لوک سبھا میں شہریت ترمیم بل کی حمایت میں 311 ووٹ اور مخالفت میں 80 ووٹ پڑے۔ اس بل میں افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے مذہبی استحصال کی وجہ سے ہندوستان آئے ہندو، سکھ، بدھ، جین،پارسی اور عیسائی کمیونٹی کے لوگوں کو ہندوستانی شہریت دینے کا اہتمام کیا گیاہے۔
نئی دہلی: تمام مخالفت،اعتراضات اور ہنگامے کے بعد لوک سبھا نے شہریت ترمیم بل کو منظوری دے دی جس میں افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے مذہبی استحصال کی وجہ سے ہندوستان آئےہندو، سکھ، بدھ، جین، پارسی اور عیسائی کمیونٹی کے لوگوں کو ہندوستانی شہریت دینےکا اہتمام کیا گیا ہے۔ بل پیش کرنے کے دوران کانگریس سمیت کئی اپوزیشن جماعتوں نے اس پر اعتراض کرتےہوئے اس کو غیر آئینی بتایا۔این سی پی، بی ایس پی،ایس پی اور ٹی آر ایس نے مخالفت درج کراتے ہوئے بل پر نظرِثانی اور اس میں ‘ مسلم ‘ لفظ شامل کرنے کی مانگ کی۔
دوسری طرف جے ڈی یو اور ایل جے پی جیسی اتحادی پارٹیوں نے بل کی حمایت میں ووٹ کیا وہیں شیوسینا، بی جے ڈی اوروائی ایس آر کانگریس جیسی غیر بی جے پی پارٹیوں نے بھی بل کی حمایت میں ہی ووٹ دیا۔ لوک سبھا میں کانگریس کےرہنما ادھیررنجن چدھری نے سموار کو کہا کہ ان کی پارٹی مذہبی بنیاد ہونے کی وجہ سے شہریت ترمیم بل کی مخالفت کر رہی ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا حکومت اس بل کےذریعے ‘ ہندو ریاست ‘ بننے کی سمت میں بڑھ رہی ہے؟
چودھری نے لوک سبھا میں بل پربحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ہماری مخالفت کرنے سے ایوان کے باہر ماحول بنایاجائےگا کہ کانگریس ہندو کی مخالفت کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بل میں متاثرین کوشہریت دینے کی مخالفت نہیں کر رہے ہیں، بلکہ مذہبی بنیاد پر شہریت دئے جانے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ کانگریس رہنما نے کہا کہ جب سیکولرزم کی بات ہوتی ہے تب ہم صرف تین ممالک اور چھ کمیونٹی کی بات نہیں کرسکتے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت صرف تین ممالک افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے لئے بل لائی ہے کیونکہ یہ مسلم اکثریتی ملک ہیں۔ حکومت نے اس میں میانمار، نیپال اور سری لنکا جیسے ہندوستان کی سرحد سےلگے ممالک کو کیوں شامل نہیں کیا۔ اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسدالدین اویسی نے سوموار کو لوک سبھا میں شہریت ترمیم بل کی مخالفت کرتے ہوئے اس بل کی کاپی پھاڑ دی۔ اس کی سخت مخالفت کرتے ہوئے مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے کہاکہ یہ پارلیامنٹ کی توہین ہے۔
بل پر بحث میں حصہ لیتے ہوئےاویسی نے الزام لگایا کہ یہ حکومت مسلمانوں کے ‘اسٹیٹ لیس’ بنانے کی سازش کر رہی ہے۔
انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ یہ بل ایک بار پھر سے ملک کی تقسیم کا راستہ ہموار کرےگا۔ اویسی یہ الزام لگایا کہ یہ بل آئین کے بنیادی جذبے کے خلاف ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مہاتما گاندھی نےشہریت کارڈ کو پھاڑا تھا اور میں آج اس بل کو پھاڑتا ہوں۔بہر حال، نچلے ایوان میں بل پر ایوان میں سات گھنٹے سے زیادہ وقت تک چلی بحث کا جواب دیتے ہوئے وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ یہ بل لاکھوں کروڑوں پناہ گزینوں کی جہنم ہوچکی زندگی سےآزادی دلانے کا ذریعہ بننے جا رہا ہے۔ یہ لوگ ہندوستان کے تئیں عقیدت رکھتے ہوئےہمارے ملک میں آئے، ان کو شہریت ملےگی۔
شاہ نے کہا،’میں ایوان کےذریعے پورے ملک کو مطمئن کرنا چاہتا ہوں کہ یہ بل کہیں سے بھی غیر آئینی نہیں ہےاور آئین کے آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ اگر اس ملک کی تقسیم مذہب کی بنیادپر نہیں ہوتی تو مجھے بل لانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ ‘انہوں نے کہا کہ نہرو-لیاقت سمجھوتہ خیالی تھا اور ناکام ہو گیا اور اس لئے بل لانا پڑا۔ شاہ نے کہا کہ ملک میں این آر سی آکر رہےگا اور جب این آر سی آئےگا تب ملک میں ایک بھی گھس پیٹھیا بچ نہیں پائےگا۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی روہنگیا کو کبھی قبول نہیں کیا جائےگا۔
امت شاہ نے کہا کہ نریندرمودی کے وزیر اعظم رہتے ہوئے ملک میں کسی مذہب کے لوگوں کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ حکومت سبھی کو عزت اور حفاظت دینے کے لئے پرعزم ہے۔ جب تک مودی وزیر اعظم ہیں،آئین ہی حکومت کا مذہب ہے۔ وزیر داخلہ کے جواب کے بعدایوان نے کچھ ممبروں کی ترمیم کو خارج کرتے ہوئے شہریت ترمیم بل کو منظوری دے دی۔بل کی حمایت میں 311 ووٹ اور مخالفت میں 80 ووٹ پڑے۔
اپوزیشن کی کچھ ترمیم پرووٹ تقسیم بھی ہوا اور ان کو ایوان نے نامنظور کر دیا۔ بل منظور ہونے کے بعد وزیر دفاع راجناتھ سنگھ، وزیرِ زراعت نریندر سنگھ تومر، پارلیامانی امورکے وزیر پرہلاد جوشی،اشیائےخوردنی کےوزیر ہرسمرت کور بادل سمیت بی جے پی اور اس کی اتحادی پارٹیوں کے مختلف ممبروں نے وزیر داخلہ امت شاہ کے پاس جاکر ان کو مبارکباد دی۔
اس سے پہلے امت شاہ نے اپنےجواب میں کہا کہ 1947 میں پاکستان میں اقلیتوں کی آبادی 23 فیصد تھی۔ 2011 میں 23فیصد سے کم ہوکر 3.7 فیصد ہو گئی۔ بنگلہ دیش میں 1947 میں اقلیتوں کی آبادی 22فیصد تھی جو 2011 میں کم ہوکر 7.8 فیصد ہو گئی۔ شاہ نے کہا کہ ہندوستان میں1951 میں 84 فیصد ہندو تھے جو 2011 میں کم ہوکر79 فیصدی رہ گئے، وہیں مسلمان 1951میں 9.8 فیصد تھے جو 2011 میں 14.8 فیصد ہو گئے۔
انہوں نے کہا کہ اس لئے یہ کہنا غلط ہے کہ ہندوستان میں مذہب کی بنیاد پر جانبداری ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ مذہب کی بنیاد پر جانبداری نہ ہو رہی ہے اور نہ آگے ہوگی۔ شاہ نے کہا کہ یہ بل کسی مذہب کے خلاف جانبداری والا نہیں ہے اور تین ممالک کے اندر مظلوم اقلیتوں کے لئے ہے جوگھس پیٹھیا نہیں، پناہ گزیں ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا، ‘ میں دوہرانا چاہتا ہوں کہ ملک میں کسی پناہ گزیں پالیسی کی ضرورت نہیں ہے۔ ہندوستان میں پناہ گزینوں کے تحفظ کے لئے کافی قانون ہیں۔ ‘انہوں نے کہا کہ محمد علی جناح نے دو قومی نظریہ پالیسی کی بات کی لیکن کانگریس نے اس کو روکا نہیں۔ اس نےمذہب کی بنیاد پر ملک کی تقسیم قبول کیا تھا، یہ تاریخی سچ ہے۔
