں۔ اگر آپ 21ویں صدی کے تناظر میں تبدیلی اور ترقی چاہتے ہیں تو میں امیدکرتا ہوں کہ میں وہ تبدیلی لانے میں کامیاب رہوں گا۔
تھرور نے ہندی زبان کی توسیع پر بھی بات کی۔ تھرور اور کھڑگے دونوں کا تعلق جنوبی ہندوستان سے ہے، جبکہ پارٹی کے زیادہ تر نمائندے جو انتخابات میں ووٹ دیں گے ان کا تعلق ہندی بولنے والی ریاستوں سے ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک وہم ہے کہ وہ صرف جی–23 کے لیڈر ہیں، انہیں تمام نو ہزار سے زائد کارکنوں کی حمایت کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا، میرے پاس کانگریس کے لیے ایک وژن ہے اور میں اسے 9000 سے زیادہ نمائندوں کے ساتھ شیئر کروں گا اور ان کی حمایت حاصل کروں گا۔میراپرچہ نامزدگی اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ مجھے کتنی حمایت ملی ہے۔ ایک درجن ریاستوں کے پارٹی کارکنوں نے میری نامزدگی پر دستخط کیے ہیں۔
انہوں نے پرچہ نامزدگی داخل کرنے کے بعد کہا، ہندوستان کی واحد ایسی پارٹی کی خدمت کرنا اعزاز کی بات ہے جو کھلے جمہوری عمل کے ذریعے اپنے لیڈر کا انتخاب کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم کانگریس کو مضبوط کرنے اور ملک کو آگے لے جانے کی امید کرتے ہیں۔
کھڑگے اور ترپاٹھی نے پرچہ نامزدگی داخل کیا
تھرور کے ساتھ ساتھ، ملیکارجن کھڑگے اور کے این ترپاٹھی کانگریس صدر کے عہدے کی دوڑ میں سامنے آئے ہیں، جس کے لیے جمعہ کو نامزدگی کا آخری دن تھا۔ تینوں رہنماؤں نے پرچہ نامزدگی داخل کر دیاہے۔
کرناٹک سے تعلق رکھنے والےسینئر لیڈر کھڑگے واضح طور پر پسندیدہ امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔
کھڑگے نے کانگریس کے سرکردہ لیڈروں کے ساتھ پرچہ نامزدگی کے کئی سیٹ جمع کرائے ۔ ان کے حامیوں میں آنند شرما، پرتھوی راج چوہان، منیش تیواری اور بھوپیندر ہڈا جیسے رہنما شامل تھے، جو پارٹی میں تبدیلی کا مطالبہ کرنے والے رہنماؤں کے گروپ جی–23 کا حصہ ہیں۔
#CongressPresidentPolls | None of these 3 is an official candidate of the party. They're contesting on their own. Congress president has made it very clear that she'll stay neutral throughout the process & if someone claims he has her blessings, it is incorrect: Madhusudan Mistry pic.twitter.com/Y0HuSVeAfY
— ANI (@ANI) September 30, 2022
تھرور خود اس گروپ کا حصہ رہے ہیں۔ انہوں نے پرچہ نامزدگی کے پانچ سیٹ داخل کیے، وہیں جھارکھنڈ کے ایک سابق وزیر ترپاٹھی نے کانگریس کی سینٹرل الیکشن اتھارٹی کے چیئرمین مدھوسودن مستری کے سامنے پرچہ نامزدگی داخل کیا۔
کانگریس صدر کے عہدے کی دوڑ میں کھڑگے پسندیدہ امیدوارمانے جا رہے ہیں اور یہاں اے آئی سی سی ہیڈکوارٹر میں ان کی پرچہ نامزدگی کے دوران پارٹی کے کئی لیڈر ساتھ تھے۔
کھڑگے نے یہاں نامہ نگاروں سے کہا، میں نے ہمیشہ پسماندہ لوگوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کی ہے اور میں کانگریس پارٹی کے اصولوں کو برقرار رکھنے کے لیے مزید لڑنے کو تیار ہوں، جس کے ساتھ میں بچپن سے وابستہ ہوں۔
جمعہ کو کانگریس صدر کے عہدے کے لیے پرچہ نامزدگی داخل کرنے کا آخری دن تھا۔ انتخابات کے لیے ووٹنگ 17 اکتوبر کو ہوگی اور اس کے نتائج کا اعلان 19 اکتوبر کو کیا جائے گا۔
اس میں 9100 نمائندوں کو ووٹ کا حق حاصل ہے۔ آج جب انتخابات کے لیے امیدواروں نے پرچہ نامزدگی داخل کیے تو گاندھی فیملی سے کوئی بھی کانگریس ہیڈکوارٹر میں موجود نہیں تھا۔
دگوجئے سنگھ نے پیچھے لیے قدم
اس سے قبل جمعہ کی صبح ایک ڈرامائی پیش رفت میں سینئر کانگریس لیڈردگوجئے سنگھ نے کہا کہ وہ پارٹی صدر کے عہدے کے لیے انتخاب نہیں لڑیں گے، لیکن وہ اپنے ساتھی ملیکارجن کھڑگے کی نامزدگی میں پروپوزربنیں گے۔
سنگھ نے کہا کہ انہوں نے ساری زندگی کانگریس کے لیے کام کیا ہے اور آگے بھی کرتے رہیں گے۔
I told him that I stand by him & can't even think of contesting against him; I will be his proposer: Congress leader Digvijaya Singh
— ANI (@ANI) September 30, 2022
سنگھ نے کہا، کھڑگے جی میرے لیڈر اور میرے سینئر ہیں۔ میں نے کل ان سے پوچھا تھا کہ کیا وہ الیکشن لڑنا چاہتے ہیں؟ انہوں نے انکار کر دیا تھا۔ مجھے ان کے الیکشن لڑنے کے بارے میں میڈیا سے پتہ چلا۔ میں آج پھر ان سے ملا۔ میں نے ان سے کہا کہ اگر وہ الیکشن لڑیں گے تو میں ان کی مکمل حمایت کروں گا۔ میں ان کے خلاف الیکشن لڑنے کی سوچ بھی نہیں سکتا۔وہ اپنا پرچہ نامزدگی داخل کریں گے اور میں ان کاپروپوزر بنوں گا۔
انہوں نے کہا، ‘میں زندگی میں کچھ چیزوں پر سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ میں دلت، آدی واسی اور دیگر پسماندہ طبقات سے متعلق مسائل پر سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے والوں کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کر سکتا اور گاندھی خاندان سے اپنی وابستگی پر سمجھوتہ نہیں کرتا۔
ان سے پہلے راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے الیکشن نہ لڑنے کا اعلان کیا تھا۔ کانگریس کے ‘ایک شخص، ایک عہدہ’ کے اصول کے تحت گہلوت سےالیکشن لڑنے کے لیے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دینے کو کہا گیا تھا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)