اس سال جنوری میں مشترکہ پارلیامانی کمیٹی کے ذریعے پیش کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی خفیہ ایجنسی را نے اس بل کے پرانےایڈیشن پر شدید تشویش کا اظہار کیا تھا۔
نئی دہلی: ہندوستان کی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالسس ونگ (را)نے شہریت ترمیم بل کے پرانے ایڈیشن پر ایک مشترکہ پارلیامانی کمیٹی کے سامنے اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا، جس کو گزشتہ نو ستمبر کو لوک سبھا میں پیش کیا گیا تھا اور اس کو پاس بھی کر دیا گیا۔اس بل میں افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے مذہبی استحصال کی وجہ سے ہندوستان آئے ہندو، سکھ، بودھ ، جین، پارسی اور عیسائی کمیونٹی کے لوگوں کو ہندوستانی شہریت دینے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ آج اس بل کو راجیہ سبھا میں پیش کیا جا سکتا ہے۔
شہریت ترمیم بل میں ان مسلمانوں کو شہریت دینے کے دائرے سے باہر رکھا گیا ہے جو ہندوستان میں پناہ لینا چاہتے ہیں۔ اس طرح کے امتیاز کی وجہ سے اس کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اس کو ہندوستان کی مذہبی رواداری اور تانےبانے کو بدلنے کی سمت میں ایک قدم کے طور پردیکھا جا رہا ہے۔ ابھی تک کسی کو اس کے مذہب کی بنیاد پر ہندوستانی شہریت دینے سے منع نہیں کیا گیا ہے۔
سماجی اور سیاسی بنیاد پر اس کی مخالفت کرنے والوں کے علاوہ را نے اس بل کے پرانے ایڈیشن کو نافذ کرنے کو لےکر قومی سلامتی کو لے کراپنی تشویش ظاہر کی تھی، جس کو لوک سبھا کے ذریعے منظور کیا گیا تھا لیکن راجیہ سبھا کے ذریعے منظوری نہیں مل پائی تھی۔اس سال جنوری میں لوک سبھا اور راجیہ سبھا کی مشترکہ پارلیامانی کمیٹی کے ذریعے پیش ایک رپورٹ کے مطابق، را کے ایک سینئر نوکرشاہ نے مشترکہ پارلیامانی کمیٹی کے سامنے کہا تھا کہ ان کو بڑی تشویش ہے کہ شہریت ترمیم بل یعنی کہ سی اے بی کا ایسے غیر ملکیوں کے ذریعے غلط استعمال کیا جا سکتا ہے، جو ہندوستانی مفادات کے لئے صحیح نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اصل میں سی اے بی ایک ایسا قانونی ڈھانچہ بن سکتا ہے، جس کا استعمال وہ ہندوستان میں گھس پیٹھ کرنے کے لئے کر سکتےہیں۔را کے افسر نے کہا، جو ایجنسی ہمارے لئے مخالف ہیں ان کے پاس ایسا قانونی ڈھانچہ نہیں ہونا چاہیے جس کے ذریعے وہ ہماری صورت حال کااستحصال کر سکیں اور اپنے ہی لوگوں کو ہمارے ملک میں گھس پیٹھ کرا سکیں۔ یہ ہمارے لئے بہت تشویش کا موضوع ہے۔
مانا جاتا ہے کہ را کے جوائنٹ سکریٹری سجیت چٹرجی نے یہ بیان دیا تھا۔ مشترکہ پارلیامانی کمیٹی کی اس رپورٹ میں بھرترہری مہتاب، ڈیریک او برائن، محمد سلیم، سدھیر رنجن چودھری اور سشمتا دیو سمیت نو رکن پارلیامان کا عدم اتفاق (ڈیسنٹ) بھی درج ہے۔انٹلی جنس بیورو آف انڈیا (آئی بی)کے سینئر افسر بھی کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے ایک کافی چھوٹی تعداد31333 لوگ ہی مستفید ہوںگے۔
اب تک دیگر ممالک کے ستائے گئے ان چھ مذاہب کے 31333 لوگوں کو ہندوستان میں رہنے کے لئے طویل مدتی ویزا دیا گیا ہے۔ اس میں ہندو، سکھ، عیسائی، بودھ اور پارسی شامل ہیں۔ اس فہرست میں کوئی بھی مسلمان شامل نہیں ہے۔ فی الحال ہندوستانی شہریت پانے کا انتظارکر رہے لوگ اس بل سے فائدہ اٹھائیں گے۔آئی بی سے یہ بھی پوچھا گیا کہ ہندوستان میں کس رفتار سے اوورسیز سٹیزن آف انڈیا یا پرسن آف انڈین اوریجن کارڈ کی دھوکہ دھڑی کر رہےہیں اور کیا اس کا غلط استعمال اصل میں اتنا سنگین مسئلہ ہے۔
آئی بی ڈائریکٹر نے اس پر کہا، تعداد کے تناظر میں، غلط استعمال اصل میں کافی کم ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی بی نے دھوکہ دھڑی کے ذریعے او سی آئی / پی آئی او کارڈ حاصل کرنے کے بےحد کم معاملوں کو پایا ہے۔وزارت داخلہ نے بھی کہا ہے کہ اصل میں اس بات کا کوئی اندازہ نہیں ہے کہ او سی آئی کارڈ کا کتنی بار غلط استعمال کیا گیا ہے۔