شاہ نے کہا کہ اقلیتوں کو لےکر ہمارانظریہ تنگ نہیں ہے جیسا کہاپوزیشن کے ممبروں نے الزام لگایا۔ انہوں نےکہا کہ وہ یہاں کی اقلیتوں کی بات ہی نہیں کر رہے۔ یہ ان تین ممالک کے اقلیتوں کی بات ہے۔انہوں نے کہا کہ اس ملک میں اتنی بڑی آبادی مسلمانوں کی ہے۔ کوئی جانبداری نہیں ہو رہی ہے۔ تصویر ایسی بنائی جارہی ہے کہ ناانصافی ہو رہی ہے۔ شاہ نے کہا، ‘ میں پھر سےمطمئن کرنا چاہتا ہوں کہ جب ہم این آر سی لےکر آئیںگے تو ملک میں ایک بھی گھس پیٹھیابچ نہیں پائےگا۔ ہمیں این آر سی کا پس منظر بنانے کی ضرورت نہیں۔ ہمارا رخ صاف ہےکہ اس ملک میں این آر سی نافذ ہوکر رہےگا۔ ہمارا منشور ہی پس منظر ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں مسلمانوں سے کوئی نفرت نہیں ہے اور کوئی نفرت پیدا کرنے کی کوشش بھی نہ کرے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ نارتھ ایسٹ ریاستوں کی جماعتوں نے بل کی حمایت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سکم کو بھی تحفظ حاصل ہے اور فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے پہلے بل رکھتے ہوئے شاہ نے کہا کہ افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان ایسے ملک ہیں جہاں ریاست کا مذہب اسلام ہے۔شاہ نے کہا کہ آزادی کے بعدتقسیم کی وجہ سے لوگوں کا ایک دوسرے کے یہاں آنا جانا ہوا۔ اس وقت ہی نہرو-لیاقت سمجھوتہ ہوا جس میں ایک دوسرے کے یہاں اقلیتوں کو تحفظ کی گارنٹی دینے کے عزم کااظہار کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے یہاں تو اقلیتوں کو تحفظ عطا کی گئی لیکن دیگر جگہ ایسا نہیں ہوا۔ ہندوؤں، بدھ، سکھ،جین، پارسی اور عیسائی لوگوں کو مذہبی استحصال کا شکار ہونا پڑا۔
امت شاہ نے کہا کہ اس بل کےذریعے ان تین ممالک سے آئے چھ مذہبی اقلیتوں کو شہریت دینے کی بات کہی گئی ہے۔ امت شاہ نے نارتھ ایسٹ کی سماجی اور لسانی خاصیت کے تحفظ کا مودی حکومت کے عزم دوہراتے ہوئے کہا کہ اب منی پور کو بھی انر لائن پرمٹ میں شامل کیا جائےگا۔ اس کے بعد ہی بل کا اعلان کیا جائےگا۔ بل کے مقاصد اور وجوہات میں کہا گیا ہے کہ ایسے غیر قانونی مہاجروں کو جنہوں نے 31 دسمبر 2014 کی فیصلہ کن تاریخ تک ہندوستان میں داخلہ کر لیا ہے، ان کو اپنی شہریت سے متعلق موضوعات کے لئے ایک خاص حکومتی نظام کی ضرورت ہے۔
بل میں ہندو، سکھ، بدھ، جین،پارسی اور عیسائی کمیونٹی کے مہاجروں کو ہندوستانی شہریت کے لئے درخواست کرنے سےنہیں محروم کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ اگرکوئی ایسا آدمی شہریت عطا کرنے کی تمام شرطوں کو پورا کرتا ہے تب قانون کے تحت متعین کیے جانے والا اہل اتھارٹی، قانون کی دفعہ 5 یا دفعہ 6 کے تحت ایسے لوگوں کی درخواست پر غور کرتے وقت ان کے خلاف غیر قانونی مہاجر کے طور پر ان کی حالت یا ان کی شہریت سے متعلق موضوع پر غور نہیں کرےگا۔
ہندوستانی نژاد کے بہت سے لوگ جن میں افغانستان، بنگلہ دیش، پاکستان کی مذکورہ اقلیتی کمیونٹی کے لوگ بھی شامل ہیں، وہ شہریت قانون 1955 کی دفعہ 5 کے تحت شہریت کے لئے درخواست کرتے ہیں۔
حالانکہ اگر وہ اپنےہندوستانی نژاد کا ثبوت دینے میں نااہل ہے، تو ان کو مذکورہ قانون کی دفعہ 6 کےتحت ‘ قومیت ‘ کے ذریعے شہریت کے لئے درخواست کرنے کو کہا جاتا ہے۔ یہ ان کو بہت سے مواقع اور فائدوں سے محروم کرتا ہے۔ اس میں کہا گیا کہ اس لئےقانون کی تیسری فہرست کی ترمیم کرنے کی تجویز رکھی گئی ہے جس میں ان ممالک کی مذکورہ کمیونٹی کے امید وار کو ‘ قومیت کے ذریعے شہریت کے لئے اہل بنایا جا سکے’۔ اس کے لئے ایسے لوگوں کو موجودہ11 سال کی جگہ پر پانچ سالوں کے لئے اپنی رہائش گاہ کی مدت کی تصدیق کرنی ہوگی۔اس میں فی الحال ہندوستان کے کارڈ ہولڈر غیر ملکی شہری کے کارڈ کو منسوخ کرنے سےپہلے ان کو سماعت کا موقع عطا کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ بل میں آئین کی چھٹی فہرست کےتحت آنے والے شمال مشرقی ریاستوں کی مقامی آبادی کو عطا کی گئی آئینی گارنٹی کی حفاظت کرنے اور بنگال مشرقی سرحد قواعد و ضوابط 1973 کی’انر لائن ‘ نظام کے تحت آنے والے علاقوں کو عطا کئے گئے قانونی تحفظ کو برقرار رکھنے کے مقصد سے ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے لوک سبھا میں شہریت (ترمیم) بل کے منظور ہونے پر سوموار رات کو خوشی کا اظہار کیا اورکہا کہ مجوزہ قانون ہندوستان کے انسانی قدروں میں بھروسے کی صدیوں پرانی فطرت کے مطابق ہے۔
Delighted that the Lok Sabha has passed the Citizenship (Amendment) Bill, 2019 after a rich and extensive debate. I thank the various MPs and parties that supported the Bill. This Bill is in line with India’s centuries old ethos of assimilation and belief in humanitarian values.
— Narendra Modi (@narendramodi) December 9, 2019
وزیر اعظم نریندر مودی بل کےمنظور ہونے کے دوران ایوان میں موجود نہیں تھے۔ انتخابی تشہیر کے لئے وہ جھارکھنڈگئے ہوئے تھے۔مودی نے ٹوئٹ کر کہا، ‘ خوشی ہے کہ لوک سبھا نے ایک صحت مند اور وسیع بحث کے بعد شہریت (ترمیم) بل، 2019 منظورکر دیا ہے۔ میں بل کو حمایت دینے والے مختلف رکن پارلیامان اور جماعتوں کو شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یہ بل ہندوستان کے انسانی قدروں میں بھروسے کی صدیوں پرانی فطرت کے مطابق ہے۔ ‘
نریندر مودی مودی نے کہا کہ وہ اس کے تمام پہلوؤں کو واضح طور پر سمجھانے کے لئے وزیر داخلہ امت شاہ کی خاص طورپر تعریف کرتے ہیں۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)