ممبئی پریس کلب کی طرف سے ڈیجیٹل میڈیم کے ذریعے منعقدہ ‘ریڈ انک ایوارڈز’تقریب میں چیف جسٹس این وی رمنا نے خبروں میں نظریاتی تعصب کی آمیزش کے رجحان کےبارے میں کہا کہ حقائق پر مبنی رپورٹس میں رائے دینے سے گریز کیا جانا چاہیے۔صحافی ججوں کی طرح ہوتے ہیں۔انہیں اپنے نظریے اور عقیدے سے اوپر اٹھ کر کسی سے متاثر ہوئے بغیر صرف حقائق بیان کرنا چاہیے اور ایک حقیقی تصویر پیش کرنی چاہیے۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وی رمنا نے بدھ کو میڈیا سے کہا کہ وہ عدلیہ میں اعتماد رکھیں۔
رپورٹ کے مطابق،چیف جسٹس رمنا نے کہا کہ ‘فیصلوں کو لے کر پند و نصیحت کرنا’اور ‘ججوں کو ولن کے طور پر پیش کرنے’کے چلن کی جانچ کی ضرورت ہے۔
چیف جسٹس نے ممبئی پریس کلب کی جانب سے ڈیجیٹل میڈیم کے ذریعے منعقدہ ‘ریڈ انک ایوارڈز’ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت میں ایک بڑے اسٹیک ہولڈر کی حیثیت سے میڈیا کا فرض عدلیہ کو بری طاقتوں کے حملوں سے بچانا ہے۔
سی جے آئی نے کہا، ‘ہم مشن جمہوریت اور قومی مفاد کو فروغ دینے میں ایک ساتھ ہیں۔ ہمیں مل کر آگے بڑھنا ہے۔
انہوں نے خبروں میں نظریاتی تعصبات کی آمیزش کے رجحان کے خلاف صحافیوں کوخبردار کرتے ہوئے کہا کہ حقائق پر مبنی رپورٹس میں تشریح اور رائے شماری سے گریز کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے خبروں کو ایک طرح کا رنگ دیے جانے پر بھی تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ تصادم کی سیاست اور مسابقتی صحافت کے مہلک آمیزش کے کاک ٹیل سے زیادہ مضرجمہوریت کے لیےکوئی اور چیز نہیں ہو سکتی۔ کسی نظریے سے متاثر ہونا خطرناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ،صحافی ججوں کی طرح ہوتے ہیں۔ آپ کو اپنے نظریے اور عقیدے سےاوپر اٹھ کر کسی سے متاثر ہوئے بغیر کام کرنا چاہیے۔ آپ کو صرف حقائق بیان کرنا چاہیے اور مکمل اور سچی تصویر پیش کرنی چاہیے۔
#CJIRamana: Nothing can be more lethal to democracy than the deadly combination of confrontational polity and competitive journalism. Tragically, they feed on each other. History is witness to this hard truth.#RedInkAwards2021
— Mumbai Press Club (@mumbaipressclub) December 29, 2021
سی جے آئی رمنا نے کہا کہ ڈیجیٹل نیوز میڈیا پلیٹ فارم اور سوشل میڈیا رپورٹنگ نے صحافت کو بدل دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ،ایک صحت مند جمہوریت نڈر اور آزاد پریس سے ہی ترقی کر سکتی ہے لیکن خبروں کو خیالات کے ساتھ ملانا خطرناک کاک ٹیل ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ لوگوں کوزیادہ جانکاری آسانی سے مل جائے۔
حالاں کہ، انہوں نے ڈیجیٹل میڈیا کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ انہوں نے کہا، ‘آج کل سب کچھ رپورٹنگ کے ارد گرد ہے۔ چوبیس گھنٹے رپورٹنگ ہو رہی ہے۔اس سے رپورٹنگ کر رہے صحافی پر بھی دباؤ پڑتا ہے۔ ریٹنگ کی اس دوڑ میں رپورٹ کی اشاعت سے قبل اس کی تصدیق کے اہم صحافتی اصول پر عمل نہیں کیا جا رہا۔اس سے غلط رپورٹنگ کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
سی جے آئی رمنا نے کہا، پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا کے برعکس بدقسمتی سےیوٹیوب جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو قابل اعتراض اور توہین آمیز مواد پوسٹ کرنے کے بعد بھی عدالت میں لانا تقریباً ناممکن ہے کیونکہ ان میں کیریئر اور زندگی برباد کرنے کی صلاحیت ہے۔’
صحافت ایک عظیم پیشہ ہے
تمام ریڈ انک ایوارڈ حاصل کرنے والوں کو مبارکباد دیتے ہوئے، سی جے آئی رمنا نے کہا کہ جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے سچ پر کھری رپورٹنگ کرنا ضروری ہے۔
انہوں نے کہاکہ،اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک صحت مند جمہوریت نڈر اور آزاد صحافت سے ہی ترقی کر سکتی ہے۔ اس کے لیے آپ جیسے صحافیوں کی تعداد بڑھانے کی ضرورت ہے۔
سی جے آئی نے کہا کہ وہ میڈیا پیشہ ور افراد کے مسائل اور جدوجہد کو سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ،اقتدار سے سچ بولنا اور معاشرے کو آئینہ دکھانا بہت بڑی ذمہ داری ہے، جسےنبھانا بھی بہت مشکل ہے۔ آپ پر بہت دباؤ اور تناؤ ہے۔
انہوں نے کہاکہ،اکثر کہا جاتا ہے کہ قانونی پیشہ ایک عظیم پیشہ ہے۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ صحافیوں کا کام بھی عظیم ہے اور یہ جمہوریت کا لازمی ستون ہے۔ قانونی پیشے کی طرح صحافیوں کو بھی مشکل حالات میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ کا ضمیر اس پیشے میں آپ کا رہنما ہے۔
سی جے آئی نے ریڈ انک لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ جیتنے والے پریم شنکر جھا کی تعریف کرتے ہوئےکہا کہ ان کی کڑی محنت، اعلیٰ اخلاقی معیار اور زبردست ذہانت کے لحاظ سے ان کی شہرت اس میدان میں بے مثال ہے۔
سی جے آئی رمنا نے افغانستان میں کام کرتے ہوئے اپنی جان گنوانے والےرائٹرس کے فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی کو بعد از مرگ’جرنلسٹ آف دی ایئر’ایوارڈ2020 سے نوازے جانے پرخراج تحسین پیش کرتے ہوئےکہاکہ، وہ جادوئی نظر والے شخص تھے اور انہیں اس زمانے کےبڑے فوٹو جرنلسٹ میں سے ایک مانا جاتا ہے۔
چیف جسٹس نےکووڈ-19 کے دوران گراؤنڈ رپورٹ کرتے ہوئے اپنی جان گنوانے والے تمام صحافیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا،ان کی رپورٹنگ مسائل کو اجاگر کرنے اور ہمارے شہریوں کی حالت زار پر زیادہ توجہ دینے کے لیے ضروری تھی۔ میں ان کی خدمات کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