آج کے ہندوستان میں، خاص طور پر ہندوؤں کے لیے ضروری ہے کہ وہ غیر ہندوؤں کے مذاہب، صحیفے، شخصیتوں اور ان کے مذہبی طرز عمل کو جانیں۔ مسلمان، عیسائی، سکھ یا آدی واسی تو ہندو مت کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں، لیکن ہندو اکثر اس معاملے میں صفر واقع ہوئے ہیں۔ بہت سے لوگ محرم پر بھی مبارکباد دے ڈالتے ہیں۔ ایسٹر اور بڑاد دن میں کیا فرق ہے؟ اورآدی واسی عقائد کے بارے میں تو کچھ بھی نہیں معلوم ۔
اجین میں پیغمبر اسلام حضرت محمد کی زندگی پر مضمون نویسی کا مقابلہ منعقد نہیں ہو سکا۔ یہ مقابلہ پیغام انسانیت سوسائٹی کی جانب سے غیر مسلم افراد کے لیے منعقد کیا جا رہا تھا۔ یہ خفیہ طور پر نہیں ہو رہا تھا۔ پوسٹر وغیرہ کے ذریعے عوام کو اس کی جانکاری دے کر اس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ اس مقابلہ میں کامیاب ہونے والوں کے لیے نقد انعامات کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔
ہندوتوا تنظیموں کے کان کھڑے ہو گئے۔ مدھیہ پردیش کے ہندو جذبات کے خود ساختہ وزیر جناب نروتم مشرا کو تو یہ بات سمجھ میں ہی نہیں آئی کہ غیر مسلموں کوپیغمبر اسلام کے بارے میں جاننے اور ان پر لکھنے کی دعوت دینے جیسا عجیب و غریب کام کیوں کیا جانا چاہیے! انہوں نے فوراً اندور کے حکام کو فون کرکے اس مقابلہ کو روکنے کا حکم دیا۔
ہندوتواکے داعی اس خدشے میں پڑ گئے کہ پیغمبر محمد کی سوانح سے متعارف کروا کر ہندوؤں کا مذہب تبدیل کرنے کی سازش تو نہیں کی جا رہی۔ آخر ایسا کیوں محسوس ہوا کہ پیغمبرمحمد کی سیرت پڑھ کر کوئی مسلمان ہو سکتا ہے؟
ہندوستان میں تو ہندوتوا تنظیموں اور لوگوں نے پچھلے کچھ سالوں سے محمد صاحب کو گالیاں دینے اور تضحیک آمیز تبصرے کرنے کی ایک انڈسٹری قائم کر لی ہے۔ اگر کوئی ان کے ذریعے پیغمبر محمد کے بارے میں جاننا چاہے تو کیا معلوم ہوگا؟
لیکن ہم اس بات کو یہیں چھوڑ دیں۔ ان کا مقصد ان سے ہندوؤں کو متعارف کروانا ہےبھی نہیں۔ مقصدصرف مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانا ہے۔ ان کے لیے یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ مسلمانوں کے مذہب میں، ان کے مذہب سے وابستہ لوگوں میں ، اور ان کے صحیفوں میں ہی گڑبڑی ہے۔ پھر جو قرآن یا پیغمبر محمد کو مانیں، وہ اچھا ہو ہی کیسے سکتا ہے؟ اس طرح مسلمان نہیں،اسلام کے تئیں شک اور نفرت مزید گہری کی جاتی ہے۔
زیادہ تعجب نہیں ہونا چاہیے اگر اس مقابلے کے تناظر میں عدالت بھی کہے کہ بھلا مسلمان کیوں چاہتے ہیں کہ ان کے پیغمبر کے بارے میں غیر مسلم جانیں۔ ضرور کوئی سازش ہو گی۔ اس ملک میں یہ فطری ہی ہوگا۔ کیونکہ یہاں یہ مانا جاتا ہے کہ ہم سب کو صرف اپنے اپنے دائروں میں رہنا چاہیے۔کیوں ہندو مسلمان سے محبت کرے؟ کیوں برہمن اور دلت دوسروں سے رشتے بنائیں؟ یہ ہمارا قومی مزاج ہے۔ جو اس دائرہ میں تجاوز کرنے کی کوشش کرتا ہے، اسےقتل تک کیا جا سکتا ہے۔
‘پیغام انسانیت’ غیر مسلموں کو پیغمبر محمد کے بارے میں جاننے اور پھر ان کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا موقع دے کر اس محاصرے کو توڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟
ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، مسلمان ایک دوسرے کے بارے میں جانیں، اگر ان میں ایک دوسرے کے بارے میں تجسس ہو تو معاشرہ آپس میں جڑے گا۔ ہم دوسروں کو بھی انسان کے طور پر دیکھ سکیں گے۔ ہم جتنا زیادہ جانیں گے، اتنا ہی ہم سمجھیں گے کہ اگر زیادہ تر معاملات میں وہ ہماری طرح ہیں، تو ان میں بھی ہماری طرح ہی بعض عجیب وغریب باتیں ہیں۔ ان کےصحیفوں میں، ان کے مذہبی اور سماجی برتاؤ میں بہت کچھ ایسا ہے جو ہمارے یہاں نہیں ہے اور وہ قابل صد احترام ہے۔
اس کے علاوہ کچھ ایسا بھی ہے جو ہمیں عجیب لگ سکتا ہے۔ وہ ہمیں عجیب کیوں لگتا ہے جو ان کے لیے فطری ہے، یہ سوال ہمارے ذہن میں اٹھنا چاہیے۔ اس طرح ہمارے علم اور حساسیت کا دائرہ وسیع ہو گا۔
آج کے ہندوستان میں خاص طور پر ہندوؤں کے لیے ضروری ہے کہ وہ غیر ہندوؤں کے مذاہب، ان کے صحیفوں اور شخصیات، ان کے مذہبی طرز عمل سے واقفیت حاصل کریں۔ ہم تجربے سے جانتے ہیں اور سروے سے تصدیق کر سکتے ہیں کہ مسلمان یا عیسائی یا سکھ یا آدی واسی ہندو مت ، اس کی رسومات کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں، لیکن ہندو زیادہ تر اس معاملے میں صفر واقع ہوئے ہیں۔ بہت سے لوگ محرم پر بھی مبارکباد دے ڈالتے ہیں۔ ایسٹر اور بڑا دن میں کیا فرق ہے؟ کیا ہمیں شب برات کا مطلب بھی معلوم ہے؟ آدی واسی عقائد کے بارے میں تو ہمیں کچھ بھی نہیں معلوم۔
پھر کیا ہم ثقافتی طور پر مالا مال ہیں یا غریب؟ کیا اس قسم کی جہالت فخر کی بات ہے یا شرم کی؟ ہم یہ سوال نہیں کرتے۔ ہمیں گمان ہے کہ باقی سب کو ہندو مذہب کے بارے میں جاننا چاہیے کیونکہ یہ سب سے بہتر ہے۔ باقی دوسرے تمام مذاہب اور دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کو ہم حقارت سے دیکھتے ہیں۔ ان کے بارے میں ہم کیوں جانیں؟
یہ ہمیں ٹھیک لگتا ہے کہ جنم اشٹمی کے موقع پر مسلمان اپنے بچوں کو کرشن کے بھیس میں سجائیں۔ لیکن عید پر ٹوپی پہننا ہمیں گوارہ نہیں۔ دوسرے ہمارے مقدس مواقع کا احترام کریں، جیسے کانوریوں کو مسلمان پانی پلائیں، یہ تو ہمیں اپنا حق جان پڑتا ہے، لیکن عید یا گرو پورب پر ہم ہندوؤں کو بھی کچھ کرنا چاہیے، یہ ہم نہیں سوچتے۔
ہندوستان میں ہندو زیادہ ہیں، ان کے طرح طرح کےتہوار،اور تہوار تعداد میں دوسروں سے کہیں زیادہ ہیں۔ اس لیے یہ فطری بات ہے کہ غیر ہندو لوگوں کو اس کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے۔ دوسرے لوگ ہندوؤں سے گھرے ہیں، اس لیے انہیں خود بخود ہندو مذہب، معاشرت، رسم و رواج کے بارے میں پتہ چل جائے گا۔ ان کے بارے میں اسکولوں میں یا نصابی کتابوں میں بھی بتایا جاتا ہے۔ لیکن اسکول غیر ہندو مذہبی روایات کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔
اب مخلوط آبادی بھی نہیں رہی۔ مسلمانوں اور دلتوں کو بھی اکثر ایسے علاقوں میں مکانات حاصل کرنے میں کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہاؤسنگ کالونیوں میں مندر تو ہیں لیکن کوئی اور مذہبی مقامات نہیں۔ پھر ہندو کیسے جانیں گے کہ ان کے علاوہ اور بھی مذاہب میں کیا ہے؟
ایک وقت تھا جب دوسروں کے بارے میں جاننا برا نہیں سمجھا جاتا تھا ۔ ہمارے ادیب اور شاعر دوسرے مذاہب کے بارے میں متجسس تھے اور ان کے بارے میں بھی لکھتے تھے۔ ایسا نہیں ہے کہ ایک دوسرے سے دوری نہیں تھی یا ایک دوسرے کے بارے میں کوئی اصرار، تعصب یا عصبیت نہیں تھی۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ کوشش بھی رہتی تھی کہ دیگر مذہبی روایات اور شخصیات کے بارے میں جانیں۔
کھڑی بولی ہندی کے موجد بھارتیندو ہریش چندر کے ڈراموں میں مسلمانوں کے خلاف تعصب نظر آئے گا۔ پھر بھی وہ اسلام کے پانچ جواہرات کے بارے میں لکھتے ہیں۔ ان میں سرفہرست ہیں پیغمبر محمد ۔ بھارتیندو ان کی زندگی کو سبق آموز سمجھتے ہیں۔
کھڑی بولی ہندی کے پہلے بڑے شاعر میتھلی شرن گپت کو ان کے کاویہ گرنتھ ‘بھارت بھارتی اور ہندو’ کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ ان سے بڑا ہندو ادیب شاید ہی کوئی ہو۔ انہوں نے ‘کعبہ اور کربلا’ کے نام سے ایک کاویہ گرنتھ لکھی۔ اس کا مقدمہ بھی پڑھنے کے قابل ہے، ‘اس سفر میں جن کئی راہبوں نے براہ راست اور بالواسطہ طور پرراہ دکھائی ہے ، وہ درحقیقت اس کی نیکی کے حقدار ہیں… (مصنف) … کے ذہن میں ایک تمنا ضرور تھی اور بہت دنوں سے تھی…تیس سال پہلے مصنف نے پیغمبر محمدکے کچھ خیالات کو نظم کرنے کی کوشش کی تھی۔’
گپت جی لکھتے ہیں کہ کئی بار حملہ آوروں کی سخت کارروائیوں کی وجہ سے عوام کے ذہن میں ان کے مذاہب کے بارے میں غلط فہمیاں بھی راہ پا جاتی ہیں۔ ورنہ بنیادی طور پر تمام مذاہب کے مقاصد ایک ہی ہوتے ہیں اور ان کے موجد اپنی خوبیاں رکھتے ہیں۔ یہ مناسب ہو گا کہ ہر کوئی ان کی خوبیوں سے واقف ہو۔
غالباً اسی وجہ سے انہوں نےپیغمبر اسلام کے بارے میں لکھا۔ اسلام سے متعلق دیگر شخصیات اور واقعات کے بارے میں بھی۔ ‘کعبہ اور کربلا’ کی تخلیق اسی مقدس مقصد کے لیے کی گئی۔ گپت جی لکھتے ہیں، … حضرت محمد جتنے عظیم تھے، اتنے ہی سخی تھے…
مزید فرماتے ہیں کہ محمد صاحب نے کعبہ میں اپنے عقیدے کوقائم کرنے میں جس صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا، وہ ان ہی کا کام تھا۔ محمد صاحب کے بارے میں لکھنا ہو یا کربلا کی داستان سنانی ہو ، طریقہ کیا ہوگاَ؟مصنف کو سنیے، ‘مصنف نے ہمدردی اور احترام کی وجہ سے ہی اس کام کی جسارت کی ہے۔’
ایسا نہیں ہے کہ اسلام کے تئیں نفرت اس وقت نہیں تھی جب گپت جی اس کی تخلیق کر رہے تھے۔ ‘رنگیلا رسول’ کا یاد آنا فطری ہے۔ ہندی کے مشہور ادیب آچاریہ چترسین شاستری نے بھی ایک کتاب لکھی، ‘ اسلام کا وش ورکش’۔
پریم چند نے اس کا جائزہ لیا اور افسوس کا اظہار کیا کہ چترسین نے اپنی صلاحیتوں کا اس طرح غلط استعمال کیا۔ ایسی زہریلی کتابیں زیادہ بکتی ہیں۔ لیکن کیا یہ ایک ذمہ دار اور کامیاب مصنف کا کام ہے؟ گپت جی کی طرح وہ لکھتے ہیں،’مسلمانوں نے ہندوؤں پرجو مظالم کیے،اس کی زہریلی اور یک طرفہ تفصیلات پیش کرکے فرقہ پرست ذہن رکھنے والے ہندو عوام میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کو بڑھایا جا سکتا ہے۔’
وہ آچاریہ پر تنقید کرتے ہیں کہ انہوں نے یورپی مصنفین کی مدد لے کر محمد کو انسان کا دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی اور یہ بھی بتانے کی کوشش کی کہ قرآن میں حماقت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ پریم چند کا کہنا ہے کہ یورپی مصنفین نے اسلام کو اس لیے بدنام کیا کہ وہ یونان اور بلقان جیسے ممالک سے ترکوں کو نکالنا چاہتے تھے۔
پریم چند مذہبی شخص نہیں تھے، لیکن وہ جانتے تھے کہ کسی ایک مذہب کو چھانٹ کر اور اسی میں تمام برائیاں دکھانا بیمار ذہن کی علامت ہے۔ اس جائزے سے ایک ہفتہ قبل پریم چند نے کاشی میں منعقدایک تقریب کی رپورٹ لکھی۔ یہ موقع تھاحضرت محمد کے یوم ولادت کا۔ چیئرمین ڈاکٹر عبدالکریم تھے لیکن کلیدی خطبہ دینے والے ایک ہندو پنڈت سندر لال جی تھے۔
پنڈت جی کا لیکچر کیوں اہم تھا؟ پریم چند اظہار افسوس کرتے ہیں کہ ‘اتنی صدیوں تک ایک ساتھ پڑوس میں رہنے پر بھی ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے مذہبی اصولوں اور سچائی سے اس قدر نابلد ہیں…’۔ پنڈت جی کے لیکچر سے وہ ہندو ضرو حیران ہوئے ہوں گے، جنہوں نے ‘رنگیلا رسول’ جیسی کتاب پڑھ کر محمد صاحب اور اسلام کے بارے میں اپنی رائے بنائی ہوگی۔
پریم چند نے مزید لکھا، ‘یہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا اور یہ کہ حضرت محمد نے اپنے فرقے کو حکم دیا ہے کہ کافروں کو قتل کرنا ہی جنت کی کنجی ہے، لیکن پنڈت جی نے نشاندہی کی کہ … حضرت محمد نے کبھی کسی پر حملہ نہیں کیا… قتل کرنے کی جگہ ہمیشہ انہوں نے معاف کیا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ معافی ان کی زندگی کا بنیادی عنصر تھی… وہ ہمیشہ یہی کہا کرتے تھے کہ میں خدا کی طرف سے اس کی رحمت اور محبت کا پیغام لے کر آیا ہوں،قتل کرنے نہیں۔’
کیا تعجب کی بات ہے کہ گپت جی نے بھی ٹھیک یہی لکھا۔ پنڈت جی نے بھی اس پروپیگنڈے کا بھی جواب دیا کہ حضرت عیاش تھے۔ درحقیقت ان کی زندگی سخت آزمائشوں سے عبارت تھی۔
پریم چند ہوں یا پنڈت سندرلال یا میتھلی شرن گپت، حضرت محمد کے بارے میں جاننے کے بعد مسلمان نہیں ہوگئے۔ ایک بہتر ہندو اور انسان ضرور بنے۔ ان کو اپنے مذہب کے سلسلے میں کسی طرح کے عدم تحفظ کا احساس نہیں تھا۔
ہندوؤں میں جیسے 100 سال پہلے،ویسے ہی آج بھی عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ پڑھو گے تو ذہن گمراہ ہو جائے گا۔ اگر تم دوسرے مذاہب کے بارے میں جانو گے تو کہیں ہندو مت چھوڑو نہ دو۔ یہ تو ہندوؤں کو غور کرنا ہے کہ وہ نروتم مشرا کی پیروی کرتے ہیں یا میتھلی شرن گپت، پریم چند اور پنڈت سندرلال کی!
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں)