یہ شرمناک ہے کہ گاندھی خاندان اور تھرور و تیواری جیسے لوگ عہدوں کی خواہشات میں الجھ رہے ہیں، جبکہ یہ وقت کانگریس کو باہمی جمہوریت کی طاقت دکھانے کا تھا۔
اب سب کی نظریں کانگریس پر جمی ہیں کہ 2019 کے لوک سبھا چناؤ میں ہوئی ہار کے بعد وہ کیا رخ اختیار کرتی ہے۔ فی الحال تو پارٹی نے ایک اندھا داو چلتے ہوئے ادھیر رنجن چودھری کو لوک سبھا میں پارٹی کا قائد بنا دیا ہے۔ مرشدآباد کے اس مبینہ شہزادے کی شبیہ متنازع رابن ہڈ جیسی ہے۔ وہ سڑک پر لڑائی لڑنے میں مہارت رکھتے ہیں، مرکز میں وزیر رہ چکے ہیں اور مغربی بنگال کانگریس کے صدر کی ذمہ داری بھی نبھا چکے ہیں۔ ان سب کے باوجود انہیں لوک سبھا میں پارٹی کی قیادت کے دوسرے امیدواروں جیسے ششی تھرور، منیش تیواری یا کے سریش پر فوقیت دینا تھوڑا مشکل ہے۔ سات بار لوک سبھا کے ممبر رہ چکے کے سریش کو ایوان میں پارٹی کا چیف وہپ بنایا گیا ہے۔
تھرور اور تیواری کے لیے یہ ایک اچھا موقعہ ہاتھ سے نکل جانے کا معاملہ ہے۔ اگر وہ چنے جاتے تو قائدانہ و انتظامی صلاحیت کے دم پر 52 رکن پارلیامان کے بیچ مقابلہ آرائی کراتے ہوئے قیادت یا پارٹی میں اہم عہدے کے لیے دعوےداری پیش کر سکتے تھے۔ اس جمہوری طرز عمل کے ذریعے وہ خدمت ہی کرتے، جس میں ہر فیصلے کے لیے سونیا، راہل یا پرینکا کا منہ تکنے کی روایت ڈال لی گئی ہے۔ وفاداری کا حد سے زیادہ اظہار اور چاپلوسی کانگریس کے لیے مہلک بیماریوں کا درجہ اختیار کر چکی ہیں۔ یہ شرمناک ہے کہ گاندھی خاندان اور تھرور و تیواری جیسے لوگ عہدوں کی خواہشات میں الجھ رہے ہیں، جبکہ یہ وقت کانگریس کو باہمی جمہوریت کی طاقت دکھانے کا تھا۔
ادھیر رنجن چودھری کی وفاداری ظاہری مانی جانی چاہیے کہ جب تک کوئی شخص پارٹی میں کسی عہدے پر یا کسی ایوان کا ممبر رہتا ہے، اس کی وفاداری غیر مشکوک رہتی ہے۔ مغربی بنگال کانگریس کے صدر رہ چکے مانس بھونین 46 سالوں تک پارٹی سے جڑے رہے۔ 2016 میں انہوں نے ترنمول کانگریس جوائن کر لی۔ جانکاروں کے مطابق بھونین نے ایک بار کہا تھا کہ وہ اپنی آخری سانس تک کانگریس کی خدمت کرتے رہیں گے، کیونکہ ان کے والد کہہ گئے ہیں کہ پارٹی کبھی نہ چھوڑنا۔ ترنمول میں شامل ہونے کے بعد بھی بھونین اپنے اس دعوے سے پلٹے نہیں۔ کمال ہوشیاری سے انہوں نے کہا کہ وہ اپنے والد کی خواہش کے خلاف نہیں گئے ہیں، کیونکہ بنگال میں دیدی کی پارٹی ہی ‘اصلی کانگریس’ ہے۔
کچھ ہی لوگوں کو پتہ ہوگا کہ کانگریس پارٹی ان پارلیامنٹ (سی پی پی) کا اپنا الگ آئین ہے۔ اس سے پچھلے وقتوں میں کانگریس پارٹی اور سی پی پی کے بیچ ٹکراؤ کی نوبت آ چکی ہے۔ جیسے پنڈت جواہر لعل نہرو نے جب ایوان میں سی پی پی کی صدارت سنبھالی تو اس وقت کانگریس کے صدر آچاریہ کرپلانی نے انہیں کہا کہ اہم معاملات پر فیصلہ لینے سے پہلے وہ ان سے مشورہ ضرور کریں۔
جن غیر گاندھی خاندان کے ممبران پارلیامنٹ کو ایوان کی قیادت کا ذمہ سونپا گیا، ان میں ارجن سنگھ، ایس این سنہا، پرنب مکھرجی، شرد پوار، سی ایم اسٹیفن وغیرہ شامل ہیں۔ کانگریس کو قریب سے جاننے سمجھنے والا کوئی بھی شخص تصور کر سکتا ہے کہ بطور لوک سبھا قائد ادھیر رنجن چودھری کے نام کا اعلان ہونے کے بعد پرنب مکھرجی کو اپنا پائپ سلگانے کی شدید خواہش ہوئی ہوگی۔ راشٹر پتی بھون پہنچنے سے پہلے خرابی صحت کی بناء پر مکھرجی تمباکو نوشی چھوڑ چکے تھے، لیکن جب وہ پائپ پیتے تھے تب ان کے پائپ سے مسلسل نکلنے والا دھواں اس کا اشارہ ہوتا تھا کہ کوئی گمبھیر مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ بحیثیت ملک کا اولین شہری برسوں گزار دینے کے بعد مکھرجی غیر سیاسی ہو چکے ہیں مگر ان کا ڈی این اے کانگریس کا ہی ہے۔ اس عہدے پر ادھیر کی تقرری سے انہیں کچھ نہ سوجھ رہا ہوگا۔
اتفاق سے یہ مکھرجی ہی تھے جنہوں نے سونیا گاندھی کو مضبوط کرنے کے لیے سی پی پی کے آئین میں ترمیم کی تھی۔ اس ترمیم کے بعد سونیا کو یہ اختیار حاصل ہو گیا تھا کہ وہ لوک سبھا اور راجیہ سبھا دونوں ایوانوں میں قائدین کا انتخاب کر سکیں، جبکہ وہ 1998 میں کسی بھی ایوان کی ممبر تک نہیں تھیں۔ سدا بہار لیڈر پرنب مکھرجی نے دونوں ایوانوں پر سونیا کا اختیار برقرار رکھنے کے لیے یہ راستہ نکالا، جبکہ لوک سبھا میں شرد پوار کانگریسی پارلیامنٹس کی قیادت کر رہے تھے۔
تب چیئر پرسن کی پوسٹ تیار کرنے کے لیے مکھرجی نے پارٹی آئین کی شق 5 میں ترمیم کی۔ ذیلی شق ‘سی’ کہتی ہے کہ دونوں ایوانوں میں پارٹی کے قائد، نائب قائد اور چیف وہپ کو نامزد کرنے کا اختیار سی پی پی لیڈر نہیں، چیئر پرسن کے پاس ہوگا۔ ترمیم شدہ شق اس طرح ہے: اگر ضرورت پڑی تو سرکار کے سربراہ کو سی پی پی لیڈر کا نام پیش کرنے کا اختیار چیئر پرسن کو ہوگا۔” لوک سبھا چناؤ جیتنے کے بعد ممبر آف پارلیامنٹ کی حیثیت سے تھرور اور تیواری سی پی پی کے قائد کا چناؤ لڑنے کی خواہش ظاہر کر سکتے ہیں۔ اس سے سونیا پر سی پی پی کے چناؤ کرانے کا دباؤ بنے گا۔
کانگریس کے سمجھدار ممبران کے لیے ابھی بہت دیر نہیں ہوئی ہے کہ وہ پارٹی کی صدارت سے راہل گاندھی کے استعفیٰ پر غور و خوض کرنے کے لیے کانگریس کی مجلس عاملہ اور آل انڈیا کانگریس کمیٹی کی میٹنگ کا مطالبہ کریں۔ اگر وہ بھی تھرور و تیواری کی طرح خاموش تماشائی بنے رہے تو ادھیر رنجن جیسا ایک عوضی ان پر تھوپ دیا جائے گا۔ اس سے طرح طرح کے تماشے ہوں گے اور پارٹی میں بکھراؤ بڑھے گا۔
(صحافی اور قلمکار رشید قدوائی اوآرایف کے وزیٹنگ فیلو ہیں۔ان کا کالم پیر کے روز شائع ہوتا ہے، پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔ )