عدالت کے حکم کے بعد حراست میں لئے گئے 8 نابالغوں کو سنیچر کی صبح کو رہا کیا گیا۔ دریاگنج میں جمعہ کو شہریت ترمیم قانون کے خلاف ہوئے پرتشدد مظاہرہ کے تعلق سے بھیم فوج چیف چندرشیکھر سمیت اب تک 16 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے باہر ہوا مظاہرہ۔
نئی دہلی کے دریاگنج علاقے میں جمعہ کو ہوئے تشدد سے متعلق گرفتار کئے گئے لوگوں کے رشتہ دار دریاگنج تھانے کے باہر ڈٹے رہے (فوٹو : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: قومی راجدھانی نئی دہلی کے دریاگنج علاقے میں گزشتہ جمعہ کو ہوئے تشدد آمیز مظاہرے سے متعلق حراست میں لئے گئے 40 لوگوں سے ان کے وکیلوں سے ملنے کا حکم دہلی کی ایک عدالت نے دیا ہے۔ عدالت نے دہلی پولیس کو حراست میں لئے گئے لوگوں سے وکیلوں کو ملنے دینے اور ان کو قانونی مدد دستیاب کرانے کی ہدایت دی ہے۔
چیف میٹروپولٹن مجسٹریٹ ارول ورما نے دریاگنج پولیس تھانے کے انچارج کو جمعہ رات یہ ہدایت تب جاری کی جب وکیل حراست میں لئے لوگوں سے ملنے کی اجازت مانگنے کے لئے ان کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے۔ وکیل کرتی اوستھی اور آدتیہ پجاری نے چیف میٹروپولٹن مجسٹریٹ کو بتایا کہ تھانے میں نابالغوں سمیت کچھ دیگر لوگوں کو حراست میں رکھا گیا ہے اور وہ علاقے کے میٹروپولٹن مجسٹریٹ یا ڈیوٹی مجسٹریٹ سے نہیں مل سکے۔
ورما نے تھانہ انچارج کو حراست میں موجود زخمیوں کو ضروری علاج مہیا کرانے کی بھی ہدایت دی۔ جج نے نابالغوں کو حراست میں لینے کو لےکر دہلی پولیس کی یہ کہتے ہوئے کھنچائی بھی کی کہ اگر کوئی نابالغ قانون مخالف سرگرمی میں مبینہ طور پر ملوث ہے، توبھی اس کو پہلی بار میں حراست میں نہیں لیا جانا چاہیے اور ضرورت پڑنے پر ان کے ساتھ قانون کے اہتماموں کے مطابق سلوک کیا جانا چاہیے۔
جج نے کہا، ‘ پولیس تھانے میں نابالغ کو حراست میں لیا جانا قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ ‘ بعد میں پولیس نے کہا کہ جمعہ کو حراست میں لئے گئے آٹھ نابالغوں کو رہا کر دیا گیا۔ وکیل پجاری نے کہا کہ یہ واضح ہونا چاہیے کہ وکیل نئے قانون کےخلاف مظاہرہ کرنے دریاگنج نہیں گئے تھے۔ انہوں نے کہا، ‘ ہم وہاں بس قانونی مدد دستیاب کرانے گئے تھے۔ نابالغوں کو ان کے دستاویز جانچنے کے بعد کل رات چھوڑا گیا۔ ‘ انہوں نے کہا کہ وکیل صبح تک وہاں تھے اور حراست میں لئے گئے لوگوں کو ہر ممکن قانونی مدد مہیاکرائی گئی۔
دریاگنج تشدد : بھیم آرمی چیف سمیت 16 لوگ گرفتار
پرانی دہلی کے دریاگنج میں شہریت ترمیم قانون کےخلاف ایک مظاہرہ کے دوران تشدد کے تعلق سے 16 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس نے سنیچر کو بتایا کہ شروعات میں 10 لوگوں کو پکڑا گیا تھا لیکن بعد میں چھ اور لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ ان 16 لوگوں میں سے بھیم آرمی کے چیف چندرشیکھر آزاد بھی ہیں، جن کو دریاگنج علاقے میں ہوئے تشدد کے معاملے میں سنیچر کو گرفتار کر لیا گیا۔ بھیم آرمی نے ہی جمعہ کو جامع مسجد سے جنتر منتر تک مارچ نکالنے کا اعلان کیا تھا۔
پولیس نے بتایا کہ ان پر فساد کرنے اور پولیس اہلکاروں کو ڈیوٹی کرنے سے روکنے کے لئےفورس استعمال کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق، مظاہرین نے جمعہ شام کو سبھاش مارگ علاقے میں کھڑی ایک نجی کار کو آگ لگا دی تھی۔ آگ پر فوراً قابو پا لیا گیا تھا۔ مظاہرہ اور تشدد کے تعلق سے 40 لوگوں کو حراست میں لیا گیا۔ ان میں سے آٹھ نابالغوں کو سنیچر صبح رہا کر دیا گیا۔
پولیس نے بتایا کہ حراست میں لئے گئے ان لوگوں میں سے 10 کو گرفتار کیا گیا ہے۔ معاملے میں اور گرفتاریاں ہو سکتی ہیں۔ چندرشیکھر نے کہا، ‘ ہمیں قربانی دینی ہوگی تاکہ قانون واپس لیا جائے۔ ہم تشدد کی حمایت نہیں کرتے۔ ہم جمعہ صبح سے مسجد کے اندر بیٹھے تھے اور ہمارے لوگ تشدد میں شامل نہیں تھے۔ ‘
آزاد نے کہا کہ وزیر داخلہ امت شاہ کے استعفیٰ دینے تک مظاہرہ جاری رہےگا۔ انہوں نے کہا کہ وہ جلدہی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں مظاہرین کو خطاب کریںگے۔ آزاد نے کہا کہ انہوں نے اپنے مظاہرین سے پر امن مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ جو تشدد کر رہے ہیں وہ ان کے لوگ نہیں ہیں۔ تاریخی جامع مسجد پر ہمارا پر امن مظاہرہ جاری رہےگا۔ امبیڈکروادی تشدد نہیں کرتے۔ ‘
معلوم ہو کہ دریاگنج میں جمعہ کو پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپ میں پولیس کو مظاہرین پر واٹر کینن کا استعمال کرنا پڑا۔ سیما پوری سے بھی پتھراؤ کی خبریں آئی جن میں ایڈیشنل پولیس ڈپٹی کمشنر کو معمولی چوٹیں آئیں۔
دریاگنج تھانے کے باہر اپنوں کے انتظار میں فیملی کے ممبر
دریاگنج میں ہوئےپر تشددز مظاہرہ کے تعلق سے گرفتار کئے گئے 15 لوگوں کی فیملی کے ممبر اپنے لوگوں کی ایک جھلک پانے کے لئے سنیچر کو تھانے کے باہر انتظار میں کھڑے رہے۔ گرفتار کئے گئے لوگوں میں سے ایک کی فیملی ممبر نے تھانے کے باہر انتظار کرتے ہوئے کہا، ‘ میرا داماد اپنی بیوی کو یہاں دریاگنج کے پاس چھوڑنے آیا تھا لیکن اس کو تشدد میں شامل ہونے کے لئے گرفتار کیا گیا۔ ‘
گرفتار کئے گئے عرفان کے سسر محمد سلیم نے کہا کہ عرفان کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ نماز پڑھنے مسجد گیا تھا اور اسی دوران شہریت ترمیم قانون کےخلاف جمعہ کو ہو رہا مظاہرہ اچانک مشتعل ہو گیا تھا۔ سلیم نے کہا، ‘ انہوں نے (پولیس نے) ہمیں اس سے بات نہیں کرنے دی اور ہمیں بتایا گیا کہ گرفتار کئے گئے لوگوں کو تیس ہزاری کورٹ لے جایا گیا ہے۔ ‘
فیملی کے ممبروں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی خبر پانے کے لئے بےصبری سے انتظار کر رہے ہیں۔ دریاگنج تھانے کے باہر سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کی بھاری تعیناتی کی گئی جہاں سنیچر کو باہری لوگوں کا داخلہ ممنوع کر دیا گیا۔ مکیر کو اپنے والد کو حراست میں لئے جانے کی جانکاری ایک ٹی وی چینل سے ملی۔ انہوں نے بتایا، ‘ میرے 60 سالہ والد علاقے میں ویلڈنگ کی دکان میں کام کرتے ہیں۔ ہنگامے کی خبر سنکر وہ باہر آئے تھے۔ لیکن میں نے ٹی وی چینلوں پر دو پولیس اہلکاروں کو ان کو لے جاتے ہوئے دیکھا۔ ‘
حراست میں لئے گئے 40 لوگوں میں ایک طالب علم، محمد چاند بھی شامل ہیں اور ان کے رشتہ دار تھانے کے باہر اس کا انتظار کر رہے تھے۔ چاند کے رشتہ دار نے کہا، ‘ وہ یہاں نماز پڑھنے آیا تھا اور جو ہوا اس کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ‘
شمال مشرقی دہلی میں پتھراؤ کے الزام میں پانچ لوگ حراست میں لئے گئے
شمال مشرقی دہلی میں شہریت ترمیم قانون کےخلاف ایک مظاہرہ کے دوران پتھراؤ کرنے کے الزام میں پانچ لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ اس واقعہ میں ایڈیشنل پولیس ڈپٹی کمشنر زخمی ہو گئے تھے۔ پولیس نے سنیچر کو بتایا کہ ایڈیشنل ڈی سی پی، شاہدرا ضلع روہت راج بیر سنگھ کو اس واقعہ میں معمولی چوٹیں آئیں۔ اب وہ ٹھیک ہیں۔
پولیس نے بتایا کہ پڑوسی علاقوں سے پانچ ‘ باہری ‘ لوگوں کو واقعہ کے تعلق سے حراست میں لیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کو شک ہے کہ وہ فساد کرنے کے ارادے سے آئے تھے۔ افسروں نے گزشتہ جمعہ کو بتایا تھا کہ شمال مشرقی دہلی کے 12 پولیس تھانہ علاقوں میں دفعہ 144 نافذ ہے۔
گزشتہ 17 دسمبر کو شہریت ترمیم قانون کےخلاف مظاہرہ کے دوران یہاں بڑے پیمانے پر
تشدد کے واقعات سامنے آئے تھے۔ سیلم پور اور جعفر آباد میں 17 دسمبر کو ہوئے تشدد کے سلسلے میں آٹھ لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔ اس سلسلے میں دو ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت فساد اور عوامی جائیداد کو نقصان پہنچانے کے دو معاملے درج کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک تیسری ایف آئی آر برج پوری علاقے میں پتھراؤ کرنے کے تعلق سے درج کی گئی ہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے باہر مظاہرہ
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علموں نے شہریت ترمیم قانون کےخلاف یونیورسٹی کیمپس کے باہر سنیچر کو مظاہرہ کیا۔ یونیورسٹی کے مین گیٹ پر طالبات نے مظاہرہ کیا اور بعد میں اس میں مرد بھی شامل ہو گئے۔ انہوں نے ‘ لڑکے لیںگے آزادی ‘ اور ‘ انقلاب زندہ باد ‘ کے نعرے بھی لگائے۔
اس یونیورسٹی میں گزشتہ 15 دسمبر کو مظاہرہ کے دوران ہوئے تشدد کے بعد پولیس کارروائی میں 50 سے زیادہ طالب علموں کے زخمی ہونے کے بعد مظاہرہ کا یہ چھٹا دن ہے۔
دہلی کے کئی علاقوں میں بھاری پولیس فورس تعینات
دہلی میں شہریت ترمیم قانون کےخلاف مظاہرہ کے دوران تشدد سے متاثر ہوئے علاقوں میں صورتِ حال آہستہ آہستہ معمول پر آ رہےہیں ۔ پولیس نے سنیچر کو یہ جانکاری دی اور بتایا کہ پرانی دہلی اور سیما پوری میں پولیس فورس کی بھاری تعیناتی کی گئی ہے۔ پرانی دہلی کے دریاگنج اور شمال مشرقی دہلی کے سیما پوری میں جمعہ کو پتھراؤ اور تشدد کے واقعات دیکھے گئے تھے۔
شاہدرا ضلع کے ایک سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ علاقے میں حالات قابو میں ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘ علاقے میں دہلی پولیس اہلکار بڑی تعداد میں موجود ہیں اور وہ جمعہ شام سے فلیگ مارچ کر رہے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جائے کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہو۔ ‘
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)